donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Moin Kausar
Poet
--: Biography of Moin Kausar :--

 

 معین کوثر 
 
 
معین الدین( قلمی نام: معین کوثر) ابن امیر حسن ۶؍ اپریل ۱۹۴۳ء کو پاندریبہ گلی دیوان محلہ، پٹنہ سیٹی میں پیدا ہوئے۔ والد ایک درجے کے سرکاری ملازم تھے۔ جنہوں نے خسرو پور ( پٹنہ سے ۲۵ کیلو میٹر دور ایک بستی) سے ہجرت کرکے پٹنہ میں بود و باش اختیار کر لی تھی۔ گھر کا ماحول نہ ادبی تھا نہ علمی مگر محمڈن اینگلو عربک ہائی اسکول میں حصول تعلیم کے دوران معین کوثر کو جن اساتذہ کی سرپرستی حاصل ہوئی انہوں نے علم و ادب کے ذوق کو جلا بخشی اور طالب علمی کے دوران ہی انہیں شاعری کی زلف گرہ گیر کا اسیر بنا دیا۔۱۹۶۰ء میں انہوں نے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۶۱ء سے حکومت بہار کے محکمہ صحت سے وابستہ ہو کر فارمیسی اسکول پٹنہ میں ملازمت کرنے لگے۔ اسی دوران ان کی شعر گوئی کا آغاز ہوا۔ ابتداء میں شفیع احمد فاطمی سے اصلاح لی اور ۱۹۶۶ء رمز عظیم آبادی کے باضابطہ شاگرد ہو گئے۔ اس زمانے میں انہوں نے کچھ دنوں تک افسانہ نگاری کی جانب بھی توجہ دی اور ان کے چند افسانے بیسویں صدی ( دہلی) اور بہار کی خبریں ( پٹنہ) وغیرہ ہیں  شائع ہوئے۔ ۱۹۶۴ء میں ان کی شادی ہوئی اور فروری ۲۰۰۵ء تک اہلیہ بقید حیات رہیں۔ ۲۰۰۱ء میں سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد وہ مختلف علمی و ادبی سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔
 
 معین کوثر کا کلام مختلف رسائل و جرائد مثلاً بیسویں صدی مورچہ، آہنگ ‘ صبح نو،شمع اور زبان و ادب وغیرہ میں شائع ہوتا رہا ہے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام حرف تمنا ۱۹۷۹ء میں بہار اردو اکادمی کے مالی تعاون سے منظر عام پر آیا تھا۔ دوسرا مجموعہ کلام’ حرف شیندہ، ۲۰۰۸ء میں شائع ہوا۔ رمزعظیم آباد ی کے انتقال کے بعد ان کا غیر مطبوعہ کلام کوثر نے فیاض الرحمن شارق کے اشتراق سے مرتب کیا تھا جو شاخ زیتون کے نام سے ۱۹۹۸ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا۔ ۲۰۰۳ء میں انہوں نے ادبی مرکزکے طرحی مشاعروں میں پڑھی گئی غزلوں کا جاذب نظر انتخاب گلدستہ کے نام سے شائع کیا۔ ۲۰۰۴ء میں ان کو پٹنہ کی قدیم ثقافتی تنظیم نو شکتی نکیتن کے ادبی شعبہ شاد اسٹڈی سرکل کی جانب سے شاد عظیم آبادی اعزاز دیا گیا۔ انہوں نے بچوں کے لئے بھی نظمیں لکھی ہیں اور عظیم آباد کی چند ادبی شخصیات پر مقبول مضامین تحریر کئے ہیں جو یاد گاری مجلوں میں شائع ہو چکے ہیں۔
 
کوثر کی ادبی ثقافتی سرگرمیوں کی فہرست خاصی طویل ہے۔ خاص طورپر شاد میموریل کیمیٹی بزم پرویز شاہدی اور ادبی مرکز پٹنہ سیٹی کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے انہوں نے بعض یاد گار مشاعروں اور ادبی پروگراموں کا انعقادکیا ہے۔ ناصر زیدی کی ادارت میں ۱۹۵۹ء سے بچوں کے لئے نکلنے والے ’’ شگوفہ اور اعجاز علی ارشد کی نگرانی میں شائعہونے والے پندرہ روز مگدھ پنچ کی مجلس مشاورت کے وہ فعال رکن رہے ہیں۔ جمیل مظہری صد سالہ تقریبات ۲۰۰۴ء کے موقع پر انہوں نے پرویز عالم کے اشتراک سے ایک خوبصورت یاد گاری مجلہ شائع کیا ۔ ۲۰۰۲ء میں انہوں نے مقبولیت ملی۔ پٹنہ کے علاوہ دہلی، گورکھپور، آسنسول، سیوان، جھاجھا، نوادہ اور بہار شریف وغیرہ کے آل انڈیا مشاعروں اور ادبی جلسوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ ادب کے علاوہ اسپورٹس اور سماجی خدمت سے بھی ان کی وابستگی رہی ہے۔ ثقافتی ادبی ادارہ’ سلسلہ پٹنہ سیٹی، فلاحی تنظیم ( رجسٹرڈ) کے سکریٹری، پٹنہ ضلع وقف کمیٹی کے سکریٹری انجمن محمدیہ ( رجسٹرڈ) کے جنرل سکریٹری، ریاستی انجمن ترقی اردو کے کائونسلر ، انجمن خدام ملت کے سکریٹری، انجمن خدمت خلق اور محمدی جان وقف اسٹیٹ کمیٹی کے رکن عاملہ کی حیثیت سے انہوں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
 
