donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Ramz Azimabadi
Poet
--: Biography of Ramz Azimabadi :--

 Ramz Azimabadi 

Ramz Azimabadi(1916-1917) was a well known Indian Urdu poet,belongs from Bihar, primarily of the Ghazal form, but also of Nazm. He used unique diction for his remarkable expressions regarding life and society.

 

 

نام:…………………رضا علی خاں
تخلص:…………………رمزؔ عظیم آبادی
ولدیت:………………قدرت اللہ خاں
جائے پیدائش و سکونت:………محلہ سنارٹولی ( معشوق علی لین) عظیم آباد ( پٹنہ سیٹی)
ملازمت :………………محکمہ پی ڈبلیو ڈی( حکومت بہار)
شعر گوئی:………………۱۹۴۹ء
سلسلہ ٔ تلمذ: ………………منظر عظیم آبادی، ثاقب عظیم آبادی، او رپرویز شاہدی
پہلا مجموعہ :………………نغمہ سنگ ۱۹۸۸ء
دوسرا ’’:…………………شاخِ زیتون ۱۹۹۸ء
اعزازات:………………بہار اردو اکاڈمی، پٹنہ۔۸۵۔۱۹۸۴ء
محکمہ راج بھاشا (حکومت بہار) ۸۶۔۱۹۸۵ء
وظیفہ:…………………عزت مآب گورنر بہار
انتقال : ۱۵؍ جنوری ۱۹۹۷ء مطابق ۵؍رمضان المبارک۱۴۱۷ء
 
 
 رمز عظیم آبادی 
 
سید ناصر حسین زیدی
 
زمیندارانہ معاشرے اور آمرانہ ذہنیتوں نے استیصال کے ایسے ایسے گُل کھلائے ہیں کہ کتنے ہی بے گناہ گناہوں میں رہ گئے۔ لیکن ویسے ہی تاریک ماحول میں کبھی کبھی ایسے ذرّات بھی نموادر ہوتے ہیں جن کی تابنکی سورج کو بھی آئینہ دکھاتی ہے۔اس وقت یہی صدا بلند ہوتی ہے۔
خاکسارانِ جہاں را بحقارت منگر توچہ دانی کہ درین گرد سوارے باشد
 
 رمز دبستان عظیم آبادمیں ایک ایسے ہی ذرہ تابناک تھے جن کی چمک دمک سے اہلِ دبستان کی نگاہیں خیرہ ہوتی تھیں۔ اور قسمت کی یاوری تو دیکھئے کہ جب جوانی شباب پر آئی تو عہدِ غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں اور جمہوریت کے انگرائی لیتے ہی فسطائیت و سرمایہ دارانہ نظام کو موت کی ہچکی آئی اور محنت کشوں نے اطمینان کی سانس کی۔
 
پٹنہ کے محلہ خواجہ کلاں’’ نواب منزل‘‘ کے نام سے مشہور حویلی تھی جس کے مکین نواب سید مصطفی علی خاں اپنے عہد کے فیاض روساء میں شمار ہوتے تھے۔ نہایت منکسرالمزاج، خوش طبع اور غریب پرور تھے۔ رمز کی والدہ نہ جانے کب سے اُ س آستانہ سے منسلک تھیں ۔ اسی حویلی میں رمز کی ولادت ہوئی۔ محل خانہ کے سبھی لوگ پیار سے رمجو کہنے لگے۔ابتداء میں اسی نام کا چرچا ہوا۔ رئیسوں اور نوابوں کی قربت نے رمز کے جوہرقابل پر جلا کا کام کیا اور خود ان کی جودتِ طبع نے ’’ ذرّے کو آسمان بنا دیا‘‘۔
 
