donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Shafiq Ur Rahman
Writer
--: Biography of Shafiq Ur Rahman :--

Shafiq Ur Rahman

ولادت : 9 نومبر، 1920ء، کلانور، مشرقی پنجاب، برطانوی ہندوستان

وفات : 19 مارچ، 2000ء

شفیق الرحمن (9 نومبر، 1920ء تا 19 مارچ، 2000ء) پاکستان کے ایک اردو مصنف تھے جو اپنے

رومانوی افسانہ جات اور مزاحیہ مضامین کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے تاہم انہیں بنیادی طور پر

ایک مزاح نگار کے طور پر جانا جاتا ہے۔

شفیق الرحمن کلانور مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئے۔ شفیق الرحمن کے والد کا نام عبدالرحمن تھا۔

انہوں نے ایم بی بی ایس (پنجاب) ڈی پی ایچ (اڈنبر۔ برطانیہ) ڈی ٹی ایم اینڈ ایچ (لندن) فیلو آف

فریشنز اینڈ سرجنز (پاکستان) سے حاصل کیں۔ 1942 میں پنجاب یونیورسٹی کنک ایڈورڈ کالج لاہور

سے ایم بی بی ایس کیا۔ آزادی کے بعد پاکستان آرمی کی طرف سے ایڈنبرا اور لندن یونیورسٹیوں

میں اعلی تعلیم کے حصول کے لیے بھیج دیا گیا ۔ دو برس انگلینڈ میں قیام کے دوران انہوں نے ڈی

پی ایچ کے ڈپلومہ کورس مکمل کیے


تصانیف

o کرنیں(افسانے)


o شگوفے(افسانے)


o لہریں(افسانے)


o مدوجزر(افسانے)


o پرواز(افسانے)


o پچھتاوے(افسانے)


o حماقتیں (افسانے)


o مزید حماقتیں (افسانے)


o دجلہ (ناولٹ)


o جنگ اور غذا (معاشیات)


o نئے شگوفے(افسانوں کا انتخاب)


o معاشرہ اور ذہنی صحت (ترجمہ از ایلزبتھ ایم ڈاج)

ان کی تحاریر میں سے چند اقتباسات


شفیق الرحمٰن کی مزید حماقتیں سے


جو کچھ کہنے کا اردہ ہو ضرور کہیے۔۔دورانِ گفتگو خاموش رہنے کی صرف ایک وجہ ہونی چاہیے۔۔وہ یہ

کہ آپ کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔۔۔ ورنہ جتنی دیر چاہے ، باتیں کیجئے۔۔۔ اگر کسی اور نے

بولنا شروع کر دیا تو موقع ہاتھ سے نکل جائے گا اور کوئی دوسرا آپ کو بور کرنے لگے گا۔۔۔ چنانچہ

جب بولتے بولتے سانس لینے کے لیے رُکیں تو ہاتھ کے اشارے سے واضح کر دیں کہ ابھی بات ختم

نہیں ہوئی یا قطع کلامی معاف کہہ کر پھر سے شروع کردیجئے۔۔اگر کوئی دوسرا اپنی طویل گُفتگو

ختم نہیں کر رہا تو بے شک جمائیاں لیجئے، کھانسیئے، بار بار گھڑی دیکھیئے۔۔۔ ابھی آیا ۔۔۔ کہہ کر

باہر چلے جائیں یا پھر وہیں سو جا یئے۔


یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگاتار بول کر بحث نہیں جیت سکتے۔۔اگر آپ ہار گئے تو مُخالف کو آپ کی

ذہانت پر شبہ ہو جائے گا۔۔البتہ لڑیئے مت، کیونکہ اس سے بحث میں خلل آ سکتا ہے۔۔۔ کوئی غلطی

سر زد ہو جائے تو اسے بھی مت مانیے۔۔لوگ ٹوکیں، تو اُلٹے سیدھے دلائل بلند آواز میں پیش کر کے

اُنہیں خاموش کرا دیجئے،ورنہ خوامخواہ سر پر چڑھ جائیں گے۔۔۔ دورانِ گفتگو لفظ آپ کا استعمال دو یا

