donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Abdul Alim Aasi
Poet
--: Biography of Abdul Alim Aasi :--

 Abdul Alim Aasi 

Abdul Alim Aasi(1919-1984) was a well known historical Urdu poet of Bihar, belongs fro Darbhanga.  He used unique diction for his remarkable expressions regarding life and society.

 

حسن امام درد
 امیر منزل قلعہ گھاٹ،دربھنگہ
 
’’لباس مجازِ‘‘
 
 (مولانا عبد العلیم آسی کی تلاش میں) 
 
حضرت مولانا عبد العلیم آسی کے انتقال پر ملال کے چند ہفتے بعد اکتوبر 1984 ء میں ایک تعزیتی جلسہ ملت کالج دربھنگہ کے احاطے میں ہوا تھا۔ اس میں اپنی یاد داشت سے میں نے ایک معلوماتی مضمون پیش کیا تھا۔ اس جلسے میں کالج کے اساتذہ کے علاوہ شہر و نواح کے دانشور خاصی معلوماتی مضمون پیش کیا تھا۔ اس جلسے میں کالج کے اساتذہ کے علاوہ شہر و نواح کے دانشور خاصی تعداد میں موجود تھے اور متعدد اصحاب علم نے مولانا کے علمی ، سیاسی اور سماجی کارناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے غم و اندوہ کا اظہار کیا تھا جن میں اویس احمد دوراں کی تقریرجامع اور پر تاثیر تھی۔وہیں شرکاء میں جناب مجاز نوری بھی موجود تھے، انہوں نے وہ مضمون مجھ سے لے لیا اور ’’ رفتار نو‘‘ دربھنگہ (۱۹۸۵ئ) میں ایک ماہ بعد شائع بھی کر دیا۔ میں نے اس مضمون میں مولانا کی تاریخ پیدائش ۱۹؍ نومبر ۱۹۱۴ء لکھی ہے۔ لیکن اس کے بعد تذکرہ’’ بزم شمال‘‘ مرتبہ شاداں فاروقی جو ۱۹۸۶ء میں شائع ہوا، جس میں تاریخ پیدائش ۱۳۳۸
ھ/۱۹۱۹ء درج ہے۔ بہر حال اس کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔
 
اس طرف مولانا کی الماری سے منتشر کاغذات کی صورت میں ان کی شعری اور نثری تخلیقات کا ایک ذخیرہ حاصل ہوا ہے۔ انہیں کی روشنی میں یہ چند سطریں میں ان کی حیات اور تخلیقات پر پیش کر رہا ہوں۔ ویسے راقم السطور کا تحقیقی مضمون متھلا اور ادب’ مطبوعہ نقاش‘ کلکتہ ، عید نمبر ۱۹۴۶ء ، ظہیر ناشاد کی کتاب ’ ’ دربھنگہ میں اردو۔۱۹۸۶ء ‘‘ تذکرہ علماء بہار مرتب مولانا ابو الکلام قاسمی شمسی ۱۹۹۵ء اس کے علاوہ مظہر امام مضمون’’ دربھنگہ میں اردو صحافت’’ مطبوعہ تمثیل نو‘‘ شمارہ۔ ۱ دربھنگہ(مارچ  تا مئی۔۲۰۰۱ئ) اکمل یزدانی جامعی کا مضمون کھگڑا میلہ مشاعرہ ۱۹۵۵ء مطبوعہ تمثیل نو شمارہ۔۳،( ستمبر تا دسمبر۲۰۰۱ء ) رپورٹ ساتھی، پٹنہ ۱۵؍ فروری ۱۹۵۵ء ) ساتھ ہی ایل این متھلا یونیورسٹی میں دربھنگہ کی تہذیبی ، ادبی صحافتی اور سیاسی حالات پر ریسرچ اسکالر س نے جو مقالے پیش کئے ۔ ان سبھوں کو دیکھنے کے بعد میری معلومات میں کوئی اہم اضافہ نہیں ہوا۔ مولانا آسی کے کاغذات پر نظر ڈالنے کے بعد ان کی حیات پر جو روشنی پڑتی ہے وہ اس طور پر ہے۔
 
