Register
|
Sign in
Bazme Adab
Design Poetry
Afsana
E-Book
Biography
Urdu Shayari
Mazameen
Audio
Urdu Couplet
Popular Video
Search Ideal Muslim Life Partner At www.rishtaonline.org , A Muslim Matrimonial Portal, Registration Free.
Site
Halim Sabir
Index Page of Shayari
Biography of Halim Sabir
--: Shayari by Halim Sabir :--
Total Shayari of Halim Sabir : 605
پڑھوں میں کلمۂ رب لَا اِلٰہَ اِلَ¡
مرے لبوں پہ رواں لَا اِلٰہَ اِلَّ
ہے وجہِ خیر و برکت صل علیٰ محمدؐ
برکت کا ہے سبب لکھ صل علیٰ محمدؐ
چھوڑ دنیا کا جھمیلا اب خدا کا نام ل
ترے خیال کو دل سے کبھی مٹا نہ سکے
ہو محروم کیوں مہرِ تصدیق سے
کروں پیش اور کیا میں کہ ثبوت کیا یہ
یوں تو ہونے کو ہوئے منصفِ دوراں کت
جو پارسا ہیں وہ ہرگز نہ پارسا ہوتے
محوِ حیرت ہے فلک انساں یہاں تک آگئ
ملگجے اُجالوں کو روشنی نہیں کہتے
میرے حسن تکلّم سے بھی میرا پڑوسی ج
خلافِ شرع نہ وہ کوئی کام کرتا ہے
وہ اُس زمیں پہ جو پہنچے کہ جس زمیں ک
اپنا حصہ چھیننے کو مستعد تھے
کرشمات قدرت کے ظاہر نہ ہوتے
عیش و عشرت کی پناہوں میں رہے
سیکڑوں داستان رکھتی ہے
چھت گرپڑی مری در و دیوار گر پڑے
جلے تھے دشتِ جہاں میں رہِ عدم میں ج
عشق بیچین دل کو بھلا کیا کرے
یہ کام کرتے کوئی اور کام سے پہلے
ابھی تو روشنی ہے دن تمام ہونے دیجئ
کسی تیرِ محبت کا نشانہ ہو بھی سکتا
یقیں تیری وفائوں پر نہ کیوں اے مہر
غموں کا تذکرہ بھی کیوں نہ خوش ہوکر
مشکلیں اتنی پڑیں مشکل کشا لائے گئ®
لمحہ لمحہ نو بہ نو کی جستجو کرتے رہ
جو ہے کمزور طاقت کے مقابل بیٹھ جات
کاغذی گل میں گلوں کی خو کہاں سے لائ
دیارِ صبح کے دَر تک ابھی نہیں پہنچ
نئی راہوں پہ چلتے تو نئے کچھ ہمسفر
تلاطم کے تھپیڑے کھاتے کھاتے اُوب
زمیں سے نکل پڑے کہ آسماں سے آگئے
ضیا سورج سے ہوتی ہے چراغوں سے بھی ہ
تعداد میں قلیل تھے گنتی کے چند تھے
انصاف کی نگاہ سزا تک ہی کیوں رہے
جس دیئے میں تیل کم ہو وہ بھلا کب تک ج&
ہماری مدح خوانی ہی اگر مداح کرتے
سکون و عافیت اُس کو نہ کیوں نصیب رہ
راہ چلتا وہ کیوں نہ رک رک کے
جب طبیعت اُداس ہوتی ہے
وہ مظلوموں سے اظہارِ تاسف اور کیا
عطا زمیں کے بدن کو لباس کرتی ہے
دریچے کھولے گئے جو ذرا اُجالوں کے
زندگی تھی قرض گویا قرض پر جیتے رہے
نوائے وقت کو اِس درجہ محترم کردے
جو شخص اچھے بُرے کی تمیز رکھتا ہے
کسی کو کردے قد آور کسی کو پستہ قد کر
مرے ہونٹوں میں جنبش ہو رہی ہے
اُنہیں سے داد کی امید کرتے
اگر ہم بھی شہرت کمانے میں مصروف ہو
نہ بے خودی نہ خودی کا سراغ چاہتی ہے
جینے کے لئے اب نئے دستور بنیں گے
