donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Idrees Sansaharvi
Journalist
--: Biography of Idrees Sansaharvi :--

 

 ادریس سنسہاروی 

Name: Hafiz Md.Idrees
Pen Name:- Idrees Sansaharvi
Father's Name:- Hafiz Abdur Rahman(Bismal Sansaharvi)
Date of Birth:- 29 Jaunuary 1922
Place of Birth::- Sansaharvi(Dist. Nawada)
Date of Death:- 25 August 1984
Place of Lying: Karim Ganj Qabristan, Gaya
اصل نام : حافظ محمد ادریس
ولدیت : حافظ عبد الرحمن (بسمل سنسہاروی)
تاریخ پیدائش : ۲۹جنوری ۱۹۲۲
تاریخ پیدائش : سنسہاروی (موجودہ ضلع نوادہ)
تاریخ وفات : ۲۵ اگست ۱۹۸۴
مدفن : کریم گنج قبرستان، گیا
ادریس سنہاروی کے والد بسمل سنسہاروی، جو نہ صرف عالم دین، بلکہ ماہر عروض، نامور شاعر اور مشفق استاد تھے۔ اسی لئے ادریس سہناروی کی ابتدائی تعلیم میں علم دین و ادب کا کافی دخل رہا، لیکن وہ دور ترقی پسند تحریک اور اشتراکی تحریک کے عروج کا دورتھا۔ ادریس سنسہاروی کا ذہن بالیدہ ہوا تو نئے علوم و فنون اور شعرو ادب کے عمیق مطالعہ نے ان کی نگاہ میں وسعت اور ذہن میں کشاد گی بھردی۔ وہ سیاسی، ادبی و صحافتی اعتبار سے مارکششٹ نظریہ کے حامی ہو گئے۔ سہیل عظیم آبادی اور شکیل الرحمن کے بلاوے پر پٹنہ گئے اور ۱۹۵۲ میں ہفتہ وار ’’زمین‘‘ شکیل الرحمن کے ساتھ اور اسی سال ماہنامہ ’’تہذیب‘‘ میں سہیل عظیم آبادی کے ساتھ مل کر کام کرنے لگے۔ حالات سازگار نہیں رہے تو ۱۹۵۵ میں وہ تلاش معاش کے سلسلے میں بمبئی پہنچے، جہاں ان کی ملاقات سجاد ظہیر سے ہوئی سجاد ظہیر اس زمانے میں ترقی پسند تحریک کے روح رواں تھے اور اخبار ’’قومی جنگ‘‘ ان کی ادارت میں ترجمان کے طور پر شائع ہو رہا تھا۔ سجاد ظہیر‘ ادریس سنسہاروی کی علمی وا دبی صلاحیتوں کے ساتھ اپنے نظر یہ کا حامی پایا، تو وہ ان سے متاثر ہوئے اورا نہیں اپنے ارادے اور ادارے میں شامل کر لیا۔ لیکن بمبئی کے حالات انہیں راس نہیں آئے اور جلد ہی وہ اپنے وطن لوٹ آئے، جہاں ان کی سیاسی، سماجی اور صحافتی سرگرمیاں تیز سے تیز ہوتی گئیں۔ وہ نہ صرف ترقی پسند تحریک کے روح رواں تھے، بلکہ اردو تحریک میں بھی کافی فعال تھے۔ ساتھ ہی ساتھ عملی سیاست میں بھی ان کا کافی دخل رہا اور وہ کمیونسٹ پارٹی گیا کے سکریٹری بھی منتخب ہوئے۔ ایک بار انہوں نے کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار کی حیثیت سے اسمبلی کے عام انتخاب میں امیدوار بھی ہوئے۔ لیکن چند فرقہ پسند عناصر کی وجہ سے وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ۱۹۵۷ سے انہوں نے اپنے والد کا جاری کردہ رسالہ ’’سہیل‘‘ کی ادارت باضابطہ سنبھال لی اور اسے ترقی پسند ادب کا ترجمان کے طور پر شائع کرنا شروع کر دیا اور بہت جلدیہ رسالہ اپنی منفرد پہچان بنانے میں کامیاب ہوا اور اس زمانے کے صف اول کے رسالوں میں اس کا شمار ہونے لگا۔ جس کی اہم وجہ ادریس سنسہاروی کا بے حد واضح مار کسی نظریہ اور سیاسی، سماجی و ادبی شعور کی کا رفر مائی تھی۔
اس دور میں صحافت آج کی طرح کمر شیلائز نہیں ہوئی تھی، بلکہ صحافت کو لوگ ایک مشن کے طور پر قبول کرتے تھے۔ اپنی جمع پونجی لٹا کر صحافت کے ذریعہ بہتر سماج اور معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں سرگرداں رہتے تھے۔
ادریس سہناروی ایسے ہی ایک صحافی تھے، جنہوں نے دولت کمانے کی بجائے سیاسی، سماجی، ادبی، لسانی، معاشرتی و تہذیبی نا ہموار یوں کو دور کرنے کی کوشش کیں۔ اس سلسلے میں ادریس سہناروی کا بڑا واضح نظر یہ تھا جس کا برملا اظہار انہوں نے اپنے ایک اداریہ میں یوں کیا تھا۔
’’اردو کے ادبی رسالے صرف جنون کے تحت جاری ہوتے ہیں، اسے جاری کرنے کے بعد وہی لوگ باقی رہتے ہیں، جو اپنا خون جلانے اور پیسہ بہانے میں لطف محسوس کرتے ہیں‘‘۔
(سہیل ستمبر ۱۹۷۸)
اپنے اداریوں میں ادریس سہناروی نے جو تجاویز منصوبے اور مطالبے پیش کئے ہیں ان کی اہمیت اور افادیت سے آج بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ان کے اداریوں کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ان کی نگاہیں کتنی دور رس اور دور بین تھیں۔ کئی دہائیوں قبل ان کے لکھے اداریوں کو آج کے کسی اخبار یا رسالہ میں نقل کر دیا جائے تو عصری تنا ظر میں بھی ان کی معنویت بالکل تازہ اور فکر سے بھر پور نظر آئیگا۔
ادریس سہناروی کی ان خصوصیات کو کسی حد تک ان کے دو فرزند مسعود منظر اور جمیل منظر نے قبول کیا ہے اور اپنے اپنے طور پر اپنے والد کے جلائے چراغ کو روشن رکھنے کی کوششوں میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔
(بشکریہ ڈاکٹر سید احمد قادری، گیا)

 

 
You are Visitor Number : 1779