donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Azimuddin Ahmad
Poet/Writer
--: Biography of Azimuddin Ahmad :--

 

 عظیم الدین احمد 
 
 
 عظیم الدین احمد ولد سید شاہ واعظ الدین احمد کی پیدائش ۲۵؍ جون ۱۸۸۰ء کو امتھوا ، قاضی سرائے أ ضلع گیا) میں ہوئی۔ بقول ڈاکٹر اقبال حسین ( عظیم الدین احمد : حیات و کارنامے۔ مطبوعہ بہار اردو اکادمی ۱۹۸۸ء )والد کی جانب سے آپ کا تعلق سہسرام کے ایک سجادہ نشیں خانوادے سے اور والدہ کی جانب سے پٹنہ کے ایک ایسے خاندان سے تھا جس میں کئی ذی علم اور با وقار شخصیتں کی پروریش ہوئی۔ آپ کی ابتدائی تعلیم و تربیت اپنے نانا حکیم عبد الحمید پریشاں کی نگرانی میں ہوئی۔ چوں کہ والد کا سایہ صرف سات ماہ کی عمر میں اٹھ گیا تھا۔ فارسی، عربی اور طب یونانی کی بنیادی تعلیم کے بعد محمڈن اینگلو عربک اسکول سے میٹرک پاس کیا۔ پٹنہ کالج سے بی اے کرنے کے بعد کچھ دنوں عربی کے طبی مخطوطات کی فہرست سازی اور تحقیق کے لئے خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری میں کام کیا۔ ان کے کام کا معیار دیکھ کر مدرسہ عالیہ کلکتہ کے پرنسپل ڈاکٹر Denison Ross نے حکومت ہند سے وظیفہ کی سفارش کردی۔ ۱۹۰۹ء میں حکومت ہند کی جانب سے اسٹیٹ اسکالر شپ ملی تو جرمنی گئے اور وہاں کی لپزگ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔ پانچ سال لاہور یونیورسٹی میں ملازمت کرنے کے بعد پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ فارسی عربی و اردو کے صدر ہوئے۔ اردو ، فارسی، عربی، ہندی اورانگریزی کے علاوہ ترکی اور سنسکرت زبانوں میں ان کی استعداد قابل رشک تھی۔ ۱۹۳۷ء میں حج کی سعادت حاصل کی۔ ۱۹؍ مئی ۱۹۴۹ء بمطابق ۹؍ رجب ۱۳۶۸ھ کو فالج کے سبب پٹنہ میں انتقال ہوا۔ اپنے آبائی مکان واقع خواجہ کلاں کے احاطہ میں مدفون ہوئے۔ عطا کاکوی نے سال وفات اس طرح نکالا
 
 فکر تاریخ کی ہوئی تو عطا
 بول اٹھا’’ اب بجھا سخن کا چراغ‘‘ (۱۹۴۹)
 
عظیم الدین احمد کو ابتداء سے ہی ادبی ذوق کی نشو و نما کے لئے ایک ساز گار ماحول ملا۔ نانا خود فارسی کے ایک قادر الکلام شاعر تھے اور عربی اور اردو میں بھی شعر کہتے تھے۔ بڑے بھائی فہیم الدین بھی شعر کہتے تھے اور نظم و غزل دونو ںمیں ان کی فنکاری کے نمونے موجود ہیں۔ گھر میں علمی و ادبی شخصیتوں کا آنا جانا تھا اور عظیم آباد کا عام ماحول بھی علمی و ادبی تھا۔ اس لئے عظیم الدین نے ابتدا سے ہی مشرق و مغرب دونوں کی علمی و ادبی روایتوں سے استفادہ کیا اور نظم و نثر دونوں کی طرف توجہ کی۔ انہوں نے کچھ تنقیدی مضامین بھی لکھے۔ اور غزلیں بھی کہیں مگر نظم نگاری کی طرف زیادہ توجہ دی اورمغربی شاعری کے زیر اثر اردو میں بھی کچھ تجربے کئے۔ ان کا مجموعہ کلام’’ گل نغمہ‘‘ ایک تفصیلی مقدمے کے ساتھ ۱۹۳۹ء میں ان کے صاحبزادے کلیم الدین احمد نے بڑی نفاست سے شائع کیا تھا۔ جس میں کل باسٹھ نظمیں تھیں اس مجموعے کی اشاعت پر خاصا رد عمل ہوا۔ بعض لوگوں نے پذیرائی کی تو بعض معترض ہوئے مگر اکثر لوگوں نے یہ اعتراف کیا کہ اردو میں سا نیٹ نگاری کے جو نئے آفاق کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
 