ہزارہا داستانِ عالم بیاں کریں ہم ª
رنگ اُن میں نمایاں تھے جذبات کے
جس قدر آگے بڑھے ہم طے سفر ہوتے گئے
جذبۂ عشق مرا حد سے سوا ہوجائے
تیر کو بھاری لگے تلوار کو بھاری لگ
برس رہی تھی سر پہ دھوپ چند سائبان ت
نظر سے چُھپ کے نظر میں رہے تو اچھا ہ
اک نئے ماحول کے سانچے میں ڈھالیں گ
ستم پر ترے صرف کیوں آہ کرتے
سنبھل کر پائوں رکھ پانی بہت ہے
نئی نئی تو داستاں کہی گئی سنی گئی
ضروراُن کے مقا بل آندھیاںرکھ دی گ
منظرِ ہستی سے کٹ کر رہ گئی ہے زندگی
شام سے پہلے رات ہوئی
تھی اضطرابِ دل میں کمی اور بڑھ گئی
عہدِ رفتہ کی روایت نہیں رہنے دے گی
وہ صورت بظاہر تو پیاری لگی
ہر غم قبول کرلیا میں نے خوشی کے سات
اپنے کانوں کو ہشیار رکھ
صدا جو بارِ سماعت ہو کان پر مت رکھ
کون کیا کہتا ہے اُس پر دھیان رکھ
پڑیں گے اُس پہ نہ ہرگز کبھی زوال کے
جو اُس صدی کا مسئلہ وہ اِس صدی کا مس
کھلے گا عشق کا ایک ایک باب آہستہ آہ
روشنی اُس میں جمع کیونکر ہو
جناب و حضرت و عزت مآب بکتے ہیں
حرم َسرا نہ شبستاں پسند کرتے ہیں
دل منافق جیسا ہم رکھتے نہیں
حوصلہ دل میں جو کم رکھتے نہیں
بصد خلوص ہم یہ اہتمام کرتے آئے ہیں
سفر سے قبل ہم سمتِ سفر بھی دیکھ لیت
مسئلے حل کئے بن چھوڑ دیئے جاتے ہیں
زمین چاہے ہزج کی ہو یا رمل کی زمین
عجب تیور یہ اُن کے چاک دامانوں کے ل
شدتِ غم سے اب آنسو بھی ٹپکتے کم ہیں
کام جو ہمارا ہے صبح و شام کرتے ہیں
ہمارے ذہن میں جب وسوسے تحریک پاتے
قصیدے جو کتابِ مصلحت میں پائے جات®
ہم اُس کے ہاتھ کے پتھر کو دیکھیں
سنا تھا ہم نے بچپن میں کہ چوری چور ک
ایسی جنبش ہوئی چشمِ غمّاز میں
مگن تھے بے خودی میں سب خودی کو پوچھ
دیکھو کیا دیتا ہے وہ میری دعا کے ہا
وہی پیشِ نظر کردی گئی ہیں
رہینِ سنگِ در کردی گئی ہیں
ڈر کے اہلِ ستم سے لکھتے ہیں
عارضی اِسکو ٹھکانہ کیوں نہ سمجھیں
اُنہی کی بات پہ ہم اعتماد کرتے ہیں
اصولِ عدل سے وہ انحراف کرتے ہیں
چلو کہ بزم مسرّت کا انعقاد کریں
وہ آئینہ جو کبھی بن سنورکے دیکھتے
ذہن پر دبائو کا حال کیا کہیں
جبینِ صبح پر اُبھرے تو آفتاب تھے ہ
درِ منزل پہ ہوتا ہے سفر ختم
سنے جاتے ہیں غمِ عشق کے افسانے کم
اے قلم تخئیل کے گوہر اُچھال
دنیا میں ہر جگہ تو نہیں ہے چہل پہل
جسے بھی دیکھئے ہے صبح و شام میں مشغ
اِس طرح بنائیں نئی صنعت کے اصول
کان پھاڑ دیتے ہیں چند پل کے شور و غل
میرے دامن میں ہے کہکشانِ غزل
جنگ تو ہے جنگ چاہے گرم ہو یا سرد جنگ
تیرے گھر میں آگ لگے یا میرے گھر میں
بجھانے کو دلِ رنجور کی آگ
چھپائے گی ملمع سازی اُس کی اصلیت ک
تمہارے رہنما سو قافلہ ایک
ابھی باقی ہے اُجڑے دل کی رونق
