donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Mahmood Ayubi
Journalist
--: Biography of Mahmood Ayubi :--

 

محمود ایوبی

Name: Mahmoodul Hasan Ayubi

Pen Name:- Mahmood Ayubi

Father's Name:- Syed Md. Ayub

Date of Birth:- 10 February, 1939

Place of Birth::- Munger (Bihar)

Date of Death:- 7 February 2010

Place of Lying: Mumbai

اصل نام : محمود الحسن ایوبی
ولدیت : سید محمد ایوب
تاریخ پیدائش : ۱۰ فروری ۱۹۳۹ 
جائے پیدائش : مونگیر (بہار)
وفات : ۷فروری ۲۰۱۰
مدفن : ممبئی
محمود ایوبی، بہار کے ایسے صحافی تھے، جنہوں نے بہار کی بجائے علی گڑھ، کلکتہ اور بمبئی میں صحافت کی، لیکن بہار کی اردو صحافت پر ان کی ہمیشہ گہری نگاہ رہی اور درپردہ انہوں نے بہار سے تعلق رکھنے والے نو وار دوں کو صحافت کے پیچ و خم سے نہ صرف واقف کرایا بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کر ان کے لئے آگے کے سفر کے راستوں کو ہموار کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ اس ضمن میں ریاض عظیم آبادی شاہین نظر اور سید احمد قادری وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔
محمود ایوبی کا بچپن ان کے آبائی وطن مونگیر میں بڑے آرام و آسائش میں گزرا۔ دینی تعلیم انہوں نے اپنے خاندانی بزرگوں سے حاصل کی۔ طالب علمی کے زمانہ سے ہی اشترا کی ادب کا مطالعہ کرنے لگے تھے۔ دراصل اس عہد میں بنگال اور بہار میں اشترا کی تحریک اور اشتراکی ادب کے اثرات بے حد نمایاں تھے۔ باشیوک لٹریچر کی انسانی زندگی اور انسانیت پر مبنی فلسفہ حیات سے محمود ایوبی متاثر ہوئے اور بچپن ہی میں اس فلسفہ حیات کی یہ اثر انگیزی تھی کہ انسان اور انسانیت کی خدمت کا ایک باوقار اور جرأت مندانہ پیشہ صحافت کو انہوں نے اپنایا اور اس جرأت مندا ، حوصلہ مند، بے باک اور بے لاگ صحافت سے وہ عمر کے آخری ایام تک جڑے رہے۔
محمود ایوبی کے والد اپنے شہر کے ایک بااثر وکیل تھے، اس لئے وہ چاہتے تھے کہ ان کا یہ فرز ند بھی اسی پیشہ کو اختیار کرے، لیکن محمود ایوبی ایک باغی ذہن کے ،مالک تھے۔ وہ اپنا راستہ خود بنانا چاہتے تھے، اس لئے گر یجوئیش کے بعد وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آ گئے اور یہاں سے انہوں نے ایم۔ اے۔ کیا۔ ان کی صحافت نگاری کی بنیاد یہیں پڑی، وہ اس طرح کہ انہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میگزین کے ایڈو ٹوریل بورڈ میں شامل کر لیا گیا۔ اور حسن اتفاق کہ اس میگزین کے ایڈیٹر قمر رئیس تھے جو بذات خود اشتراکی نظریہ کے حامیوں میں تھے۔ علی گڑھ میں ان کی صحافتی اور ادبی سرگرمیاں بھی بڑھیں اور ان کی تنظیمی صلاحیتیں بھی ابھر کر سامنے آئیں۔ ایم۔ اے۔ کرنے کے بعد وہ بہار کے ایک کالج میں درس و تدریس سے بھی جڑے۔ لیکن ان کی سوچ اور فکر کا کینواس کافی وسیع تھا اور وہ اس محدوددائرے میں گھٹ کر رہنا نہیں چاہتے تھے۔ اس لئے انہوں نے کلکتہ کا رخ کیا اور احمد سعید ملیح آبادی کے مشہور اخبار ’’آزاد ہند‘ سے منسلک ہو گئے۔ یہاں آکر گرچہ انہیں بے حد مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ اردو صحافت سے منسلک ہونے کے بعد ضروریات زندگی کس طرح پوری ہونگی، یہ سوال ہمیشہ سر اٹھائے رہتا ۔ محمود ایوبی کے سامنے بھی یہ سوال بہر حال تھا، لیکن کچھ الگ کر گزر نے کا حوصلہ ہی انہیں اس سنگلاح اور خاردار راستوں پر چلنے کے لئے مجبور کرتا رہا۔ ’’آزاد ہند‘‘ کے بعد ۱۹۷۰ سے کلکتہ سے جاری ہونے والا غلام سرور کا روزنامہ ’’سنگم‘‘ سے وہ وابستہ ہو گئے۔ متحدہ محاذ کی حکومت قائم ہو چکی تھی، اس لئے ان کے ذہنی افکار و خیالات کو دیکھتے ہوئے غلام سرور نے انہیں نیوز ایڈیٹر مقرر کر دیا۔ کلکتہ میں گزارے وقت کی کٹھی میٹھی یادوں کو وہ کبھی نہیں بھولے۔ یہاں کے سردو گرم ماحول کے احساسات و جذبات، مختلف شخصیات سے ملاقاتیں اور سیاسی، سماجی اور معاشرتی تبدیلیاں، ایک نیا منظر نامہ بن کرا بھرا۔ غریبوں، مزدوروں کے درد و غم اور ان کے استحصال کے خلاف ان کا قلم شمیشربرہنہ بن کر سامنے آیا اور ان کی تحریروں کا ایک زمانہ گرویدہ ہو گیا۔ ان کے اندر خوداعتمادی بڑھنے لگی، ذہنی بالیدگی اور صحافتی شعور کی پختگی ، آزادی تحریرچاہتی تھی۔ اس لئے انہوں نے بمبئی جیسے بڑے شہر کو دائرہ کار میں لانے کے لئے وہاںپہنچ گئے اور اردو روزنامہ ’’ہندوستان ‘ ‘ ، ’’اردو ٹائمز‘‘ اور ’’انقلاب ‘ ‘ میں اپنی قلم کا جادو دکھاتے ہوئے وہ حسن کمال کی کوششوں سے ’’بلٹز‘‘ میں پہنچ گئے، جہاں پہنچ کر وہ اردو ایڈیشن ’’بلٹز‘‘ کے سب ایڈیٹر بن گئے۔ اس قومی اور بے حد معیاری ہفتہ وار میں محمود ایوبی کو اپنی صحافتی جوہر دکھانے کے کافی مواقع ملے۔ محمود ایوبی نے عمر بھر جس طرح اردو صحافت کی دیا نتداری کے ساتھ ریاضت اور عبادت کی، وہ اپنے آپ میں ایک زندہ مثال ہے اور اردو صحافیوں کے لئے مشعل راہ ہے۔
محمود ایوبی کے کئی افسانوی مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں اور افسانوی ادب میں بھی ان کی نمایاں شناخت ہے۔
(بشکریہ ڈاکٹر سید احمد قادری، گیا)
 
 
You are Visitor Number : 1812