donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Arshad Kakvi
Poet/Writer
--: Biography of Arshad Kakvi :--

                              ارشد کاکوی

 
 
سید شاہ رشید الدین الرحمن ( قلمی نام : ارشد کاکوی) ابن سید شاہ عطاء الرحمن عطا کاکوی تعلیمی سند کے اعتبار سے یکم اپریل ۱۹۲۸ء کو پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پہ حاصل کرنے کے بعد والد کی نگرانی میں ضلع اسکول مظفر پور سے میٹرک اور لنگٹ سنگھ کالج سے آئی۔ اے کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۴۹ء میں پٹنہ یونیورسٹی سے درجہ اول میں بی اے آنرز کرنے کے بعد ڈھاکہ ( موجودہ بنگلہ دیش) چلے گئے جہاں سے ۱۹۵۱ء میں ایم ۔ اے اردو کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور پوری یونیورسٹی میں اول آئے۔ حصول تعلیم کے بعد کچھ دنوں وکٹوریہ کالج میں کام کیا پھر قائد اعظم کالج ڈھاکہ میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔ انہیں دونوں ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ صحافت سے جز وقتی طور پر وابستہ رہے۔ اور مختلف اخباروں میں کالم بھی لکھتے رہے۔ کچھ ہی دنوں بعد کینسر کے مہلک مرض میں مبتلا ہو گئے۔ علاج کے لئے پٹنہ آئے مگر جاں بر نہ ہو سکے اور ۱۸ فروری ۱۹۶۳ء بمطابق ۱۳۸۲ھ صرف پینتیس برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔ شاہ گنج قبرستان میں مدفون ہوئے۔ مختلف شعراء نے قطعات تاریخ کہے۔ تمنا عمادی کا قطعہ درج ذیل ہے۔
 
 اس سانحے کا حال تمنا میں کیا لکھوں
دل تو غریب روگ میں ہے پیچ و تاب کے
 کہتے سنا تھا حوروں کو البتہ لاش پر
 موت آئی ارشدؔ آپ کو بدلے شباب کے
۱۳۸۲ھ
 
ارشد نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھیں کھولی تھیں جہاں ہمہ وقت شعر و ادب کا چرچا رہتا تھا۔ اس ماحول سے انہوں نے گہرے اثرات قبول کئے اور نہ صرف ایک کامیاب اور قادر الکلام شاعر کی حیثیت سے بلکہ ایک اچھے نقاد اور صحافی کی حیثیت سے بھی اپنی پہچان بنائی۔ اپنے عہد کے بیشتر اہم رسالوں میں ان کی تخلیقات شائع ہوئیں اور اہم ناقدوں نے ان کی کاوشوں کی پذیرائی کی۔ ان کی شخصیت اور شاعری سے متعلق رضا علی وحشت ، خلیل الرحمن اعظمی، نیاز فتح پوری، عندلیب شادانی، اثر لکھنوی، جوش ملیح آبادی، قاضی عبد الودود، جمیل مظہری ، اور پرویز شاہدی وغیرہ کی آراء موجود ہیں۔ ان کی شاعری اور تنقید نگاری سے متعلق اچھا مضمون افتخار اجمل شاہین ( پاکستان) کا بھی ہے جو ان کی وفات کے کم و بیش بیس برس بعد شائع ہوا۔ میں اس مضمون کے کچھ اہم حصے یہاں نقل کرتا ہوں۔ 
 
’’ ارشد نے محبت کے گیت گائے ہیں۔ ان کی شاعری میں معاملات حسن و عشق کے موضوعات کثرت سے ملتے ہیں مگر ان میں ایک نیا پن، نیا شعور، اور نیا لب و لہجہ موجود ہے۔ ارشد کا یہ بھی کمال ہے کہ انہوں نے اپنے ذاتی غم اور محرومی کو اس طرح پیش کیا ہے جسے ہم اجتماعی رنگ کہہ سکتے ہیں۔ ان کے غم کے اظہار میں اجتماعیت ہی کی نہیں بلکہ آفاقیت کی جھلک ملتی ہے۔ اس طرح وہ اپنے غم میں دوسرے لوگوں کو بھی شریک کر لیتے ہیں۔ ان کی تقنید میں بڑی بے باکی اور غیر جانبدار ی پائی جاتی ہے۔ ارشد کاکوی کلیم الدین احمد کی طرح بے باک اور بے لاگ تنقیدیں لکھتے تھے۔ تنقید کے علاوہ ان کے دیگر مضامین کے مطالعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک اچھے نثر نگار تھے۔ ان کی تحریرمیں انفرادی رنگ کے ساتھ ساتھ دل کشی اور رعنائی بھی پائی جاتی ہے۔ ارشد کاکوی کے مضامین کا ایک مختصر سا مجموعہ ان کے والد محترم نے پٹنہ سے شائع کیا تھا۔ شعری مجموعہ اب تک شائع نہیں ہو سکا ہے۔ بعض
نظمیں اور غزلیں رسالوں میں شائع شدہ ہیں جن کا کچھ حصہ بطور نمونہ کلام درج ذیل ہے۔  
 
سب اپنی غرض کے بندے ہیں اور پاپی ہے سنسار
یاری کا سب دم بھرتے ہیں، کوئی نہیں ہے یار
تیرے دل کی اک اک رگ کوکاٹ کے رکھ دے گی دنیا
 اس کی ایک اک سانس ہے تیرے حق میں اک تلوار
اس دنیا کی ریت یہی ہے ، کیسی پیت کہاں کے میت
سب اک رات کے ساجن ہیں پہناتے ہیں سب باسی ہار
گورا مکھرا، سانولی رنگت، سیدھی آنکھیں، ترچھے نین
دل کا روپ سبھی سے نیارا، باقی سب ہے سنگار
اس دل سے دل چھوٹ چلا اب ایک اک پل ہے اک اک سال
دیکھو اس دربار میں ارشدؔ کب ہوتی ہے اپنی پکار
(ماخوذ از نظم فغان درویش)
 جانے شیخ کو شب کیا سوجھی رندوں کو سمجھانے آئے
 صبح کو سارے مے کش ان کو مسجد تک پہنچانے آئے
٭٭٭
دیکھنے کو تو ہم نے بھی دیکھا یہی روشنی ظلمتوں کو نگلتی رہی
اک مسلسل اندھیرا رہی زندگی اور ہر شب سحر میں بدلتی رہی
 
٭٭٭٭
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 

 

 

 
You are Visitor Number : 2100