شمع کی لَو پر ہے پروانے کا حق
بھول بیٹھا ہے وہ اخلاق و محبت کا سب
تنہا رہِ حیات میں کیا رہ روی کا لطف
جو رخ خدا کی طرف ہے تو دل صنم کی طرف
پھڑک اے چشمِ غمّازِ تصوّف
چل پڑی کیا اک ہوا میرے خلاف
ہے وہ ہر خاص و عام سے واقف
ہیں جو مشہورِ جہاں تیرے ذرائع ابل
لمحہ لمحہ پگھل رہے تھے چراغ
جب بھی مے کشی ہوئی اذنِ عام سے شروع
نکالا کرو آنے جانے کا موقع
اب تو ہے ہر شے میں جدّت کا لحاظ
چلا میں گھر سے تو اُس نے کہا خدا حاف
شہر سے وہ بھیجتا رہتاہے اکثر خط
آپ نے سمجھا غلط یا ہم نے سمجھایا غل
اِس قدر تیز چلی گردشِ ایام کی نبض
پھر رہے ہیں ہاتھ پھیلائے ضرورت کے
کچھ راستے ہیں اہلِ حرم کے لئے مخصو
ہوا سارے جہاں کا حال ناقص
کرے نائو کیونکر کناروں پہ رقص
کوئی ہلکی کوئی بھاری خواہش
خوب ہے گرمیٔ بازارِ ہوس اب کے برس
چل کے دو چار قدم ہوگا تھکن کا احساس
لیلیٔ فن کو دیئے نغز بیانی کے لباس
ہوئے پھر خنجرِ ظلم و ستم تیز
دن کو ہے اپنی روشنی پر ناز
پیڑ امرود کے جامن کے ہوں یا آم کے پی
ٹوٹتا ہے کبھی انسان پہ یوں غم کا پہ
کس طرح ہوتا وہاں ہم سب کا ذکر
آسان راستوں کے سفر کا ہے لطف اور
رنگِ تہذیب و ادب سے جو تھی عاری تصو
قرمزی ، سبز ، سنہری چادر
دیکھا اُنہیں بحالتِ غربت زمین پر
لگتا ہے قاتلوں کے دہن کو بڑا لذیذ
خوبصورت تری تحریر معطرّ کاغذ
ڈرتے نہیں ہیں دیکھ کے ہم جنگ کا محا
اِس طرح ہوگئے پونجی میں خسارے گڈم§
مل گئے خاک میں سب ابرہہ کے فیل کے جھ
ہو جینا تو حیاتِ جاوداں ڈھونڈ
وہ ہوئے جور و جفا کے پابند
بن گیا پیوندِ خاکی خاک میں گڑنے کے
ہوئے پیچھے ، آگے نکلنے کے بعد
چھوٹ گئے برسات میں دیوار و در کے پی
ہوگا جب دن کی طرف رات کا رخ
غرض کی دوستی کا ہے مزہ تلخ
ِچپکے رہے زمین سے ہم جھیل کی طرح
کیوں کہیں ہم بھی آجکل کی طرح
میرے بھی تو اصول ہیں اُن کے اصول کی
دشمنوں کے وار سے بچ
آہ بے کار نہ کھینچ
آنے والے کل کے سوچ
چاہے دہلی کے ہوں یا لاہور کے رسم و ر
جہاں میں تیز تشدّد کی آندھیاں ہیں
جو توانگر ہے وہ رکھتا ہے توانگر کا
حد سے جب بڑھ جائے تو بن جاتی ہے تکرا
جوشے تھی لطف سامانی کا باعث
کچھ تو ہے مجھ میں کمی کا باعث
کھڑکی ، دروازہ ، بانس ، چھپر بانٹ
کوئی بکتا ہو اگر دن رات جھوٹ
میرے رفیق یوں نہ لگا دل پہ سخت چوٹ
نہ سن پائوگے فرزانوں کی آہٹ
کر پاتے نہیں فیصلے شاہوں کے بیانا
سکوں سے بیٹھتے کیا شور و شرنے دی نہ
دیکھتا ہے اُنہیں حیرت سے زمانہ چپ
جگمگائی اُن کے بام و دَر کی دھوپ
پرکھ کر دار سے صورت سے مت ناپ
سائباں ہو سر پہ کوئی ہے یہ ہر َسر کی &
اہلِ حق بھی آگئے اب اُن کی محفل کے ق
چہرگی ، بے چہرگی کا کرب