 مولانا صرف تین ماہ کے تھے جب ان کے والد مولوی علیم الدین صدیقی، مختار کا انتقال ہو گیا۔ اس لئے کم عمری میں ہی ماں نے بیٹے کی تعلیم و تربیت کے لئے مولانا کے نانا شاہ ارشاد علی کے پاس موضع نیانگر فرداہا بھیج دیا۔ مولانا شاہ ارشاد علی ، فضلائے روز گار میں تھے۔ مولانا آسی نے ان سے اکتساب علم میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اردو فارسی میں اچھی دستگاہ حاصل کر لی اور پھر دار العلوم مشرقیہ حمیدیہ میں تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ کر ۱۳۵۰/۱۹۳۱ میں عالم کا امتحان پاس کیا۔ پھر ۱۹۳۳ء میں مدرسہ شمس الہدیٰ سے فاضل اور پھر عربی میں پٹنہ یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور بہار و اڑیسہ میں اول آکر گولڈ مڈل حاصل کیا۔تعلیم ہی کے دوران مولانا آسی آزادی کی تحریکوں میں حصہ لینے لگے۔ اور اپنے ساتھ بہت سے طلباء کو ’’ خراب‘‘ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ پٹنہ میں قیام کے دوران بڑے قومی لیڈروں سے ارتباط پیدا ہوا۔ ان میں ڈاکٹر راجندر پرساد ، مولانا مظہر الحق ، مولانا شفیع  دائودی، اچاریہ کر پلانی، ڈاکٹر سید محمود ، پروفیسر عبد الباری اور اس دور کے متعدد آل انڈیا لیڈرس جو پٹنہ آتے جاتے رہتے تھے کو آسی صاحب کی طرف متوجہ کیا۔
 
 تعلیم کے بعد شانتی نکیتین یونیورسٹی بول پور ( بنگال) میں عربی ، فارسی اور اسلامیات کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ چند سال بعد مولانا ابو الکلام آزاد نے کلکتہ میں انہیں اپنا لٹریری سکریٹری مقرر رہے۔ مولانا آزاد کی اسیری کے بعد پروفیسر عبد الباری نے جمشید پور بلایا۔ وہاں سے گاندھی جی کے لئے بھیجے گئے۔ یہاں حصول معاش کے لئے مسلم ہائی اسکول دربھنگہ میں ہیڈ مولوی کے عہدہ کو قبول کیا۔ لیکن 1942 ء میں مسلم ہائی اسکول کی ملازمت سے اس الزام کے تحت برطرف ہوئے کہ مسلم طلباء کے ذہن کو پراگندہ کر رہے ہیں۔
 
اس زمانے میں سوشلسٹ پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی بھی آل انڈیا کانگریس کے گروپ تھے۔ اور مولانا کا رجحان بائیں بازو کی سیاست کی طرف تھا۔ اس لئے ادب کی ترقی پسند تحریک سے عملی وابستگی رہی اور اسٹوڈنٹ اور کسان مزدور موومنٹ کی بھی رہنما یانہ کردار ادا کر تے رہے۔ انہی دنوں 1940 ء میں دربھنگہ بہار صوبائی اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا اجلاس مقامی کنگس پارک میں ہوا۔ جلسے کا افتتاح کرنے پنڈت جواہر لعل نہرو آنے والے تھے۔ لیکن کسی نا گزیر مجبوری سے نہ آسکے۔ بہر حال جلسے کی صدارت، صدر آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن مقیم الدین فاروقی نے کی او رجلسہ کے صدر استقبالیہ رام نندن مشر تھے۔ مولانا آسی نے یہاں بڑی پر جوش تقرر کی تھی۔ منچ پر دوسرے لیڈروں کے ساتھ مولانا آسی اور انصار ہر وانی جلسے کی کارروائی چلا رہے تھے۔ اس وقت بی زیڈ مائل والینٹرس کے لیڈر اور سید منسوب حسن منچ پر دوسرے لیڈروں کے ساتھ مولانا آسی اور انصار ہروانی جلسے کی کارروائی چلا رہے تھے۔ اس وقت بی زیڈ مائل والینٹر س کے لیڈر اور سید منسوب حسن منچ کے کارکن ۔ بہر حال یہ جملہ معترضہ تھا۔ لیکن اس سے مولانا آسی کے کردار کی جھلکیاں اجاگر ہوتی ہیں۔
 
۱۹۳۲ء کی جنگ آزادی میں آسی صاحب دوسرے کارکنوں کے ساتھ گرفتار ہو کر نظر بند ہوئے۔ رہائی  بعد 1945 میں دیش رتن ڈاکٹر راجندر پرساد نے صداقت آشرم میں اپنا پرائیوٹ سکریٹری مقرر کیا۔ اس عہدے کے علاوہ 1945-46  میں کانگریس مسلم ایکشن بورڈ کے سکریٹری مقرر ہوئے۔ بورڈ کے ذمہ پورے صوبہ بہار میں کانگریس امید واروں کی تنظیم اور ان کو کامیاب کرنے کے لئے اثاثہ مہیا کرنا تھا۔ بورڈ کے صدر پروفیسر عبد الباری تھے۔
 
