donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Abdul Bari Aasi
Poet
--: Biography of Abdul Bari Aasi :--

 

 عبد الباری آسی 
 
خود نوشت
 
 میرا نام عبد الباری ۔ تخلص آسی، ابن منشی خلیفہ حسام الدین احمد حسام تلمیذ مرزا غالب، ابن مولوی شیخ خدا بخش عاجز ابن شیخ عبد الحکیم عاشق عرف میاں نتھن معاصر و ہم جلیس میر تقی میر مرحوم الدن ضلع میرٹھ تحصیل ہاپور مولد ہے۔ ۱۸۹۳ء قصبہ مذکورہ میں جو شرفاء کی ایک بہت قدیم بستی ہے پیدا ہوا۔ اور ۱۸۹۸ء میں میرا سلسلہ تعلیمی شروع ہوا ۔ ابتدائی کتابیں اپنے والد سے پڑھیں ۔ فارسی کی تکمیل مولوی حافظ برکت علی سے کی اور عربی کی سید سراج احمد صاحب سراج مرحوم سے مولانا محمود حسن صاحب محدث دیو بندی سے بھی بعض کتب حدیث و فقہ کا استفادہ کیا۔ ۱۹۰۸ء میں دہلی میں حکیم نواب جان مرحوم سے کتب طب پڑھیں اور ان کے مطب میں نسخہ نویسی بھی کرتارہا۔ ۱۹۱۰ء میں شاہجہاں پور میں دو برس تک فارسی پڑھانے پر مامور رہا۔ ۱۹۱۲ء میں اس سے جی گھبرا گیا تو دفتر اخبار ہمدرد دہلی مولانا محمد علی کے یہاں کام کرتا رہا جس زمانہ میں جالب صاحب اس کے ایڈیٹر تھے میں وہیں تھا ۱۹۱۴ء میں ہمدرد کی مالی حالت نہایت نازک صورت اختیار کر چکی تھی اس لئے وہاں سے دل برداشتہ ہو ا اور ۱۴ دسمبر ۱۹۱۲ء کو لکھنو چلا آیا اور اب تک یہیں ہوں۔
 
میری شاعری کی ابتداء کسی ترغیب و تشویق کی ممنون احسان نہیں ہوئی بلکہ اس وقت سے جب کہ میں انشاء خلیفہ و مادھورام وغیرہ پڑھتا تھا ۔ شوق کی آگ دل میں لگی ہوئی تھی تااینکہ ایک روز کہیں جاتے ہوئے یہ شعر خود بخود موزوں ہو گیا۔
 
 کیا تم نے زخمی کیا دل ہمارا
 بڑا تیر مارا بڑا تیر مارا
 
یہ واقعہ غالباً ۱۹۰۴ء کا ہے۔ اس کے بعد قریب قریب روز شعر کہتا رہا اور ۱۹۰۶ء تک بغیر کسی تخلص کے مشق سخن جاری رہی۔ ایک روز ایک دوست نے صلاح دی کہ تم عاصی تخلص رکھ لو۔ اتفاق سے اسی زمانہ میں مولانا سید سراج احمد صاحب مرحوم نے مشق سخن کرانا شروع کی۔ کوئی طرح دیدی اور اس پر سب کو طبع آزمائی کا حکم دے دیا۔ چنانچہ پہلی طرح یہ تھی۔
 
ع مسافر ہے تو عقبیٰ کا ارے نادان پردیسی
 
اس پر میں نے بھی شعر کہے جو اس وقت مجھے یاد نہیں۔ اب یہ بات چھپنے والی نہیں رہی تھی۔ اس موزوں طبعی کی میر ے والد مرحوم کو بھی خبر ہو گئی۔ وہ خود فارسی اور اردو کے خوشگو شاعر تھے۔ اگر پدر نہ تواند پسر تمام کند۔ انہوں نے ایک بار یہ طرح دی
 