رہِ وفا میں قدم کو سنبھال کر رکھنا
ہونٹوں پہ ترے آج تبّسم بھی نہیں تھ
جب سے ہم نے صبر کرنے کا تہیہّ کرلیا
شہرتیں اَوروں نے پائیں ، نام اَور
سلسلہ اُن سے ملاقاتوں کا پھر تازہ
یہ لوگ ہیں کیسے کہ جنہیں غم نہیں ہو
اخبار مشرق کے کارکناں
مشتاقِؔ دربھنگوی
اُس میں ہو کیوں کھوٹ
حسنینِ صدیقی
دن بھر اکبر علی
افسانہ ہارون
اک ہیں شہاب الدین
مولانا رضوان
مشتاق احمد حامیؔ
اک ہیں ظہور انور
اب توقیر عالم
باتوں میں ہے مٹھاس گفتگو حنا ناز ک
میڈم نیلوفر
گوشۂ نسواں
ہیں جو شرف الدین
عشرت ایم اے کرکے
بھائی شمس الدین
منجھلے بھائی نسیم
اک ہیں تمنا پروین
روبینہ احمد
کہنے لگی ہیں نازؔ
اک ہیں نغمہ نگار
اک ہیں ثریا پروین
اب شہناز اسلام
اب کوثرؔ پروین
دیدی ممتا بنرجی
ہیں شہنازؔ نبی
معروف ہستیاں
کاتب ہیں مشہور
اک ہیں فضل الحق
کرکے قومی خدمت بن گئے محمد سلیم اب
اک ہیں معین الدین
ہیں جو شکیل انصاری
ڈاکٹر اک ہیں عمر
اک ہیں وسیم ریاض
آتا ہے رشک اُن پر
ہیں جو نشاط عالم
ایسے بزرگ ہیں چند
اپنے جیوتی بابو
یوسف تقیؔ ایسے بامِ ادب پر بیٹھے ہ
ساکنِ علم آباد بن گئے ہمایوں جمیل
اک ہیں ندیم احمد
اب نسیم فائقؔ کرتے ہیں پیش اپنی با
شعر ہیں اُن کے گرم لیکن نیر اعظمی ہ
ہیں سائنس کے ٹیچر لکھتے ہیں نورال¬
شہر ادب کے پیر
لہجے میں ہے دھار
فکر اُن کی ہے جوان
اُن کی ہے اردو محفل
اتنا ٹیڑھا نام محسن باعشن اور حسر
ساکنِ شہر ِ سخن
کیونکر مشتاق انجمؔ
آج مصطفیٰ اکبر بن کے معتمد حاوی ہی
ہیں جو مظفرؔ حنفی
ہیں جو کلیم آذرؔ
ہیں جو کمال احمد ان کے ڈرامے پھاند
کیف الاثر استاد ہیں کتنے شاگردوں ª
قیصرؔ فن ہیں شمیم بوجھ ہے ناظورۂ س
ہیں فیاض انور لیلیٔ فن کے آنچل کا
ہے ہر صنف سے پیار
دو متفرق قد آدھے شاعر پورے حکیم
کیوںنہ ہو اُن کا نام
بر صفحاتِ بلال علی اعظم خاں قادری
بن کے صورت گر رکھتے ہیں عمران راقم
ہیں وہ سخنور بیشک
ہیں عرفانؔ رشید حسنِ غزل کے شیدائ®
اب عشرت بیتاب رکھتے افسانوں کے
طرز سخن ہے ظاہر ہیں عاصم شہنواز شب
علقمہ شبلیؔ کا علم وادب کے گنبد پر
اک ہیں ظہیر انور جن کے قلم سے ہے آبا
شاعری اور نقابت ہیں ضمیر یوسف کے ل
کیوں شہباز نسیم اپنی نثری نظموں ک
ذہن پہ دے کے بار کہتے ہیں شاکر ندیم
اک ہیں شوخ لطیفی
لکھتے ہیں شمشیرؔ
ہیںشفیق شایاں جن کی دکاں اب لگتی ہ
شعر و سخن کی بدولت
اک ہیں شاہد ساز
ہیں جو شمیم انور ہے اُن کا ’’اجنبی خد&
خوش ہیں سحر مجیدی
اک ہیں سہیل ارشدؔ
کہتے ہیں دن رات بھائی سفیرالدین ک
ہیں افسانہ نگار پھربھی سعید پریمی
سالکؔ لکھنوی اب عمر طبیعی کو پہنچ®
ہیں جو زاہد امرؔ
کون انہیں پہچانے جب ریاض دانش لکھ
کیوں نہ دکھائیں شان