ملک کا بٹوارہ ہوا، دیسی حکومتیں بنیں۔ فسادات کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوا۔ کانگریس کئی حصوں میں تقسیم ہوئی۔ خود کمیونسٹ پارٹی اور سوشلسٹ پارٹی کے کئی ٹکڑے ہوئے۔ پرانے قومی خدمت گار دنیا سے اٹھ گئے یا خانہ نشیں ہو گئے۔ مولانا بھی بد دل ہو کر عملی سیاست سے الگ ہو گئے۔ لیکن ادبی فرنٹ پر ہمیشہ متحرک رہے۔ انجمن ترقی اردو انجمن ترقی پسند مصنفین ، سماجی خدمات، سنجیدہ مضمون نگاری اور شعر و شاعری سے ہمیشہ دلچسپی یتے رہے۔
 
  سماجی اور ملی خدمات کے سلسلہ میں چند باتیں کہہ دوں ، مولانا آسی کی مساعی سے انجمن خدام ملت ، دربھنگہ میں قائم ہوا۔ اس کا دستور اساسی مولانا ہی نے لکھا تھا۔ اس انجمن کی کار گذاریوں سے بہار خصوصاً دربھنگہ کے عوام کما حقہ واقف ہیں۔ انجمن ابنائے قدیم ، مدرسہ حمیدیہ قلعہ گھاٹ دربھنگہ کا اجلاس منعقد کیا اور اسی جلسہ میں انجمن کا قیام 22 جون 1973 ء کو عمل میں آیا۔ آل انڈیا سیرت کانفرنس کے قیام اور اجلاس 1945 ء کا تذکرہ سطور بالا میں کر چکا ہوں، درس گاہ اسلامی، جسے مولانا آسیؔ کے عزیز مولانا ضیاء الہدیٰ اصلاحی نے 1969 ء میں قائم کیا تھا۔ اسی کی سرپرستی کرتے رہے۔ دو سال بعد قدامت پرست علماء کی سازش سے درس گاہ کو اپنا مقام بدلنا پڑا، تو آسی صاحب نے اپنا دروازہ مع برآمدہ و صحن درسگاہ کو دے دیا۔ بعد میں پرانی منصفی کی مسجد سے متصل اپنی کچی عمارت میں منتقل ہو گیا۔ اور آج ما شاء اللہ اس کی اپنی پختہ عمارت ہے اور متعدد درجوں میں کل ملا کر 325  طلبا اور طالبات ہیں۔
کل ہند اردو کانفرنس جو فروری 1958 ء میں دہلی میں ہوا تھا جس کا افتتاح پنڈت جواہر لعل نہرو نے کیا تھا۔ خطبہ استقبالیہ کرنل زیدی نے اور مولانا ابو الکلام آزاد نے اردو کے سلسلہ میں تقریر کی تھی۔ اس میں مولانا آسی بھی ایک ڈیلی گیٹ کی حیثیت سے شریک ہوئے تھے۔ وہاں جانے والوں میں ایک صاحب نے مولانا آزاد سے آسی صاحب کی گفتگو کا تذکرہ کیا تھا۔ مولانا آزاد نے آسی صاحب کو دہلی بلوایا تھا۔ اور قرآن شریف کے متن کی تنظیم و ترتیب اور قرآن کی مختلف آیات میں باہم مناسبت اور موافقت کو مد نظر رکھ کر ایک نئے ڈھنگ سے تفسیر لکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ لیکن چند دن بعد مولانا آزاد قضا کر گئے۔ لیکن مولانا آسی نے اس کام کو جاری رکھا اور دربھنگہ میں رہتے ہوئے ان کا زیادہ وقت قرآن شریف پر غور و خوض کرنے میں گذرنے لگا۔ قرآن شریف کے جتنے بھی اہم تراجم اور تفسیریں دنیا میں لکھی گئی ہیں سبھوں کو کھنگال گئے۔ ایک قرآن شریف کے ہر صفحے کے ساتھ سادے کاغذات لگا کر پھر سے جلد بندھوائی اور اس پر لکھنا بھی شروع کر دیا۔ لیکن موتیا بند آجانے سے آنکھوں سے مجبور ہو گئے۔ مولانا نے مجھ سے کہا تھا کہ آئندہ جاڑے میں علی گڑھ جا کر آنکھ کا آپریشن کرائیں گے اور اس کے بعد تفسیر کو مکمل کریں گے۔ لیکن عمر نے وفا نہ کی اور 23 ستمبر 1984 ء کی صبح قضا کر گئے۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔
 