 شاد عظیم آبادی کے سجائے ہوئے شہر میں ان کی وفات کے بعد بھی شعر و شاعری کا بازار گرم تھا۔ رمز کی طبع موزون معتبر شعرائے عظیم آباد کے لئے وجہ کشش بن گئی۔ پرویز شاہدی اور زار عظیم آبادی تک ان کی رسائی ہوئی۔ ماہ رمضان میں سحر ناموں سے شاعری کا آغاز ہوا۔ اور اسی سے آذوقہ بھی فراہم ہو جاتا تھا۔ اس ماہِ مبارک کے نام کی مناسبت سے لوگ رمضانی کہنے لگے۔ لیکن ایک شاعر کے لئے تخلص بھی ضروری ہوتا ہے۔ کچھ تو اپنی کاوش اور کچھ ان کے ایک گمنام استاد منظر عظیم آبادی کے مشورے سے تخلص رمز اور نام رضا علی متعین ہوا۔
 
 بہر حال میں نے اپنے طور پر ان کی گفتگو سے جو کچھ اندازہ کیا وہ یہ کہ ابتداء میںنواب منزل اور اس کے مکینوں کے ماحول اور سرپرستی کا رمز کی مزاج سازی میں مکمل دخل ہے۔ مگر ان مکینوں کے خانوادوں سے کسی قسم کا رابطہ باقی نہیں رہا
 
 جب شعور کی منزل کو پہنچے تو پرویز صاحب مل گئے۔ جن کے اثرات بڑے گہرے اور تعمیری تھے۔ جس کی بناء پر رمز رمضان مبارک کی نعتیہ نظموں کے دائرے سے نکل کر غزل کی دنیا میں بھی داخل ہو گئے۔ اور نہایت سرعت کے ساتھ مختلف اصناف شاعری کی اعلیٰ سطح تک پہنچے۔
 
 یوں تو رمز سے میں آزادی ہند سے قبل ہی آشنا اور واقف تھا۔ لیکن قربت کا دور اُس وقت شروع ہوا جب پٹنہ میں بسلسلہ ملازمت مجھے مستقلاً رہنا پڑا اور ۲۸ جنوری ۱۹۵۴ء کو شہر عظیم آباد کے مشہو رتعلیمی ادارہ محمڈن اینگلو عربک اسکول میں مدرس کی حیثیت سے میری تقرری ہوئی۔ اُس وقت اسکول کے ہیڈ مناسٹر جناب سید انوار کریم مرحوم تھے۔ نہایت نیک، پرانی قدروں کے حامل مرد بزرگ تھے۔ زمینداری کی آگ کو بجھے ہوئے تین چار سال کا عرصہ گذر چکا تھا۔ لیکن دولت کدوں سے دھواں ابھی بھی صاف نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ دل کی تسکین کے لئے ’یارانِ میکدہ‘ کے نام سے ایک بزم قائم ہوئی جس کا مقصد ہی یہ تھا کہ ’’ آ عندلیب! مل کے کریں آہ و زاریاں‘‘ ۔ جس کی نشست کے لئے محمڈن اسکول کو منتخب کیا گیا، کیوں کہ یہ اسکول بھی ’’ رہنے دو ابھی ساغرو مینا مرے آگے‘‘ کے مترادف تھا۔ یہ بزم میرے اسکول میں آنے سے بہت پہلے  قائم ہو چکی تھی۔ سنتے ہیں کہ اس بزم کے شرکاء روسا لودی کٹرہ اور نوابین گذری تھے۔ ہفتہ میں صرف ایک دن شام کو اسکول بند ہونے کے سبب لوگ تشریف لاتے تھے۔ خوش گپی تو تھی ہی، شاعری کاد ور بھی چلتا تھا۔ بڑا ہی صاف ستھرا، مہذب اور باذوق حضرات کا مجمع ہوتا تھا۔ ان میں دوایک خوشامدی اور چاپلوس صاحبان بھی داخل ہو گئے تھے جب میں پٹنہ پہنچا تو اکثر میری آنکھوں نے بھی اس بزم کا دور سے جلوہ دیکھا۔ سید اکبر حسین، سکریٹری محمڈن اسکول، رضی مولا نگری، شاہ محمد رفیع ، نوابزادہ سید محمد مہدی، نواب سید وارث اسماعیل، نواب سید محمد علی اسماعیل، بسمل عظیم آبادی ، مبارک عظیم آبادی، مظفر حسین باریٹ لا، مشتاق حسین ایڈووکیٹ، نواب سید علی ام، خان بہادر نواب سید علی سجاد، سب اسی بزم کے اسیر تھے۔ لیکن حیرت انگیز امر یہ تھا کہ اس بزم میں محمڈن اسکول کے ایک مدرس سید شفیع حیدر بھی شریک ہوتے تھے۔ حالاں کہ اس زمانہ میں اسکول کے اساتذہ سے کہیں زیادہ بلند مرتبہ صاحبان ثروت کا خادم ہوتا تھا۔ دراصل سید شفیع حیدر کے اندر وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو اس بزم کو درکار تھیں۔
 