تین مرتبہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔۔اصل چیزمیں ہے ۔۔۔ اگر آپ نے اپنے متعلق کچھ نہ کہا تو

دوسرے اپنے متعلق کہنے لگیں گے۔۔۔ تعریفی جملوں کے استعمال سے پرہیز کریں۔۔۔ کبھی کسی

کی تعریف مت کریں۔۔ورنہ سننے والے کو شبہ ہو جائے گا کہ آپ کو اُس سے کوئی کام ہے۔۔۔ اگر

کسی شخص سے کچھ پوچھنا ہو تو، جسے وہ چُھپا رہا ہو،تو بار بار اُس کی بات کاٹ کر اُسے

چڑایئے۔۔۔ وکیل بھی اسی طرح مقدّمے جیتتے ہیں ۔۔۔
٭
"تم جیک کے متعلق کچھ چھپا رہے تھے.... کہاں ہے وہ؟"


"وہ ایک حملے میں میرے ساتھ تھا ... میرے سامنے اس کے سینے میں گولی لگی ... اس کی اوپر

کی بائیں جیب میں انجیل تھی .... گولی انجیل کو چیر کر اس کے دل میں اتر گئی. ....جنگ بڑی

ہولناک چیز ہے "


--- پچھتاوے
٭
لیکن غم کہاں نہیں ہے؟ غم کی تلاش کتنی آسان ہے .اس کونے کے پیچھے، اس نکڑ پر ... ان

ہیولوں میں ... یہ سامنے غم ہی کا تو سایہ ہے ... یہ غم کے قدموں کی ہی تو چاپ ہے جو چپکے

چپکے تعاقب کر رہا ہے .. یہ غم ہے جو ساتھ ساتھ چل رہا


آسمان تلے جتنے جاندار سانس لیتے ہیں ان میں سب سے زیادہ غمگین انسان ہے جو طرح طرح

اپنے آپ کو ایذا پہنچاتا ہے ... کائنات میں صرف انسان ہی ہے جو خودکشی پر آمادہ ہو جاتا ہے ... ورنہ

یہ چہچہاتے ہوئے پرندے، کلیلیں کرتے ہوئے چرند، لہلہاتے ہوئے پھول، اپنی مختصر سی زندگی میں

کچھ اتنے ناخوش نہیں ... انسان کو اعتقاد کی ضرورت ہے ... یہ اعتقاد خواہ مذہب سے ملے،

انسانیت سے یا رفاقت سے، لیکن محکم ہو ... ایسا جیسا مریض کو طبیب پر ہوتا ہے ... افیم کے

عادی مریضوں کو جب طبیب سادے پانی کا ٹیکہ لگاتا ہے تو وہ بچوں کی طرح سو جاتے ہیں .. غم

کی شدّت اعتقاد کی دشمن ہے ... وہ خود رحمی کی عادت ڈال دیتی ہے ... اپنے آپ کو مظلوم

سمجھنا، اپنے آپ پر ترس کھاتے رہنا نہایت مہلک ہے ... اس سے ساری صلاحیتیں تباہ ہو جاتی ہیں


پچھتاوے---
٭
غم اور مسّرت دونوں جذبے ذاتی ہیں. ہر شخص مختلف چیزوں میں خوشی ڈھونڈتا ہے.... اپنا اپنا

ظرف ہے ... جیسے جنّت و جہنّم کا تخیّل ... ایک بچے کے لئے بہشت کا تخیّل کچھ ہوگا اور ایک

بوڑھے کے لئے کچھ ... دہقاں کا نظریہ جہنّم فلسفی کے نظریے سے مختلف ہوگا ... اور پھر دل کی

گہرائیوں تک کون پہنچ سکتا ہے ...مکمّل قبضہ ہوجانے پر بھی زندگی کا ایک حصّہ ایسا رہ جاتا ہے

جس میں کسی کا دخل نہیں ہوتا ... وہاں کوئی قدم نہیں رکھ سکتا


--- پچھتاوے
٭
تب میں نے سوچا کہ یہ رنج و غم سب وقتی چیزیں ہیں - بلکل ناپائیدار! - نہ تو خوشی ہی دیر تک

