donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Abdul Moghni
Journalist
--: Biography of Abdul Moghni :--

 

 عبد المغنی 

Name: Abul Mobarrad Syed Abdul Mughni
Pen Name:- Abdul Moghni
Father's Name:- Qazi Syed Abdul Raouf Nadvi
Date of Birth:- 4 January, 1936
Place of Birth::- Aurangabad (Bihar)
Date of Death:- 5, September, 2006 (Patna)
Place of Lying: Shah Ganj Qbristan, Patna
اصل نام : ابو المبرد سید عبد المغنی
ولدیت : قاضی سید عبد الرئوف ندوی
تاریخ پیدائش : ۴ جنوری ۱۹۳۶
جائے پیدائش : اورنگ آباد (بہار)
وفات : ۵ ستمبر ۲۰۰۶(پٹنہ)
مدفن : شاہ گنج قبرستان، پٹنہ
پروفیسر عبد المغنی اپنی ذات میں ایک انجمن نہیں بلکہ کئی انجمنوں کی حیثیت سے جانے جاتے تھے۔صحافی، نقاد، عالم، مقرر اور ماہر تعلیم کے ساتھ ساتھ تحریک اردو کے روح رواں کے طور پر عبد المغنی پورے بر صفیر ہند و پاک میں اپنی ایک الگ شناخت قائم کرنے میں کامیاب تھے۔
پروفیسر عبد المغنی کی پہچان اردو ادب میں ایک قد آور نقاد کی حیثیت سے ہے۔ لیکن انہوں نے اپنی طالب علمی کے زمانہ سے ہی صحافتی دنیا میں قدم رکھ دیا تھا۔ اردو اور انگریزی اخبارات میں مسلسل ان کے تبصرے و مضامین مختلف مو ضوعات اور مسائل پر شائع ہونے لگے تھے۔ ۱۹۶۲ میں گیا سے مولانا طیب عثمانی ندوی کی ادارت میں شائع ہونے والے سہ ماہی رسالہ ’’صدف‘‘ مدیر رہے۔ اسی دوران انہوں نے ’’سا عزنو‘‘ کا اختر اور رینوی نمبر بھی قمر اعظم ہاشی، لطف الرحمن اور رضانقوی واہی کے ساتھ مل کر شائع کیا۔ جو آج بھی ایک یاد گار نمبر کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ان ہی دنوں غلام سرور جیسے سرکردہ صحافی سے ان کی قربت بڑھی جو اردو زبان کو بہار میں دوسری سرکاری زبان بنانے کی تحریک میں شامل تھے۔ ’’سنگم‘‘ اس دور میں بہار کا ایک مقبول روزنامہ بن کر ابھرا تھا۔ اس لئے کہ اس کی پالیسی حکومت مخالف تھی۔
عبد المغنی کا سیاسی شعور کافی بیدار تھا، انہوں نے کبھی بھی عملی سیاست میں حصہ نہیں لیا، لیکن ریاست کی سیاست میں ہمیشہ دخیل رہے۔ ’’سنگم‘‘ میں حکومت مخالف رویۂ اختیار کرنے پر اس زمانے میں غلام سرور اکثر جیل کی ہوا کھا تے۔ اس دوران ’’سنگم‘ کے ادارئے عبد المغنی ہی لکھا کرتے تھے، جس میں ان کا نام تو نہیں ہوتا، لیکن انداز بیان چیخ چیخ کر یہ اعلان کرتے کہ میں عبد المغنی کی تحریر ہوں۔ اس ضمن میں عرصہ تک ’’سنگم‘‘ میں کام کرنے والے اور عصر حاضر کے سرکر دہ صحافی خورشید پرویز صدیقی (ابن یعقوب) روزنامہ ’’ فاروقی تنظیم‘‘ کے ۱۱ جون ۲۰۱۰کے شمارہ میں ’’اردو صحافت، مسائل اور معیار‘‘ کے تحت لکھتے ہیں۔
’’اس دور میں سید عبد المغنی، مولانا بیتاب صدیقی، سید لطف الرحمن (بعد میں بہار سرکار کے وزیر) یونس ہر گانوی اور قمر اعظم ہاشمی نے سنگم کی بے انتہا قلمی مدد کی۔ مغنی صاحب نے غلام سرور کی غیر موجودگی میں شعلہ باد ادارے لکھے‘‘۔
پروفیسر عبد المغنی کی شعلہ بار تحریروں کا سلسلہ برابر جاری رہا۔ مسلم اقلیتی مسائل، لسانی، سماجی اور سیاسی تبصروں میں    عبد المغنی کے افکار و اظہار کو بڑی قدر و منزلت حاصل تھی۔ سیاسی گلیا روں میں بھی عبد المغنی کے اظہار خیال کو کافی اہمیت دی جاتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مختلف مسائل پر تبادلۂ خیال کے لئے وزیر اعظم ہند، اندر ا گاندھی اکژان سے مشورہ کرتی تھیں۔ انہوں نے لسانی اور ادبی محاذ پر بھی ’’مریخ‘‘ کے ذریعہ کافی کامیابی حاصل کی۔ ’’مریخ‘‘ ۱۹۶۸سے عبد المغنی کی ادارت میں (گرچہ درمیان میں اس کا اشاعتی تسلسل ٹوٹا بھی) ان کے انتقال سے چند سال قبل تک شائع ہوتا رہا۔ یہ رسالہ ہندو پاک کے بے حد معیاری پرچوں میں شمار ہوتا تھا۔رامپور سے شائع ہونے والا رسالہ ’’زندگی‘‘ میں ایک متنازعہ مضمون کی اشاعت پر ان پر مقدمہ بھی چلا۔
عبد المغنی نے ابتدائی تعلیم اورنگ آباد کے مدرسہ اسلامیہ میں حاصل کی پھر بارہ سال کی عمر میں ۱۹۴۹ میں پٹنہ کے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدی میں مولوی کے درجہ میں داخلہ لیا۔ ۱۹۵۳ میں بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے امتحان میں اول آئے، پھر میٹرک کیا، اس کے بعد پٹنہ یونیورسٹی سے انٹر، بی۔ اے۔ (انگریزی آنرز) اور پھر ۱۹۶۰ میں انگریزی میں ایم۔ اے۔ میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ ۱۹۶۱میں ہی ان کی تقرری پٹنہ یونیورسٹی کے بی۔ این کالج میں لکچرر کی حیثیت سے ہو گئی۔ ۱۹۹۶میں یونیورسٹی پروفیسر کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔ سبکدوشی کے چند ماہ بعد ہی ان کی علمی لیاقت اور انتظامی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں متھلا یونیورسٹی ، دربھنگہ کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا۔
پروفیسر عبد المغنی نے اپنی بے پناہ علمی، ادبی، لسانی، سیاسی، سماجی، معاشرتی، اسلامی اور صحافتی صلاحیتوں کے جو نقوش چھوڑے ہیں، ان کا غیر جا نبدارانہ تجزیہ کیا جائے، تو اندازہ ہو گا کہ بیسویں صدی کی یہ ایک بڑی عالمانہ اور دانشورانہ شخصیت تھی۔
(بشکریہ ڈاکٹر سید احمد قادری، گیا)
 
You are Visitor Number : 2151