 رمز عظیم آبادی اپنے اس دور میں ( جس کا تذکرہ صاحبزادہ مستحسن فاروقی اپنے جریدہ ’’ پیام مشرق‘‘ میں کر چکے ہیں)’’ یارانِ میکدہ‘‘ کی صحبت سے اسی طرح فیض یاب ہوئے جس طرح اکبر الہ آبادی دہلی دربار سے۔
 
 ع میرا حصہ دور کا جلوہ
 
 لیکن کس بلا کی ذہانت تھی اور کس غضب کا حافظہ کہ جو علمی بات کسی سے سن لیتے اُسے گرہ لگالیتے اور اپنی جودتِ طبع سے ’’ یک من علم رادہ من عقل‘‘ کے ذریعہ اپنے کلام میں چار چاند لگاتے۔
 
 رمز کا تعلق اشعار کہنے اور پڑھنے سے تھا۔ لکھنے میں ذرا کمزور تھے۔ یہ بات تو نہ دریافت کی جا سکتی تھی اور نہ یہ ضروری تھا کہ وہ کسی سے اس بات کا اظہار کرتے کہ ان کے معلم اول کون تھے اور بسم اللہ کس نے کرائی۔ لیکن تحریر کی نوک پلک درست کرنے کا موقع انہوں نے مجھے بھی دیا۔ اور علم عروض تو زار عظیم آبادی نے انہیں گھول کر پلا دیا تھا۔ ان کی تدریس نہ سہی مگر تعلیم ضرور تھی۔ کبھی عرضی باتیں درمیان میں آتیں تو وہ مجھ سے سوال کر بیٹھتے۔ ابتداء میں تو میں نے یہی سمجھا کہ شاید وہ میرا امتحان لے رہے ہیں۔ بعد میں یہ راز کھلتا تھا کہ وہ حقیقتاً سوال کر رہے تھے۔ یہ ان کی ایک خاص عادت تھی کہ علمی باتوں کے دریافت کرنے میں وہ ذرا بھی تامل نہیں کرتے تھے۔
 
 میں نے ۱۹۵۷ء میں بچوں کے لئے ایک مختصر سا ماہنامہ’’ شگوفہ‘‘ نکالا۔ خیال تھا کہ خوب چلے گا اگر اس وقت اساتذہ کی معاشی حالت موجودہ عہد جیسی بھی ہوتی تو’’ شگوفہ‘‘ بھی اردو رسالوں کی دنیا میں پانچویں سواروں میں ہوتا۔ لیکن یہاں تو یہ حال تھا کہ بقول پنڈت جواہر لال نہرو’’ ہمارے ملک کے ہمارے دیش کے ٹیچروں کی تنخواہیں ہمارے سکریٹریٹ کے چپراسیوں سے بھی کم ہے۔‘‘
 