پیچیدہ اشعار کہہ کے رئیسؔ اعظمِ ح®
رونقِؔ فن ہیں نعیم ہے بنگال کی مٹی
دیکھ کے رنگِ زمانہ
شعر و سخن کی سیج
جمشید عادلؔ کی تان سن کے کھنچ جاتی
گھر ہے سخن آباد
سب کو ہے یہ خبر ہیں فدا جہانگیر کاظ
تنویرؔ صہبائی شہر ادب کی گرم فضا
آج بلندؔ اقبال کرتے ہیں غزلوں میں
ہے یہ سخن کدہ
ایم ایچ شاکر رضوی
گول مول تحریر ہے اقبال قریشی کی
کرلیں گے تیار اشرفؔ احمد جعفری اب
انجمؔ ٹیٹاگڑھی بزم سخن میں آتے ہی¬
نہیں کسی سے کم
جلد احمدؔ معراج حاصل کرنا چاہتے ہ
جم کر پڑھتے ہیں انورؔ بارہ بنکوی ک
آج ارمؔ انصاری طنزومزاح کی منڈی ک®
سب کو کہاں نصیب
کیوں نہ بٹوریں داد
مثلِ زلفِ خمدار
اشرفؔ یعقوبی شعر میں ظاہر کرتے ہی¬
فکر کو پانی کرکے
کچھ نکتے ایجاد کر کے ابوذرؔ ہاشمی
انجمؔ عظیم آبادی مل گئی ان کی نظمو
شہرِ فن کے مکیں آج اویس احمد دوراں
چلتے ہیں تن کے احمدسعید ملیح آباد®
تیسرا باب
خوش خو، خندہ جبیں
طرز اُن کا تھا خوب
پیارو، کالو قوال قوالی کی دنیا می
مولانا رزّاق چرخ صحافت کے خورشید
مفتی سلیماں تھے نازشِ ملت وفخر وط
اچھے شاعر تھے ماسٹر عبدالرحیم پری
حاملِ فکر و نظر کہتے تھے اختر حسین
کہتے تھے وہ غزل ہوئے اثر ابراہیمی
یوسف بخشی آہ ہوگئے رخصت دنیا سے
راحتؔ کلکتوی جن کے شعر وسخن کا ذکر
بخشے اُنہیں اللہ عبداللہ غازی اٹھ
چرخِ ادب کے بدر اک بدرِ صدیقی تھے
اک شاعر تھے رضاؔ
حاجی نورؔ قریشی
شاعرِ خوش طینت ہوئے نعیم الدین فض
قیصراورنثار دونوں تھے سلطان پور ک
وہ بھی آہ! اٹھے
ارشد الاعظمی آہ ہوگئے رخصت دنیا س®
اشرفؔ چنگیزی شعر گوئی میں کرتے تھ®
خواجہ متین اسلمؔ
اک تھے نشاطؔ سعید جن کے سخن کی کرتے
شاعرِ نکتہ سنج گزرے فگارؔ عظیم آب
مضطرؔعظیم آبادی جن کے دم سے تھی آب
موجِؔ شاکری اب چھوڑ کے دنیائے فان
رمزیؔ شاہ آبادی تھے جو شاعر کہنہ م
شاعر تھے مشہور ارمانِؔ شامِ نگری
کھا گئی بیماری تھے جو غلام حسین ای
محرمؔ، سوزؔ، سحابؔ شہر سخن میں آج
گونڈہ کے احساسؔ اپنے خون سے جس نے ب
شہر ادب کا نصیب ل احمد اکبر آبادی
شمس الدین عازم
اک تھے عطا کریم
تھے جاوید نہال
کیوں نہ ہو افسوس اُن پر
جسٹس خواجہ یوسف
تھے غواصؔ قریشی
آتی ہے ان کی یاد
قوسِؔ حمزہ پوری
تھے واجد علی شاہ
کرلے من کو لال
خوب مزے کی بات
’’سو جا ہوگئی رات‘‘
ختم نہ ہوگا کام
ہندستانی گیت
یاد انہیں بھی کر
جب محنت کی دھوپ
ریل کا پہیہ گھوما
چاندنی شب پیاری
وقت پہ کام آیا
اچھی نہیں لگتی
کیسے کیسے لوگ
ہائے رے بربادی
صبح سویرے جاگ
سور ج ڈوب گیا
خطرے سے اُوپر
نیتائوں کی شان
اب کیوں ہیں چپ چاپ
جس کے من میں پاپ
دل سے نکال دے ڈر
آوارہ بادل
من میں پھوٹے دھان
