donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Urdu Ki Lash Par Sanskrit Ko Zindagi Dene Ki Sazish


اردو کی لاش پر سنسکرت کو زندگی دینے کی سازش


کیا یہی ہے سنگھ کی تعلیمی پالیسی؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    نریندر مودی نے عام انتخابات سے قبل وعدہ کیا تھا کہ ان کی سرکار اردو کے فروغ کے لئے کام کرے گی مگر اب اقتدار میں آتے ہی انھوں نے صدیوں پرانی سنسکرت کو زندہ کرنے کی کوشش شروع کردی ہے اور اردو کا نام بھی لینے کو تیار نہیں۔سنٹرل اسکولوں میں اب تیسری زبان کے طور جرمن نہیں سنسکرت پڑھائی جائیگی، کیا اب یہی تعلیمی پالیسی دوسرے سرکاری اسکولوں میں بھی نافذ ہوگی؟ مرکزی سرکار نے جو محبت بھری نظر سنسکرت پر ڈالی ہے کیا وہی اردو کے لئے بھی ہوگی؟ کیا نریندر مودی اپنا وہ وعدہ پورا کریںگے جو انھوں نے الیکشن کے دوران کیا تھا اور ’’نئی دنیا ‘‘کو دیئے اپنے خصوصی انٹرویو میں اردو کے فروغ کی بات کہی تھی؟ کیا سنسکرت کی طرح اردو کے فروغ کی سنجیدہ کوششیں بھی ہونگی؟کیا اس خالص ہندوستانی زبان کے ساتھ جو زیادتی ۶۵ برسوں سے چل رہی ہے اس کا خاتمہ کیا جائے گا؟ اردو والے سنسکرت کے مخالف نہیں مگر اردو کو بھی اس کا حق ملنا چاہئے۔سنسکرت اگر ہزاروں سال پہلے بھارت کی مٹی میں جنمی تھی تو اردو بھی اسی ماحول کی پروردہ ہے اور کثرت میں وحدت کی مثال ہے۔ سنگھ پریوار ’’ہندی، ہندو، ہندواستھان‘‘ کی بات کرتا رہا ہے، قدیم کلچر کے احیاء کی بات کرتا رہا ہے ، اسی لئے اس نے برہمنوں کی قدیم زبان سنسکرت کو زندہ کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ جہاں ایک طرف اس نے جلد بازی میں سال کے بیچ میں ہی سنٹرل اسکولوں میں سنسکرت کو لاگو کرنے کا فیصلہ کیا ہے وہیں دوسر ی طرف مرکزی وزیر اوما بھارتی تو اس کی اس قدر حمایتی ہیں کہ ان کا بس چلے تو پورے ملک میں انگلش کی جگہ سنسکرت کو ہی پڑھنا،پڑھانا لازمی کردیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انگلش غیر ملکی زبان ہے ، اس کی جگہ سنسکرت لے سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ زبانوں کی اس لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان اردو کا ہورہا ہے جو ایک خوبصورت ، پرکشش اور پیاری زبان ہونے کے باوجود بھید بھائو کا شکار ہے۔ ہندی اور اردو کا رشتہ سگی بہنوں کا ہے مگر یہ عجیب بات ہے کہ آزادی کے بعد جہاں ہندی کو عام کرنے کی کوشش ہوئی وہیں اردو کو بھوتی چھری سے ذبح بھی کیا گیا۔ آج یہ اگر کروڑوں ہندوستانیوں کو محبوب ہے ،تو اپنی کشش اور جاذبیت کی وجہ سے ہے۔ یہی محبوبیت اس کی سخت جانی کا سبب بھی ہے ، کہ سرکاری عدم توجہی اور اپنوں کی بے گانگی کے باوجود یہ آج تک زندہ وپائندہ ہے۔ بھارت کے مسلم حکمرانوں نے کبھی کسی زبان سے بھید بھائو نہیں کیا۔ ان کی مادری زبان فارسی تھی اور سرکاری زبان بھی یہی تھی مگر انھوں نے سنسکرت کی سرپرستی کی اور اس کے علماء پر روپئے لٹا ئے۔ سنسکرت کی کتابوں کا سب سے زیادہ ترجمہ اسی عہد میں فارسی اور عربی میں ہوا،اس طرح جو علوم و فنون صرف برہمنوں کے کنٹرول میں تھے ان سے دوسروں کو بھی واقفیت کا موقع ملا۔سنسکرت کتابوں کے فارسی وعربی میں ترجمے کا کام تو خلفاء بنو عباسیہ کے دور میں ہی بغداد کے اندر شروع ہوگیا تھا۔

