donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Kaif Azimabadi
Poet
--: Biography of Kaif Azimabadi :--

 

 کیف عظیم آبادی 
 
 
محمد یٰسین  ولد عبد الغفور ( قلمی نام کیف عظیم آبادی) پٹنہ کے محلہ شاہ گنج میں ۸ٖ جون ۱۹۳۷ء کو پیدا ہوئے۔ والد تحریک مجاہدین صادقپور کے سرگرم رکن تھے۔ مگر کیف کی کم عمری میں ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ بڑے بھائی محمد لقمان بھی تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے گئے۔ تو گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ ان کے ناتواں کاندھوں پر آپڑا۔کسب معاش کے لئے انہوں نے انجینئرنگ کالج موڑ پر ایک چھوٹی سی ٹیلرنگ شاپ کھول لی جہاں کپڑوں کی سلائی کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کی پذیرائی بھی ہوتی رہی۔ ابتداء میں اساتذہ اور معاصرین کے اشعار ترنم سے سناتے رہے، پھر خود بھی مشقِ سخن کرنے لگے۔ رمز عظیم آبادی کی حوصلہ افزائی نے اس شوق کو جلا بخشی اور ان ہی سے باضابطہ اصلاح بھی لیتے رہے۔ مشاعروں میں شرکت کا آغاز ۱۹۵۴ء میں پٹنہ کے اس آل انڈیا مشاعرے سے ہوا جس کا اہتمام بہار ریاستی انجمن ترقی ارو نے کیا تھا۔ اور جس میں کشن پرساد کال، عرش ملسیانی، جگن ناتھ آزاد اور پرویز شاہدی جیسے نامور شعراء نے شرکت کی تھی۔ اس کے بعد پٹنہ اور بیرون شہر کے مشاعروں میں شرکت کا سلسلہ بڑھتا گیا۔ کلام معیاری تھا اور آواز سحر انگیز، اس لئے جلد ہی بیرو ن ملک بھی مشاعروں میں بلائے جانے لگے۔ 
۱۹۷۵ء سے ۱۹۹۳ء کے دوران ہندستان کے مختلف شہروں کے علاوہ کراچی، اسلام آباد، جدہ ، ریاض ، ابو ظہبی ، دبئی ، شارجہ اور علین وغیرہ میں منعقد ہونے والے مشاعروں اور ادبی تقریبات میں تواتر کے ساتھ شرکت کے سبب ان کی ادبی سرگرمیوں میں دن بہ دن اضافہ ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ دوکان داری کی جانب ان کی توجہ کم ہوتی گئی۔ اور مشاعروں میں شرکت ہی ذریعہ معاش بن گئی۔ اس دوران نومبر ۱۹۷۹ء میں ایک حادثے کا شکار ہوئے اور کئی ماہ تک چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے۔ طویل علاج اور آپریشن کے بعد بہت دنوں تک بیساکھی کے سہارے چلتے رہے۔ ۲۴ جنوری ۱۹۹۴ء کو ان کا انتقال ہو گیا اور شاہ گنج قبرستان میں مدفون ہوئے۔
 
 کیف کی درج ذیل کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں:
 
صدائوں کے سائے ( مجموعہ غزل) بہار اردو اکادمی کے مالی تعاون سے ۱۹۸۲ء میں شائع شدہ ۔ مرتبہ شادا رضی ۔۲ اپنے لہو کا رنگ ( مجموعہ غزل) ۱۹۸۸ء میں پٹنہ سے شائع شدہ ۔ ۳۔ انگنائی (قطعات کا مجموعہ۱۹۸۷ء مرتب تحسین آرا کیفی ( دختر کیف) ، ۴۔ لہریں( ہندی میں)۵۔ جنون و آگہی قطعات کا مجموعہ )مرتب ڈاکٹر احمد حسین آزاد۔
 
 ڈاکٹر احمد حسین آزاد کی نگرانی میں غلام جیلانی نے ’’ کیف عظیم آبادی حیات اور کارنامے‘‘ کے عنوان سے تحقیقی مقالہ لکھ کر مگدھ یونیورسٹی بودھ گیا سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی ہے۔ ان کی غزلوں کی ویڈیو کیسٹ ہندستان کی کئی کمپنیوں نے پروموٹ کئے ہیں۔
 کیف عظیم آبادی تقریباً تیس برسوں تک مشاعروں کے مقبول شاعر رہے ہیں۔ ان کے معاصرین نے ان کی فتوحات کا اعتراف کیا ہے۔ مثلاً ڈاکٹر بشیر بدر کا خیال ہے: 
 
 ’’ کیف عظیم آباد ی کی غزلیں نغمگی، حسن روایت اور جدت کا خوبصورت امتزاج ہیں۔ کیف غزل کے ان چند مقبول شاعروں میں شامل ہیں جو مشاعروں میں اچھے شعروں سے مشاعرے کا اور سامعین کا ادبی معیار قائم کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔
 
میں سمجھتا ہوں کہ اردو شاعری کی روایت سے بھر پور استفادے کے سبب ان کی غزلیں جمالیاتی کیف سے بہرہ ور ہیں۔ وہ فکر و فلسفہ سے زیادہ حساس اور جذبے کے شاعر ہیں۔ جدیدیت کے دور عروج میں پروان چڑھنے کے باوجود ان کی غزلوں میں جدیدیت کے عام موضوعات مثلاً بے چہرگی، انتشار، خوف و ہراس اور مشینی بھاگ دوڑ وغیرہ خال خال نظر آتے ہیں۔ بعض  غزلوں پہ رمز کے رنگ کا بھی اثر ہے۔ مگر مجموعی طور پر ان کا ایک منفرد انداز بیان ہے جو بقول ڈاکٹر عبد المغنی ایک معصوم اور سادہ سی کیفیت سے عبارت ہے۔ ’’ جنون و آگہی‘‘ کے قطعات فلسفیانہ انداز فکر کا نمونہ ہیں جب کہ ’انگنائی‘ کے قطعات میں انہوں نے اپنی شریک حیات اور ا زدواجی زندگی کے خد و خال ابھارے ہیں ان کے اسلوب کی روانی اور تازگی پر تاثیر ہے۔ مشکل تراکیب ان کے یہاں بہت کم ملتی ہیں۔ نمونہ کلام درج ذیل ہے۔
 
 راہ چلتے ہوئے شوکیس کو دیکھا نہ کرو
 کرب ہی کرب لئے لوٹ کے گھر جائو گے
تم سمندر کی رفاقت پہ بھروسہ نہ کرو
 تشنگی لب پہ سجائے ہوئے مر جائو گے
 وقت اس طرح بدل دے گا تمہارے خد و خال
 اپنی تصویر جو دیکھو گے تو ڈر جائو گے
٭٭
یہ خرد، آگہی، یہ رقص جنوں
 سب تماشہ ہیں راہ میں ساقی
٭٭
علم و دانش کے اجالے میں پریشاں ہے دماغ
 آئو معصوم جہالت کا اندھیرا ڈھونڈیں
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
*****************
 
You are Visitor Number : 2118