donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Teen Talaq Par All India Muslim Personal Law Board Ka Mauqaf Kitna Durust Hai


تین طلاق پر آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کا موقف،کتنا درست ہے؟


 تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    شرعی اعتبار سے ایک ساتھ تین طلاق دینا درست ہے؟ اگر کسی نے دے دیا تو تین طلاقیں واقع ہونگی یا ایک؟ کیا طلاق کا یہ طریقہ مسلم عورت کوملے ہوئے بنیادی حقوق سے ٹکراتا ہے؟ اس قسم کے سوالوں پر مسلم معاشرے میں بہت پہلے سے بحث جاری ہے مگر اب معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا ہے۔ اسے کورٹ تک لے جانے والی کچھ ایسی مسلم عورتیں ہیں جن کے شوہروں نے انھیں ایک ساتھ تین طلاق دے کر ان کی زندگیاں برباد کردیں اور انھیں دربدر کا کردیا۔ان خواتین کا کہنا ہے کہ مسلم مردوں سے ایک ساتھ تین طلاق کا حق چھینا جائے کیونکہ یہ اسلامی اصولوں کے خلاف ہے اور مطلقہ خواتین کی بقیہ   زندگی کا خرچ کیسے چلے؟ اس کا کوئی راستہ نکالا جائے۔ اس کیس میں سپریم کورٹ نے مرکزی سرکار سے اس کا نظریہ جاننا چاہا ہے جب کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ دے کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایک ساتھ تین طلاق کو تین ہی ماننا چاہئے۔ بورڈ کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو خواتین طلاق کے اس سسٹم میں تبدیلی کی بات کر رہی ہیں انھیں اسلام کی جانکاری نہیں۔اس حلف نامے میں بورڈ نے کچھ ایسی باتیں بھی کہی ہیں جو خواتین کے حقوق کے منافی ہیں اور قابل اعتراض بھی ہیں۔

 حلف نامے میں کیا کہا گیا ہے؟

    ایک ساتھ تین طلاق کو تین تسلیم کئے جانے کے معاملے پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ  نے سپریم کورٹ میں کہا کہ اگر اسے ختم کیا گیا تو مرد اپنی بیوی سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے اسے جلا کر مار سکتا ہے یا پھر اس کا قتل کر سکتا ہے۔ بورڈ نے کہا کہ، اگر میاں بیوی کے درمیان کسی بات کو لے کر جھگڑا ہوتو پھر وہ ساتھ نہ رہنے کا فیصلہ کر لیں گے، ایسے میں وہ الگ ہونے کے لئے قانونی عمل اپنائیں گے تو اس میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ ایسی صورت میں شوہر غیر قانونی طریقے کو اپنا سکتا ہے۔ اس میں قتل کردینے، زندہ جلا دینے جیسے مجرمانہ طریقے شامل ہیں۔یہ بات بورڈ نے 2 ستمبر کو سپریم کورٹ میں کہی۔ دراصل، سپریم کورٹ میں گزشتہ سال مسلم خواتین کے حقوق کو بنیاد بنا کر تین بار طلاق کہنے کے معاملے پر سماعت شروع ہوئی تھی۔ اسی بات کو لے کر اب بورڈ نے اپنا جواب دیا ہے۔ بہت سی خواتین کا کہنا تھا کہ مرد تین طلاق کے ذریعے انہیں ستاتے ہیں۔ مسلم پرسنل بورڈ نے کہا کہ تین بار طلاق کہنے کی قانونی حیثیت پر سپریم کورٹ فیصلہ نہیں لے سکتا۔ شوہر کو تین بار طلاق کہنے کی اسلام میں اجازت ہے کیونکہ وہ فیصلہ لینے کی بہتر پوزیشن میں ہوتے ہیں اور جلدی میں ایسا نہیں کرتے۔ مذہب میں حقوق کی قانونی حیثیت پر عدالت سوال نہیں اٹھا سکتا۔ قرآن کے مطابق طلاق سے بچنا چاہئے لیکن ضرورت ہونے پر اس کی اجازت ہے۔ بورڈ کی جانب سے دلیل دی گئی کہ طلاق کے قانونی عمل کواپنانے سے عورت کی دوسری شادی ہونے میں بھی پریشانی آ سکتی ہے۔ بورڈ نے کہا کہ شوہر ،عورت کو عدالت میں غلط کردار والی بتا سکتا ہے۔ بورڈ کی جانب سے دئے گئے ایفی ڈیوٹ میں کہا گیا کہ یہ ایک غلط فہمی ہے کہ طلاق کے معاملے میں مسلمان مردوں کو یک طرفہ طاقت ملی ہوتی ہے۔یہ اختیار عورتوں کو بھی حاصل ہے۔ ساتھ ہی اسلام جب تعددازواج کی اجازت دیتا ہے تو یہ اس کو حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔مرد کو ایک سے زیادہ شادی کی اجازت دینے کا انتظام عورت کے لئے فائدہ مند ہے۔ بیوی کے بیمار ہونے یا کسی اور بات کو بنیاد بنا کر شوہر اسے طلاق دے سکتا ہے لیکن شوہر کو دوسری شادی کی اجازت ہونے کی وجہ سے خواتین بچ جاتی ہیں۔بورڈ نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک بیوی کے رہتے دوسری شادی کی اجازت سے مرد غیر قانونی تعلق نہیں بناتا یا رکھیل نہیں رکھتا۔ اس طرح کے ناجائز تعلقات معاشرے کے لئے برے ہیں۔جائز طریقے سے دوسری شادی کی اجازت معاشرے کے مفاد میں ہے۔مسلم پرسنل بورڈ نے کورٹ میں چل رہی سماعت کی مخالفت کی ہے۔ بورڈ کے حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ پرسنل لاء مذہبی کتابوں پر مبنی ہے۔ سپریم کورٹ ان میں تبدیلی نہیں کر سکتا۔ بورڈ کی دلیل ہے کہ مذہبی بنیاد پر بنے قوانین کو آئین کی بنیاد پر نہیں پرکھا جا سکتا۔ ہر شہری کو ملے بنیادی حقوق، پرسنل لاء میں تبدیلی کی بنیاد نہیں بن سکتے۔  اس معاملے میں چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی صدارت والی بنچ نے سماعت کی۔ اس معاملے میں کئی خواتین نے پٹیشن دائر کی ہے۔ ان میں سے ایک عشرت جہاں بھی ہیں جنھیں فون پر طلاق دے دی گئی۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر مرتضیٰ انصاری نے انھیں دبئی سے فون پر تین طلاق کہی اور دوسری شادی کرلی اور ان کے چار بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے گیا۔

