donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Sarkari Molazmeen Raton Raat Carore Pati Kaise Ho Jate Hain


کرپشن کی کان پر لگام کیوں نہیں؟


سرکاری ملازمین راتوں رات کروڑ پتی کیسے ہوجاتے ہیں؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    یادو سنگھ بہ ظاہر ایک چھوٹا سا نام جس سے عام لوگ واقف بھی نہیں تھے مگر جب پردہ اٹھا تو بہت بڑا نکلا۔ بے حد پاور فل، بے حد طاقت در۔ لکھنو میں خواہ کسی کی سرکار آئے اور کسی کی جائے مگر نوئیڈا میں یادو سنگھ کا اقبال ہمیشہ بلند رہا۔ اترپردیش کے سونے کی کان کہے جانے والے نوئیڈا میں سونے کی کان کا مالک بنا بیٹھا رہا یادو سنگھ۔ وہ ملائم سنگھ یادو کا بھی قریبی رہا اور مایاوتی سے بھی پینگیں بڑھائے رہا۔ دوسری پارٹیوں اور ان کے نیتائوں سے بھی یادو سنگھ نے تعلقات بنائے رکھے۔ سب کو خوش کئے رہا اور سب کے ’’کام‘‘ آتا رہا۔ جب انکم ٹیکس والوں نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا تو بے انتہا دولت کا پتہ چلا۔ اتنی دولت بڑے بڑ ے صنعت کارون اور سامایہ داروں کے پاس نہیں ہوتی جتنی یادو سنگھ کی تجوریوں سے بر آمد ہوئی۔ تفتیش جاری ہے اور خزانے کی کان سے برآمدگی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ چند ہزار تنخواہ پانے والے ایک انجینئر نے اتنی دولت کہاں سے جمع کی ؟ یہ سوال انکم ٹیکس افسران، میڈیا اور عوام سب کے سامنے ہے۔ کیا وہ کوئی دونمبر دھندہ کرتا تھا؟ کیا اس نے رشوت خوری سے اتنی بڑی دولت جمع کی ہے؟ کیا وہ سیاہ دولت کو سفید کرنے کا کام کرتا تھا؟ کیا وہ نیتائوں کی حرام کی کمائی کو ایک نمبر بنانے کا کام کرتاتھا؟اگر اس کے پاس اتنی بڑی دولت تھی ہے تو کہیں اس کا ستعمال ملک مخالف سرگرمیوں میں تو نہیں ہوتا تھا؟ یہ اور اس قسم کے بہت سے سوالات اب بھی جواب طلب ہیں مگر کوئی نہیں جانتا کہ ان کا جواب کبھی عوام کے سامنے آگے گا بھی یا نہیں! اصل میں ہزاروں کروڑ کا مالک یادو سنگھ جس کھیل کا عادی ہے ، اس کا وہ ایک چھوٹا کھلاڑی ہوسکتا ہے ۔ بڑے کھلاڑی تو سیاسی نیتا ہوسکتے ہیں جن کے ہاتھ میں اقتدار کی ڈور رہتی ہے اور وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہ معاملہ زیادہ طول کھینچے اور ان کے نام بھی کل سامنے آئیں۔ کہا جارہا ہے کہ تفتیش کرنے والے افسروں نے اس کے پاس سے ایک ڈائری بر آمد کی ہے جو بہتوں کو بے نقاب کرسکتی ہے۔ اگر تفتیش کا سلسلہ لمبا چلا تو کی اور اہم نام سامنے آسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اتنا بڑا کھیل یادو سنگھ اکیلے تو نہیں کھیلتا ہوگا؟ اس کے ساتھ کچھ اور لوگوں کی ملی بھگت بھی ہوگی؟ وہ کون لوگ ہیں جو اس کی پشت پر ہیں ؟ کیا وہ نیتا ہیں ؟ اگر نیتا ہیں تو کس پارٹی کے ہیں؟

داورِ  حشر  مرا  نامۂ اعمال  نہ  دیکھ
اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

کرپشن سے ترقی

    یادو سنگھ کا سفر نوئیڈا میں ۱۹۸۰ء میں ایک جونیئر انجینئر کے طور پر شروع ہو۔ اس نے ڈپلومہ کر کے جاب شروع کیا تھا۔ پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی سے آگے انجینرینگ کی پڑھائی کی تھی۔ اس نے یہاں سے سے ۱۹۹۵ء میںB.Eکیا، پھر۲۰۱۳ء میں ماسٹر ان انجینرینگ کی اور ۲۰۱۳ء میں پی ایچ ڈی کرلی۔آگرہ کے ایک دلت خاندان سے تعلق رکھنے والا یادو سنگھ جن دنوں زندگی میں آگے بڑھنے کی جدجہد کر رہا تھا انھیں دنوں نوئیڈا کے بادل پور گائوں کی ایک دلت لڑکی مایاوتی بھی اپنے سیاسی کریئر کی شروعات کر رہی تھی جو آگے چل کر بہوجن سماج پارٹی کی صدر اور اترپردیش کی وزیر اعلیٰ بن گئی۔ یادو سنگھ ، مایاوتی اور نوئیڈا کا عروج ایک ساتھ ہوا۔۱۹۹۵ء میں وہ جونیئر سے سینئر انجینئر بن گیا مگر جب ۲۰۰۲ء میں مایاوتی کو وزیر اعلیٰ کی کرسی ملی تو تمام دلت افسروں کی بن آئی اور یادو سنگھ کو چیف پروجیکٹ انجینئر بنا دیا گیا۔ اس کے بعد اس نے کئی بڑے بڑے سرکاری پروجیکٹ کئے۔  