رہتی ہے اور نہ اداسی - بلکہ ایسی محبوب ہستیوں کی یاد ہمیشہ کے لئے دل میں محفوظ رہتی ہے

اور ایسے مسرور لمحوں کی یاد بھی جو کبھی مسکراہٹوں میں بسر ہوئے تھے - یہی یاد زندگی کی

ویرانیوں میں رفیق بنتی ہے - سب کچھ اجڑ جانے پر بھی زندگی کی تاریکیاں انہی کرنوں سے

جگمگا اٹھتی ہیں - یہ جھلمل جھلمل کرتی ہوئی پیاری پیاری کرنیں! ا


(کرنیں)
٭
اب تو مینا بازار ہر ہفتے لگنے لگا - ملک کے مختلف حصوں سے خواتین آرائشی سامان خریدنے کے

بہانے آتیں ، اپنی دختران وغیرہ کو بھی ساتھ لاتیں - 


نجانے کس نے یہ خبر اڑا دی تھی کہ خدانخواستہ ہم ایک اور شادی کرینگے - یا برخوردار علی قلی

خان کی منگنی کرائینگے - لیکن ہم خواتین سے دور ہی رہتے - برخوردار علی قلی خان کو بھی دور

دور رکھتے - 
ہم شادی برائے شادی کے ہر گز قائل نہیں ہیں - 


خواتین سے دور رہنے کی ایک وجہ اور بھی تھی کہ ان کے قریب رہ کر ہمیں دیدے مٹکانے ، ہاتھ

نچانے اور انگلی سے ناک چھو کر بات کرنے کی عادت پڑ گئی تھی - 


دوران گفتگو ہمارے منہ سے غیر شعوری طور پر اف ، اوئی الله ، توبہ ، ہائے ، نگوڑا جیسے کلمات

بھی نکل جاتے ، جس سے بعد میں پشیمانی ہوتی - 


ہم زیورات ، کپڑوں ، اور ساس بہو کے قضیوں میں بھی دلچسپی لینے لگے تھے - ذرا ذرا سی بات پر

جھنجھلا اٹھتے - بات بات پر لڑنے کو تیار ہو جاتے - 


چنانچہ جب کسی خاتون نے ہم سے مینا بازار میں حملہ آوری کی وجہ پوچھی تو ، ہم نے پہلے تو

بھرے بازار میں اسے کوسنے دیے کہ اگر ہم نہ آتے تو کوئی اور آجاتا - 


از شفیق الرحمن مزید حماقتیں صفحہ 42
٭
" خوش رہا کرو - پریشان رہنے والوں کو کبھی کچھ نہیں ملا - اگر ملا بھی تو وہ اس سے لطف اندوز

کبھی نہیں ہو سکے "


" صرف اس لئے کہا تھا کہ میں خود اس دور سے گزر چکا ہوں. برسوں تک خوب دل لگا کر پریشان رہا.

شاید اس لئے کہ پریشان ہونا بے حد آسان ہے. لیکن سواۓ اس کے کہ چہرے پر غلط جگہ لائنیں پڑ

گئیں ، کوئی فائدہ نہیں ہوا. اب اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ چہرے پر لائنیں پڑنی ہی ہیں تو فقط وہاں

پڑنی چاہئیں جہاں مسکرا...ہٹ سے بنتی ہیں " 


" شفیق الرحمن "


o بطور افسانہ نگار


شفیق الرحمن مزاجاً ایک رومانوی افسانہ نگار ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اُن کے پہلے افسانوی

مجموعے کرنیں کا دیباچہ حجاب امتیاز علی نے لکھا۔ اس مجموعے میں اُس عہد کے ناآسودہ ذہن

کی تسکین کے لیے تمام مطلوبہ اجزا ہیں، دراز قدر خوبصورت ہیرو جو حسِ مزاح بھی رکھتا ہے اور

تعلیم کے ساتھ ساتھ کھیلوں میں بھی نمایاں ہے۔ اسی طرح اُس کی نسائی ہمزاد جو داستانوں

سے نکل کر افسانے کی دنیا میں آئی تھی ، اگر دونوں کے وصال کے بیچ میں کوئی اڑچن نکل آئے

