donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Ghulam Rabbani Taba
Poet/Writer
--: Biography of Ghulam Rabbani Taba :--

 Ghulam Rabbani Taba 

 

 غلام ربانی تاباں 
 
خود نوشت
 
اتر پردیش کے ضلع فرخ آباد کی ایک تحصیل ہے قائم گنج۔ میرے بچپن میں سماجی اور معاشی اعتبار سے پچھڑا ہوا ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ اب اس نے خاصی ترقی کر لی ہے۔ اور ہندستان کے صنعتی نقشے پر اپنی جگہ بنا چکا ہے۔ قائم گنج سے تھوڑی دور واقع گائوں پتورا کے اک کھاتے پیتے زمیندار گھرانے میں ۱۵؍ فروری۱۹۱۴ء کو میں پیدا ہوا۔ ابتدائی تعلیم گائوں کے مدرسے میں پائی کرشچین ہائی اسکول، فرخ آباد سے میٹرک کیا۔
 میرے گھر میں پڑھنے لکھنے کا زیادہ چرچا نہیں تھا۔ میرے دونوں بڑے بھائی کالج نہیں گئے تھے۔ اس کے علاوہ دیہات میں بچپن کی شادی کا رواج تھا۔ ابھی میں میٹرک بھی نہیں کرپایا تھا کہ میری شادی کردی گئی۔ پھر بھی لڑ جھگڑ کر میں کالج چلا گیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انٹر میڈیٹ، سینٹ جانسن کالج آگرہ سے بی اے اور آگرہ کالج، آگرہ سے ایل ایل بی کیا اور ۱۹۴۰ء میں فتح گڑھ میں وکالت شروع کردی۔
 چوتھی دہائی میں کمیونسٹ پارٹی غیر قانونی تھی لیکن اس کے کچھ کارکنوں نے طالب علموں سے روابط قائم کر لئے تھے۔ وہ ہاسٹل آتے تھے اور ہمیں کتابیں وغیرہ پہنچاتے رہتے تھے۔ وہ لوگ ایک خفیہ اسٹڈی سرکل بھی چلاتے تھے جس میں اکثر میں جایا کرتا تھا۔ پانچویں دہائی کے ابتدائی برسوں میں پارٹی پر سے پابندی ہٹا دی گئی اور فتح گڑھ میں بھی ایک چھوٹا سا پارٹی یونٹ بن گیا۔ میں ان لوگوں کے ساتھ عملی سیاست میں حصہ لینے لگا۔ ۱۹۴۶ء میں کسان ستیہ گرہ کے سلسلہ میں کچھ اور دوستوں کے ساتھ میں بھی گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن انگریزوں کا چل چلائو تھا۔ دو چار پیشیوں کے بعد مقدمہ واپس لے لیا گیا اور ہم سب بری کر دئیے گئے۔ ۱۹۴۹ء میں مجھے دوبار گرفتار کرکے نظر بند کر دیا گا۔ جب جیل سے رہا ہوا تو میرے والد نے کہا کہ فتح گڑھ میں رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دقت یہ تھی کہ میری وکالت چلتی نہیں تھی۔ سچ پوچھئے تو مجھے اس میں بالکل دلچسپی نہیں تھی۔ گھر سے پیسے مل جاتے تھے جس سے گزر بسر ہو جاتی تھی۔ والد کی مالی مددکے بغیر فتح گڑھ میں رہنا ممکن نہ تھا ۔ گائوں میں رہنے پر میں خود کو آمادہ نہیں کر سکا۔ چنانچہ گھر چھوڑ دیا۔ کچھ دن ادھر ادھر بھٹکنے کے بعد دہلی پہنچا اور مکتبہ جامعہ میں ملازمت کر لی۔ جامعہ ملیہ کا ماحول کچھ ایسا راس آیا کہ یہیں کا ہو گیا۔ ۱۹۵۷ء میں مکتبہ جامعہ کا جنرل منیجر بنا دیا گیا اور ۱۹۷۰ء میں ریٹائر ہوا۔ جامعہ نگر سے تھوڑے فاصلے پر ایک نئی کالونی تعمیر ہوئی ہے جس کا نام ذاکر نگر ہے۔ آج کل وہاں رہتا ہوں۔
یوں تو کالج میں پیروڈی لکھنے لگا تھا ، لیکن میں نے سنجیدگی کے ساتھ شعر کہنا ۱۹۴۱ء میں شروع کیا۔ جیسا کہ شاید سبھی کرتے ہیں۔ میں نے بھی شاعری کی ابتداء غزل سے کی۔ سال دو سال غزلیں کہتا رہا۔ پھر نظم کہنا شروع کردی۔ میرا پہلا انتخاب ’’ ساز لرزاں‘‘کے نام سے ۱۹۵۰ء میں شائع ہوا جس میں دو تین غزلوں کے علاوہ سب نظمیں ہیں اس مجموعے کی اشاعت کے بعد میں نے شعر کہنا قریب قریب ترک کر دیا۔ بات یہ ہے کہ میں اپنی نظموں سے مطمئن نہیں تھا۔ ان میں سے کچھ مجھے پسند تھیں اور آج بھی پسند ہیں لیکن فی الجملہ مجھے انتخاب کمزور معلوم ہوا۔ چنانچہ اگلے دو تین سال میں کلا سیکی ادب کے گہرے مطالعے میں صرف کئے اور ۱۹۵۳ء کے اواخر سے غزل کہنے لگا۔ میری غزلوں کا پہلا انتخاب ۱۹۶۰ء میں حدیث دل کے نام سے شائع ہوا اس کے بعد ۱۹۷۰ء میں ’’ذوق سفر‘‘ اور ۱۹۷۶ء میں ’’ نوائے آوارہ‘‘ شائع ہوئیں۔