میرا پیارا گائوں
چھائی گھٹا گھنگھور
کون پڑھے لاحول
ہادیٔ اعظم آپؐ
نام محمدؐ خوب
اللہ خالق ہے
باقی ہے اللہ
فوت اگر ہو کوئی لیڈر
ہے وہ نمائش گاہ کی زینت
سناٹے میں جب وہ گھیرے
جب بھی اُس کو بھوک ستائے
دور کرے وہ پھیکے پن کو
جب بھی سجے شادی کی محفل
ہوتی ہے جب گولہ باری
جشنِ طرب کی بزم جہاں ہو
اچھائی پر پردہ ڈالے
پڑتا ہے جب اُس کا سایہ
نظروں پر وہ جادو کردے
کوئی پتھر اُس پہ اچھالے
دو انجان دلوں کو جوڑے
پیچ و خم کا ہے وہ پیکر
سب کو ہنسانا کام ہے اُس کا
اُس کی رسائی ہر محفل میں
رنگ انوکھا اُس کا بھائے
اُس کی ناک ہے سب سے لمبی
اُس کے اندر ہے اچھائی
لے جائے وہ مجھ کو در در
دیکھنے میں لگتا ہے چھوٹا
جب وہ بھیانک روپ دکھائے
فصلِ نو کی رُت جب آئے
مجھ پر اپنا رنگ جمائے
برف کی ٹھنڈک اُس کے اندر
تھام لے جب وہ میرا دامن
راہِ عمل میں ساتھ رہا وہ
خوشبو بن کے وہ لہرائے
اپنا جلوہ مجھ کو دکھائے
باہر سے میں گھر جب آئوں
مل جائے جب اُس کو غازہ
جب کوئی پیغام وہ لائے
اُس کا مکھڑا چم چم چمکے
میں تھی سولہ برس کی کنیا
ہے وہ میرے حسن کا زیور
میرے انگنا جب وہ آئے
سولہ سالہ جب سے لاگا
سردی سے جب تن من کانپے
سچائی سے اُس کو رغبت
ساری دنیا کو وہ نچائے
اُس کا اثر جب مجھ پر چھایا
الجھن سے پُر اُس کا دامن
ٹوہ میں اُس کی رہتے ہیں سب
رحم نہیں ہے اُس کے دل میں
گھوڑے کو رکھے قابو میں
بن بادل برسات کرے وہ
سارا دن وہ کرے ہنگامہ
ہے وہ میرا دشمنِ جانی
ہوتی ہوں میں جب محفل میں
رابطہ اُس سے جب کٹ جائے
چہرہ اُس دم تن جاتا ہے
جتنا پائے نا وہ کرے نا
چھوٹی چمپاؔ اور چنبیلیؔ
گہرے کنوئیں سے بھردے پانی
اُس کے بن لگتا ہے مجھے ڈر
اُس کی پیاری رنگت سوہے
ہے وہ میرے حسن کی زینت
بن کے نیا جب وہ آتا ہے
جب وہ میرے دل میں سمائے
شور سے اُس کے میں گھبرائوں
کردوں خود کو اُس کے حوالے
جوڑے کسی کے کب جڑتا ہے
بن کے دلہن سسرال جب آئی
لے کے مجھے وہ چل پڑتا ہے
اُس کا کھیل نرالا سب سے
جب وہ کبھی حد سے بڑھ جائے
اُس کا سارا انگ ہے سونا
جب وہ گیا تو پھر نا آیا
مجھ کو بٹھا کر وہ لے جائے
دیکھا اُس کو بیاہ سے پہلے
جب بھی اُس کو یاد کروں میں
جب بھی میرے ہاتھ وہ آیا
گہری نیند میں جب کھو جائوں
چہرہ اُس کا نور کا ہالہ
کھیلے وہ میرے گھونگھٹ سے
میرے بدن سے جب وہ لپٹے
نرم ملائم انگ ہے اُس کا
میں اُس کی بانہوں میں جھولوں
دیکھ اُسے پیاسا من جھومے
میرے گلے میں اُس کی بانہیں
میری کمر وہ تھامے کس کے
سردی میں تن کو گرمائے
صبح کو اُس کی فکر کروں میں
ہونے لگی جب میری سگائی
میرے لبوں کو جب وہ چومے
جب وہ لپٹے میرے تن سے
چھائی جب بھرپور جوانی
دیکھ اُسے سنگار کروں میں
