donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Sultan Akhtar
Poet
--: Biography of Sultan Akhtar :--

 

* Name

:

Sultan Ahmad

* Father's Name

:

Alhaj Sharfuddin

* Date of Birth

:

16th september 1940

* Education

:

Inter

* Home town

:

Sahasram

* Working

:

Govt. Service (Retd)

* Literary Work

:

Intesaab (Ghazlo'n ka Majmooa)

 
 سلطان اختر 
 
 
 سلطان اشرف ( قلمی نام سلطان اختر) ولد الحاج محمد اشرف الدین و رابعہ خاتون ۱۶ ستمبر ۱۹۴۰ء کو ( تعلیمی سند کے مطابق ۱۹۴۲ئ) اپنے آبائی وطن سہسرام میں پیدا ہوئے ابتداء میں مذہبی تعلیم حاصل کی اور مدرسہ خیریہ نظامیہ سے مولوی کی سند حاصل ہوئی۔ سہسرام ہائی اسکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد ایس پی جین کالج سے بی اے کر رہے تھے کہ جمشید پور کے لیبر ڈپارٹمنٹ میں نوکری مل گئی اور تعلیم کو خیر باد کہنا پڑا۔ ستمبر ۱۹۶۸ء سے حکومت بہار کے شعبہ حوالات( جیل وبھاگ) میں ملازمت حاصل ہوئی تو مستقل طور پر پٹنہ میں قیام رہا۔ ۳۰ ستمبر ۲۰۰۰ء کو سبکدوش ہوئے اور پھلواری شریف میں تعمیر شدہ ذاتی مکان میں رہنے لگے۔
 
 سلطان اختر نے ۱۹۵۷ء سے شعر کہنے شروع کئے۔ ابتداء میں مانوس سہسرامی اور جعفر خاں اثر لکھنوی سے اصلاح لی مگر کچھ ہی دنوں بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ ان کی پہلی مطبوعہ غزل کا مطلع تھا۔
 
 وجہِ بربادیٔ دل وہ غم و آلام کا چاند
 دوستو ڈوب گیا گردشِ ایام کا چاند
 
 ۱۹۶۷ء میں رسالہ ’’ فنون ‘‘ لاہور کے جدید غزل نمبر میں بیک وقت ان کی دس غزلیں شائع ہوئیں جس کے سبب ان کی ادبی شناخت کا استحکام حاصل ہوا۔ اس کے بعد ہند و پاک کے معیاری رسالوں، ریڈیو اور ٹی وی کے پروگراموں اور مشاعروں کے توسط سے رفتہ رفتہ وہ ملک گیر شہرت کے حامل بن گئے۔ انہیں مختلف اداروں کی جانب سے انعامات و اعزازات بھی ملے مگر وہ اپنے کسی مجموعہ کلام کی اشاعت سے ایک عرصہ تک بے نیاز رہے۱۹۹۴ء میں ان کی ۹۰ غزلوں کا مجموعہ زیر اشاعت ہونے کی اطلاع ہے۔ ان کی بعض  غزلیں بے حد مقبول ہوئیں اور مشہور گلوکار وں کے کیسٹ میں شامل ہیں۔ ان کی شخصیت اور شاعری سے متعلق تحقیقی مقالہ پٹنہ یونیورسٹی میں زیر ترتیب ہے۔
 
سلطان اختر نے مختلف اصناف سخن پہ طبع آزمائی کی ہے۔ اور حمد و نعت یا رباعی میں بھی ان کا منفر د رنگ سخن نمایاں رہتا ہے مگر وہ بنیادی طور پر غزل ہی کے شاعر ہیں اور ان کی شناخت بھی ایک جدید غزل گو کی حیثیت سے ہی ہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی نے اس نکتے پہ خاصا زور دیا ہے کہ جدیدیت کی اچھائیاں تو ان کے یہاں موجود ہیں مگر اس کی خرابیاں اس کے چیستانی ابہام سے سلطان اختر کا رشتہ نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں ۔
 
 روایت کی آگہی نے انہیں قید نہیں کیا اور وہ عصری مزاج و میلان سے وابستہ بھی رہے۔ لیکن فیشن پرستی انہیں چھو بھی نہیں گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا کلام عصری زندگی کے نقوش بہ تمام و کمال سامنے آتے رہے۔ یہ روش ان کی اپنی تھی۔ جس میں تتبع کا دخل نہ تھا۔
 
 یہ پوری رائے اپنی جگہ مستند ہے۔ لیکن میں سلطان اختر کی تفہیم کے حوالے سے اس کے آخری حصے کو سب سے اہم سمجھتا ہوں۔ ادراصل ان کی اپنی روش ہی ان کی انفرادی اور عؔمت کا سبب ہے۔ یہ انفرادیت جدیدہیت کے ساتھ ساتھ الفاظ اور استعارات کے منفرد استعمال سے عبارت ہے جس کا بہترین اظہار ان کی غزلوں میں ہی ہوتا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ پھر بھی نمونہ کلام کے طور پر ان کی ایک حمد کے چند اشعار ایک رباعی اور ایک آزاد نظم بھی نتقل کرتا ہوں تاکہ ان کے اسلوب سخن کا
 
مکمل اندازہ ہو سکے۔ یہ حمد کے اشعار ہیں۔
 ساعتیں تیری، صدی تیرا، زمانہ تیرا
 یعنی ہر عہد میں محفوظ ٹھکانا تیرا
 خانوادے میں ترے دشت و جبل جن و ملک
 اور یہ ارض و سماوات و گھرانہ تیرا
 ہم گنہگاروں کی آنکھوں میں وہ بینائی کہاں
 جس پہ روشن ہو تہہ خاک خزانہ تیرا
 علامہ جمیل مظہری صد سالہ تقریبات ۲۰۰۴ء کے موقع پر لکھی گئی ایک رباعی ملاحظہ ہو۔
 پرواز ادب کے لئے شہ پر تھے جمیل
 ہر سمت فضائوں میں منور تھے جمیل
 نظموں میں تو اک موج رواں تھے ہی مگر
 غزلوں کا بھی بے تاب سمندر تھے جمیل
ایک آزاد نظم’’ سن باتھ‘‘ ( منقول از بہار کے نظم نگار شعرا) دیکھئے۔
 نرم جاڑے کی گلابی دھوپ کی آغوش میں
 صدیوں کی پیاسی ریت پر
تیرتے جسموں کی شادابی لچکتی ہے
 اور ریت کی دہلیز پر
 بھوکا سمندر پٹکتا ہے
 غزلوں کے منتخب اشعار درج ذیل ہیں۔
 ہرا شجر نہ سہی خشک گھاس رہنے دے
 زمیں کے جسم پہ کوئی لباس رہنے دے
 ٭٭
کفر کی سمت نہ ایماں کی طرف جاتا ہے
 دل کہ بس منزل حیراں کی طرف جاتا ہے
 کیسی افتاد پڑی ہے کہ ہر اک شخص یہاں
 چھوڑ کر شہر بیابیاں کی طرف جاتا ہے
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
 
*****************************

 

 
You are Visitor Number : 1842