donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Mateen Emadi
Poet/Writer
--: Biography of Mateen Emadi :--

 

 متین عمادی 
 
 
سید متین الحق ، ابن سید شاہ صبیح الحق عمادی میٹرک سرٹی فیکٹ کے مطابق ۲۸؍ فروری ۱۹۴۲ء کو خانقاہ عمادیہ منگل تالاب پٹنہ سیٹی میں پیدا ہوئے۔ ابتداء میں دینی اور عربی و فارسی تعلیم والد بزرگوار سے حاصل کی۔ پھر انگریزی تعلیم کے لئے حمید عظیم آبادی (مرتب میخانہ الہام، دیوان شاد) کے سپرد کئے گئے ۔ پٹنہ سیٹی کی مشہور درس گاہ محمڈن اینگلو عربک ہائی اسکول سے ۱۹۵۷ء میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا۔ مگدھ یونیورسٹی سے ایم اے ( اردو اور فارسی ) کے امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ڈپ ان ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔ ایک عرصے تک محمڈن اسکول میں درس و تدریس کے فرائض انجام دئے اور ۲۰۰۲ء میں سبکدوش ہو گئے۔ ۱۹۸۷ء میں انہوں نے خادم الحجاج کی حیثیت سے حج کی سعادت حاصل کی۔ ۲۰۰۳ء میں شاد اسٹڈی سرکل کی جانب سے انہیں شاد عظیم آبادی سمان سے نوازا گیا اور ۲۰۰۴ء میں بہار اردو اکادمی نے مجموعی ادبی خدمات کے اعتراف میں انعام دیا۔ نرم گفتار ، خوش اخلاق، ملنسار اور وضع دار شخصیت کے مالک متین عمادی فی الحال عظیم آباد کی کئی ادبی انجمنوں کی سرپرستی کے علاوہ تصنیف و تالیف کے کاموں میں مشغول ہیں۔ مشاعروں میں پابندی سے شرکت کرتے اور کلا سیکی ترنم کے ساتھ اپنا کلام سناتے ہیں۔
 
 متین کا تعلق ایک ایسے صوفی گھرانے سے ہے جس میں تبلیغ دین، اور علوم و فنون کا سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ ان کے اسلاف میں سب سے قدیم نام حضرت خواجہ عماد الدین قلندر عماد پھلواری بانی خانقاہ عمادیہ کا ہے جو بہار میں اردو زبان و ادب کے ابتدائی معمار وں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ ان ہی کی نسبت سے متین خود کو عمادی لکھتے ہیں۔ حضرت عماد کے صاحبزادے حضرت غلام نقشبند سجاد عہد میر سے قبل کے شاعر ہیں۔ اس خانوادے میں شاہ نور الحق طباں اور ظہور الحق ظہور ہیں۔ ان بزرگوں نے اردو نثر کی بھی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
 
متین کے والد خانقاہ عمادیہ کے آٹھویں سجادہ نشیں تھے۔ ان کے عقیدت مند اور غزلیہ کلام کا مجموعہ ’’ نقوش صبیح کے نام سے بہار اردو اکادمی کے جزوی مالی تعاون سے شائع ہوا تھا۔ جس کے مرتب متین عمادی تھے۔ ۲۰۰۶ء میں ان کی مرتب کردہ دوسری کتاب’’ مراثی ظہور بھی اردو اکادمی کے مالی تعاون سے شائع ہوئی جس میں ایک مبسوط مقدمہ کے ساتھ ساتھ ظہور الحق کا بھر پور تعارف اور خاندانی شجرہ موجود ہے۔ اسی سال ان کی کتاب’’ فضل حق آزاد بہار اردو اکادمی نے مشاہیر بہار سیریز کے تحت بہت سلیقے سے شائع کی ہے۔ کتاب کے مقدمہ میں آزاد کی شخصیت اور ادبی خدمات خصوصاً شاعری کا بھر پور جائزہ لیا گیا ہے۔ طرحی مشاعروں کے کچھ گلدستے بھی متین نے مرتب کئے ہیں۔
 
متین عمادی کی نگارشات کا سرسری مطالعہ بھی علم و ادب سے ان کی غیر مشروط وابستگی کا احساس دلاتا ہے۔ انہوں نے ایں خانہ ہمہ آفتاب است کے مصداق اپنے خانوادے کی علمی و ادبی روایت کو آگے بڑھایا ہے ۔ مگر ان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ کسی خاص صنفِ ادب کے پابند رہے ہیں نہ کسی مخصوص طرز سخن کے انہوں نے شاعری بھی کی ہے اور نثر نگاری بھی، تحقیقی و تنقیدی مقالے بھی لکھے ہیں اور ظریفانہ مضامین بھی۔ شاعری میں ان کا خاص میدان نعت گوئی اور غزل گوئی ہے۔ لیکن سلام ، نوحہ اور منقبت کے نمونے بھی ان کے یہاں موجود ہیں۔ جن سے ان کے بالیدہ شعری ذوق کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایک نعت پاک کے اشعار درج ذیل ہیں۔
 
جلوہ احمد مختار میں کھو جاتے ہیں
 ان کے آئینہ کردار میں کھو جاتے ہیں
 نعت لکھتا ہوں جو پاکیزہ تصور لے کر 
لفظ سب مطلع انوار میں کھو جاتے ہیں
 حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا کی قسم
 اے خدا ہم ترے شہکار میں کھو جاتے ہیں
 جس کی محفل میں صحابہ تھے ستاروں کی طرح
 ہم اسی حسن کی سرکار میں کھو جاتے ہیں
 
 غزلوں میں روایت کی پاسداری کے ساتھ احساس کی تازہ کاری کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جا سکتا ہے
 
 بزدلی اپنے قبیلے کی وراثت ہی نہیں
 جھوٹ بولو ں، یہ میرے گھر کی روایت ہی نہیں
 بے ضمیری کے مصلے پہ رہوں سجدہ گذار
 آئی حصے میں مرے ایسی ذلالت ہی نہیں
 ایک سوکھی ہوئی ٹہنی ہے دعا بے گریہ
 سجدہ بے معنی اگر روح عبادت ہی نہیں
 ہے بہت دولت سیال سے چہرے پہ دمک
 جس شجاعت کی ضرورت ، وہ شجاعت ہی نہیں
 
متین اسم با مسمیٰ ہیں وہ زاہد پاکباز ضرور ہیں مگر ان کے مزاج میں زاہد انہ خشکی کی جگہ بذلہ سنجی اور شگفتگی ہے۔ یہ شگفتگی اس وقت زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔ جب وہ عہد حاضر کی کسی نا ہمواری کو نشانہ بناتے ہیں۔ اخباروں میں شائع ہونے والے ان کے قطعات میں اسلوب کا یہ رنگ دیدنی ہوتا ہے۔ انہوں نے مختلف رسائل میں کم و بیش آدھ درجن ظریفانہ مضامین ( جنہیں وہ انشائیہ کہتے ہیں ) بھی لکھے ہیں جن میں سنڈے کی فضیلت سب سے نمایاں ہے۔ ان کا کوئی مجموعہ کلام اب تک شائع نہیں ہوا ہے۔ مگر طرحی وغیر طرحی غزلوں کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے۔
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
****************
 
 
You are Visitor Number : 1838