    یادو سنگھ نوئیڈا اتھارٹی کے چیف  پروجیکٹ انجینئر کے عہدے پر فائز تھا۔ اس کے ماتحت گریٹر نوئیڈا اور یمنااکسپریس وے اتھارٹی بھی آتی تھی اور اس لحاظ سے اس نے کئی بڑے بڑے سرکاری پرجیکٹ کی نگرانی کی تھی جو ہزاروں کروڑ کے تھے۔ نوئیڈا میں ۲۰۰۹ء میں پہلی بار میٹرو ریل آئی اور اس کے چھ اسٹیشنوں کی تعمیر یادو سنگھ کے زیر نگرانی ہوئی۔ سیکٹر۳۷ میں ایک فلائی اور بنایا گیا جس کا بجٹ۷۳ کروڑ تھا اور اس کی نگرانی یادو سنگھ نے کی تھی۔ نوئیڈا کے اولین Elevatedروڈ پروجیکٹ جس کی طوالت4.8کیلومیٹر تھی اور اس کا بجٹ ۵۰۰ کروڑ تھا، یادو سنگھ کی نگرانی میں ہوا تھا۔ یہاں ایک ملٹی اسپیشلیٹی اسپتال کی تعمیر بھی یادو سنگھ کی نگرانی میں ہوئی تھی جس کا بجٹ ۷۰۰کروڑ روپئے تھا۔ یونہی نوئیڈا کے سیکٹر۶۲میں ایک پار ک تعمیر کرنے کا ذمہ بھی سرکار نے اسے دیا تھا جس کا بجٹ۲۵۰کروڑ روپیئے تھا۔علاوہ ازیں ایک چیف پروجیکٹ انجیئر کے طور پر اس پورے علاقے میں بننے والے اسکولوں، کالجوں، اسپتالوں، سڑکوں، فلائی اورس، پل، انڈر پاس، پارک اور دیگر قسم کی تعمیرات کی ذمہ داری اسی کے ذمے تھی۔ اس کی ذمہ داریوں میں ان عمارتوں کی دیکھ بھال اور مرمت بھی تھی۔ یادو سنگھ کو یہ پاور بھی ملا ہوا تھا کہ وہ ایک کروڑ سے اوپر کے پروجیکٹ کو منظوری دے سکتا تھا۔ اس نے اپنے تعلقات نیتائوں سے بھی اچھے بنا لیئے تھے جس کی وجہ سے وہ اپنے میدان میں زیادہ کامیاب تھا۔ اس بیچ کئی سرکاریں آئیں اور گئیں مگر یادو سنگھ کو کسی نے ادھر ادھر نہیں کیا۔ ابھی حال ہی میں یوپی کے وزیر اعلیٰ اکھیلیش یادو نے ۵۰ کرپٹ افسروں کو معطل کیا تھامگر ان میں یادو سنگھ کا نام نہیں تھا۔ ان سے جب اس بارے میں سوال پوچھا گیا تو وہ فیض آباد میں ایک شادی میں شامل ہونے گئے تھے اور انھوں نے یہ کہتے ہوئے جواب سے کنی کاٹ لی کہ یہ شادی کا موقع ہے، یہاں میٹھائیاں کھائیے اور میٹھی میٹھی باتیں کیجئے۔ حالانکہ سماج وادی پارٹی کی سرکار نے ہی اس کے خلاف زمیں دوز کیبل بچھانے کے معاملے میں گڑبڑی پر ایف آئی آر درج کرایا ہے اور اس کی بدعنوانیوں کی تفتیش شروع کر ائی تھی مگر جانچ کرنے والوں کو کچھ نہیں ملا توکیس بند کردیا گیااور چھ مہینے پہلے ہی اسے دوبارہ چیف انجینئر کے عہدے پر بحال کردیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ تفتیش میں واقعی کچھ نہیں ملا تھا یا اس نے کچھ لے دے کر خود کو بچا لیا تھا؟ جو شخص رشوت لے کر پھنس سکتا ہے وہ رشوت دے کر بچ بھی سکتا ہے۔