سنسکرت اورفارسی کا باہمی رشتہ

    بیرون ملک سے بھارت آنے والے آریوں کی زبان کی خاکستر سے سنسکرت کا جنم ہوا تھا۔ قدیم بھارتی گرنتھ اسی زبان میں لکھے گئے۔ بعض تاریخی  شواہد اشارہ کرتے ہیں کہ ہزاروں سال قبل آریہ ایران سے بھارت آئے تھے اور یہاں قبضہ کرکے اصل باشندوں کو اپنا غلام بنا لیا تھا۔ ان کی ایرانی نسبت کے سبب ہی انھیں آریہ بھی کہا جاتا ہے۔ اسی لئے فارسی اور سنسکرت کے الفاظ میں بہت زیادہ یکسانیت بھی پائی جاتی ہے اور دونوں زبانوں میں سینکروں الفاظ مشترک ہیں۔ مادر(ماتر)، پدر(پتر) پنج(پنچ)،شش(ششٹھ) کنج جیسے تین سو سے زائد الفاظ کی شناخت کی گئی ہے جو دونوں زبانوں میں مشترک ہیں۔ بعض قدیم ایرانی رسوم بھی قدیم آریائی رسوم سے ملتے جلتے ہیں جیسے جنیو کی رسم اور آگ کی پوجا وغیرہ۔ ایران کی زبان اور کلچر سنسکرت میں آریوں کے ذریعے پہنچے تھے۔ سنسکرت پر چونکہ برہمنوں کا اجارہ رہا لہٰذا اسے عوامی زبان بننے کا موقع نہیں ملا البتہ سنسکرت کے الفاظ ہندی میں ضرور شامل ہوگئے۔ آج دنیا کے کسی بھی خطے میں سنسکرت نہیں بولی جاتی اور نہ ہی اس کے سمجھنے والے پائے جاتے ہیں۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری میں چند ہزار لوگوں نے اپنی مادری زبان سنسکرت لکھوائی ہے جب کہ اس سے زیادہ لوگوں نے فارسی اور عربی کو اپنی مادری زبان لکھوایا ہے۔ پچھلے سال سرکار نے عربی اور فارسی کو سول سروسیز کے امتحان سے خارج کردیا تھا اور جاتے جاتے کانگریس سرکار نے عربی وفارسی کے حامیوں کو یہ تحفہ دیا تھا مگر اس ملک میں حکمراں طبقہ برہمن ہی رہا ہے لہٰذا سنسکرت کے احیاء کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ آرایس ایس چونکہ برہمنوادی نظریہ رکھتا ہے لہٰذا وہ سنسکرت کے احیاء کی کوشش میں زیادہ زور لگا رہا ہے اور جو کام کانگریس کے برہمن نہیں کر پائے وہ آر ایس ایس کے برہمن کرنے جارہے ہیں۔ اس سے قدیم  ہندوستانی تہذیب کو زندہ کرنے میں مدد ملے گی ۔ اسی نکتہ نظر کو سامنے رکھ کر ملک کی تعلیمی پالیسی کو بدلنے کی کوشش ہورہی ہے۔ سنٹرل اسکولوں میں تیسری زبان کے طور پر جرمن اس لئے رکھی گئی تھی کہ یہ زندہ زبان ہے اور اس سے واقفیت رکھنے والوں کو جرمنی میں روزگار کے موقع ہاتھ آسکتے ہیں مگر اب بی جے پی سرکار نے اس کی جگہ پر سنسکرت کو لادنے کا فیصلہ کیاہے،جس کا مقصد ہندتو کے احیاء کی کوشش ہے۔ جس طرح سے اسرائیل میں عبرانی یا ہبرو کا احیاء کیا گیا،اسی طرح یہاں سنسکرت کو زندہ کیا جارہا ہے۔