معاملہ کیا ہے؟

    ایک مجلس میںتین طلاق سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں، کچھ مطلقہ خواتین کی اپیل پر سپریم کورٹ مسلم قانون کے کچھ حصے کا جائزہ لے رہا ہے۔ مردوں کو حاصل 3 بار طلاق بول کر شادی سے الگ ہونے اور ایک بیوی کے رہتے دوسری شادی کرنے کے حق پر عدالت میں سماعت چل رہی ہے۔ اس نظام کے خلاف 6 مسلم خواتین نے بھی کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ کورٹ یہ جاننا چاہتا ہے کہ آئین میں ہر شہری کو ملے برابری اور عزت کے ساتھ جینے کا حق مسلم خواتین کو مل پا رہا ہے یا نہیں؟ پرسنل لاء میں مردوں کو حاصل خصوصی حقوق کہیں خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی تو نہیں کرتے؟چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر نے گزشتہ دنوںاشارہ دیا کہ پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ مسلم عورت کی پہلی بیوی کو طلاق دیے بغیر چار بیویاں رکھنے میں کچھ بھی غلط نہیں ہے۔جسٹس ٹھاکر تین ججوں کی بنچ کی قیادت کر رہے ہیں۔ اس بنچ میں شامل جسٹس اے ایم کانویلکر اور ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا ہے کہ جب تک مسلم پرسنل لاء کے تحت تین بار طلاق-طلاق کہنے کی اجازت کو ختم نہیں کیا جاتا، تب تک کوئی بھی تین بار طلاق بول کر بیوی سے طلاق لے سکتا ہے۔

ٹکرائو کی صورت 

    ہندوستان میں حنفی علماء کا کہنا ہے کہ طلاق دینے کا طریقہ یہی ہے کہ ایک مجلس میں ایک طلاق دی جائے لیکن اگر کوئی ایک مجلس میں تین طلاق دیتا ہے تو تین واقع ہوجاتی ہیں اور اب میاں بیوی میں کسی بھی رشتے کی گنجائش نہیں رہتی ہے۔  جب کہ غیر حنفی علماء کا نظریہ اس کے خلاف ہے۔ اس کے برعکس ساری دنیا کے مسلم ملکوں میں ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانا گیا ہے اور ہندوستان میں بھی علماء کا ایک طبقہ ایسا ہی مانتا ہے مگر مسلم پرسنل لاء بورڈ کا اصرار ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق کو تین مانا جائے۔جو خواتین مسئلے کو لے کورٹ گئی ہیں،ان کے بارے میں بھی بورڈ کا کہنا ہے کہ انھیں اسلامی احکام کی جانکاری نہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا حنفی علماء کے علاوہ دنیا کے تمام علماء بھی ایسے ہی ہیں جو ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ہی مانتے ہیں؟  اسماء جہاں آرا جوکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ممبر ہیں کہتی ہیں کہ طلاق کے معاملے میں موجودہ مسلم لاء کو منسوخ کرنے کی کسی بھی کوشش کا نہ صرف مرد بلکہ کروڑوں مسلم خواتین بھی مخالفت کریں گی۔ مسلم عورتوں کی بعض تنظیموں کی طرف سے طلاق کو لے کر خواتین کے حق کے لئے جو تحریک چلائی جا رہی ہے ، انھیں قرآن اور حدیث کی صحیح معلومات نہیں ہے۔جب کہ بورڈ کے رکن عارف مسعود نے کہا کہ اسلام میں طلاق کی بات ناپسندیدہ ہے، لیکن اس کی اجازت دی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کی طرف سے میڈیا میں اس طرح کاپروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، گویا اسلام خواتین مخالف ہے اور صنفی تعصب کرنے والا مذہب ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ مرکز کی بی جے پی حکومت کی طرف سے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کی ہم سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کمیونٹی کی چند خواتین تحریک چلا رہی ہیں، لیکن ان کے مطالبات کے حق میں کمیونٹی کی تمام خواتین نہیں ہیں۔ زیادہ تر خواتین شریعت کے قانون کو ماننے کے حق میں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عدالتیں مستقل حل نہیں دے سکتیں۔

