انہوں نے ہائی اسکول ( میٹرک) کا امتحان پٹنہ سیٹی کے معروف اقلیتی ادارہ محمڈن اینگلو عربک ہائی اسکول سے پاس کیا۔ پٹنہ یونیورسٹی سے ایم اے( انگریزی) اور ایم اے ( سماجیات) کے امتحانات پاس کئے۔ وکالت کا امتحان پاس کیا۔ اور ڈپلوما ان ایجو کیشن بھی مکیمل کیا۔ پھر سماجیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور محمڈن اسکول پٹنہ سیٹی میں ملازمت کرنے لگے۔ اس دوران انہیں کئی اعلیٰ عہدوں کی پیش کش ہوئی مگر انہوں نے تعلیم و تدریس سے ہی خود کو وابستہ رکھا اور اسی اسکول سے ہیڈ مدرس کے عہدے پر پہنچ کر ریٹائر کیا۔ پٹنہ یونیورسٹی کے بی این کالج ہاسٹل میں رہنے کے دوران ان کے ایک استاد ایس این رائے نے انہیں از راہِ شفقت آفتاب کا قلمی نام عطا کیا جسے انہوں نے اپنے نام کا مستقبل کا جز و بنا لیا۔
انگریزی میں اختر حسین آفتاب کی درج ذیل تصنیفات شائع ہو چکی ہیں۔
(1) Ali on public Administration
(2) Human values in Islam
(3) Religions and unity of Man
(4) Bhagat Singh - An Unrivalled Martyr
انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو سے بھی انہیں گہرا لگائو رہا ہے۔ ان کے مضامین اردوکے اہم رسائل و اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ سماجی، تہذیبی، علمی اور ادبی اور سائنسی موضوعات شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد بھی Topical Issues پر ان کے مضامین تواتر کے ساتھ مختلف اردو اخبارات میں منظر عام پہ آتے رہے ہیں۔ لائنس کلب (Lionsclub ) اور سوامی وویکا نند سوسائٹی کی جانب سے انہیں سماجی خدمت کے لئے انعامات و اعزازات مل چکے ہیں۔ نوبل یافتہ پروفیسر عبد السلام پر لکھے گئے ان کے ایک مضمون پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی جانب سے انعام ملا تھا۔ حصول علم کے بعد ان کا سب سے محبوب مشغلہ خدمت خلق ہی ہے۔ اس سلسلے میں مضامین لکھنے کے ساتھ ساتھ وہ عملی طور پر بھاگ دوڑ کرتے ہیں اور اس عمر میں بھی خاصے فعال ہیں۔ خاص طور پر بچیوں کی تعلیم کے سلسلہ میں ان کی خدمات اہم رہی ہیں۔ وہ نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ درس گاہوں میں ان کا داخلہ بھی کراتے ہیں۔ اور ان کے والدین سے رابطہ قائم رکھ کر ان کے پروگریس کی جانکاری حاصل کرتے رہتے ہیں۔ ان کی سماجی خدمات کا دوسرا پہلو قومی اتحاد سے عبارت ہے اور ہندستان کی سیکولر نیز جمہوری روایتوں کو فروغ دینے کے لئے وہ متدد اداروں کے وسیلے سے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ تعلیم کے بغیر کسی بھی فرد یا قوم کی ترقی محال ہے۔ اسی طرح ہندو مسلم اتحاد اور امن و سکون کے بغیر اس ملک بلکہ پورے علاقے کی خوش حالی نا ممکن ہے۔ وہ پوری نو ع انسانیت کا یکساں احترام کرتے ہیں اور کسی بھی عقیدے یا مذہب سے تعلق رکھنے والے کو بُرا نہیں سمجھنے پر اصرار کرتے ہیں اپنے قول و عمل دونوں میں وہ اس شعر کے بھر پور حامی نظر آتے ہیں۔
ان کا جو کام ہے وہ اہلِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
اختر حسین آفتاب کا مخصوص نقطہ نظر ان کے مضامین میں ہر جگہ نمایاں ہے۔ ان کی شخصیت کی طرح ان کا اسلوب بھی بے حد سادہ مگر موثر ہے۔ وہ اپنی بات بغیر کسی خوف، مصلحت یا جھنجھلاہٹ کے ساتھ کہتے ہیں۔ اردو میں مختلف تازہ ترین سماجی واقعات پر اس قدر درد مندی اور سادگی کے ساتھ لکھنے والے بہت کم ملتے ہیں۔ ان کے مضامین کا دوسرا مجموعہ زیر ترتیب ہے۔
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
****************************