donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Secular Hindustan Me Musalmano Ke Khelaf Jang Me Hindu Fauj


سیکولر ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف

 

جنگ کے لئے ہندو فوج


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    بھارت میں فوج ،پولس اور سیکورٹی ایجنسیاں قابل اعتماد نہیں رہیں؟ کیا وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھ میں ملک محفوظ نہیں ہے؟ کیا سرکاری ایجنسیاں اور حکومت دہشت گردی اور انتہا پسند ی سے مقابلے کی قوت نہیں رکھتیں؟آج یہ سوال اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ اترپردیش میں ہندووں کی پرائیویٹ فوج تیار کی گئی ہے جس کا مقصد بہ ظاہر آئی ایس سے مقابلہ کرنا ہے مگر اس کے پس پردہ کیا عوامل ہیں انھیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔بھارت میں پہلے ہی سے آرایس ایس ،وشوہندو پریشد، بجرنگ دل اور درگاواہنی جیسی جماعتوں کے آتنک سے سماجی امن وامان کو خطرہ ہے، ایسے میں ہندووں کی ایک نئی فوج کیا گل کھلائے گی۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ سب اترپردیش حکومت کی ناک کے نیچے ہورہا ہے اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔جو ریاست فرقہ وارانہ دنگوں کے لئے بدنام رہی ہے ،وہاں ایک بار پھر اشتعال انگیزی کی ہر ممکن کوشش ہورہی ہے ۔یہاں کا فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے میں کئی ہندتوادی جماعتیں مصروف ہیں مگر اکھلیش حکومت کی کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک اور مظفرنگر کا انتظار کیا جارہاہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ دنگوں اور اشتعال انگیزیوں کے اس کھیل میں کہیں ریاستی حکومت کی بھی ملی بھگت تو نہیں ہے؟    

آئی ایس کا مقابلہ ڈنڈوں سے؟

    دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس آئی ایس) سے مقابلے کے نام پر’’ہندو سوابھیمان ‘‘نامی تنظیم اترپردیش میں ہندووں کی پرائیویٹ فوج کھڑی کر رہی جسے نام دیا گیا ہے ’’دھرم سینا‘‘۔ اس ہندوتووادی جماعت کا خیال ہے کہ 2020 تک اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس آئی ایس) مغربی اتر پردیش میں مکمل طور پر فعال ہو جائے گا۔ اس خطرے کو دیکھتے ہوئے وہ نوجوانوں کو ٹریننگ دے کر تیار کر رہی ہے تاکہ ہندو دھرم کی حفاظت ہو سکے۔ تنظیم کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ’’دھرم سینا‘‘ میں اب تک 15 ہزار جنگجو شامل ہو چکے ہیں جو اپنے مذہب اور قوم کے لئے مر مٹنے کو تیار ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق، مغربی اتر پردیش میں 50 سے زیادہ ایسے کیمپ ہیں جہاں نوجوانوں کو تلوار اور بندوق چلانے کی تربیت دی جا رہی ہے۔ سب سے چونکانے والی بات یہ ہے کہ اس سینا کے سب سے کم عمرجنگجوؤں کی عمر آٹھ سال ہے۔ اس فوج میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں جنہیں کھلے عام ٹریننگ دی جا رہی ہے۔ اس کا ہیڈ کوارٹر غازی آباد کے ڈاسنا کے ایک مندر میں ہے۔دھرم سینا کے تین کیمپ میرٹھ میں اور پانچ کیمپ مظفرنگر میں اب بھی کام کر رہے ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ ہر دن اس میں شامل ہونے والے جنگجوؤں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ تنظیم کی رہنما ایک خاتون ہے جس کا نام چیتنا شرما ہے۔ چیتنا لکھنو ہائی کورٹ کی وکیل ہے اور’’ اکھنڈبھارت مورچہ‘‘ نامی تنظیم کی صدر ہے۔ اس نے بتایا کہ، ہمارا مقصد صاف ہے۔ نوجوانوں کو چھوٹی عمر سے ہی تربیت کرو۔ فی الحال ہمارے 50 ٹریننگ کیمپس ویسٹرن یوپی میں سرگرم ہیں۔ ہمارے لڑکوں کی عمر 8-30 سال کے درمیان ہے۔ ہم بچوں کو تلوار اور بندوق براہ راست نہیں دیتے۔ پہلے چھ ماہ ہم انہیں ذہنی طور پر تیار کرتے ہیں۔ہم انہیں گیتا کی تعلیم دیتے ہیںاور بتاتے ہیں کہ ہندوؤں کو موت سے نہیں ڈرنا چاہئے کیونکہ ہم دوبارہ جنم لیتے ہیںلہٰذایہاں ٹریننگ لے رہے بچوں کو ڈر نہیں لگتا۔ ایک انگریزی ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق اس کی ایک ٹیم نے ایک ہفتے میں دھرم سینا کے چار کیمپوں کا دورہ کیا۔ یہ کیمپ فرقہ وارانہ طور پر انتہائی حساس مغربی اتر پردیش میں پھیلے ہیں۔سوال اٹھ رہے ہیں کہ کہیں IS کے بہانے کوئی مذہبی فوج بنانے کی تیاری تو نہیں ہے؟ خبروں کے مطابق مہم سے اب تک ڈھائی سے تین لاکھ لوگ جڑ چکے ہیں۔ چیتنا شرما کا دعوی ہے کہ یہ سب کسی پارٹی کے تحفظ کے بغیرچل رہا ہے اور انھیں کسی جماعت کا اقتصادی تعاون بھی نہیں مل رہا ہے۔وہ کسی خاص مذہب کے خلاف مہم سے بھی انکار کرتی ہے۔ حالانکہ کیمپ کے سامنے صاف بورڈ لگا ہوا ہے کہ ’’یہاں مسلمان کا داخلہ ممنوع ہے‘‘۔