حسن کو میرے وہ نکھرائے
میرے جینے کا ہے سہارا
ہیرے کی مانند وہ چمکے
جب وہ چھوئے تو تھر تھر کانپوں
جی چاہے آنکھوں میں بسالوں
اُس کو سینے سے لپٹائوں
گورے گورے گال کو چومے
اُس کو فلمستان میں دیکھا
آمد جب اُس کی ہوتی ہے
جیت کے جنگ وہ جب آتا ہے
ہے وہ ماہرِ شیوہ بیانی
روز بنام ہادیٔ اعظم
کرکے بیاں فرمانِ الٰہی
یہ لوگ ہیں کیسے کہ جنہیں غم نہیں ہو
اک ذرّہ اُس کے سامنے میرا وجود تھا
ہمارا ہم نشیں جو بد گماں ہونے سے پہ
پھر ہم کو احتیاط سے چلنا بھی آگیا
پھول گلدان میں پھر نیا رکھ دیا
تجھ پہ قرباں جان و تن جب کہہ دیا تو ک&
مجھے بے خانماں کرکے پشیماں وہ نہ ی
دیکھا اُسے جس دم تو یونہی میں نہ ڈر
کوئی گوشہ ہو اُجاگر نور کا
مدتوں بعد خبر میری وہ پاکر رویا
میں بدلتے ہوئے حالات پہ اکثر رویا
وہ زندگی سے کبھی دُور ہم کو کردے گا
اپنی بربادی کا منظر دیکھ کر ہنستا
اُسی کو سارا زمانہ سلام کرتا تھا
دل توانگر کا ہو کہ مفلس کا
بفضلِ خدا مسئلہ حل ہوا
عالم الغیب تو
ہر طرف روشن جہاں میں شمعِ وحدت ہوگ
تجوریوں میں بھرے مال تھے امیر کے پ
چلو کچھ اور ذرا دور چل کے دیکھتے ہی
دردِ دل باقی رہے دردِ جگر باقی رہے
دریا کو تیز بیچ کا دھارا بھی چاہئے
انہیں کے سامنے ہم شکوۂ بیداد کرتے
غیروں کی دیوار پہ ہر گز مت رکھئے
آپس میں گلے ملنے ملانے کا چلن تھا
لگی تھی آگ شعلے کیوں نہ اٹھتے میرے
کہیں قریب کہیں دُور سے چمکتا ہے
دیارِ کہکشاں ہے خوبصورت
لے کے پتوار ہانپتا ہے وہ
آسماں کے رخ پہ نورانی جھلک آجائے گ
جانے کیا غم تھا اُسے آج وہ اتنا روی
رہے اندھیرے میں وہ روشنی میں آ نہ س
اِس بات پہ روئے کبھی اُس بات پہ روئ
یوں کبھی آپ کے احسان ہوا کرتے ہیں
مکاں بنائے تھے جنہوں نے اینٹ جوڑ ج
خوں بہا کے نام پر جب سر نکالے جائیں
وہ جب مٹانے لگے تیرگی کے داغوں کو
رہِ حیات سے گزر کے دیکھ لو
بوقتِ صبح جو دی مرغ نے بانگ
میدانِ عمل میں کہیں دو چار نظر آئے
فسردہ شوقِ سفر بھی ضرور اُس کا تھا
گائوں کی برسوں پرانی جانی پہچانی
پیڑ کو شکوہ ہے بادل سے کہ جل دیتے نہ
مانا تجھے میں نے کبھی دیکھا تو نہی
یہ کشمکش ہے حکایت دل بیاں کروں میں
یوں جلائو دیئے گھر بھی روشن رہے
کیسے عزت مآب تھے وہ لوگ
عکسِ دلگیر کہاں سے لاتے
اپنی فطرت بدلتا نہیں
بادِ صرصر کے مقابل وہ بھلا کب تک جل
اگر وہ نہ یوں زندہ مدفون ہوتا
کیسے بتائوں میری کہانی کہاں کی ہے
سرخیٔ لالہ و گل صحنِ چمن کی زینت
مجھے نصیب سے جو کچھ ملا بہت کچھ ہے
ہر تھکا ہارا مسافر اپنے گھر تک آگی
یہ زخم زخم جو مرہم دکھائی دیتا ہے
سوکھے پتّوں سے گلستاں کو سجایا جا
پیشِ آئینۂ ہستی رخِ زیبا لائو