ع اٹھائو گٹھری سنبھالو بستر کہ رات اب کچھ نہیں رہی ہے
 
میں نے غزل کہہ کر سنائی ۔ خوش تو ہوئے مگر کہا کہ ابھی بہت کمی ہے۔ اس کے بعد کبھی کبھی کسی شعر پر اصلاح دیتے رہے۔ میں بیشتر فارسی کے دیوانوں اور اپنے پردادا مرحوم کا دیوان دیکھتا رہا ۔ اس وقت نہ اس ضخیم مجلد کتاب کی بھی مجھے کچھ زیادہ قدر تھی، نہ ان کے کلام سے کچھ زیادہ لطف اندوز ہوتا تھا۔ بلکہ اس کے حواشی کی عبارتیں دیکھ کر مزہ آتا تھا۔ کہیں لکھا تھا کہ یہ غزل میر تقی میر کی غزل پر کہیں اور میر صاحب کو سنائی۔ میر صاحب نے اس کی بڑی داد دی ۔ کہیں یہ تھا کہ میر صاحب نے میری غزل اس غزل پر کہی اور میری غزل سے اچھی نہ کہہ سکے اور میں نے ان کے اس شعر پر اعتراض کئے کہیں قائم کی ملاقات کا حال ۔ کہیں سودا کی بات چیت ، غرض فارسی کے دیوانوں اور اس دیوان کو اپنا رہبر بنا رکھا تھا۔ان کے بعد سب سے پہلے اردو میں مرزا غالب کا دیوان پڑھاتا اینکہ ۱۹۱۰ء میں مولانا سید ابو الحسن صاحب ناطق سے ملاقات ہوئی ۔ مولانا میرے عزیز قریب بھی ہیں اسی وجہ سے ان کی ہمشیرہ کی شادی میں شرکت کے لئے گیا تھا۔ وہاں روز و شب شعر و شاعری کا چرچا رہا اور مولانا کا یہ شعر سن کر :
 
اب اس کو کیا کرے کوئی اگر تم کو نہ باور ہو
 بتو کہتا تو جاتا ہوں مسلماں ہو تو کافر ہو
 
میں اس شعر کو سن کر ایسا وارفتہ ہوا کہ مولانا سے اصلاح کی استدعاء کی۔ مولانا نے از راہ مہر بانی منظور فرمایا اور سب سے پہلے میرے تخلص میں اصلاح فرمائی۔ یعنی عاصی کے بجائے آسی تجویز کیا۔ اور اس کے بعد ۱۹۱۴ء سے ۱۹۱۵ء تک اپنا کلام ان کو دکھاتا رہا۔ بعد کو مولانا نے اتنا دل بڑھادیا کہ جس پر مجھے بذات خود ناز ہے اس حساب سے شاعری کے تین خانوداوں سے فیضیاب ہواہوں۔
 
مولانا سید سراج احمد صاحب سراج مرحوم ، تلمیذ میاں یزدانی میرٹھی ، مولانا منشی شیخ خلیفہ حسام الدین احمد صاحب حسام تلمیذ مرزا غالب مرحوم مولانا سید ابو الحسن صاحب ناطق تلمیذ مرزا داغ اس میں میں نے اس بات کو خود نظر انداز کر دیا ہے کہ میں نے براہ راست دو غزلوں پر داغ مرحوم سے بھی اصلاح حاصل کی جو شاید اب بھی میرے پاس محفوظ ہیں۔ مگر اصل استفادہ صرف ناطق صاحب کی ذات سے حاصل کیا۔
 
