donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Tum Musalma Ho Yeh Andaz Musalmani Hai


تم مسلماں ہو؟ یہ اندازمسلمانی ہے؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    صف بندی میدان جنگ میں کی جاتی ہے مگر ہمیں نماز میں بھی صف بندی کا حکم دیا گیا ہے  اور وہ بھی اس طرح کہ ایک آدمی بھی صف سے آگے ،پیچھے نہ ہو،آخرکیوں؟ تمام نمازی ایک ساتھ برابر برابر کھڑے ہوتے ہیں، کندھے سے کندھا ملا کر۔ ایک ساتھ رکوع وسجود کرتے ہیں، ایک ساتھ قعدہ کرتے ہیں اور ایک ساتھ ہی سلام پھیر کر حالت ِنماز سے باہر آتے ہیں۔ جماعت میں شامل کوئی بھی شخص آگے پیچھے نہیں ہوسکتا اور کوئی بھی اپنے رہنما یا امام سے پہلے نہ تو ارکان کی ادائیگی کر سکتا ہے اور نہ ہی حالتِ نماز سے باہرآسکتا ہے۔ صف بندی اور نظم و ضبط کی اس کیفیت سے ہر مسلمان کو پانچ بار گزرنا پڑتا ہے۔ صبح آنکھ کھلتے ہی وہ سب سے پہلے اس کے لئے خود کو تیار کرتا ہے۔ جب سورج آدھا سفر طے کرلیتا ہے اور دوپہر ڈھلتی ہے تو بھی وہ اس عمل کو دہراتا ہے،یونہی جب شام کے سائے پھیلنے لگتے ہیں تو تمام مسلمان مسجد میں جمع ہوکراللہ کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ نظم وضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جب سورج غروب ہوجا تا ہے تو ایک بار پھر اسی حالت سے تمام اہل ایمان کو گزرنا پڑتا ہے اور آخری بار سونے سے قبل نماز کی باجماعت ادائیگی کی جاتی ہے۔ صف بندی نماز کے علاوہ حج کے موقع پر بھی ہوتی ہے اور دنیا بھر کے حجاج ایک جیسے یونیفارم میں ملبوس ہوکر نظم وضبط کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ نماز ہو یا حج دونوں حالتوں میں صرف ظاہری ہی نہیں بلکہ سب کی باطنی کیفیت میںبھی یکسانیت ہونی چاہئے۔روزے میں بھی نظم وضبط دکھائی دیتا ہے جب تمام مسلمان ایک ساتھ سحری کھاتے ہیں، پورے دن بھوکے پیاسے رہ کر حکم الٰہی بجا لاتے ہیں اور پھر ایک ساتھ افطار کر کے روزے سے باہر آتے ہیں۔ رات کو مسجدوں میں نماز تراویح ادا کرتے ہیں،جس میں اجتماعی طور پر قرآن کریم سنتے ہیں۔ اسلام میں عبادت صرف روحانی تسکین کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ جسم کو صحت مند اور زندگی کو منظم کرنے کا بہانہ بھی ہے۔یہاں محض گیان اور دھیان کی بات نہیں کہی گئی ہے بلکہ اس کے لئے جو طریقے اورا وقات بتائے گئے ہیں ،وہ انسان کو زندگی جینے کا سلیقہ بھی سکھاتے ہیں۔خشوع وخضوع اگر دل کی کیفیت کو سنوارتے ہیں اورروحانی سکون سے ہمکنار کرتے ہیں تو ظاہری اعمال و افعال زندگی کو ضابطوں کا پابند بناتے ہیں۔ جو انسان روزانہ پانچ بار نظم و ضبط کا مظاہرہ کرے گا ،اس کی زندگی میں ضابطہ ہی ضابطہ ہوگا اور اصول پسندی اس کے مزاج کا حصہ ہوگی۔ جو قوم مسجد میں اتحاد کا مظاہرہ کرے گی وہ مسجد کے باہر منتشر نہیں رہ سکتی۔اسلام نے طہارت وپاکیزگی، لباس، کھانے ،پینے اور سونے ،جگنے کے آداب بتائے ہیں۔سفر وحضر کے اصول بتائے ہیں اور زندگی کے ہر قدم پر انسان کی رہنمائی کی ہے اور ان کی پابندی ،زندگی کو ضابطوں کا پابند بناتی ہے۔ 

