’’ ارشد نے محبت کے گیت گائے ہیں۔ ان کی شاعری میں معاملات حسن و عشق کے موضوعات کثرت سے ملتے ہیں مگر ان میں ایک نیا پن، نیا شعور، اور نیا لب و لہجہ موجود ہے۔ ارشد کا یہ بھی کمال ہے کہ انہوں نے اپنے ذاتی غم اور محرومی کو اس طرح پیش کیا ہے جسے ہم اجتماعی رنگ کہہ سکتے ہیں۔ ان کے غم کے اظہار میں اجتماعیت ہی کی نہیں بلکہ آفاقیت کی جھلک ملتی ہے۔ اس طرح وہ اپنے غم میں دوسرے لوگوں کو بھی شریک کر لیتے ہیں۔ ان کی تقنید میں بڑی بے باکی اور غیر جانبدار ی پائی جاتی ہے۔ ارشد کاکوی کلیم الدین احمد کی طرح بے باک اور بے لاگ تنقیدیں لکھتے تھے۔ تنقید کے علاوہ ان کے دیگر مضامین کے مطالعے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک اچھے نثر نگار تھے۔ ان کی تحریرمیں انفرادی رنگ کے ساتھ ساتھ دل کشی اور رعنائی بھی پائی جاتی ہے۔ ارشد کاکوی کے مضامین کا ایک مختصر سا مجموعہ ان کے والد محترم نے پٹنہ سے شائع کیا تھا۔ شعری مجموعہ اب تک شائع نہیں ہو سکا ہے۔ بعض
نظمیں اور غزلیں رسالوں میں شائع شدہ ہیں جن کا کچھ حصہ بطور نمونہ کلام درج ذیل ہے۔
سب اپنی غرض کے بندے ہیں اور پاپی ہے سنسار
یاری کا سب دم بھرتے ہیں، کوئی نہیں ہے یار
تیرے دل کی اک اک رگ کوکاٹ کے رکھ دے گی دنیا
اس کی ایک اک سانس ہے تیرے حق میں اک تلوار
اس دنیا کی ریت یہی ہے ، کیسی پیت کہاں کے میت
سب اک رات کے ساجن ہیں پہناتے ہیں سب باسی ہار
گورا مکھرا، سانولی رنگت، سیدھی آنکھیں، ترچھے نین
دل کا روپ سبھی سے نیارا، باقی سب ہے سنگار
اس دل سے دل چھوٹ چلا اب ایک اک پل ہے اک اک سال
دیکھو اس دربار میں ارشدؔ کب ہوتی ہے اپنی پکار
(ماخوذ از نظم فغان درویش)
جانے شیخ کو شب کیا سوجھی رندوں کو سمجھانے آئے
صبح کو سارے مے کش ان کو مسجد تک پہنچانے آئے
٭٭٭
دیکھنے کو تو ہم نے بھی دیکھا یہی روشنی ظلمتوں کو نگلتی رہی
اک مسلسل اندھیرا رہی زندگی اور ہر شب سحر میں بدلتی رہی
٭٭٭٭
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)