donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Teeshae Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Yaum Ashura Par Tashaddud Aur Imam Hussain Ka Paighame Aman


یوم عاشورہ پر تشدد اور امام حسین کا پیغام امن


تحریر:  غوث سیوانی، نئی دہلی


    محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو ملک کے کئی صوبوں میں تشدد کے واقعات ہوئے جن میں کم از کم تین افراد کی موت ہوگئی اور بہت سے لوگ زخمی ہوئے۔ جو مالی نقصان ہوا اور عام شہریوں کو تکلیف اٹھانی پڑی، وہ اس سے الگ ہے۔بہار، جھارکھنڈ، اتر پردیش اور مدھیہ پردیش میں متعدد جگہوں پر ہنگامہ آرائی ہوئی اور تشدد پھوٹ پڑا۔ بہار کے مدھوبنی سے تشدد اور ہنگامے کی خبریں آئیں تو جھارکھنڈ میں کئی جگہوں پر تشدد کے واقعات ہوئے۔ ہزاری باغ ضلع میں یوم عاشورہ پر دو دھڑوں کے درمیان پُرتشدد جھڑپیں اور فائرنگ میں ایک شخص کی موت ہو گئی، وہیں بھیڑ کو قابو میں کرنے کے لئے پولیس کو ہوائی فائرنگ کرنی پڑی۔ باہمی جھڑپ کے دوران غیرسماجی عناصر نے 10 گاڑیوں کو آگ کے حوالے کر دیا۔ نصف درجن پولیس اہلکار وںسمیت درجنوں افراد زخمی ہو گئے۔ یونہی ٹکم سانڈی تھانہ علاقہ کے چھڑوا ڈیم کے قریب لگے میلے میں دو گروپوں کے درمیان جھڑپ نے شدید واقعہ کی شکل لے لیا۔ الزام ہے کہ یہاںجلوس کے دوران ایک کمیونٹی خاص کے لوگوں نے مبینہ طور پر دوسرے فرقے کے مذہبی مقام کے کام میں رکاوٹ ڈالی۔ اس سے ناراض دوسرے گروہ کے لوگوں نے بھی جلوس پر پتھراؤ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا علاقہ میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا۔تنازعہ کے دوران ہجوم نے نصف درجن چار پہیا گاڑیوں، دو موٹر سائیکل اور دو سرکاری گاڑیوں کو آگ کے حوالے کر دیا۔ بھیڑ کو کنٹرول کرنے کے لئے پولیس کو طاقت کا استعمال کرنا پڑا۔ پہلے لاٹھی چارج کیا گیا اور بعد میں صورتحال نہیں سنبھلنے پر آنسو گیس اور پھر ہوائی فائرنگ کی گئی۔ اس واقعہ میں اے ایس آئی محمد جاوید سمیت نصف درجن پولیس اہلکاروں کے بھی زخمی ہونے کی خبر ہے۔

     اطلاعات کے مطابق اتر پردیش میں ہوئے تشدد میں قنوج میں ایک اور سدھارتھ نگر میں ایک شخص کی موت ہو گئی جبکہ دو پولیس والوں سمیت کئی افراد زخمی ہوئے ہیں۔اتر پردیش کے ایڈیشنل پولیس ڈائریکٹر جنرل دلجیت چودھری کے مطابق، کئی سال بعد درگا مورتی وسرجن اور محرم ایک ہی دن اور ایک ہی وقت پر پڑے۔ ہم نے تمام 75 اضلاع میں دونوں جلوسوں کے راستوں کو لے کر بندوبست کر لی تھی لیکن قنوج، فتح پور، کانپور، کشی نگر اور سدھارتھ نگر میں کچھ واقعات ہو گئے۔