کسی انسان کی تذلیل کا ساماں نہیں ک
ابتو کشتی سے ندی پار وہی جائیں گے
فسانۂ عجائبات سن کے رو پڑے
رستے پہ گرا کون تھا چل کر نہیں دیکھ
ہم اسیرِ گیسوئے جانانہ بن کر رہ گئ
مجھ پر جو اُن کی چشمِ عنایت ہے آجکل
رہائی دیتی اگر فکرِ روز گار کبھی
عروسِ فن کے گیسوئے وصال میں الجھ گ
اب کہاں کرتا ہے کوئی قصرِ سلطانی ک
کہتے ہیں وہ خدا کی قسم روٹھ جائیں گ
کہتے ہیں وہ خدا کی قسم روٹھ جائیں گ
اٹھی سب کی تلوار چاروں طرف سے
خاکساری اسے نہیں کہتے ہر جگہ اپنے
عنایتوں کا ذکر ہے نوازشوں کا دور ہ
سمٹ کے رہ گئی اہلِ جہاں کے حصّے میں
مری شمعِ وفا جب سے جلی ہے
کسی کے آگے ، پیچھے ، درمیاں بت
خوشنما اونچے مکانوں کے مکیں ہوجائ
مجبور ہیں جہاں میں سبھی اپنے حال پ
جبکہ شامل ہوگئی باہر کی بات
اُس کو بھی اسیرِ شبِ غم دیکھ رہے ہی
صحنِ گلشن کی رعنائیاں لے گئیں
کبھی عروج کبھی ہے زوال پر سورج
قرض کا بوجھ بڑھتا رہا
اُڑتی ہے کوئی نہ کوئی بات اکثر شہر
بھولے بسرے ہوئے غم یاد آئے
سونی سونی نظر آتی ہے یہ محفل یارو
بڑے قرینے سے ہرشے سجا کے رکھتا تھا
کتنے موضوع کو تحریر نہ دے پائے ہم
کاغذ کی ردا اوڑھ کے بارش میں کھڑا ت
مرنے دو چارہ سازو دوائیں مجھے نہ د
کوئی تہمت لگا دینا کوئی الزام لکھ
زندگی میں خوشنما آثار لے آئیں گے ہ
کرو وہ کام کہ زندہ رہو مرنے کے بعد
جل رہی ہے شمعِ دل اور روشنی ملتی نہ
سنائیں کس کو رودادِ ستم اپنی زمان®
ہم حقیقت سے کریں صرفِ نظر ممکن نہی
وہ مجھے منزلوں کا پتا دے گئے
کیا غلط کہہ دیا کیا برا کہہ دیا
کسی کو نہ تکلیف پہنچے کسی سے
کبھی دریا ابل بھی سکتا ہے
وہ سمجھتا نہیں باپ کے حال کو
دل و نظر کو مرے چاہے جو شکار کرے
کچھ لوگ اہلِ حق کے طرفدار بھی رہے
نائو تھی بیچ میں
جب میں گھر سے نکل پڑا تنہا
جو کھاگئے شکست وہ ذلت اٹھائیں گے
میرے شکوے میں اثر ہو یہ ضروری تو نہ
بے خودی حد سے گزرجائے تو ہوتی ہے غز
شروع ہم سے وہ جب چھیڑ چھاڑ کر دیتے
قصّۂ دل سنا کے دیکھ لیا
دیکھے اشکوں کے جو تارے ترے رخسارو¬
وہی مقبول ہوتا ہے
اُنہیں ممتا نے آنچل میں بڑے نازوں
اُنہیں ممتا نے آنچل میں بڑے نازوں
بستی میں فلک بوس مکاں لائے گئے ہیں
ہم کہیں اپنی ساری بات کسے
گلشنِ آفاق کا منظر سہانا دیکھ کر
ہم نفس ، ہمراز ، ہمدم ، ہم زباں بن کر
گرفتِ عقل سے آزاد دیوانوں کو رہنے
دن رات نہیں صبح نہیں شام نہیں ہے
کبھی غم نے دل کو دیا سکوں تو خوشی نے &
نظر نے جذبۂ الفت کا احترام کیا
کسی کی لاش پڑی ہے کہیں کفن کے لئے
اشک آنکھوں میں بھرے ہوں تو ٹپک جات
نام اِس میں آپ کا بھی آج شامل ہوگیا
Total Visit of All Shayari of Halim Sabir : 164282