قارون کا خزانہ

    چھاپے کے دوران یادو سنگھ کے خزانے میں جو دولت ملی ہے اس کا شمار ابھی ٹھیک سے نہیں ہوپایا ہے اور ابھی مزید برآمدگی کا سلسلہ جاری ہے۔ یادو اور اس کی بیوی کسم لتاسنگھ کے نام پر کئی مکانات پائے گئے ہیں جن کی قیمت کروڑوں میں ہے۔ اب تک جن بنگلوں کا پتہ چلا ہے وہ تمام نوئیدا میں ہیں اور بے حد شاندار ہیں۔ ایک بنگلے میں اس نے اپنا آفس بنا رکھا تھا۔ علاوہ ازیں کئی زمینوں کے کاغذات بھی بر آمد ہوئے ہیں جو نوئیڈا ک الگ الگ علاقوں میں ہیں مگر قیاس ہے کہ یہ سب اس کی جائیداد کا معمولی حصہ ہے ، ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اس کی زمیں اور بنگلے ہوسکتے ہیں۔ اس نے زمین کو کم قیمت پر خریدنے اور پھر اسے مہنگے دام میں فروخت کرنے کا کام بھی کیا تھا اور اس سے بھی اسے آمدنی ہوئی ہے۔اس کے خلاف جانچ کرنے والے انکم ٹیکس افسران میں سے ایک کا کہنا ہے کہ اس نے بہت سی فرضی کمپنیاں بناکر روپئے انویسٹ کر رکھے ہیں ایسی ہی ۳۵ کمپنیوں کا ہم نے پتہ لگایا ہے جن کا رجسٹرڈ پتہ کلکتہ کا ہے۔ یادو نے اپنے بھائی اور دوستوں کو بھی اپنے بزنس میں جوڑ رکھا ہے۔ انکم ٹیکس افسران نے ایسے بیسیوں لوگوں کے گھروں پر چھاپے مارے اور بڑی بڑی رقمیں برآمد کیں۔ اشونی کمار نامی ایک شخص کی کار سے ۱۰کروڑ روپئے برآمد کئے گئے جو کہ کسم لتا کا بزنس پاٹنر ہے اور جانچ کے دائرے میں ہے۔اب تک تفتیش میں کروڑوں کی جائیداد، کروڑوں روپئے اور سونے کے ہیرے جڑے ہوئے زیورات دستیاب ہوئے ہیں۔ ابتدائی جانچ میں ہزار کروڑ سے زیادہ کی دولت مل چکی ہے اور آگے بہت کچھ ملنے کی امید ہے۔

نوئیڈا یعنی سونے کی کان

    نیو اوکھلا انڈسٹریل ڈیولپمنٹ اتھارٹی( نوئیڈا) کو سونے کی کان سمجھاجاتا ہے۔ راجدھانی دلی سے متصل اس شہر سے جو آمدنی سرکار کو ہوتی ہے اس سے پورے یوپی کا خرچ چلتا ہے۔یہ ان شہروں میں سے ایک ہے جو آزادی کے بعد ملک میں پروان چڑھے ہیں۔ اس ۳۴ سالہ شہر کا سالانہ بجٹ ۲۰ہزار کروڑ روپئے ہے جب کہ یوپی کی راجدھانی لکھنو کا سالانہ بجٹ محض ۲ ہزار کروڑ ہے۔ یہی سبب ہے کہ اسے سونے کی کان کہا جاتا ہے۔ اسے دلی سے قریب بسانے کا مقصد تھا کہ راجدھانی کے بوجھ کو کم کیا جائے اور دلی میں کام دھندہ کرنے والے نوئیڈا میں آباد ہوسکیں مگر جب اس کی ترقی شروع ہوئی تو یہ دلی کو بھی پیچھے چھوڑ گیا کیونکہ دلی میں جگہ کی کمی تھی جب کہ یہاں ایسی کوئی کمی نہ تھی۔ آج یہاں ہزاروں کارخانے ہیں اور بڑی بڑی کمپنیوں کے دفتر ہیں۔ یہاں شاندار رہائشی علاقے بھی ہیں جہاں ملک کے امیر ترین افراد اور نیتا رہتے سہتے ہیں۔کانگریس نائب صدر راہل گاندھی نے ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ نوئیڈا کو سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی نے روپئے نکالنے کے لئے جوس مشین کی طرح استعمال کرتی ہیں۔بہتوں کو راہل کی بات سے اتفاق ہوگا مگر یہ نصف سچائی ہے ورنہ کانگریس لیڈروں کا بھی یہی کام رہا ہے۔ اس سونے کی کان نے بہتوں کو مالا مال کیا ہے جس میں ایک یادو سنگھ بھی ہے۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس کے ساتھ ایماندار افسران کام کرنا نہیں چاہتے تھے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہنس مکھ اور خوش مزاج انسان ہے مگر بے ایمانی کے لئے اپنے ساتھیوں پر دبائو بنائے رکھتا تھا۔ ۱۹۸۷ بیچ کے ایک آئی اے ایس افسر جیویش نندن نے ۲۰۱۱ء میں یادو کے ساتھ صرف ۲۱ دن کام کرکے خود کو کنارے کرلیا۔ خبروں کے مطابق انھوں نے پریشر میں کام کرنے سے انکار کردیا تھا۔

رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    

Comments


Login

You are Visitor Number : 527