سنسکرت کی کتابیں فارسی میں

    بھارت میں ایک مدت تک مسلم حکمرانوں نے راج کیا ہے جو سنٹرل ایشیا کی طرف سے آئے تھے۔ ان کی مادری زبان فارسی تھی لہٰذا انھوں نے فارسی کو سرکاری اور درباری زبان بنایا تھا مگران کے درباروں اور سرکاروں میں اعلیٰ عہدوں پر برہمن فائز تھے جو سنسکرت سے واقف تھے، جس زبان میں ہندووں کی قدیم مذہبی کتابیں تھیں لہٰذا ان کتابوں کے فارسی میں تراجم کا فیصلہ کیا گیا۔افغانی حملہ آور محمود غزنوی کے ساتھ البیرونی بھارت آیا تھا جس نے سنسکرت سیکھی تھی اور یہاں کے علوم و فنون نیز کلچر سے واقف ہوکر اس نے ’’کتاب الہند‘‘ لکھی جو بھارتی تہذیب اور علوم کی تاریخ پر سب سے قدیم کتاب مانی جاتی ہے۔ اس کے بعد کے دور میں بھی یہاں سنسکرت سمجھنے اور اس کی سرپرستی کا سلسلہ جاری رہا۔ مسلمان بادشاہوں کے زمانے میں سینکروں سنسکرت کتابوں کو فارسی میں ترجمہ کیا گیا۔ مغل بادشاہ اکبر کے حکم سے جن کتابوں کے تراجم ہوئے ان میں رامائن، مہابھارت، بھاگوت گیتا، اپنیشد، اتھر وید، یوگ وششٹ اور ریاضی کی ایک کتاب لیلاوتی شامل تھیں۔ اس زمانے میں جن کتابوں کے تراجم ہوئے ان کی تعداد سینکڑوں میں ہے ۔فارسی کے ایک اسکالر پروفیسر شریف حسین قاسمی ایسی کتابوں کی ایک فہرست دکھاتے میں جن میں ۵۱۷،۲ ایسی کتابوں کے نام شامل ہیں جو سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ کی گئی ہیں۔ ظاہر ہے یہ ان کتابوں کی لسٹ ہے جن کا ذکر کہیں نہ کہیں مل گیا ہے ورنہ ایسی کتابیں جو زمانے کے دست برد سے نہیں بچ پائی ہیں ان کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہوگی۔ وہ بتاتے ہیں کہ مغل عہد میں ترجمے کا کام بڑے پیمانے پر ہوا اور اکبر ہی نہیں بلکہ اس کے جانشینوں نے بھی یہ کام کرایا۔ جہانگیر، شاہجہاں اور اورنگ زیب کے دور میں ترجموں کا کام کیا گیا۔ اکبر نے تو ایک شعبہ قائم کر رکھا تھا جو ترجمہ کیا کرتا تھا۔ اسی دور میں رامائن، مہابھارت اور دیگر کتابوں میں مصوری کی گئی۔ انھیں خوبصورت رنگوں اور جاذب نظر تصویروں سے آراستہ کیا گیا۔