 گنگا کے کنارے آباد فتح گڑھ ایک چھوٹی سی صاف ستھری اور خوبصورت بستی ہے۔اُس زمانے میں جنگ کی وجہ سے چھائونی کی آبادی بڑھتی گھٹتی رہتی تھی مگر سول آبادی آٹھ دس ہزار سے زیادہ نہیں تھی جو بیشتر حصے حکام، وکیل چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والوں او رملازمت پیشہ لوگوں پر مشتمل تھے۔ وہاں کوئی ادبی انجمن تھی۔نہ ادب سے دلچسپی لینے والے لوگ کبھی کبھی چھوٹے بڑے مشاعرے ضرور ہو جاتے تھے۔ میں نے اپنی ادبی زندگی کے ابتدائی نو سال کویں کے میڈک کی طرح گذارے۔ کچھ رسالوں میں میری نظمیں چھپنے لگی تھیں کچھ ادیب دوستوں سے مراسلت کا سلسلہ بھی قائم ہو گیا تھا۔ پھر بھی مجموعی اعتبار سے میں گمنامی کی زندگی گذار رہا تھا۔ ۱۹۴۸ء میں لکھنو میں ترقی پسند مصنفین کا ایک اجتماع ہوا تھا۔ میں نے اس میں شرکت کی تھی لیکن ترقی پسند دوستوں سے متعارف ہو نے کا موقع ملا۔ بھوپال کانفرنس میں جو غالباً ۱۹۴۹ء کے اوائل میں منعقد ہوئی تھی۔ دہلی آنے کے بعد میں ترقی پسند تنظیم کا باقاعدہ رکن بنا اور آج تک اس میں امل ہوں۔ اس وقت میں نیشنل فیڈریشن آف پراگریسورائٹرز کی مجلس صدارت کا صدر ہوں۔ کئی بین الاقوامی ادبی کانفرنسوں میں شرکت اور سوویت یونین کے علاوہ یورپ اور وسطی ایشیا کے کئی ملکوں کا سفر کر چکا ہوں۔ دو مجموعے ترتیب دئیے۔ (۱) غمِ دوراں (۲) شکست زنداں ۔ جن میں سے شکست زنداں ضبط کی جا چکی ہے۔
 انگریزی میں بھی لکھتا رہتا ہوں انگریزی کے مضامین کا ایک انتخاب Poetic to Politics  کے نام سے چھپ چکا ہے۔ مندرجہ ذیل کتابوں کا ترجمہ اردو میں کر چکا ہوں۔
(1) FREEDOM STRUGGLE
(2) THE ROLE OF CENTRAL LIGISLATURE IN FREEDOM STRUGGLE
(3) THE RISE AND GROWTH OF ECONOMIC NATIONALISM IN INDIA
(4) ECONOMIC HISTORY OF INDIA PART 1 AND PART II
(5) THE GAZATEER OF INDIA, VOL.II (HISTORY AND CULTURE)
(6) SOME ASPECTS OF MUSLIM ADMINISTRATION
(7) HISTORY OF FREEDOM MOVEMENT IN INDIA , VOL.II
(8) NATIONALISM AND COMMUNAL POLITICS IN INDIA
BY Dr. Musheerul Hasan
۱۹۷۱ء میں صدر جمہوریہ نے پدم شری کے اعزاز سے نوازا لیکن  ۱۹۷۸ء میں جنتا حکومت کی منفی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر میں نے پدم شری واپس کر دیا۔ ۱۹۷۲ اور ۱۹۷۶ء میں بالترتیب ’’ ذوق سفر‘‘ اور ’’ نوائے آوارہ‘‘ پر اردو اکادمی کے پہلے انعام ملے۔ ۱۹۷۳ء میں سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ ملا۔ ۱۹۷۹ء میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا۔ ۱۹۸۲ء میں مودی غالب ایوارڈ ملا۔ ۱۹۸۳ء میں یوپی اردو اکیڈمی کا اسپیشل ایوارڈ ملا۔ ۱۹۸۶ء میں بہادر شاہ ظفر ایوارڈ ملا۔ ۱۹۸۳ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ کا ممبر منتخب ہوا۔
*********************************************************
 
You are Visitor Number : 3680