بورڈ کا وقار بحال ہو

    آل انڈیامسلم پرسنل لاء بورڈ کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہے مگر طلاق کے مسئلے پر اس نے حنفی نکتہ نظر پر اصرار کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ سبھی طبقات کی نمائندگی نہیں کرتی۔ یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ صرف حنفی فقہ پر عمل ضروری ہے اور شافعی، حنبلی، مالکی یا اہل حدیث کے فقہ کو مسترد کردینا چاہئے؟ اگر بورڈ خود کو تمام مسلمانوں کا نمائندہ کہتا ہے تو اسے احناف کے ساتھ ساتھ باقی مسلکوں کے احکام بھی کورٹ کے سامنے رکھنے چاہئیں اور وضاحت کرنی چاہئے کہ کس مسلک کے علماء کا کیا حکم دیتے ہیں اور قرآن کریم میں طلاق کے تعلق سے کیا طریقہ بتایاگیا ہے؟ ہم جانتے ہیں کہ بورڈ کی ماضی میں اہمیت رہی ہے اور اس کے باوجود اسے مسلمانوں کا اعتبار حاصل رہا ہے کہ عام مسلمان اس کے ممبران کا انتخاب نہیں کرتے۔ مولانا علی میاں ندوی، مولانا منت اللہ رحمانی، قاضی مجاہدالاسلام قاسمی، مولانا برہان الحق جبل پوری، مولانا مظفرحسین کچھوچھوی جیسی ذی علم، باشعور اور سنجیدہ شخصیات کا بورڈ سے تعلق رہاہے مگر حالیہ ایام میں علماء کے بجائے سیاسی لوگوں کی بورڈ میں شمولیت کے سبب بورڈ کے موقف کو بھی سیاسی نفع ونقصان کے پہلو سے دیکھا جانے لگا ہے۔ تین طلاق کے مسئلے پر بورڈ کا موقف انتہائی تنگ نظری کا حامل ہے۔ مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ میں بورڈ پوری طرح ناکام رہا ہے۔ اگر ان کے مسائل گھر میں حل ہوجاتے تو انھیں کورٹ کی پناہ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔میں نے اپنی تحریروں میں بار بار یہ سوال اٹھایا ہے کہ طلاق کے بعد مسلم مطلقہ کے اخراجات کون ادا کرے؟ شوہر طلاق دے کر آزاد ہوچکا ہے جب کہ عورت کے میکہ والے اس سے لاتعلق ہوچکے ہیں، بھائی، بھتیجے اپنی دنیا میں مگن ہیں، باپ بوڑھا ہوچکا ہے یا دنیا سے رخصت ہوچکا ہے،ایسے میں مسلم مطلقہ کے سامنے بھیک مانگنے اور فٹ پاتھ پر گزارہ کرنے کے علاوہ کیا راستہ بچتا ہے؟ کیا مسلم پرسنل لاء بورڈ ایسی خواتین کو گزارہ بھتہ دینے کو تیار ہے؟ اگر نہیں ،تو اگر کورٹ کہتا ہے کہ سابق شوہر اس کے اخراجات ادا کرے تو بورڈ کو اعتراض کیوں ہے؟ بہرحال حالیہ مسائل اس بات کے متقاضی ہیں کہ بورڈ میں ایسے لوگوں کو جگہ دیا جائے جو اسلام اور حالات حاضرہ کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ خواتین کو ۵۰ فیصد نمائندگی دی جائے اور بورڈ کو مزید فعال بنایا جائے نیز اختلافی معاملات میں اعتدال کا راستہ اپنایا جائے، جو کہ طلاق والے کیس میں نہیں اپنایا جارہاہے۔ کورٹ، حکومت یا مسلم خواتین کے ساتھ بورڈ کا ٹکرائو کئی اعتبار سے درست نہیں کہا جاسکتا۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 606