پاکستان کے خلاف اعلان جنگ

    جہاں ایک طرف دھرم سینا بن رہی ہے وہیں دوسری طرف آگرہ میں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے ارکان نے وزیر اعظم مودی کو ایک میمورنڈم بھیج کر پاکستان کے خلاف براہ راست جنگ چھیڑنے کی اپیل کی ہے۔ دونوں تنظیموں نے پی ایم کو بھیجے اپنے میمورنڈم میں کہا ہے کہ پٹھان کوٹ حملے کے بعد پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہ کر اس پر حملہ کر دینا چاہئے۔ وشو ہندو پریشد نے اپنی اپیل میں یہ بھی کہا کہ پٹھان کوٹ حملے میں مارے گئے 6 دہشت گردوں کو بھارت کی زمین میں نہ دفن کیاجائے۔وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے ارکان نے ضلع مجسٹریٹ پنکج کمار کو میمورنڈم سونپا۔ قابل ذکر ہے کہ وفد کی قیادت چوہان نامی وہی شخص کر رہا تھا جس کا نام دسمبر 2013 میں آگرہ کی جھگیوں میں 300 مسلمانوں کے مذہب کی تبدیلی کے معاملے میں سامنے آچکا ہے۔

بجرنگ دل کا آتنک

    ہندو تنظیموں کی دہشت کا سلسلہ جاری ہے اور اتردیش ہی نہیں بلکہ ملک بھرسے ایسی خبریں آرہی ہیںجہاں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے ورکروں کی طرف سے آتنک مچایا جارہاہے ہے۔حال ہی میں بنگلور میں ایک بجرنگ دل کارکن کو گرفتار کیا گیا ہے جس نے ایک سماجی کارکن کو ریپ کرنے اور جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔اس نے یہ دھمکی فیس بک پوسٹ کے ذریعے دی تھی۔یہاںاداکار شاہ رخ خان کی فلم’’ دل والے‘‘ کی نمائش 3 سینما گھروں میں روکے جانے کے بعد سماجی کارکن ودیا دنکر نے بجرنگ دل کے خلاف پولیس میں شکایت درج کرائی تھی۔ اسی شکایت کے بعد ویرا کیسری نام کے فیس بک پیج اور اس کے فالوورز نے انہیں ریپ اور جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔ودیا نے اپنی شکایت میں کہا ہے کہ شاہ رخ کی فلم کی نمائش زبردستی روکے جانے کے بعد انہوں نے پولیس میں شکایت درج کروائی تھی۔ پولیس کمشنر ایس. مرگن نے بتایا کہ ودیا دنکر کی جانب سے پنیت راج کوٹھاری اور 21 دیگر لوگوں کے خلاف درج کرائی گئی شکایت کی بنیاد پر پولیس نے شہر میں بجرنگ دل کے شریک کنوینر پنیت راج کوٹھاری کو گرفتار کیا۔ بنگلور میں پچھلے دنوں بجرنگ دل کی دوروزہ کانفرنس بھی ہوئی جس میں مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کے تعلق سے تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اس کانفرنس میںا علان کیا گیا کہ ہندو اس بات پر نظر رکھیں کہ کسی علاقے میں مسلمانوں کی آبادی بیس فیصد سے زیادہ نہ ہوجائے۔جہاں مسلمانوں کی آبادی بڑھ جاتی ہیں وہاں سیکولر اقدار ختم ہوجاتی ہیں۔ اسی کے ساتھ ہندووں کو تلقین کی گئی ہے کہ اپنی آبادی کو ۸۰ فیصد سے کم نہ ہونے دیں۔ بجرنگ دل کے نیشنل کنوینر راجیش پانڈے نے کہا کہ جہاں جہاں ہندووں کی آبادی کم ہورہی ہے ،وہاں مسلمانوں کے لئے فیملی پلاننگ کو لازم کیا جائے۔

