donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Rahman Hameedi
Writer
--: Biography of Rahman Hameedi :--

Rahman Hameedi

 

رحمٰن حمیدی
 
رحمن حمیدی کی پیدائش فتحاں گوپال گنج ۲ اگست ۱۹۴۸ء میں ہوئی ان کا اصل نام محمدعطاء الرحمن اور والد کا نام میر عبدالحمید ہے تعلیم ایم ،اے ایم آئی اور ملازمت لکچر ار شپ ہے انہیں بچپن ہی سے لکھنے پڑھنے کاشوق تھا، اب تک ان کے بہت سے افسانے ، شاعر، ممبئی ، پرواز ادب، پٹیالہ پاسبان چنڈی گڑھ ، ماہ نو کراچی، اور ، انشاء، کلکتہ وغیرہ میں شائع ہوچکے ہیں ملک کے کئی اداروں نے انہیں انعامات سے بھی نوازا ہے پہلا افسانہ غریب کی عید، روزنامہ سنگم، پٹنہ کے عید نمبر میں شائع ہوا تھا، افسانوں کے علاوہ ایجاد معافی، نئی قواعد، اور گریا رانی، تین کتابیں، شائع ہوچکی ہیں، دو افسانوی مجموعے شاہی کنیز، اور تیسرے رخ کی تصویر، چھپ کر منظر عام پر آچکے ہیں، پہلا افسانوی مجموعہ ۱۹۸۰ء میں شائع ہوا تھا یہ تاریخی افسانوں کامجموعہ ہے ہر کہانی کی بنیاد کسی نہ کسی تاریخی واقعے پر رکھی گئی ہے اور کردار بھی اسی مناسبت سے پیش کئے گئے ہیں، بقول ڈاکٹر ارتضیٰ کریم اس مجموعہ کے تمام افسانے مسلمانوں کے عہد ماضی کی تاریخ دہراتے ہوئے نظر آتے ہیں، اس لحاظ سے اس کی سبھی کہانیاں اچھوتی اور منفرد ہیں۔
دوسرا افسانوی مجموعہ ،تیسرے رخ کی تصویر ہے جو۱۹۸۵ء میں شائع ہوا ہے اس میں ۱۴ افسانے شامل ہیں، ان افسانوں میں رحمٰن حمیدی نے معاشرے کی تبدیلیوں اور ان سے پیدا ہونے والے مسائل کو موضوع بنایا ہے اور پورے خلوص اور ہمدردی کے ساتھ سادہ اور دلچسپ انداز سے اظہار خیال کیا ہے واقعات کی ترتیب میں بھی سلیقہ مندی سے کام لیا گیا ہے، یہ سچ ہے کہ وہ افسانہ نگاری کے فن کو سمجھ کر افسانے تخلیق کرتے ہیں، جہاں کہیں علامتی اندازہے وہاں بھی وقت پسندی نہیںہے بلکہ آج کے نئے انسان کیلئے مسائل کے نکتے کو شعور و احساس عطا کرتے ہیں، وہ عام طور پر اپنے افسانوںمیں ان ہی حقائق کا ذکر کرتے ہیں جو خود ان پر گزرے ہوں یا ان کے سامنے ان کے قریب کے لوگوں پر گزرہے ہوں کبھی کبھی ملک اور بیرون ملک پر بھی ان کی نگاہ ہوتی ہے ان کا مشاہدہ اور تجربہ گہراہے، ان کی حقیقت نگاری ان سے قبل کے افسانہ نگاروں کی حقیقت نگاری سے مختلف نظر آتی ہے وہ موضوعات کے انتخاب میں جدت طرازی سے کام لیتے ہیں ہر کہانی کیلئے مواداور نئے کردار تلاش کرتے ہیں ان کے کردار کٹھ پٹلی بن کر ان کے اشاروں پر نہیں ناچتے، اپنے ارادے سے بولتے اور خود ہی کہانیوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔
رحمن حمیدی صاحب کا اسلوب سادہ اور آسان ہے کہیں کہیں محاورہ کی چاشنی ہے جس سے ان کے بعض افسانے میں دلکشی پیدا ہوگئی ہے۔ ان کے فن کے تیوراس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ مطالعہ کی وسعت اور فن میں تجربات کی آمیزش انہیں جلد ہی ایک کامیاب افسانہ نگار بنادے گی۔
’’بشکریہ بہار میں اردو افسانہ نگاری ابتدا تاحال مضمون نگار ڈاکٹر قیام نیردربھنگہ‘‘’’مطبع دوئم ۱۹۹۶ء‘‘
++++
 
 
You are Visitor Number : 1503