donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Wazeer Azam Modi Ka Secular Card : Aakhir Sabab Kya Hai


وزیر اعظم مودی کا سیکولر کارڈ!آخر سبب کیا ہے؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


رابطہ

Email: ghaussiwani@gmail.com
GHAUS SIWANI/Facebook


    وزیر اعظم نریندر مودی ان دنوں اپنی سیکولر امیج بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔ حالانکہ کبھی ان کی کوشش تھی کہ ہندو ہردے سمراٹ  دکھائی دیں۔ آج سیکولر امیج ان کے نئے رول کی ضرورت بھی ہے۔ بھارت اور انٹرنیشنل پلیٹ فارمس پر ہرجگہ انھیں خود کو ملک کے سبھی طبقات کا نمائندہ ظاہر کرنا ہے۔ وہ جب عیسائیوں پر پورہے حملوں پر خاموش تھے تو ان کی خاموشی امریکی صدر سے بھی برداشت نہیں ہوئی اور انھوں نے ٹوک دیا۔ آج مودی پارلیمنٹ سے لے کر عوامی جلسوں تک میں سیکولر بول بول رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ گجرات میں ہندو کارڈر کھیلنے والے مودی اب سیکولر کارڈ کھیلنے میں لگے ہوئے ہیں۔ آج دنیا کی نظر بھارت پرہے، اس کے وزیر اعظم پر ہے جو ملک کی قیادت کر رہے ہیں اور اس جماعت پر بھی جس سے وزیر اعظم کا پس منظر جڑا رہا ہے۔یہی سبب ہے کہ دنیا جاننا چاہتی تھی کہ بھارت میں جو کچھ ہندتو کے نام پر ہورہا ہے اس کے بارے میں مودی کی سوچ کیا ہے؟یوں تو نریندر مودی خوب بول رہے ہیں ، ریلیوں میں بول رہے ہیں ، مٹینگوں میں بول رہے ہیں، ریڈیو اور ٹی وی پر بول رہے ہیں مگر جہاں بولنا چاہئے وہاں کیوں نہیں بولتے؟ مودی کی خاموشی بھارتی ایوان ہی نہیں بلکہ امریکی صدر کو بھی کھلی ہے۔دنیا کے معروف ترین اخبار نیویاک ٹائمس کوپسند نہیں آئی اور مغربی ممالک میں بھی اس تعلق سے بے چینی ہے۔ امریکی صدر براک ابامہ  نے بھارت میں نریندر مودی کے ہاتھ کی چائے پی اور اس کے باجود ان کے خلاف بولنے سے پرہیز نہیں کیا۔ یہاں ان کی خوب پذیرائی ہوئی ہے اور سرکار کی طرف سے اپنے مہمان کے استقبال میں جو کچھ بھی ممکن تھا کیا گیا مگر جاتے جاتے انھوں نے اس کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے ایک کچوکا لگا دیا۔ مودی جی کو امریکہ جانے کی چاہت تھی اور جب تک وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تب تک یہی آرزو کرتے رہے کہ اے کاش امریکہ کا ویز ا مل جائے مگر یہ ویزا تب ملا جب وہ سی ایم سے پی ایم ہوگئے۔ انھوں نے امریکہ کا سفر کیا جس کا چرچا امریکہ میں کچھ خاص ہوا ہویا نہ ہوا ہو مگر بھارت کے میڈیا نے اسے خوب ہائی لائٹ کیا۔ مودی نے امریکی صدر کو بھی بھارت بلا لیا اور اپنی حییثت دکھانے کی کوشش کی مگر یہ عجیب بات ہے کہ امریکی صدر پر کسی چیز کا اثر نہیں ہوا اور جاتے ہوئے وہ مودی اور سنگھ پریوار کو فرقہ پرستی سے دور رہنے کی نصیحت کرتے گئے۔ابامہ نے کہا تھا کہ بھارت جب تک فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم نہیں ہوگا تب تک ترقی کرتا رہے گا۔ اس نصیحت کا بہت برا مانا مودی اینڈ کمپنی نے مگر وہ کر بھی کیاسکتے تھے۔ ان کا بس چلتا تو ابامہ سے ایک ایک معاملے کا حساب چکاتے مگر وہ ایسا نہیں کرسکے۔ اپوزیشن کو بھی مرکز ی سرکار اور اس کے سربراہ کی کھلی اڑانے کا موقع مل گیا۔ میڈیا میں اس پر بحث ہوئی اور عوامی محفلوں میں بھی اس پر بات چیت ہوئی جس سے سنگھ پریوار اس کی سرکار دونوں کی کرکری ہوئی۔ ابھی ابامہ کی نصیحت کی تپش باقی تھی کہ ابامہ کی طرف سے دوسرا حملہ کیا گیا۔ انھوں نے نے کہا کہ بھارت میں جو فرقہ وارانہ جنون دکھائی دے رہا