حکومت خاموش کیوں؟

    اترپردیش میں ہندو تنظیموں کا آتنک دن بدن بڑھتا جارہاہے اورپرائیویٹ فوج تیار ہورہی ہے مگر حکومت خاموش ہے اور وہ کسی قسم کا ایکشن نہیں لے رہی ہے۔ نہ تو یوپی کی سماج وادی سرکار کے کا ن پر جوں رینگ رہی ہے اور نہ ہی مرکزی سرکار کوئی کھوج خبر لے رہی ہے۔راجدھانی دلی سے متصل غازی آباد کی پولیس تحقیقات کی بات تو کہتی ہے لیکن اب بھی وہ اسے ماننے کو تیار نظر نہیں آتی کہ مہنت اس طرح کے کام کرسکتے ہیں۔ وہ اس قسم کی باتوں کو افواہ کہہ کر ٹال رہی ہے۔سوابھیمان سنگٹھن بھلے ہی کسی فرقہ وارانہ سرگرمی سے انکار کر رہا ہو لیکن سوال اٹھ رہے ہیں کیا یہ کسی مذہب کے خلاف جنگ کی خاموش تیاری ہے؟ کیا اس کامقصد اترپردیش کا فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنا ہے؟ کیا یہ سب سال بھر بعد اترپردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر کیا ہورہاہے؟سب سے بڑا سوال یہ کہ جب جدید اور مہلک ہتھیاروں سے لیس امریکہ اور یوروپی ممالک آئی ایس کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں تو کیا’’ دھرم سینا‘‘ لاٹھی ڈنڈوں اور تلواروں سے اس کا مقابلہ کرے گی؟ ایسے میں صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس قسم کی تنظیموں کا عین الیکشن سے قبل سرگرم ہونے کا مطلب ہوتا ہے ریاست کا ماحول بگاڑکر ایک مخصوص پارٹی کاووٹ بینک پکا کرنا۔ اگرچہ دھرم سینا بنانے والی چیتنا شرما کہہ رہی ہے کہ اس کی سینا کسی خاص طبقے کے خلاف نہیں ہے مگر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ سینا کی طرف سے کہا جارہاہے کہ ملک میں دہشت گردی کا بانی دارالعلوم دیوبند ہے لہذا اس کا نشانہ دارالعلوم بھی ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس غیرقانونی سینا کو حکومت اور پولس کی پشت پناہی حاصل ہے، اسی لئے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے۔ اس قسم کی حرکت اگر خدانخواستہ کسی مسلمان تنظیم کی طرف سے کی جاتی تو اب تک پورے ملک میں طوفان اٹھ چکا ہوتا اور مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر انھیں سلاخوں کے پیچھے کیا جاچکا ہوتا مگر ’’دھرم سینا‘‘قانون کی دھجیاں اڑا رہی ہے اور قانون کے کسی بھی خوف سے آزاد ہے۔    

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 578