معین کوثر کے پہلے مجموعہ کلام کی ابتداء میں پروفیسر عنوان چشتی نے لکھا تھا۔
 ’’ ان کی شعری تجربوں کا سفر کائنات سے ذات کی طرف یا تعمیم سے تخصیص کی طرف ہے جس سے ان کی شاعری انفرادیت کی طرف مائل ہے اور اس میں وہ وجدانی کرب اور جذباتی خستگی ہے جو اس دور کے ذہین اور حساس انسان کامقدر ہے اور دوسری طرف شعری زبان کی وہ سطح سامنے آتی ہے جس کا نقطہ آغاز تو وہ شعری زبان ہے جو برسوں کی مشاطگی کے بعد مہذب صورت میں ہمارے سامنے آئی ہے۔ اور نقطہ شباب اظہار کی وہ لسانی شکلیں ہیں جو استعارہ سازی اور پیکر تراشی کی صورت میں ابھرتی ہیں یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کی شاعری کی زبان اپنے دامن میں تخلیق جوہر رکھتی ہے۔
 
ان کے دوسرے مجموعہ کلام کے حوالے سے میں نے انہیں وجودی طرز فکر اور شدت احسا س کا شاعر قرار دیا ہے۔
 
معین کوثر اب بھی تواتر کے ساتھ لکھ رہے ہیں ۔ اور دن بہ دن انکے اسلوب کی سلاست اور سادگی میںاضافہ ہورہا ہے۔ ان دونوں وہ حمد اور نعت گوئی کی طرف خاصے مائل ہیں ان کی غزلوں میں تصوف اور معرفت کے موضوعات اکثر جگہ پانے لگے ہیں۔نمونہ کلام ملاحظہ ہو۔
 
 مسجد اقصیٰ میں بلوایا اس نے ہی
 کیا رتبہ ہے یہ دکھلایا اس نے ہی
 جن و بشر اور شمس و قمر اور شجر و ہجر
کُن کہہ کر پیدا فرمایا اس نے ہی
 حق کی خاطر زندہ کرنا مردوں کو
عیسیٰ سے یہ کام کرایا اس نے ہی
آگ کی زد میں آہی جاتے ابراہیمؑ
آگ سے لیکن کچھ فرمایا اس نے ہی
اگلا قدم جنت میں پچھلا باہر تھا
موت کا اس دم مزہ چکھایا اس نے ہی
٭٭٭
جاڑا گرمی اور برسات
 مالک یوم الدین کی بات
آپؐ کا ذکر اور آپؐ کی بات
جب بھی پڑھی ہم التحیات
یوں گذرے محشر کا دن
آپ کی انگلی میرا بات
کوثر یہ بھی عبادت ہے
لکھنا نعت اور پڑھنا نعت
٭٭٭
ثواب پر بھی گناہ پر بھی تمہارا قبضہ
سفید پر بھی ، سیاہ پر بھی تمہارا قبضہ
وزیر پر اور شاہ پر بھی تمہارا قبضہ
اور ان کی پیدل سپاہ پر بھی تمہارا قبضہ
یہاں سے ہجرت نہیں کریں اب تو کیاکریں ہم
 ہماری جب سجدہ گاہ پر بھی تمہارا قبضہ
عبث گذاری ہے ہم نے عرضی سر عدالت
 وکیل پر بھی گواہ پر بھی تمہاری قبضہ
نگاہ اٹھتی نہیں کسی پر وہ بے بسی ہے
 ہماری اپنی نگاہ پر بھی تمہارا قبضہ
 ٭٭٭
سوکھا نہیں ہے دامن تاریخ سے لہو
کچھ اور حادثے بھی ہوئے کر بلا کے بعد
٭٭
 چھوڑکر زرد چٹانوں کے حصار میں مجھے 
سبز موسم کی طرح وہ بھی گذر جائے گا
٭٭٭
 مری انا نے کہیں کا مجھے نہیں رکھا
 میں اس کو قتل نہ کرتا تو اور کیا کرتا
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
**************
 
You are Visitor Number : 1570