ہے،اسے اگر گاندھی جی دیکھ لیتے تو انھیں شدید جھٹکا لگتا۔

امریکی صدر کے دو طمانچے

    امریکی صدر باراک ابامہ نے بھارت میں جو مذہبی رواداری کی نصیحت کی اور مذہبی خطوط پر تقسیم سے بچنے کا بیان دیا ،وہ ایک زبردست طمانچے کی حیثیت رکھتا ہے۔ سفارت کی زبان بہت نپی تلی ہوتی ہے اور اس لحاظ سے بھارت کی موجودہ سرکار کو امریکہ کی طرف سے یہ ایک بڑا جھٹکا کہا جائے گا۔ ابامہ نے دوسراطمانچہ امریکہ واپس جاکر مارا یہ کہہ کر کہ بھارت میں کچھ دن سے جو فرقہ وارانہ جنون سامنے آیا ہے اسے اگر مہاتما گاندھی نے دیکھا ہوتا تو انھیں تکلیف ہوتی۔ اس سے صاف طور پر ان کا مطلب ان ایشوز کی طرف تھا جو ان دنوں سنگھ پریوار کی طرف سے اٹھائے جارہے ہیں جن میں سب سے خاص ہیں ’’گھرواپسی‘‘ اور’’ لوجہاد‘‘ جیسے ایشوز۔ اسی کے ساتھ دلی میں پچھلے دومہینوں کے اندر گرجا گھروں پر حملے کے پانچ واقعات بھی سامنے آئے ہیں، جن کے بارے میں سرکار کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ یہ چوری اور حادثے کے واقعات ہیں مگر عیسائیوںکی طرف سے انھیں مذہبی منافرت کا معاملہ بتایا جارہا ہے۔ امریکی صدر نے اپنے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ بھارت کے قانون کے مطابق ہر شخص کو اپنی مرضی کے مطابق اپنے مذہب پر عمل کرنے کا اختیار حاصل ہے اور اسے اس حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے آئین ہند کی دفعہ ۲۵کا حوالہ بھی دیاکہ اس کے تحت تمام لوگ برابر ہیں اور سب کو برابر قانونی اختیارات حاصل ہیں ۔ ہر کسی کو اپنے مذہب کے پرچار کا بھی اختیار ہے۔ آئین مساوات کا حق دیتا ہے اور اس سلسلے میں کسی قسم کا بھیدبھائو نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ابامہ کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ ان دنوں جو ملک میں ’’گھر واپسی‘‘ کے نام پرہنگامہ آرائی کی جارہی ہے اس سے مغرب پریشان ہے اور اسے فکر لاحق ہے کہ مودی کی قیادت والے ملک کا کیا حال ہوگا؟

نیویارک ٹائمس کا اداریہ

    براک ابامہ کے بیان کی مزید تشریح نیویارک ٹائمس کے ادارایے میں کی گئی اور یہ بتایا گیا کہ بھارت میں پھیل رہے فرقہ وارانہ جنون سے دنیا بھر میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے۔ ’’پراسرار خاموشی‘‘ کے نام سے لکھے گئے اداریے میں اس عالمی اخبار نے کہا ہے کہ مودی کو اس پر اپنی خاموشی توڑنی چاہئے۔ بھارت میں اقلیتوں پر ہورہے حملوں اور مذہبی عدم برداشت پر انھیں چپ نہیں رہنا چاہئے۔ اخبار نے سوال کیا ہے ملک میں مسلمانوں اور عیسائیوں کو پیسہ دے کر اور زبردستی ہندو بنایا جارہا ہے اور وہ خاموش کیوں ہیں؟کیا وہ ان فرقہ پرستوں سے لڑ نہیں سکتے یا انھیں کنٹرول کرنے کی ہمت ان کے اندر نہیں ہے؟ اداریے میں مزید کہا گیا ہے کہ عیسائیوں کے مذہبی مقامات پر حملے ہورہے ہیں اور انھیں زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے مگر جو شخص پورے ملک کے عوام کا نمائندہ ہے اور جس کے اوپر ان کے حقوق کی حفاظت کی ذمہ داری ہے وہ سامنے کیوں نہیں آیا؟ اخبار یہ بھی کہتا ہے کہ مودی نے ملک کی ہمہ جہت ترقی کا وعدہ کیا تھا مگر یہاں حالات کچھ اور ہی رخ اختیار کررہے ہیں۔

اب مودی نہیں جیٹلی بولے

    امریکی صدرباراک ابامہ نے دو دو بار مودی کو سوالوں کے گھیرے میں لیا مگر اب تک انھوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اسی

