donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Saqi Farooqi
Poet
--: Biography of Saqi Farooqi :--

 

Saqi Farooqi is a prominent UK-based Urdu and English poet.His works and writings in Urdu have been

widely published around the world with several of his books winning awards and accolades. He is a

regular performer at the annual Oxford University Pakistan Society Mushaira during Hilary Term where

he often presides the proceedings.

 
 ساقی فاروقی 
 
خود نوشت
 
نام قاضی محمد شمشاد نبی فاروقی۔ پیدائش ۲۱ دسمبر ۱۹۳۶ء (گورکھپور) تعلیم: بی اے ( کراچی) کمپیوٹر پروگرامنگ(لندن) 
 کتابیں : پیاس کا صحرا، رادار، بہرام کی واپسی اور باز گشت و بازیافت ۔( انگریزی  میں بھی لکھتا ہوں)انگریزی نظموں کی کتاب لندن سے شائع ہوئی۔ آئل پینٹنگ بھی جاری ہے)
ابتدائی تعلیم و تربیت گورکھپور میں ۱۹۴۷ء میں والدین کے ساتھ بنگلہ دیش منتقل ۔ بعد ازاں ۱۹۵۰ء میں خاندان کے ساتھ کراچی۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن کو روانگی۔ تعلیم ختم کرنے کے بعد کمپیوٹر پروگرام کی حیثیت سے وہاں ملازمت
 میں تنہا ہوں اور تنہائی میں آپ سے مخاطب ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ میری مجبوری دوہری ہے۔ اظہار بھی اور رسائی بھی یعنی دکھ اٹھانا اور لفظوں کو زنجیر کرنا تو لکھنے والے کا مقدر ہے۔ مگر یہ احساس کہ جس استعارے کو جنم دینے کی کوشش میری شاعری میں ملتی ہے اس سے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی ذہن میں کوئی نہ کوئی ارتعاش پیدا ہوگا۔ عجب جان آفریں ہے یہ خوش خیال مجھے خامو ش نہیں ہونے دیتی ورنہ یوں ہے کہ لفظوں پر بے اعتباری بڑھتی جاتی ہے۔
میں ایک Committed individual ہوں اور ہجوم سے میری دلچسپی کا سبب یہ ہے کہ اسے افراد بناتے ہیں ۔ دس ہزار مزدور وں کے مشتعل ہجوم کے معنی ہوئے دس ہزار مختلف شخصیتوں کے دس ہزار مختلف ذہنوں کا مجموعی اشتعال۔ دراصل میں ظلم سہتے ہوئے فرد کا طرفدار ہوں ۔ یعنی میں اس کاآدمی ہوںجو دکھ اٹھا رہا ہے۔
 اب میں خیال کی اس منزل پر ہوں جہاں دولت یا غربت کے باعث انسانوں ( افراد) سے نفرت یا محبت ممکن نہیں۔ ایک جاہل کسان ایک فوجی کمانڈر یا ایک گنوار مزدور یا ایک کروڑ پتی سیٹھ میرا دوست یا ہم جلیس اس لئے نہیں بن سکتا کہ ہماری ذہنی لہریں جدا جدا ہیں اور ترسیل کا امکان نہیں مگر میں اسے معاشرے کے لئے جنگ کرتا رہوں گا جس میں ہم کسی نہ کسی سطح پر کہیں نہ کہیں مل سکیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ کبھی نہ ختم ہونے والی جنگ ہمیشہ سے جاری ہے۔ مگر تماشائی بن کر بیٹھنا اور تماشے میں شامل نہ ہونا میرے اختیار میںنہیں کہ ذہنی بیداری ایک طرح کا جبر ہے۔
**********************************

 

 
You are Visitor Number : 4123