اردو کے ساتھ ناانصافی کیوں؟

    آزادی کے بعد ہندوستان میں ہندی کو سرکاری زبان تسلیم کیا گیا اور تین زبانوں کا فارمولا آیا۔ اس طرح ہندی کے علاوہ ایک علاقائی زبان پڑھائی جانے لگی اور انٹرنیشنل زبان کی حیثیت سے انگلش کی اہمیت مسلم تھی لہٰذا اسے بڑھاوا دینے کی کوشش شروع ہوئی۔ کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ ملک کے اولین وزیر اعظم ’’پنڈت جواہر لعل نہرو کی نظر دنیا کے حالات پر تھی اور وہ دیکھ رہے تھے کہ دنیا سے مربوط رہنے کے لئے ہمیں انگلش کی ضرورت ہے۔ اسی زبان کی مدد سے ہم ساری دنیا سے جڑ سکتے ہیں اور ہندوستانیوں کو دوسرے ملکوں میں روزگار کے مواقع مل سکتے ہیں۔ اسی لئے انگریزوں کو تو ملک سے نکالا گیا مگر انگریزی کو باقی رکھا گیا۔‘‘ ہمیں اس سے انکار نہیں ہے کہ پنڈت نہرو کا یہ فیصلہ مناسب تھا اور اسے ہم ان کی دور اندیشی پر محمول کرتے ہیں مگر اسی کے ساتھ یہ بھی سچائی ہے کہ انگلش کے آگے ہندوستانی زبانوں کی ان دیکھی بھی کی گئی اور اس کا سب سے زیادہ خمیازہ اردو کو بھگتنا پڑا۔ جو زبان ہماری تہذیب وثقافت کی اصل نمائندہ تھی، اسے بھی ہم نے دیش نکالا دے دیا اور مہاجروں کے ساتھ پاکستان بھیج دیا۔ جس کا خمیر اسی ملک کی مٹی سے اٹھا تھا اور جس کے ایک ایک لفظ سے ہندوستانیت کی بو آتی تھی اسے ہم نے وہ مقام نہیں دیا جس کی یہ حقدار تھی۔ اردو سیاست دانوں کے گھٹیا ہتھیار کے طور پر استعمال کی جانے لگی ،جو اردو والوں کی محفلوں میں پہنچ کر اس کے گن گان کرتے ہوئے نہیں تھکتے مگر جب سرکاری کرسی پر بیٹھتے ہیں تو اسے فراموش کر دیتے ہیں۔  اردو کا تعلق روزگار سے کٹا تو اسے خود اردو والوں نے بھی اپنے بچوں کو پڑھا نا بند کردیا۔ آج ایسے حامیانِ اردو بری تعداد میں مل جائینگے جو اردو کی روٹی کھاتے ہیں مگر اپنے بچوں کو اردو نہیں پڑھاتے۔ اردو کے اساتذہ، جرنلسٹ ،ادیبوں اور رائٹرس کے بچے آج اردو سے نابلد ہیں۔ اردو زبان کا سمٹتا دائرہ اور رسم الخط سے ناواقفیت صرف ایک زبان کے لئے ہی مہلک نہیں ہے بلکہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت کے لئے بھی زہر قاتل ہے۔ جنھیں ہندوستان سے پیار ہے اور اس کے کلچر سے محبت ہے انھیں اردو کی فکر کرنی چاہئے۔ ہم سنسکرت کے مخالف نہیں ہیں بلکہ حامی ہیں مگر اسی کے ساتھ اردو کو بھی اس کا حق ملنا چاہئے۔ آج سنسکرت اور جرمن کی لڑائی میں اردو کہیں غائب ہوچکی ہے اور کوئی اس کی حمایت میں آواز اٹھانے والا نظر نہیں آتا۔ ملک کی پارلیمنٹ کے بوجھل ماحول کو ہلکا کرنے کے لئے اردو کے اشعار پڑھے جاتے ہیں تو تالیاں بجتی ہیں مگر اردو کو بچانے کے لئے کوئی آگے نہیں آتا۔ آج اردو کی حیثیت طوائف کی ہوگئی ہے جس سے محبت کا اظہار تو سب کرتے ہیں مگر کوئی اسے اپنے گھر لے جانے کو تیار نہیں۔   

رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔     

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 514