 میں نے تو شاعری کے مختلف مشاقوں اور مختلف اسکولوں کا اتباع کیا ابتداء میں ناسخ کے رنگ پر بہت سی غزلیں کہیں۔ بعد ہ اس کی قباحتیں ذہن نشیں ہوئیں تو مولانا حالی کے رنگ میں شعر کہے۔ ایک زمانے میں یہ سودا ہوا کہ ہر شہر میں کوئی محاورہ نظم ہونا چاہئے۔ ایک زمانے میں ایہام و تناسب مرغوب طبع رہا۔ جس کی مولانا ناطق نے تنبیہی الفاظ میں سخت ممانعت کی۔ اس کے بعد مرزا داغ کے رنگ میں نہایت رنگین اور روز مرہ میں ڈوبے ہوئے شعر کہنے لگا۔ اور ۱۳۔۱۴۔۱۵ء کی غزلیں قریب قریب سب اسی انداز کی ہیں۔ مگر ۱۹۱۴ء میں لکھنو آگیا اس وقت یہاں انجمن معیار کا زور و شور تھا۔ اور اساتذہ لکھنو مرزا غالب کے رنگ میں طبع آزمائیاں فرما رہے تھے۔ میں بھی اسی مروجہ شاہراہ پر چل نکلا۔ اگرچہ بعد کو بہت جلد میری سمجھ میں آگیا کہ ’ کایں رہ کر تو میری بہ ترکستان است ۔ میں نے بین و بکا اور رثاء کی شاعری کو الوداع کہہ دیا۔ اس کے بعد فلسفیانہ انداز مرغوب ہوا مگر جلد تریہ معلوم ہو گیا کہ اگر شاعری کو محض فلسفے اور تصوف کی جولا نگاہ بنا دیا جائے تو شاعری سے اس کو دور کا لگائو بھی نہیں ہوتا۔ میر کے انداز سخن کا میں پہلے بھی شیدائی تھا اور اب بھی ہوں، مرزا غالب اور مرزا داغ کا رنگ میرے لئے پہلے بھی قابل اتباع تھا اور اب بھی ہے۔ مگر ان سب میں سے میںکسی کا پابند نہیں ۔ اب میرا مذہب شعر یہ ہے کہ شعر خواہ کسی کے طرز پر ہو کیسی ہی نادر ترکیبیں بہترین الفاظ اور بدیع استعارات اور تشبیہیں اس میں صرف کی گئی ہوں مگر پھر بھی کوئی ندرت بیان اثر اور جوش کلام ضرور شامل ہو۔ اگر اس کی تہہ میں ایک قسم کی شگفتگی ، طنز ، کنایہ، تعریفیں ، وغیرہ کی جھلک بھی نظر آجائے تو سبحان اللہ شاعر اگرچہ اصناف سخن میں سے کسی ایک صنف خا ص کا زیادہ دلدادہ ہو تو کوئی ہرج نہیں مگر اس کی مشق ہر صنف کلام میں ہونا چاہئے۔ عشق و محبت کے جذبات اثر و تاخیر سے کوئی شعر خالی نہ ہو پھر اثر کے معنی صرف سوگوار انہ بیان اور موت کے تلخ مناظر پیش کرنا نہیں جیسا کہ اکثر حضرات کا خاص دستور ہے کہ پوری غزل میں کوئی شعر ایسا نہیں ہوتا کہ وہ سوائے مرگ مایوسی کے زندگی کے ایک خوش انجام لمحے کی بھی تصویر پیش کر سکے۔ یہی میرے خیال ہیں اور انہیں باتوں پر نگاہ رکھتے ہوئے میں شعر کہتا ہوں ۔ میرا کلام غزل، نظم، قصیدے ، مثنوی، رباعیات وغیرہ تمام اصناف سخن میںبہت کافی ہے مگر رباعی اور غزل میں سب سے زیادہ محبوب چیز ہے۔
 
 میری تصانیف میں اکثر ناول بھی ہیں اور شرح دیوان غالب جو دو حصوں پر مشتمل ہے۔ شرح تحفہ العراقین ترجمہ و شرح دیوان حافظ ۔ ترجمہ فرہنگ انندراج لغت اردو اور تین تذکرے خاص  چیزیں ہیں اور عام تصنیفات کی تعداد تیس بتیس تک پہنچتی ہے جن کو صراحتاً لکھنا بیکار ہے۔
 
میرے شاگردوں کی تعداد سو ڈیڑھ سو تک ہے۔ یوں تو سب خوش فکر خوش گو ہیں مگر شوکت تھانوی، امین سلونوی، عمر انصاری، شہید بدایونی، زخمی لکھنوی، حیرت لکھنوی، اسد الہ آبادی، آزاد لکھنوی، خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ 
 
زبان کے متعلق میرا خیال ہے کہ صرف لکھنو یا دہلی کا زبان داں یا اہل زبان ہونا قابل استنا د و لائق فخر نہیں بلکہ دہلی اور لکھنو دونوں شہروں کی زباں پر کم از کم اتنا عبور ضرور ہے کہ دودنوں زبانوں میںفرق وامتیاز کر سکے۔
 
 میری ابتدائی مشق کے دو دیوان مرتب ہو چکے تھے مگر اب میں ان کو ضائع کر چکا اب ایک دیوان اردو غزلیات کا ایک نظموں اور ایک رباعیات کا تیار ہے جن کی طبع کی نوبت ہنوز نہیں آئی ۔ البتہ قطعات اور رباعیات کا مجموعہ تصاویرچھپ چکا ہے ۔ میں نے یہ انتخاب اس حصہ سے کیا ہے جو ۱۹۲۴ سے پہلے تک کا ہے۔ ورنہ اس خیال میں کہ کس شعرکو لکھوں اور کس کو چھوڑوں شاید مجھ سے یہ انتخاب بھی نہ ہو سکتا۔ 
 
عبد الباری آسی الدنی کی وفات 10 جنوری 1946 کو ہوئی تھی۔
 
***********************
 
You are Visitor Number : 2002