مولاناآسی سے میں بہت قریب رہا ہوں ۔ یادوں کے پرے کے پرے ذہن پر حملہ آور ہیں۔ لیکن اس صحبت میں اس کی پذیرائی نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ یہ مضمون نہ سوانح حیات ہے نہ مولانا کے منتشر و منظوم تخلیقات پر نقد و نظر، بلکہ یہ ایک مختصر تعارف ہے وہ بھی اپنے مشاہدے اور یاد داشت سے۔ یہاں جو بھی بڑے جلسے ہوتے رہے ہیں ان میں اکثر کا خطبہ صدارت / استقبالیہ مولانا کا ہی لکھا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ مولانا کے یساسی مسلک کے بعض مخالفین کے جلسوں کا خطبہ بھی آسی صاحب کے رشحۂ قلم کا نتیجہ ہے۔ صرف آل انڈیا سیرت کانفرنس جس کا اجلاس 20 تا 27 اپریل 1945 ء  میں ہوا تھا اور جس کے صدر استقبالیہ مولانا آسی تھے۔ اس کا خطبہ ان کے اپنے نام شائع ہوا۔ اس کے علاوہ انہوں نے بہت سارے مضامین بھی قلمبند کئے۔ جن میں شاد اور ان کی شاعری، اردو زبان، مسجد عید النبی  دہلی کی بین الاقوامی حیثیت، العلم اور چند مطبوعہ سیاسی کتابچے، مسلمان دربھنگہ اور پارلیامنٹری الیکشن ’’ 1972 ء اور ہمارا بہار ( ہندی) جو رام گڑھ کانگریس 1940 میں پڑھا گیا۔ اس کے علاوہ ایک تحقیقی کتاب ’’ مدارس اسلامیہ ہند کا ماضی و مستقبل کا مسودہ بھی موجود تھا۔ جس کا تذکرہ بابو محمد اسحاق انصاری کے خطبہ استقبالیہ میں ہے۔ یہ خطبہ مدرسہ امدادیہ دربھنگہ کے طلباء کے دستار فضیلت کی تقریب منعقدہ 1844 ء میں دیا گیا تھا۔
 
شاعری کے تعلق سے کچھ باتیں عرض کردوں ۔ مولانا نے طرحی معاشروں میں اپنے کلام کے ساتھ شرکت کی 1929 ء سے ہی شروع کردی تھی۔ اس زمانے سے حالیہ دور تک کی غزلوں کا اچھا سرمایہ ان کے لائق فرزندوں کی ایما پر مولانا کے کاغذات کی چھان پھٹک کی پہلی کوشش سے حاصل ہوا ہے۔ لیکن ان موسم زدہ اور کرم خوردہ کاغذات کے صاف کرنے اور ان کی ترتیب و تدوین میں وقت لگے گا۔ اس کے علاوہ ’’ ہمالیہ ‘‘ دربھنگہ جون تا ستمبر 1941 ء جس کے ادارہ تحریر میں مولانا آسی بھی تھے۔ مولانا کا بڑا پردرد مرثیہ شائع ہوا تھا اور بھی بہار اور ملک سے شائع ہونے والے متعد جریدوں میں مولانا کی نثری اور شعری تخلیقات شائع ہوئی ہیں۔ لیکن ابھی ان تک ہماری رسائی نہیں ہے۔
 
مولانا کی شاعری کاخاص رنگ نظموں میں  جھلکتا تھا۔ جلسوں اور مشاعروں میں ( طرحی مشاعروں کو چھوڑکر) موقع کے لحاظ سے اپنی نظم ہی پیش کرتے تھے۔ ویسے یہاں مشاعرے اکثر ہوا کرتے تھے اور اس زمانے میں نو مشق شعراء مولانا سے اصلاح لیا کرتے تھے۔اصلاح کے نام پر بیشتر مولانا کو خود ہی غزل کہنی پڑتی تھی۔ پھر ان کی فرمائشیں بھی مختلف ہوا کرتیں۔ کوئی لکھنوی طرز کی غزل چاہتا تو کوئی دہلوی انداز کی مولانا سب کی خواہشیں پوری کرتے۔ جس سے مولانا کی قادر الکلامی ثابت ہوتی ہے۔ وہیں یہ بھی ہے کہ خود اپنی غزل پر وہ انہماک اور توجہ مبذول نہ کر سکے۔ جس سے تغزل کا روپ نکھرتا ہے۔ ویسے نظم کی طرف ان کی توجہ زیادہ تھی۔ عربی، فارسی اور اردو تینوں زبان میں بڑی کامیاب نظمیں لکھی ہیں۔ 
 
(بشکریہ: ڈاکٹر امام اعظم)
 

 

 
You are Visitor Number : 2210