تو پھر یا رقیب وسعت قلب سے کام لیتا ہے اور یا پھر ہیرو یا ہیروئن اپنی اداس یاد کے ذریعے اس

محرومی کو عمر کا سرمایہ بنا لیتی ہے۔


’’میں نے ایک ٹوٹے ہوئے دل کی صدا سنی تھی ۔۔۔۔ ایسے شخص کی زبانی جس کی تمناؤں کے

کھنڈر پر میں نے اپنی امیدوں کے محل کی بنیاد رکھتی چاہی ۔ چنانچہ صبح تک میں نے فیصلہ کر

لیا کہ میر چلا جانا ہی بہتر ہے‘‘(گرمی کی چھٹیاں ؛ کرنیں ص104)


’’اس کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی بچھڑی ہوئی بے چین روح سکون کی

تلاش میں ادھر ادھر بھٹک رہی ہے‘‘(وسعت ؛ کرنیں ص: 151)


دوسرے مجموعے شگوفے میں بھی کرداروں کی دل برداشتگی اور پھر بکھرنے کے حوالے سے بڑا

جذباتی مگر مقبول پیرائیہ اظہار ہے۔ البتہ اس مجموعے کے ایک افسانے، ساڑھے چھ میں شفیق

الرحمن کا وہ کردار ’’شیطان‘‘ متعارف ہوتا ہے جو بعد میں ان کے افسانوں اور مزاحیہ مضامین کا

مستقل کردار بن گیا۔ یہی نہیں بلکہ اس مجموعے ’’شیطان‘‘ کے نام سے اسی کردار کے بارے میں

ایک افسانہ بھی شامل ہے۔ یہ دونوں مجموعے ایک برس کے وقفے کے ساتھ ہی شائع ہوئے تھے اس

لیے اسلوب میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں ہے۔


اتفاق سے تیسرا مجموعہ مدو جزر بھی دوسرے مجموعے کی اشاعت کے ایک برس بعد شائع ہوا

مگر اس میں مدوجزر نکے نام کا ہی افسانہ ایک ایسے تخلیق کار سے متعارف کرواتا ہے جو صرف

انشاپردازی اور رومانوی فارمولے کے بل پر ہی افسانہ نہیں لکھ رہا بلکہ اب اس کی توجہ کرداروں کے

داخلی تلاطم پر بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ فطرت پس منظر کے طور پر استعمال نہیں ہوتی بلکہ ایک

دم ساز کے طور پر آتی ہے اور زندگی کے بارے میں بعض فلسفیانہ خیالات بھی محسوسات کے

راستے پروان چڑھتے ہیں۔


چوتھا مجموعہ ’’پچھتاوے‘‘ بھی قیام پاکستان سے پہلے شائع ہوا، اس میں عمومی اسلوب رومانی

ہے، مگر اب کرداروں کے پس منظر میں صرف مناظر فطرت نہیں بلکہ اجتماعی زندگی کی جھلکیاں

بھی دکھائی دیتی ہیں۔ اور یہ تو ’’لہریں‘‘ کی اشاعت کے ساتھ ہی محسوس ہوا تھا کہ اب رومان کے

بطن سے ایک ایسا مزاح نگار بھی طلوع ہو رہا ہے جس نے بعد میں شاید ایک مزاح نگار کے طور پر

زیادہ بڑا حوالہ بننا تھا۔ خاص طور پر اس میں شامل اُن کا افسانہ ’’زیادتی‘‘۔


"دجلہ" ان کا طویل مختصر افسانہ ہے، جس سے انھیں بہت مقبولیت حاصل ہوئی ، دوسرے یہ

افسانہ سی ایس ایس کے نصاب میں شامل ہوگیا، چنانچہ پاکستان کی مقتدر کلاس میں شمولیت

کے لیے بھی کسی بھی مہذب شخص کے لیے اس افسانے کے بارے میں گفتگو کرنا لازمی ہو گیا۔

حالانکہ قراۃ العین حیدر اور محمود نظامی کی تحریروں کے سائے میں اس کی الگ سکے شناخت

آسان نہیں۔


Kind Regards,
Rohail Khan
Chairman , Urdu Academy International 

 
You are Visitor Number : 1842