donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Mirza Abdul Qadir Bedil
Poet/Writer
--: Biography of Mirza Abdul Qadir Bedil :--

 Mirza Abdul Qadir Bedil 

 

Mirza Abdul Qadir Bedil also known as Bedil Dehlavī (1642–1720), was a famous Persian poet and Sufi born in Azimabad, Patna, India, to a family of Chaghatay Turkic descent.He mostly wrote Ghazal and Rubayee (quatrain) in Persian and is the author of 16 books of poetry (contain nearly 147,000 verses and include several masnavi). He is considered as one of the prominent poets of Indian School of Poetry in Persian literature, and owns his unique Style in it. Both Mirza Ghalib and Iqbal-e Lahori were influenced by him. 
Mirza Abdul-Qader Bedil is one of the most respected poets with the Afghans. In the early 17th century, his family moved from Afghan Turkestan (Balkh region) to India, to live under the Moghul dynasty. Bedil himself, although ethnically an Uzbek, was born and educated in Azimabad, Patna, India. In his later life he spent time travelling and visiting his ancestral lands.
 
His writings are extensive and none have been lost. His kulliat (complete works) consist of many ghazals, tarkib-bands, a tarjih-band, mu'ammas (riddles) and more. He also wrote four masnavis, the most important being "Irfaan", which he completed at age 68. It contains many stories and fairy tales, outlining the poets philosophical views.
 
Possibly as a result of being brought up in such a mixed religious environment, Bedil had considerably more tolerant views than his poetic contemporaries. He preferred free thought to accepting the established beliefs of his time, siding with the common people and rejecting the clergy who he often saw as corrupt.
 
He essentially believed that the world was eternal, and in constant motion. He believed that all life was first mineral, then plant, then animal. He also expressed disbelief in judgement day and other orthodox tenets of faith. Despite this, he was by no means an atheist or a freethinker in the modern day sense. On the contrary, he had complicated views on the nature of God, heavily influenced by the Sufis (with whom he spent a considerable period of time).
 
Bedil enjoyed virtually no fame in Iran, and only few scholars knew of him until recently. In Afghanistan and Tajikistan, however, he had a following that almost followed like a cult. People would get together at weekly Bedil meetings to study and interpret his poetry, and he was the poet of choice for many ghazal singers (including the most illustrious of all, Ustad Sarahang, who even expressed his desire to be buried at Bedils tomb.)
 
The language of Bedil is as complicated as his thoughts. His sentence structure and use of images often requires time to comprehend, being as difficult for a Dari speaker as Shakespeare is for the modern English speaker. If comparing his language to the Iranian contemporary poets such as Sa’ib, one can clearly see the difference between modern Dari and Iranian Farsi.
 
 
 ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل عظیم آبادی --   بیدل دہلوی 
 