طرح نیویارک ٹائم کے اداریئے پر بھی وہ خاموش ہیں۔ ابامہ کے بھارت دورے کو مودی اپنی بڑی کامیابی مان رہے تھے مگر یہ یہ کامیابی مہنگی پڑ رہی ہے۔ مودی کا یہ دائو انھیں کے خلاف پڑ گیا ہے۔ امریکہ کی طرف سے جو سوال اٹھائے جارہے ہیں ان کا جواب مودی نے تو نہیں دیا بلکہ ان کی طرف سے وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی رواداری کی مثال یہ ہے کہ ابامہ اور دلائی لاما ساتھ بیٹھے تھے۔ چین دنیا بھر کے رہنمائوں سے دلائی لامہ کے ملنے پر آنکھیں دکھاتا ہے حالانکہ دلائی لامہ ۱۹۹۵ء سے بھارت میں رہ رہے ہیں۔ جیٹلی کا کہنا ہے کہ بھارت میں مذہبی رواداری کی تاریخ رہی ہے اگر کوئی واقعہ یہاں ناخوشگوار رونما ہوجاتا ہے تو رواداری کی تاریخی اہمیت کم نہیں ہوجاتی۔              

مغرب کو غصہ کیوں آیا؟

    بھارت میں فرقہ ورانہ جنون کی طویل تاریخ ہے۔ آزادی کے بعد یہاں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے بڑے دنگے ہوتے رہے ہیں جن میں عموماً فرقہ پرستوں کے نشانے پر مسلمان رہے ہیں۔ اب تک بے شمار افراد اس مذہبی جنون کی نذر ہوچکے ہیں مگر شاذونادر ہی کبھی انصاف ہوا اور فسادیوں وظالموں کو سزا ملی۔ گجرات کے مسلم فسادات ہوں یا ممبئی کی خونریزی، بھاگلپور کے دنگے ہوں یا میرٹھ کی نسل کشی۔ بابری مسجد کی شہادت ہو یا دوسری مسجدوں پر فرقہ پرست جنونیوں کے حملے، کبھی امریکہ یا کسی مغربی ملک نے آواز نہیں اٹھائی۔ آج اگر امریکی صدر اور مغربی میڈیا اور عیسائی ممالک کے رہنمائوں کو بھارت کے تازہ فرقہ وارانہ وارداتوں پر تشویش ہے تو صرف اس لئے کہ یہاں اس بار عیسائی بھی نشانے پر ہیں اور ان کے مذہبی مقامات کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔ بھارت کے فرقہ پرست جو کچھ کر رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ ان ممالک میں امریکہ اور اس کے حواریوں نے کیا ہے جہاں انھوں نے دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے نام پر قبضہ جمایا یا اپنی کٹھ پتلی سرکار بنائی ہے۔ ان دنوں بھارت میں ہندتو وادیوں کی طرف سے ’’گھر واپسی ‘‘کے نام پر عیسائیوں کو ہندو بنانے کی کوشش ہورہی ہے۔ عیسائی مشنریوں کو آزادی کے ساتھ کام کرنے نہیں دیا جارہا ہے اور راجدھانی دلی میں کئی چرچوں میں آگ لگانے اور ان کی بے حرمتی کے واقعات ہوئے ہیں جنھوں نے امریکہ ہی نہیں تمام مغربی ممالک کو پریشان کردیا ہے۔ ابامہ کے بیان ایک ایک پس منظر یہ بھی ہے کہ امریکہ میں چرچ آج بھی سیاست پر حاوی ہے۔ سیاسی لیڈران کو الیکشن فنڈ دینے کا کام بھی چرچ کی طرف سے ہوتا ہے نیز کئی مغربی ممالک میں عوام سے چرچ کے لئے ٹیکس لیا جاتا ہے جس کا استعمال ساری دنیا میں عیسائیت کے فروغ کے لئے کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ابامہ پر اس قسم کے بیان کے لئے چرچ کی طرف سے دبائو بھی تھا۔ مستقبل میں اس معاملے میں اگر پوپ کا بیان آئے تو کسی کو حیرت نہیں ہونا چاہئے۔

مودی پر ساری دنیا کی نظر

    کہا جاتا ہے کہ ’’بد اچھا بدنام برا‘‘ مودی اور سنگھ پریوار کی ساری دنیا میں کچھ ایسی امیج ہے۔ ان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے دنیا کی نظر انھیں پر ہے جو دیکھ رہی ہے کہ نوے سال سے یہ لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں ،کیا اب اس پر عمل بھی کریں گے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بھارت کے لئے خطرناک ہوگا۔ خود مودی گجرات دنگوں کے لئے مورد الزام ٹھہرائے جاتے رہے ہیں اور فرضی انکائونٹرس کے لئے ان کی

سرکار سوالوں کے گھیرے میں رہی ہے، ایسے میں ان کی طرف دنیا کی نظر کا ہونا لازمی ہے۔ آج وقت اور ھالات نے انھیں سیکولرزم کا لبادہ اڑھا دیا ہے مگر دنیا اس کے پیچھے کی حقیقت کو خوب جانتی ہے۔

(یو این این)

*************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 344