 ’’ شگوفہ‘‘ کی مدت حیات، مدتِ حمل سے زیادہ نہ تھی۔ نو مہینے کے بعد دسواں مہینہ دیکھنا نصیب نہ ہوا۔ لیکن اپریل ۱۹۷۱ء سے پھر ’’ شگوفہ‘‘ کھلا اور اب میں تنہا نہ تھا دراصل نشاۃ ثانیہ کی روح رواں میرے دو عزیز ترین شاگرد معین کوثرسلمہ اور ڈاکٹر اعجاز علی ارشد سلمہ تھے۔ ان ہی دونوں نے مجلس ادارت کی محفل سجائی جس میں ان دونوں کے علاوہ رحمت خاں، عبد العزیز لیاقت علی اور رمز عظیم آبادی تھے۔ پھر تو ہم سبھی ایسے گھلے ملے کہ جیسے ایک ہی فیملی کے افراد ہوں۔ البتہ لیاقت علی لائق ہماری روزانہ کی نشستوں میں شریک نہیںہو پاتے تھے۔ کیوں کہ روزانہ آنے جانے میں نقصان مایہ اور شماتت ہمسایہ کا خدشہ لگا رہتا تھا۔
 
 رمز عظیم آبادی ہمیشہ اپنے کلام کی اشاعت سے احتراز کرتے تھے۔ لیکن یہ ممکن ہی نہ تھا کہ ہم لوگ انہیں اس سلسلہ میں بخشتے ۔ آخر کار شگوفہ کا چھٹا شمارہ ستمبر ۱۹۷۱ء آزادی نمبر کی حیثیت سے شائع ہوا۔ جس میں رمز کی نظم ’لہو کا رشتہ ‘ شائع ہوئی۔ چوں کہ نظم آفاقی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے آج بھی اس میں وہی تازگی ہے جو پہلے تھی بلکہ ماضی سے زیادہ حال کی آئینہ دار ہے۔ مثلاً
 
 وطن کا ذرہ ذرہ پوچھتا ہے
بتائو قاتلو! کس کا لہو ہے
 یہ کس بچے کا لاشہ جل رہا ہے
 ہوا میں گوشت کے جلنے کی بو ہے
 ………
 
یہ کس کی مانگ سے افشاں چھٹی ہے
 کلائی کس کی سونی ہو گئی ہے
 جو تم سے اپنا بچہ مانگتی ہے
 وہ عورت کیوں جنونی ہو گئی ہے
٭٭٭
 
 تمام اقوامِ عالم کی نظر میں
ہوئی رسوا تمہاری نیک نامی
 پنپتی جاتی ہے فرقہ پرستی 
 مقدر ہوتی جاتی ہے غلامی
 
 اسی شمارے  نے یہ بھی اعلان کیا۔
’’ ادارہ شگوفہ بڑے فخر کے ساتھ اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ ہر ماہ حضرت رمز کا کلام اپنے ماہنامہ میں پیش کرنے کی کوشش کرے گا۔‘‘
 
شگوفہ کے دفتر میں تقریباً روزانہ ہی شب میں نشست ہوا کرتی تھی۔ یہ سلسلہ کافی دنوں تک چلتا رہا۔ یہاں تک کہ مہینے گذرے، سال گذرے اور چند سال کے بعد پھر ’’ شگوفہ‘‘ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ ہماری مجلس بھی درہم و برہم ہو گئی۔ آمد و رفت کی مسافتیں بھی کچھ طویل ہو گئیں۔ یوں تعلقات تو برقرار تھے، ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی تھیں مگر اب گاہے ماہ اور رمز منقسم بین الزوجتین ہو گئے۔
 