 علی بابا تاج 
 
دنیائے فارسی کے عظیم شاعر حضرت ابوالمعانی میرزا عبدالقادر بیدل دہلوی (عظیم آبادی) 1054ہجری بمطابق 1644عیسوی ،ہندوستان کے صوبہ بہار کے شہر عظیم آباد(موجودہ پٹنہ )میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق چغتائی ارلاس (برلاس) قوم سے تھا۔والد کا نام میرزا عبدالخالق تھا ۔والد اور والدہ کا انتقال ان کے بچپن ہی میں ہوا جس کی وجہ سے پرورش اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری ان کے چچا میرزا قلندر پر آئی جو ایک عالم فاضل شخص تھے۔انہوں نے بیدل کی پرورش میں کوئی کمی نہ ہونے دی،بیدل کواپنے چچا سے بڑی عقیدت تھی چنانچہ جب چچا فوت ہوئے تو بیدل نے ان کی وفات پر اپنی محبت اور جذبات کا اظہار اس طرح سے کیا تھا:
سپہ سالار دین میرزا قلندر 
محیط لطف و کان مہربانی
بہ گوش ہوشم آخر ہاتفی گفت
قلندر یافت وصل جاودانی
میرزا قلندر، بیدل کی تعلیم کے معاملے میں اتنے ذمہ دار اور حساس تھے ۔ایک بار جب بیدل کو مدرسے میں داخل کرایالیا گیا تھا تو وہ خود خبر گیری کے لئے ہمیشہ مدرسے کا چکر لگاتے ایک دن میرزا قلندر وہاں پہنچے تو مدرسے کے دو استادوں کو نحو کے کسی مسئلے پر جھگڑتے دیکھا ، جب انہوں نے یہ صورت حال دیکھی تو کہا کہ ان جاہلوں سے دور رہنا ہی بہتر ہے یہ کیا کسی کی تربیت کریں گے؟
یہ واقعہ باعث بنا کہ بیدل کو مدرسے نکلوادیا گیا اور پھر گھر پر ہی ان کی تعلیم کا سلسلہ شروع کرادیا گیا اس سلسلے میں ان کے چچا میرزا قلندر اور ماموں میرزا ظریف نے درس دینا شروع کیا۔بیدل نے گھر پر ہی فارسی کا شعری ادب پڑھا ۔اس کے علاوہ ماموں سے قرآن کی تفسیر کی تعلیم حاصل کی۔بیدل نے اس عرصے میں رودکی سمرقندی، شیخ سعدی، امیر خسرو، مولانا رومی، حافظ اور مولانا جامی جیسے اکابرین کے کلام کا بڑی محنت سے مطالعہ کیا۔بیدل کی ذہانت کایہی ثبوت ہے کہ انہوں نے پانچ سال کی عمر میں قرآن کریم کو پڑھنا شروع کیا تھااور دس سال کی عمر میں صرف و نحو کا درس لینے لگے تھے۔
میرزا عبدالقادر بیدل کو کتابیں پڑھنے سے عشق تھا۔ جہاں انہوں نے فارسی کے چوٹی کے شعراء کا مطالعہ کیا تھا وہاں ابن العربی اور بو علی سینا کے افکار و خیالا ت سے بھی آگاہی حاصل تھی۔علاوہ ازیں بیدل علم طب، علم نجوم، رمل، علم موسیقی اور فن پہلوانی پر بھی عبور رکھتے تھے۔شروع میں شہزادہ محمد اعظم شاہ بن اورنگزیب عالم گیر کے اتالیق اور استاد رہے۔اتفاق دیکھئے کہ شہزادہ خود شعر و ادب کا بڑا دلدادہ تھالیکن اسے بیدل کے شاعر ہونے کا قطعاً علم نہیں تھا اور نہ کبھی اس کا تذکرہ بیدل نے کیا تھا۔ایک موقع پر کسی خیر خواہ نے شہزادے کو بتایا کہ ہندوستان کا سب سے بڑا شاعر بیدل ہے جو آپ کے دربار میں موجود ہے۔شہزادے کو اس بات پر تعجب ہوا اس نے بیدل سے قصیدہ لکھنے کی فرمائش کی لیکن بیدل نے استعفیٰ دیا اور قصیدہ نہ لکھا۔
بیدل نے طب کو بھی ذریعہ ء معاش بنایا ہوا تھاا ور اس میں کافی شہرت رکھتے تھے۔یہ بیدل کی ہمہ جہت شخصیت کاکرشمہ تھاکہ وہ بیک وقت کئی علوم و فنون پر دسترس رکھتے تھے۔ اسلامی علوم و تصوف کے علاوہ ہندومت کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہوا تھا۔خصوصاً مہا بھارت کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔
تصوف میں بیدل کے والد گرامی میرزا عبدالخالق کا سلسلہ قادریہ سے وابستہ تھے چنانچہ بیدل کا نام بھی غوث الاعظمحضرت عبدالقادر جیلانی کی نسبت سے "عبدالقادر" رکھا گیا۔ بیدل نے تصوف کے بنیادی نکات کی تعلیم میں میرزا قلندر سے حاصل کی تھی مگر بعد میں انہوں نے تقریباً تمام آئمہ ء کرام تصوف کا باقاعدہ مطالعہ کیا یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں دیگر موضوعات کے علاوہ تصوف کا موضوع بھی بھر پور شکل میں سامنے آتاہے۔
بیدل کے کلام میں تصوف کے علاوہ فلسفہ و فکر کا عنصر نمایاں ہے۔وہ زندگی ، وجود، کائنات اور فطرت کی رنگارنگی کے ایک حوالے سے ایک الگ نظریہ رکھتے ہیں اسی وجہ سے بعض اوقات ان کے اشعار میں فلسفیانہ مضامین قارئین کی فکر رسا کے لئے مسئلہ بن جاتے ہیں لیکن بیدل خود ہی اس وضاحت جگہ جگہ کرتے رہتے ہیں:
جنون می جوشد از طرز کلامم 
زبانم لغزش مستانہ ی کیست
۔۔۔
معنی بلند من فہم تند می خواہد
سیر فکرم آسان نیست کوہ ہم و کتل دارد
بیدل کی مشکل گوئی اور مشکل پسندی سے شبلی نعمانی جسیے نقاد فن تک نالاں نظر آتے ہیں بلکہ وہ بیدل کو ناصر علی سرہندی کی صف میں لا کر انہیں طرز فغانی کے ذمہ دار ٹھہراتے ہیں(شعرالعجم۔جلد پنجم) لیکن دلدادگان بیدل کی بیدل سے بے پناہ عقیدت کو سامنے رکھتے ہوئے نکتہ چینوں کے اعتراض کو بآسانی رد کیا جا سکتا ہے۔اس سلسلے میں اگر میرزا اسداللہ خان غالب اور علامہ اقبال کے حوالے سے بیدل کا مطالعہ کیا جائے تو نتیجہ نکلتا ہے کہ بیدل کے دم سے ہی ان نابغوں کو شہرت دوام حاصل ہوئی ہے۔غالب کے کئی اشعار میں جہاں بیدل کا نام ایک مضبوط تلمیح کے طور پر سامنے آیا ہے وہاں غالب کی عقیدت کا اظہار اور بیدل کے فن کا اعتراف بھی جھلکتا ہے:
اسد ہر جا سخن نے طرح باغ تازہ ڈالی ہے
مجھے رنگِ بہار ایجادی بیدل پسند آیا
۔۔۔
طر ز بیدل میں ریختہ کہنا 
اسد اللہ خاں قیامت ہے
۔۔۔
مجھے راہِ سخن میں خوف گمراہی نہیں غالب
عصائے خضر صحرائے سخن ہے خامہ بیدل کا
ایسے کئی اشعار ہیں کہ جن میں غالب جیسے خود بین و آزادہ صفت شاعر نے کھلم کھلااپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔(اس پر ڈاکٹر عبدالغنی کا مضمون بیدل اور غالب میں سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔)
فارسی ادب کے طالب علموں سے یہ بات کسی طور پوشیدہ نہیں رہی ہے کہ اقبال اور بیدل میں کافی مشترک باتیں پائی جاتی ہیں(بیدل اور اقبال۔۔۔ ایک سرسری مطالعہ ، ڈاکٹر عبدالغنی)۔ مطالعہ بیدل فکر برگساں کی روشنی میں ڈاکٹر تحسین فراقی نے کہا ہے کہ بیدل شناسی اور اقبال شناسی کے حوالے سے علامہ اقبال کی کتاب "مطالعہ بیدل فکر برگساں کی روشنی " ایک قابل ذکر کتاب ہے جس میں علامہ اقبال نے بیدل کے فکری اور فلسفیانہ رجحانات پر قلم فرسائی کی ہے۔ اس کے علاوہ بیدل کے شعر:
"دل اگر می داشت وسعت بی نشان بود این چمن
رنگِ می بیرون نشست از بسکہ مینا تنگ بود" 
کی زمین پر اردو میں میرزا بیدل کے عنوان سے ایک نظم بھی کہی ہے۔(ضرب کلیم)
