donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Anees Imam
Poet
--: Biography of Anees Imam :--

 

 انیس امام 
 
محمد انیس امام ابن محمد ادریس پٹنہ میں۳۱ جنوری ۱۹۳۱ء (دبستان عظیم آباد ص ۱۱۰) اور ایک دوسری روایت کے مطابق ۳۱ جنوری ۱۹۳۴ء (آرہ ایک شہر سخن مصنفہ ش۔ م۔ عارف ماہر آروی مطبوعہ ۱۹۹۱ء ص۔۷۷) کو پیدا ہوئے۔ تعلیمی سند کے اعتبار سے بھی یہی تاریخ درست ہے۔ ابتدائی تعلیم کچھ اپنے والد محترم کی نگرانی میں جو خود بھی عالم تھے اور دو ر نو جوانی میں شعر و شاعری کی طرف راغب تھے ) اور کچھ اپنی نانیہال واقع نیمی ، سالار پور ( مشہور مثنوی نگار شوق نیموی کا آبائی وطن ) میں حاصل کی۔ ۱۹۵۱ء میں پٹنہ یونیورسٹی سے بی اے اردو آنرس اور ۱۹۵۳ء میں ایم اے اردو کے امتحانات پاس کئے اور اگلے ہی سال سے شعبہ اردو مہاراجہ کالج آرہ میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے لگے۔ اسی دوران ۱۹۵۸ء میں پٹنہ یونیورسٹی سے ایم اے ( فارسی) کا امتحان بھی پاس کیا۔ ۱۹۹۴ء میں پروفیسر و صدر شعبہ اردو کی حیثیت سے ریٹائر ہونے کے بعد فی الحال عالم گنج پٹنہ کے آبائی مکان میں مقیم رہ کر ادبی سرگرمیوں سے زیادہ تبلیغ دین میں مشغول ہیں۔ اور آسودہ حالی کے ساتھ زندگی گذار رہے ہیں۔
 
انیس امام کی شاعری کا آغاز ۱۹۴۸ء ۔۱۹۴۷ء میں ہوا۔ ابتداء سے ہی غزلیں اور نظمیں دونوں کہیں۔ مگر نظم گوئی کی طرف رجحان زیادہ رہا۔ انہوں نے عام طور سے پابند نظمیں کہی ہیں۔ مگر بعد میں آزاد نظمیں بھی کہنے لگے۔ آغاز شاعری میں عبد المجید شمس عظیم آبادی سے نکات شاعری کا درس بھی لیا اور چند تخلیقات پر اصلاح بھی لی۔ کالج کی طالب علمی کے دوران ایک نظم علامہ جمیل مظہری کو بھی دکھائی۔ مشاعروں میں شرکت کے دوران کچھ دنوں زار عظیم آبادی سے مشورہ سخن کرتے رہے۔ مگر ان کے مخصوص مزاج نے جلد ہی آزادانہ سخن کی طرف مائل کر دیا۔ ۱۹۷۲ء میں انیس امام کا پہلا مجموعہ کلام’’ حرف خودی‘‘ نصرت پبلشرز لکھنو کے زیر اہتمام شائع ہوا جس کے مرتب پروفیسر ادیب حسین ادیب تھے۔ ان میں غزلوں، نظموں اور رباعیوں کے علاوہ کچھ سا نیٹ بھی ہیں۔ اس کی بعض نظمیں فکری و فنی اعتبار سے اردو شاعری کے سرمائے میں اضافہ کہی جا سکتی ہیں۔ بقول مرتب انیس امام کے یہاں ایک صحت مند ترقی پسندی ہے اور صالح جدیدیت بھی ۔ یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے۔ انیس امام نے زندگی اور شاعری دونوں میں ہی مثبت طرز فکر اور کمٹ منٹ کو خاص اہمیت دی ہے۔ اور منفی اقدار و افکار سے کبھی مفاہمت نہیں کی۔ ان کا بیان ہے کہ 
 
شاعری میرے نزدیک کسی تفریح کا سامان نہیں۔ لطیف جمالیاتی حس کی تسکین تفریح سے بلند تر ایک چیز ہے۔ میں شاعری کو تزئین حیات کا بہترین ذریعہ تصور کرتا ہوں اور تزئین حیات اس وقت تک ممکن نہیں جب تک حیات کی خامیوں پہ نگاہ نہ ہو۔ اندھیرے سے آج تک مفاہمت نہیں کی جا سکی۔ سمٹ سا گیا ہوں لیکن ضمیر فروشی کے تصور سے ہی کانپ اٹھتا ہوں۔‘‘
 
۱۹۸۵ء میں ان کا دوسرا مجموعہ کلام’’ زخموں کے گلاب‘‘ بہار اردو اکادمی کے مالی تعاون سے منظر عام پر آیا جس کی نظموں پہ اقبال کے اثرات نمایاں ہیں۔ انہوں نے خود بھی اعتراف کیا کہ ’’ حرف خودی‘‘ اور ’’ زخموں کے گلاب‘‘ ان کی داستان زندگی کے دو ابواب ہیں۔ پہلے وہ ترقی پسند تھے اب مذہبی ہو گئے ہیں۔ ان کی چار کتابوں برگ حنا( مجموعہ کلام) ، افسانہ افسوں( کہانیوں کا مجموعہ) میزان تنقید، تنقیدی مضامین اور ایک مجموعہ اور رباعیات کے زیر اشاعت ہونے کی اطلاع ہے۔ نمونہ کلام کے طور پر غزل کے اشعار ملاحظہ ہوں۔
 
 یہ دامن قابل ہے کہ اپنی ہی قبا ہے
 میں سوچ رہا ہوں کہ مرے ہاتھ میںکیا ہے
 دکھ درد کو مل بانٹ کے جینے کا سلیقہ
 لگتا ہے کہ ہر آدمی اب بھول چکا ہے
 جس سمت نظر اٹھتی ہے ویرانہ ہے گویا
 صحرا مری گستاخ نگاہی کی سزا ہے
 اجڑی ہوئی بستی میں کہاں سایہ دیوار
 قاتل مرے ملبے پہ کھڑا ہانپ رہا ہے
 دیوانوں کو نقصان کی پروا نہیں ہوتی
 دشمن ہے زمانہ تو انیس آپ کیا ہے
 
 یہ سانیٹ بھی دیکھئے
 
 اندھیری رات میں بے دست و پا ہے تنہائی
 نظر میں کچھ بھی نہیں سایہ نظر کے سوا
 نہیں ہے فکر کسی کی اک اپنے گھر کے سوا
 خزاں رسیدہ ہوئی زندگی کی پہنائی
ایک پابند نظم’’ اے ہم نشیں کا ابتدائی اور آخری شعر ملاحظہ ہو:
صبح ازل شام ابد، ایک نقطہ موہوم پر ملنے کے دونوں مضطرب
روحوں کا اک لمبا سفر جشموں کے سو نام و نشاں یہ منقلب وہ منقلب
افشائے راز کن فکاں ، اے ہم نشیں ، اے ہم نشیں
 جب تک وصال عقل و دل ہوتا نہیں ممکن نہیں
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
*********************************
 

 

 
You are Visitor Number : 1702