رمضان مبارک میں سحر کے وقت روزہ داروں کو اٹھانے کا کام تقریباً ہر اس شہر اور گائوں میں ہوتا ہے جہاں مسلمانوں کی یکجا اچھی خاصی آبادی ہے پٹنہ میں بھی سحر کو اٹھانے والوں کا تانتا بندھتا ہے۔ لیکن ایک خاص چیز اضافی طور پر یہاں دیکھنے میں آئی کہ سحر کے وقت باقاعدہ ایک تربیت یافتہ نظم پڑھتا ہوا محلہ میں گشت کرتا ہے اس طرح ہر محلہ کا الگ الگ قافلہ ہوتا ہے۔ یہ کوئی بہت پُرانی بات نہیں ۔ جہاں تک مجھے معلوم ہو سکا وہ یہ ہے کہ آزادی ہند کے بعد ہی قافلہ سحری کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اور قدیم ضلع میں پٹنہ میں ہی اس کا رواج ہے۔ یہ قافلے اپنا اپنا شاعر متعین کئے رہتے ہیں ، جن سے ہر سال رمضان کے لئے ایک دو نظمیں مل جاتی ہیں۔ اور شاعروں کا بھی کچھ بھلا ہو جاتا ہے۔رمزؔ اس سلسلہ میں ایک انجمن تھے۔ اس لئے کہ اُن کے شاگردوں کا بہت وسیع حلقہ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ صرف قافلہ سحری کے لئے نعت گو شاعر نہ تھے۔ بلکہ وہ اعلیٰ ترین نظم نگار او رغزل گو بھی تھے۔ جہاں تک مجھے علم ہے اُن کے شاگردوں میں اختر عظیم آبادی، کیف عظیم آبادی، احمد تبسم اور ان کے علاوہ بھی بہت سے شاگرد تھے۔ ان تینوں کو تو میںنے ہمیشہ استاد کہتے ہی سنا نام بحد مجبوری ضرورتاً کبھی لیتے ہوئے سنا مگر نہایت احترام کے ساتھ۔
 
رمز نے ماہِ مبارک کے تمام قافلہ سحری کے ایک اجتماعی جلسہ اور تقسیم انعامات کا سلسلہ قائم کیا۔ پہلے تو کوشش یہ ہوئی کہ عید کے روز ہی شب میں یہ تقریب انجام م پائے۔ لیکن بعض دشواریوں کے پیش نظر عید کے دوسرے دن یہ جلسہ ہونے لگا۔ اس جشن سے قافلہ والوں کو کچھ ایسی دلچسپی پیدا ہوئی کہ عظیم آباد کے مقامی قافلوں کے علاوہ بہار شریف ، حاجی پور وغیرہ کے قافلے بھی شریک مقابلہ ہونے لگے۔ چند برسوں تک یہ سلسلہ چلا مگر اس کی شہرت، نیک نامی اور کامیابیوں کو دیکھ کر موقع پرستوں کے منہ میں پانی آیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اگر گروپ بازی اور فتنہ انگیزی شروع ہو گئی۔ رمزؔ نے حصول ثواب کے لئے یہ سلسلہ نیک نیتی اور خلوص دل سے قائم کیا تھا۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ باہمی نزاع کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے تو خود علیحدہ کر لیا۔
 
 وقت گذرتے گذرتے دیر نہیں لگتی، آج مرے کل دوسرا دن ۔ یونہی رفتہ رفتہ مدتیں ہوتی چلی جاتی ہیں اور عدم کا مسافر ماضی کی تاریکیوں میں کھو جاتا ہے۔ دنیا بھی اپنی بے وفائی کا رنگ دکھاتی اور اُسے بھلا بیٹھتی ہے۔البتہ لائق تحسین و صد آفرین ہیں وہ روشن چراغ ہستیاں جن کی لو کبھی مدھم نہیںہوتی اور زمانہ میں اُجالا پھیلائے رہتی ہیں۔ وہ زمان و مکان کی قید سے آزاد، دنیا سے رخصت ہو کر بھی ہمارے درمیان اسی طرح موجود رہتی ہیں۔ جس طرح اپنی زندگی میں    ؎
 
تو اسے پیمانۂ امروز و فردا سے نہ ناپ 
جاوداں ، پیہم دواں ، ہردم جواں ہے زندگی
اقبالؔ
 