ایک واقعہ ،سینکڑوں سبق

    پچھلے دنوں کا واقعہ ہے کہ دلی کی ایک مسجد پر تبلیغی جماعت کے لوگوں کا قبضہ ہوگیا۔ اس قسم کے قبضے عام ہیں اور مسلمان ان جھگڑوں کے عادی بھی ہیں۔یہاں کا انتظام اس سے پہلے جماعت اسلامی کے لوگوں کے ہاتھ میں تھا۔ نمازی بھی دوگروہوں میں تقسیم ہوگئے اور یہ طے پایا کہ تبلیغی جماعت کا امام جہری نمازیں پڑھائے گا اور جماعت اسلامی کا امام سری نمازیں پڑھائے۔ مسجد میں ایک ہی ساتھ وعظ کی دومحفلیں بھی سجنے لگیں۔ ایک طرف جماعت اسلامی کا ایک شخص درس قرآن کے لئے بیٹھتا تو دوسری طرف تبلیغی جماعت کا ایک مبلغ ’’فضائل اعمال‘‘ پڑھ کر سناتا تھا۔درس ِقرآن میں دو چار افراد ہی نظر آتے اور درسِ فضائل اعمال میں بھیڑ لگی ہوتی، جس سے مسلمانوں کی قوت کا اظہار ہو نہ ہو مگر تبلیغی جماعت کے دبدبے کا اظہار ضرور ہوتا اور اس فرقہ بندی کا بھی جس کی ممانعت قرآن کریم میں اللہ نے کی ہے۔’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لواور فرقہ بندی نہ کرو‘‘(آل عمران:۱۰۳)۔ یہ ایک واقعہ ہے اور درسِ عبرت بھی۔ ایک طرف جہاں مسجد کا تصور ہی اتحاد و یکجہتی اور نظم وضبط کی بنیاد پر ہے ,وہیں دوسری طرف یہ مسجدیں ہی ہمارے انتشار کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ مسلمانوں کے اختلاف کی شروعات یہیں سے ہوتی ہے اور پھر وہ ایک انتشار کی صورت میں پوری قوم میں پھیل جاتا ہے۔ ستر ستر فرقے ایک ایک محلے میںملتے ہیں۔ اسلام ایک تھا مگر اب کتنے اسلام ہیں کسی کو سمجھ میں نہیں آتا۔ ہر مولوی کا ایک فرقہ ہے اور سب کے پاس ایک دوسرے سے الگ اسلام بھی ہے۔ غنیمت ہے کہ معاملہ ابھی فرقہ بندی تک ہی ہے ان میں سے کسی نے اب تک اعلان نبوت نہیں کیا ہے۔ ورنہ فرقوں کے برتری جنگ نہ جانے کہاں تک جائے۔ اسی انتشار کا نتیجہ ہے کہ ایک مسجد میں دو دو جماعتیں ہوتی ہیں اور ایک فرقہ کے لوگ دوسرے فرقہ کے امام کے پیچھے نماز ادا کرنے کو تیار نہیں۔ مذکورہ واقعے سے جو دوسرا نتیجہ نکلتا ہے وہ یہ ہے مسلمان اسلام کی بنیادی تعلیم اور اللہ کی کتاب سے اس قدر دور ہوگئے ہیں کہ وہ کلمہ، نماز اور کتاب اللہ کے نام پر بھی متحد نہیں ہوسکتے۔ اللہ کی کتاب کو اس لئے چھوڑ رہے ہیں کہ انھیں غیراللہ کی کتاب پر زیادہ بھروسہ ہوگیا ہے۔ ایک مومن کے ایمان کی بنیاد ہی اللہ کی کتاب ہے، اس کے احکام ہیں مگر جب اس کتاب سے دوری ہوجائیگی تو پھر خواہ کسی بھی کتاب سے وہ قربت اختیار کرلیں اتحاد و یکجہتی ان میں نہیں آسکتی ہے۔ نماز، روزہ، قرآن اور مسجدہمارے ایمان کا مرکز ہیں اور اتحاد کاسنٹر مگرجب یہیں اختلافات جنم لینے لگیں تو نظم وضبط کیسے آئے۔ ہماری مسجدیں عالیشان اور بلند وبالا ضرور بن گئی ہیں مگر عبادت کے جو فوائد ہیں ان سے نمازیوں کے دل محروم ہوتے جارہے ہیں۔کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ جو قوم روزانہ پانچ بار مسجد میں نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنے جمع ہوتی ہے وہ کبھی اپنی زندگی میں اصول وضوابط کی پابند نہیں ہوپاتی ہے۔ جو لوگ سال میں ایک مہینہ روزہ رکھ کر نظم وضبط سیکھتے ہیں ان کی زندگی ہر قسم کے ضابطوں سے عاری ہوتی ہے۔ ان ضابطوں کی روح سے جب ہم مسجد میں ہی آگاہ نہیں ہوپاتے تو مسجد کے باہر کیسے منظم اور منضبط زندگی گزارسکتے ہیں۔