    کانپور میں ہنگامہ اور فساد کا سبب ایک پوسٹر کو قرار دیا گیا ہے۔ خبروں کے مطابق ایک مذہبی پوسٹر پھٹنے کے بعد دو فرقوں کے درمیان شروع ہوئی تناتنی نے تشدد کا روپ لے لیا جسے کنٹرول کرنے کے لئے کرفیو لگانا پڑا۔ شہر کے کئی علاقوں میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ۔ معاملے کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ نے 12 اضلاع سے اضافی فورس بلائی۔ اطلاعات کے مطابق فضل گنج علاقے میں ایک مذہبی بینر پھٹنے کے بعد ایک کمیونٹی کے لوگوں نے دوسرے فرقہ کے لوگوں کا مذہبی جلوس روکنے کا اعلان کر دیا۔ پولیس اور انتظامیہ کی لاکھ مشقت کے بعد بھی جب وہ موقع سے نہیں ہٹے تو پولیس کو انہیں تتر بتر کرنے کے لئے لاٹھی چارج کرنا پڑا۔مظفرنگر کے جانسٹھ علاقے میں محرم کے جلوس سے پہلے شیعہ کمیونٹی کے دو گروپوں میں تصادم ہو گیا۔افسروں نے دونوں دھڑوں کے درمیان فورس لگا کر جلوس نکلوایا۔جب کہ مدھیہ پردیش کے گوالیار میں محرم کے جلوس کو لے کر ہنگامہ ہوگیا اور تشدد پھوٹ پڑا ۔

    ایک زمانے کے بعد ایسا ہو اتھا کہ اس سال یوم عاشورہ اور دسہرہ ایک ہی ساتھ پڑے تھے اور اس بات کے امکانات تھے کہ تشدد اور ٹکرائو کے واقعات پیش آئیں۔اس کے لئے پورے ملک میں خصوصی انتظامات کئے گئے تھے اور کئی جگہوں پر مسلمانوں نے سمجھداری کا ثبوت دیتے ہوئے ٹکرائو سے بچنے کے لئے جلوس نہ نکالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ویسے جب محرم اور دسہرہ ساتھ نہیں پڑتے ہیں تب بھی یوم عاشورہ پر تشدد کے واقعات اور موتوں کی خبریں آتی رہی ہیں۔ خاص طور پر بہار اورا ترپردیش اس معاملے میں بدنام رہے ہیں۔ یوم عاشورہ کو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے لئے بھی جانا جاتا ہے اور تعزیہ، علم و تابوت کے جلوس اسی کی یادگار کے طور پر نکالے جاتے ہیں مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کی حضرت امام عالیمقام رضی اللہ عنہ کا پیغام امن ہے، تشدد نہیں۔آپ نے کربلا جاتے ہوئے مدینہ منورہ سے کربلا تک متعدد جگہوں پر خطبے دیئے ، جن میں امن کی تعلیم تھی اور ٹکرائو سے اجتناب کی بات کہی گئی تھی۔یہاں تک کہ میدان کربلا میں بھی آپ نے جو خطبے دئے ان میں جو پیغام بار بار دہرایا گیا تھا وہ پیغام امن ہی تھا۔ایسے میں اسے محبت حسین نہیں کہا جاسکتا کہ ایک طرف تو ہم یاد حسین منانے کی بات کریں اور دوسری طرف بدامنی اور تشدد کے لئے سبب فراہم کریں۔ ہندوستان میں اگر یوم عاشورہ کی ماضی کی تاریخ دیکھیں تو بار بار ایسے واقعات رونما ہوئے ، جب مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں ٹکراتے رہے اور اس بار بھی بعض جگہوں پر ایسے واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔ ایسے میں ہم خود کو امام عالیمقام کا پیروکار کیونکرکہہ سکتے ہیں اور ان سے محبت کا دم کیسے بھرسکتے ہیں۔ ہم بدامنی میں یقین رکھتے ہیں جب کہ امام پاک کی قربانی کا مقصد ہی تخریب کار اور تشدد پسند یزید سے نجات دلاکر دنیا میں امن قائم کرناتھا

اسی مقصد کو زندہ یادگار کربلا سمجھو
حسین ابن علی کی زندگی کا مدعا سمجھو     


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 519