donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Qayum Khizir
Journalist
--: Biography of Qayum Khizir :--

 

  قیوم خضر  

Name: Shaikh Abdul Qayoom
Pen Name:- Qayyum Khizir
Father's Name:- Shah Akhtar Hussain
Date of Birth:- 6,December, 1924
Place of Birth::- Mauriya Ghat, Gaya
Date of Death:- 12 March, 1998
Place of Lying: Shahi Qbaristan
اصل نام : شیخ عبد القیوم
ولدیت : شاہ محمد اختر حسین
تاریخ پیدائش : ۶ دسمبر ۱۹۲۴
جائے پیدائش : موریا گھاٹ، گیا
وفات : ۱۲ مارچ ۱۹۹۸
مدفن : شاہی قبرستان ، گلزارباغ (پٹنہ)
قیوم خضر کے انجم مانپوری چھوٹے دادا تھے۔ اس لئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ علم و ادب اور صحافت انہیں ورثہ میں ملی— قیوم خضر کی بسم اللہ گھر پر ہی مولانا محمد اسمٰعیل مانپوری نے کرائی تھی۔ قرآن پاک اور اردو فارسی کی تعلیم مولانا تقی نے دلائی اور ۱۹۳۵ میں قیوم خضر جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی گئے، پھر اپنے وطن لوٹے اور تعلیم کا سلسلہ آ گے بڑھا۔ طالب علمی کے زمانہ سے ہی یہ سیاسی، سماجی، ملی اورادبی طور پر بے حد متحرک اور فعال رہے ہیں۔
اگست ۱۹۵۰سے قیوم خضر نے گیا سے ماہنامہ ’’اشارہ‘‘ کا اجراء کیا۔ اسی ادبی ماہنامہ سے ان کی صحافتی زندگی کا آغاز ہوا۔ سید شاہ لعل قادری نے ابتدائی دور میں رسالہ کو جاری رکھنے میں بے حد معاونت کی۔ قیوم خضر کااسلوب بے حد منفرد تھا، ان کی طرز تحریر مولانا ابو الکلام آزاد سے بہت قریب معلوم ہوتی تھی۔ قیوم خضر کی صحافتی زندگی تقریباً پچیس برسوں پر محیط ہے۔ انہوں نے اپنے رسالہ کو عام صحافتی روش سے الگ ایک خاص مزاج و آہنگ سے متعارف کرانے کی کوشش کی۔ یہی وجہ تھی کہ ’’اشارہ‘‘ میں ایک طرف جہاں ہندو پاک کے سرکردہ ادباء و شعراء کی شمولیت ہوتی، وہیں نو واردوں کی شعری و نثری تخلیقات بھی نمایاں طور پر شائع ہوتی تھیں۔ بعد میں یہی نووارد آسمان ادب کے درخشندہ تارے بن کر جھلمائے۔ اپنی سوانح کے تیسرے باب بہ عنوان ’’صحرائے صحافت کی آوارہ گردی‘‘ میں ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’گوپی چند نارنگ نے تو د ھواں دھار خطوط اور مضامین بھیج کرناک میں دم کر دیا۔’’ قیوم خضر ۱۹۵۳ میں گیا سے پٹنہ منتقل ہو گئے اور دسمبر ۱۹۵۸سے دو بارہ ’’اشارہ‘‘ پٹنہ سے جاری ہوا، لیکن مالی دشواریوں نے کئی بار اس کی اشاعت کو التواء میں ڈالا، لیکن قیوم خضر کی ہمت حوصلہ جنون ایک پھر انگڑائیاں لے تا۔ اس طرح ’’اشارہ‘‘ رک رک اگست ۱۹۶۷تک ماہنامہ کی شکل میں نکلتا رہا۔ ایسا کیوں ہوا ؟ اس کی وضاحت قیوم خضر نے کچھ اس انداز سے کی ہے وہ لکھتے ہیں—
’’حصول اشتہارات کے مجوزہ منصوبے کے نا کام ہو جانے کے بعد رسالہ پھر سنکٹ  بھنور میں پھنس گیا اور تجر بے سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ کم پونجی والوں کو محض ذوق ادب کی دیوانگی میں رسائل و جرائد کا نکلنا ہر گز ہر گز زیبا نہیں اور نہ ہی ان لوگوں کو اس راہ میں قدم رکھنا چاہئے جو مصاحبت اور چاپلوسی کا فن نہیں جانتے۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کو تو قدم رکھنے کا تصور بھی نہیں کرنا چاہئے، جو گروپ بندی کر کے تگڑم بازیوں اور گھپلے بازیوں کے ہنر سے واقف نہیں۔ چنانچہ ان ہنر مندوں سے عدم و اقفیت کی بناء پر تیسری بار بھی صحافتی میدان میں وہ کامیابی نہیں ہوئی…‘‘
(محاسبہ قیوم خضر صفحہ ۱۲۹۔۱۲۸)
لیکن تھک کر سپر ڈال دینا، قیوم خضر کی فطرت میں شامل نہیں تھا اور ایک بار پھر انہوں نے ایک نئے جوش و ولولہ اور ہمت وحوصلہ کے ساتھ ’’اشارہ‘‘ کو ہفتہ وار کی شکل میں۹ جنوری ۱۹۷۴سے شائع کرنا شروع کیا لیکن پھر وہی حوصلہ شکن حالات نے ان کے بڑھتے قدم میں زنجیریں ڈالنے لگیں اور با لا آخر ۲۳ اپریل ۱۹۷۵ کا آخری شمارہ نکال کر  وہ صحافتی میدان سے کنارہ کش ہو گئے اور بقیہ زندگی کو ادب کی خدمات میں لگادی اور اس دوران ان کی کئی اہم تصانیف و تالیف منظر عام پر آئیں۔
قیوم خضر کی صحافتی زندگی کے روشن باب آج بھی اپنے معیار، اسلوب، ندرت اور حسن کی وجہ کر یاد گار ہیں، جہیں فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے خاص طور پر ان کی جو صحافتی زبان تھی، وہ زبان بہت لوگوں کو نہیں میسر ہوئی۔ قیوم خضر، مشہور نا قد پروفیسر عبد المغنی کے بے حد قریب تھے۔ وہ عرصہ تک ان کے ساتھ انجمن ترقی اردو کے رکن رہے اور اپنی سرگرم لسانی تحریک سے اردو زبان کو بہار میں دوسری سرکاری زبان بنوا نے میں اہم اول ادا کیا ہے۔
(بشکریہ ڈاکٹر سید احمد قادری، گیا)
 
You are Visitor Number : 1539