نظم وضبط سے عاری مسلمان کی زندگی

    دنیا کا کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک اچھا نہیں کہلا سکتا جب تک کہ اس کے افراد کی زندگی میں نظم وضبط نہ آجائے اور آج شاید ہی مسلمان سے زیادہ غیر منظم کوئی قوم روئے زمین پر ہو۔ جو نظم وضبط ہمارے مذہب کا حصہ ہے اور جسے عبادت کا درجہ دیا گیا ہے اور آخرت کی نعمتیں جس کے بدلے میں رکھی گئی ہیں،وہی ہماری زندگی سے ندارد ہے۔ ہمیں کہا گیا ہے کہ علی الصباح اٹھیں اور مسجد میں جمع ہوکر نماز فجر ادا کریں مگر جس محلے میں ایک ہزار مسلمان بستے ہیں وہاں فجر کی نماز میں مشکل سے دس افراد جماعت میں شریک ہوتے ہیں اور ان میں بھی بیشتروہ سن رسیدہ حضرات ہوتے ہیں جنھیں اب رات کو نیند نہیں آتی اور کھانس کھانس کر صبح کرتے ہیں۔ میٹھی نیند کے مزے لینے والوں پر صبح صبح اٹھنا شاق گزرتا ہے۔ باقی چار وقت کی نمازوں میں نمازیوں کی تعداد کچھ زیادہ ضرور ہوتی ہے مگر مسجدوں میں آج کل عبادت سے زیادہ گروہ بندی اور انتشار کی باتیں ہوتی ہیں۔ کوئی مسجد شیعوں کی ہے تو کوئی سنیوں کی، کوئی دیوبندیوں کی ہے تو کوئی بریلویوں کی۔ کوئی اہل حدیث کی تو کوئی اہل قرآن کی۔ پھر ان میں بھی فرقہ در فرقہ۔ کیا کوئی مسجد ایسی ہے جو صرف مسلمانوں کی ہو؟ یہی حالت ہمارے دینی مدرسوں کی بھی ہے۔جومسجدیں نظم وضبط سکھانے کا مرکز ہوا کرتی تھیں ،جب وہیں اس کا فقدان شروع ہوجائے تو دوسری جگہوں پر کہاں سے نظم آئے؟صبح بستر سے جلد اٹھنا، رات کو جلد سونا، دن کے اوقات میں اپنے تمام کام کاج وقت پر کرنا، وقت پر کھانا اور وقت پر پینا،منظم انسانی زندگی کے لئے ضروری ہے اور اسلامی عبادتیں اس نظم ضبط کی زندگی کا عادی بنانے میں مددگار ہوتی ہیں ۔ دوسری قوموں نے نظم وضبط کا فائدہ سمجھا اور اسے اپنا لیا مگر ہم نے بس اسے ارکانِ عبادت جانا لہٰذا جمعہ جمعہ اسے ادا کرنے پر اکتفا کیا اور اس کے فوائد کو اپنی زندگی میں نہیں اتارا۔ ہماری زندگی کا معمول بن چکا ہے کہ ہم رات کو دیر تک ٹی وی دیکھتے ہیں۔مسلم محلوں میںچائے خانوں، پان کی دکانوں، ہوٹلوں اور گلیوں ونکڑوں پر رات دیر تک بھیڑ دیکھی جاتی ہے۔ یہ سب بس ٹائم پاس کرنے کے لئے ہوتا ہے اور وقت کی ضیاع کے سوا کچھ نہیں۔ جب رات کو دیر تک جگیں گے تو ظاہر ہے کہ صبح دن چڑھے تک سوئیں گے۔اسی لئے اکثر مسلمانوں کے بچے اسکول ناغہ کرتے ہیں۔جب ہم بیدار ہوکر صبح کے معمولات سے فارغ ہوتے ہیں تب تک بارہ بچ چکے ہوتے ہیں اور دنیا آدھے کام کرچکی ہوتی ہے۔اس پر ہمیں حکومت سے شکوہ رہتا ہے کہ مسلمانوں کو جان بوجھ کر سرکار پیچھے رکھتی ہے۔ جس قوم کے افراد اپنا آدھا وقت سونے ، چائے خانوں پر گپیں ہانکنے اور دوسرے فضول کاموں میں گزاردیتے ہوں وہ اس دنیا کا مقابلہ کیسے کرسکتے ہیں جو روزانہ صبح اٹھ کر مارننگ واک کر کے خود کو فٹ رکھتی ہے، اپنے بچوں کو پابندی کے ساتھ اسکول بھیجتی ہے اور ادھر ادھر فضول وقت گزارنے کے بجائے انہماک کے ساتھ اپنے کاموں میں صبح سے ہی لگ جاتی ہے؟ جو انسان مسجد میں نظم وضبط کا پابند ہوگا وہ سڑک پر ٹرافک کے ضابطے کیسے توڑے گا؟ جس کے دل میں اللہ کی گرفت کا خوف ہوگا وہ بندگان خدا کے حقوق کیوں مارے گا؟ جو روزانہ پانچ بار مسجد میں قرآنی تعلیمات اور احکام الٰہی کو یاد کرے گا ،وہ ضابطہ ٔ اخلاق سے کیسے آزاد ہوگا؟لہٰذا اپنی زندگی کو ضوابط کا پابند کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اسے بھی عبادت سمجھیں اور عبادات کی روح تک پہنچیں۔ ہمیں زوال کے موجودہ دور سے نکلنے کے لئے تن آسانی چھوڑنی ہوگی اور انداز مسلمانی بدلنا ہوگا کیونکہ :

ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو ؟یہ انداز مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے، نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے؟   

                      
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

  • RAHAT RAVISH
    25-10-2016 18:06:41
    Thoughtful article,buy who cares!
  • RAHAT RAVISH
    25-10-2016 18:04:34
    thoughtful article.buy who cares!
You are Visitor Number : 823