donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
M Q Khan
Writer
--: Biography of M Q Khan :--

M Q Khan

 

م ق خاں
 
م ق خاں نئی نسل کے افسانہ نگاروں سے تعلق رکھتے ہیں ان کا پورانام محمد قمرالدین خاں ہے، معروف گنج گیا کے رہنے والے ہیں ان کے یہاں نہ تو ماضی کی شکست وریخت سنائی دیتی ہے ، اور نہ ہی حال کی گھن گرج، ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ان کے یہاں گزرہے ہوئے درد کا ہلکا ہلکا عکس نظر آتا ہے جسے وہ تلاش وجستجو کی روشنی سے مٹانا چاہتے ہیں عام طور پر ان کے یہاں وہنی عمل اور نفسیاتی کیفیات کی عکاسی ملتی ہے، کہیں کہیں انسانی جذبات کو حسن واسلوبی سے پیش کرنے کی کوشش بھی کی ہے ان کے یہاں سماجی اور سیاسی بحران سے وہ چار ایسے متوسط طبقے کی کہانی بھی ملتی ہے جن کے اندر وہ قوت اور ہمت نہیں ہے جس کے ذریعے وہ اس بحران سے نکل سکیں انہوں نے اپنے کچھ افسانوں میں محنت ومشقت کرنے والے طبقہ کی نفسیاتی کمزوریوں کو بھی دکھانے کی کوشش کی ہے جو سرمایہ داروں کے مکروہ فریب کے شکار ہیں بازگرو، احساس آبلہ پائی تماشا، اور میں نہیں کہہ سکتا ایسی ہی کہانیاں ہیں جن میں مزدور اور سرمایہ داری کے درمیان فردوش، سلطنت اور زندگی کے راز عریانیت اور اخلاقی بحران وغیرہ کو پیش کیا گیاہے۔ تعاقب ٹوٹا ہواپل وصیت ،بے سمت راستہ ،اور ، کنواں وغیرہ ایسی ہی کہانیاں ہیں جن میں اعلیٰ اقدار حیات کی شکست دریخت کے باعث ایک بے کسی کا اظہار ملتا ہے۔ 
اگرچہ م،ق،خاں کے افسانے قدامت کے خلاف ایک کھلی بغاوت کا نشان ہیں لیکن اعلیٰ اقتدار حیات کی شکست کے باعث خوف، گھٹن ، جنس اور ایک ایسی بے بسی کا اظہار نمایاں ہے خود ان کا مجموعہ فن میں نہیں کہہ سکتا، اس امر کی بین دلیل ہے کہ وہ ماضی کے نسل کے افکار کے باوجود کس قدر عاجزی اور ناگزیت کے شکار ہیں۔
 امیجز:تشبیہات اور استعارات پیدا کرنے کی کوشش میں م، ق خاں حد سے زیادہ آگے نکل گئے ہیں جن کی وجہ سےان کے بعض افسانوں کی تاثیر کم ہوگئی ہے لیکن اس رمز واشاریت اور تشبیہہ واستعارات کی وجہ سے ان کی بعض کہانیاں بہت ہی اچھی ہوگئی ہیں۔ نیند لانے کی ساری کوششیں بیکار نیند کاپنچھی دور اڑتارہتا اور ان کی آنکھوں کا پنجڑخالی کاخالی رہ جاتا پنجرے کا کھلا دروازہ پنچھی کی آمد کا منتظر رہتا اور صبح ہوجاتی سورج کی شاعیں انہیں پھر اس وادی کی طرف ہانک دیتیں جہاں وہ سارادن کام کرنے پر مجبور ہوجاتے ۔’’بازگرد‘‘ م ،ق، خاں کا افسانوی مجموعہ میں نہیں کہہ سکتا ، ۱۹۸۰ء میں منظر عام پر آیا ہے اس میں کل ۱۷ افسانے ہیں اس مجموعہ کے افسانوں کے مطالعہ سے ان کی فنکارانہ صلاحیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے اور بھی محسوس کیا جاسکتا ہے کہ ان کے پاس قارئین کو کہنے کیلئے کچھ سنجیدہ اور گہری باتیں ہیں اس میں شامل افسانے اس عہد کی تصویر کشی کرتے ہیں جہاں مدت سے بکھرائو ہے قدروں کی ٹوٹ پھوٹ ہے، ذہنوں میں انتشار ہے مگر امید کی ایک کرن باقی ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا۔ جب اس عہد کا مقدر سنور جائے گا۔ نئی تبدیلیاں سامنے آئیں گی اس طرح م ق خاں نے اپنے قارئین کو بہت سی اچھی کہانیاں دی ہیں اور مستقبل قریب میں ان سے اچھی کہانیوں کی امید کی جاسکتی ہے، وصیت،کیا نام دوں، بے سمت راستہ، بازگرد، اور کتا، وغیرہ ان کی اچھی کہانیاں ہیں۔
’’بشکریہ بہار میں اردو افسانہ نگاری ابتدا تاحال مضمون نگار ڈاکٹر قیام نیردربھنگہ‘‘’’مطبع دوئم ۱۹۹۶ء‘‘
++++
 
 
You are Visitor Number : 1545