اس ریش کی آب و تاب سبحان اللہ
ریشم کا ہو جس طرح چمکتا لچھا
آئینہ سری نواس جی سے بولا
داڑھی ہے کہ تاج محل کا چھجاّ
اپنے حافظے پر اعتبار کرتے ہوئے ان کاکچھ ظریفانہ کلام پیش خدمت ہے۔
قیامت ہے کہ امریکہ کا گیہوں
مرا ڈالر نگلتا جا رہا ہے
گلوں کو حکم کھلنے کا نہیں ہے
دھتورا ہے کہ پھلتا جا رہا ہے
٭٭٭
سمجھ میں کچھ نہیں آتا محبت کس کو کہتے ہیں
نتیجے پر پہنچتے ہیں جو ہم ریسرچ کرتے ہیں
یہ اک وائر ہے جس میں ہے کرنٹ اے سی و ڈی سی کا
کسی سے ہٹ کے مرتے ہیں کسی سے سٹ کے مرتے ہیں
٭٭٭
یہ کیا اسٹیٹ بس سروس ہے پٹنہ میں یہاں نکلی
یہ کیسی بے بسی میں ہو کے بے بس میری جاں نکلی
ادھر نکلی، ادھر نکلی، یہاں نکلی ، وہاں نکلی
نئے فیشن کی بیوی ہے خدا جانے کہاں نکلی
٭٭٭
آج کل کے نوجوان فخر عظیم آباد ہیں
عشق بازی میں چچا فرہاد کے استاد ہیں
جب کبھی دیکھا حسیں کو اس طرح پھسلے کہ بس
سر اگر پٹنہ ہیں تو پائوں شاہ آباد ہیں
***
اتنی سردی پڑی ہے اب کے سال
خاک سینکی گئی تیمم کی
شیخ اک دن گئے جو سجدے میں
مانگ بیٹھے دعاء جہنم کی
٭٭٭
بوقت شام مجنوں نے دیا کچھ گھاس ناقے کو
کہا لیلیٰ نے اس کو دعوت عصرانہ کہتے ہیں
٭٭٭
جو حسینوں سے طلبگار وفاہوتا ہے
صرف گدھا نہیں گدھوں کا چچا ہوتا ہے
صاف ظاہر ہے کہ شاعر کا مقصد تفریح طبع ہے۔ اور روز مرہ کے واقعات کو آسان ترین زبان میں بیان کرنا ہی اس کا انداز سخن ہے۔ ممکن ہے یہ صورت معیاری ظرافت کے مطابق نہ سمجھی جائے مگر عظیم آباد میں رضا نقوی واہی جیسے قد آور ظرافت نگار کے مقابلے میں بگٹٹ جیسے مزاح نگار کا ابھرنا اور ایک عرصے تک Survive کرنا بھی اہم ہے۔ دراصل بگٹٹ اپنے عہد کے عام سماجی مزاج کو گرفت میں لینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس عمل کے دوران کبھی کبھی مبالغہ نگاری سے کام لے کر اپنے اشعار کو جاندار بناتے ہیں۔ ویسے ان کی صحیح ادبی حیثیت کا تعین ان کے مجموعہ کلام کی اشاعت کے بعد ہی ممکن ہے جس کا فی الحال امکان نظر نہیں آتا۔
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
*********************************