دیکھا جائے تو بیدل اور بیدل شناسی پربرصغیر پاک و ہند ،افغانستان تاجکستان اور ایران میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور مزید لکھا جا رہا ہے۔ اس میں چند "بیدل شناسوں"کا تذکرہ کرنا بے جا نہ ہوگا ۔جنہوں نے تحقیق و تالیف اور بیدل شناسی میں نام پیدا کیاان میں علامہ اقبال،ڈاکٹر عبدالغنی،سید عابد علی عابد، خواجہ عبدالرشید ،عباداللہ اختر،مجنون گورکھپوری،صلاح الدین سلجوقی،پروفیسر غلام حسین مجددی(کابل یوینورسٹی میں کرسئی بیدل پر فائز تھے)،محمد اکرام چغتائی،بندرابن داس خوشگو،محمد افض سرخوش،آزاد بلگرامی،رضا قلی خان ہدایت،قاری عبداللہ ،مولانا خستہ، استادخلیل اللہ خلیلی،عبدالغفور آرزو،پوہاند عبدالحئی حبیبی،پروفیسر بوسانی(اٹلی) پروفیسر ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی(آپ نے بیدل کی سو سے زیادہ غزلوں کا اردو میں منظوم ترجمہ کیاہے)،ڈاکٹر سید عبداللہ ، سید محمد داود الحسینی،آقای حسن حسینی اور فارسی زبان و ادب کے عظیم استاد ڈاکٹر محمد رضا شفیعی کدکنی کی خدمات اور تحقیقات قابل توجہ ہیں۔گرچہ بیدل شناسوں کی فہرست طویل ہے لیکن دلدادگان بیدل کی فہرست میں ہر ایک اہمیت اپنی جگہ پر مسلمہ ہے۔
بیدل نے مقدمین کی طرح شاعرانہ تعلّی سے بھی کام لیا ہے لیکن بیدل کا انداز اس میں بھی نہایت منفرد ہے ایک جگہ کہتے ہیں کہ:
کِلکِ بیدل ہر کجا دارد خرام
سکتہ ہم ناز روانی می کند
یعنی بیدل کا قلم جب چلتا ہے تو کہیں اگر سکتہ بھی آئے تب بھی وہ ناز و ادا سے روانی اختیار کرلیتا ہے۔
یہاں بیدل کے چیدہ چیدہ اشعار درج کئے جاتے ہیں تاکہ بیدل کے کلام و افکار سے مستفید ہوا جاسکے۔
عشق:
چہ گویم ز نیرنگ تجدید عشق
بہ ہر دم زدن بیدل دیگرم
یعنی عشق کی کی جادوئی تبدیلیوں کے متعلق کیا کہوں کہ ہر سانس پر میں ایک دوسرا بیدل ہوتا ہوں۔
حسن چون شد بی نقاب از فکر عاشق فارغ است
گل ہمان در غنچگی دارد دل بلبل بہ کف 
یعنی جب حسن بے نقاب ہوجاتا ہے تو وہ عشق کی توجہ سے آزاد ہوجاتا ہے پھول بھی جب تک کلی ہے اسی وقت تک وہ اپنی ادا سے بلبل کا دل مٹھی میں رکھتا ہے۔
خاموشی:
تا خموشی نگزینی حق و باطل باقی است
رشتہ ء را کہ گرہ جمع نسازَد ، دو سر است
یعنی جب تک خاموشی اختیار نہیں کی جائے گی، جھوٹ اور سچ، حق اور باطل کا جھگڑا باقی ہے۔بالکل اس طرح جیسے کی جب تک دھاگے کو گانٹھ اور گرہ نہیں لگتی اس وقت تک اس کے دو ہی سرے ہوتے ہیں۔
زندگی:
نیست کس اینجا کفیل ہیچ کس 
زندگی روزی رسانی می کند
یعنی یہاں کوئی کسی کا کفیل نہیں ہے بلکہ یہ زندگی ہی ہے جو روزی پہنچاتی ہے۔
عمر گذشت ہم چنان داغ وفا ست زندگی
زحمت دل کجا بریم، آبلہ پا ست زندگی
دل بہ زبان نمی رسد، لب فغان نمی رسد
کس بہ نشان نمی رسد، تیر خطا ست زندگی
یعنی عمر اس طرح گزری ہے کہ یہ داغ وفا کی طرح ہے ہم اپنے دل کی محنت کو کہا ں لے جائیں کہ زندگی ہی آبلہ پا ہے دل کا حال زبان نہیں آتا اور میرے لب آہ و فغان کا ساتھ نہیں دے رہے ہیں کوئی بھی اپنے مقصود تک نہیں پہنچ رہا ہے کیونکہ زندگی تو بھٹکے ہوئے تیر کی مانند ہے۔
بیدل کے موضوعات میں تنوع کا عنصر نمایاں ہے،ان کے کلام سے بے شمار اشعار نقل کئے جا سکتے ہیں لیکن طوالت کا خوف دامن گیر ہے۔
دنیائے ادب کا یہ نابغہ 1133ہجری بمطابق 1720عیسوی کو دہلی میں وفات پا گئے اور آپ کووہیں گھر کے صحن میں دفنایا گیا۔آپ کا موجودہ مزار 1941عیسوی میں خواجہ حسن نظامی مرحوم نے تعمیرکرایا تھا۔
 
 
 
 
You are Visitor Number : 2097