رمزؔ عظیم آبادی بھی ایک زندہ حقیقت کا نام ہے۔ آج وہ ہمارے درمیان نہیں، لیکن اُن کا کلام ہی اُن کی بقا اور حیات جاوداں کا ضامن ہے۔ مجھے ان کے کلام پر کچھ لکھنا نہیں ہے۔ یہ کام تو اہلِ قلم کریں گے میں تو ان کی زندگی کے چند شب و روز پیش کر رہا ہوں ۔ وہ کتنے عظیم ترین انسان تھے؟ یہ بھی کھل کر لکھنے سے قاصر ہوں۔اس لئے کہ ابھی بھی ہندستان زمیندار انہ ذہنیتوں سے پاک نہیں ہوا ہے۔ مسلمان اس مرض میں زیادہ مبتلا نظر آتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ’’ کوا چلا ہنس کی چال تو اپنی چال بھی بھول گیا‘‘ انما المومنون اخوۃ کا جنازہ نکال دیا۔ ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم کا مفہوم ہی بدل ڈالا۔ایسی کافرانہ مزاجی کہ ذات پات کی لعنت میں گرفتار ہو گئے۔ امارت و غربت کے اعتبار سے طبقاتی درجہ بندی قائم کی۔ اس طرح مسلمانوں نے اپنے آفاقی کردار مختلف ملکوں اور قوموں میں ضم کر دیا۔
 
زمینداروں کے ظلم کی داستانیں ڈھنکی چھپی نہیں ، ان کی ہاں میں ہاں ملانے والے نسلاً بعد نسل آج بھی موجود ہیں۔ اور اُن کے مظالم برداشت کرنے والے بھی ان ہی کی صف میں آتے ہیں۔ اسلام نے آزادی ضمیر کی تعلیم دی ہے۔ ظالموں کے شکنجہ سے آزاد ہونے کے لئے دیدہ ور ہونے کی ضرورت ہے۔
 
 رمز میں یہ تمام خوبیاں موجود تھیں۔ شاعری ان کی طبع موزون کا کرشمہ تھی، فکر ِ بلند نے اس میں چار چاند لگائے۔ اور ذوقِ سلیم نے کلام کو آراستہ و پیراستہ کیا۔ یہ تمام خوبیاں ان کی ذاتی کاوشوں کا نتیجہ تھی
 برسوں کی ملاقات او رتعلقات کو کاغذ کے ان چند ٹکڑوں پر سمیٹ کر پیش کرنا آسان نہیں ۔ البتہ ایک بات دل میں ہمیشہ چبھن پیدا کرتیرہے گی کہ آخری لمحات میں رمز سے ملاقات نہ ہو سکی۔ اسے سوئے اتفاق سے سوا کیا ۔ کہا جا سکتا ہے۔
 
 ۱۹۹۶ء کی بات ہے کہ سردیوں کے شروع ہوتے ہی میری طبیعت کے خراب ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اور یہ خبر بھی برابر مل رہی تھی کہ رمز عظیم آبادی بہت سخت بیمار ہیں۔ خیال آیا کہ ’’ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘ نہ جانے کون پہلے چلا جائے۔ ملاقات کر لی جائے تو بہتر ہے۔ مگر اپنی بیماری کی وجہ سے حال یہ تھا کہ ’’ پا بدستِ دیگرے دست بدست دیگرے اور بحالتِ زار 31 دسمبر کو مجھے لکھنو لے جایا گیا۔ آب و ہوا بدلی تو ذرا جان میں جان آئی۔ ابھی لکھنو آئے ہوئے پندرہ دن ہی گذرے تھے کہ 15 جنوری 1947 ء کی شب آل انڈیا ریڈیو دہلی سے یہ تکلیف دہ خبر سننے میں آئی کہ ہندستان کے عظیم شاعر رمز عظیم آبادی کا آج پٹنہ میں انتقال ہو گیا۔ مجھ پر کیا گذری، الفاظ میں اظہار ممکن نہیں۔ لیکن یہ سوچتا رہا کہ ہم دونوں ہی بیمار تھے، پھر یہ تقدم و تاخر کیسا؟
 

 

 
You are Visitor Number : 5287