 عظیم الدین احمد کے علمی کارنامے بھی ہیں مگر افسوس ہے کہ ان کی بہت ساری تخلیقات زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکیں۔ خاص طور پر تفسیر فقہہ اور علم حدیث کے باب میں ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ دراصل ادب کے علاوہ بعض دوسرے علوم و فنون سے متعلق ان کے بعض نظریات اپنے عہد میں خاصے متنازع بھی رہے ہیں مگر ان کی اشاعت سے روشن خیالی پہ مبنی نئے مباحث کا آغاز ہو سکتا ہے۔ سید بدر الدین احمد نے اپنی مشہور کتاب’’ حقیقت بھی کہانی بھی‘‘ میں ان کے ایک عربی مسودے کا تذکرہ کیا ہے جو زبان عربی کی تحقیق اور آغاز و ارتقاء سے متعلق تھا اور جسے ان کے صاحبزادے کلیم الدین احمد شائع کرنا چاہتے تھے۔ پتہ نہیں وہ مسودہ بھی اب کہاں ہے۔ بہار اردو اکادمی کی مذکورہ بالا کتاب ( مطبوعہ ۔۱۹۸۸ئ) میں شریک اشاعت ڈاکٹر قیام الدین احمد لطف الرحمن ، سید اطہر شیر اور ناصر رضا خاں جلالی کے مضامین ان کے احوال و آثار اور نگارشات کامفصل اشاریہ ہیں۔ بہر حال ان کی شاعری سے متعلق پروفیسر اختر اورینوی ( مصنف سراج و منہاج) اور پروفیسر وہاب اشرفی کے مضامین قابل توجہ ہیں۔ یہاں نمونہ کلام کے طور پر ان کی ایک نظم کے پانچ اشعار اور ایک غزل کے چند اشعار درج کرتا ہوں۔
 
نظم
’’ نوید امید‘‘ کے ابتدائی اشعار یہ ہیں۔
 پھر بہار آگئی پھر جوش میں سودا ہوگا
 زخم دیرینہ سے پھر خون ٹپکتا ہوگا
 ہاتھ کو دست درازی کر پڑے گا لپکا
 پائوں کو پھر خلش خار کا سود ا ہوگا
 جھانکتی پھرتی ہے ویرانوں کو پھر آبادی
 پھر چمن بند کوئی انجمن آرا ہوگا
 ڈھونڈتی پھرتی ہے جس فرد کو عالم میں بقا
 نوع کا ہے یہ اشارہ کہ وہ پیدا ہوگا
کیا کوئی موت ہے غفلت کہ نہ چونکا جائے
 زندگی ہے تو سنبھلنے کا تقاضہ ہوگا
 
غزلوں کے اشعار ملاحظہ ہوں۔
 خوشی سے مجھ کو کیا حاصل کہ لذت یاب حسرت ہوں
 طرب کی مجھ کو کیا پروا کہ میں محروم عشرت ہوں
میں اک تصویر ہوں گویا زبان بے زبانی کی
 نہ ہوں منت کش نالہ نہ مرہون سماعت ہوں
 
 سفر حیات بھی ختم ہے کہیں زندگی کا نشاں نہیں
ابھی اور رک کے میں دیکھتا مرے بس میں عمر رواں نہیں
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
**********************
 
You are Visitor Number : 1749