donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Syed Hasan Askari
Writer
--: Biography of Syed Hasan Askari :--

 

 سید حسن عسکری 
 
 
 سید حسن عسکری ولد رضی حسن تعلیمی سند کے اعتبار سے جنوری ۱۹۰۱ء میں کھجوا ضلع سیوان، بہار میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۱۸ء میں ضلع اسکول چھپرہ سے میٹرک ۱۹۲۲ء میں جی بی بی کالج مظفر پور سے بی اے ، ۱۹۲۴ء میں پٹنہ یونیورسٹی سے ایم اے تاریخ اور ۱۹۲۵ء میں بی ایڈ کے امتحانات پاس کئے۔ ایک سال تک آرہ میں وکالت کی مگر کامیابی نہیں ملی تو واپس پٹنہ آکر تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کیا۔ ۱۹۲۷ء میں پٹنہ کالج ( پٹنہ یونیورسٹی) میں تاریخ کے استاد مقرر ہوئے۔ ۱۹۶۲ء میں بہ حیثیت پروفیسر ریٹائر منٹ کے بعد دوبارہ یو جی سی اسکیم کے تحت کام کرتے رہے۔ کچھ دنوں کے پی جائیسوال انسٹی ٹیوٹ آف پٹنہ کے ڈائرکٹر رہے۔ اور ۱۹۶۸ء میں انڈین ہسٹری کانگریس کے صدر کے لئے منتخب ہوئے مگر علالت کے سبب جوائن نہ کر سکے۔ ۱۹۲۱ء میں ان کی شادی ہوئی۔ مگر چند ہی برسوں بعد اہلیہ کا انتقال ہو گیا اور ان سے کوئی اولاد بھی نہیں ہوئی۔ ۱۹۲۶ء میں ان کی دوسری شادی ام سلمہ خاتون کے ساتھ ہوئی جس سے تین بیٹے لطافت حسین عرف اکبری، پروفیسر سمیع عسکری اور احمد کبیر نجم اور چار بیٹیاں ہوئیں۔ ۱۹۶۷ء میں مگدھ یونیورسٹی بودھ گیا اور ۱۹۸۴ء میں پٹنہ یونیورسٹی سے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگریاں ملیں۔ ۱۹۷۵ء میں غالب ایوارڈ ۱۹۷۸ء میں صدر جمہوریہ ہند کا سرٹی فیکٹ آف آنر ۱۹۷۹ء میں بہار اردو اکادمی کا اعلیٰ ایوارڈ ۱۹۸۵ء میں پدم شری اور ۱۹۸۷ء میں ’’ بہار رتن‘‘ کا خطاب ملا۔ ۱۹۴۳ء میں انگریزی حکومت کی جانب سے خان بہادر کا خطاب بھی دیا۔ دریائے گنگا کے کنارے اپنے گھر میں رہتے تھے۔ کچھ دنوں بعد پٹنہ یونیورسٹی نے وہ مکان لے لیا تو محلہ خان مرزا میں ایک مکان خرید کر وہیں منتقل ہو گئے اور زندگی کی آخری سانس تک وہیں رہے۔ جب تک جسم و جاں میں طاقت رہی پابندی سے خدا بخش لائبریری جاتے رہے ۔ ابتداء میں سائیکل سے جاتے تھے اور یہ سائیکل ان کی شخصیت کو گویا ایک جوز بن گئی تھی۔ بعد میں اس سائیکل کو ہاتھ سے چلاتے ہوئے لے جاتے تھے۔ آخری چند برسوں میں چلنا پھر بہت کم ہو گیا تھا۔ بینائی تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ اور امراض کے سبب بے حد کمزور ہو چکے تھے۔ مگر حافظہ پوری طرح  ساتھ دے رہا تھا۔ میں ایک بار مسعود احمد برکاتی ( ہمدرد۔ پاکستان) کو ان سے ملانے کے لئے گیا تو بہت دیر تک تصوف کے مختلف سلسلوں اور قلمی نسخوں سے متعلق گفتگو کرتے رہے۔ اور مسعود صاحب اس عمر میں بھی انتقال ہو ا اور گولکپور قبرستان نزدلائبریری مکلاّ شادمان و انجینئرنگ کالج پٹنہ مدفون ہوئے۔ پروفیسر محمد یوسف خورشیدی نے لوح مزار کے لئے قطعہ تاریخ کہا جو درج ذیل ہے۔
 
 وہ درویش کامل، مورخ محقق
 وہی نام جس کا حسن عسکری ہے
 وہ رخصت ہوئے ہائے دنیا سے یوسف
 صدا بین کی مستقل آرہی ہے
 اگر آپ سے کوئی تاریخ پوچھے
 تو کہئے یہی روضہ عسکری ہے
۱۴۱۱ھ 
حسن عسکری کا ایک امتیاز اپنے شاگردوں کی ذہنی تربیت بھی ہے۔ ملک اور بیرون ملک ان کے شاگردوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی جن کی وہ برابر رہنمائی اور حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔ ان ہی شاگردوں میں دور حاضر کے دو اہم مورخ پروفیسر رام شرن شرما اور پروفیسر قیام الدین احمد بھی ہیں جنہیں حسن عسکری کی زندگی میں ہی بے حد عزت اور شہرت حاصل ہوئی۔
 
 حسن عسکری کے علم میں جس قدروسعت تھی طبیعت میں اسی قدر انکسار تھا۔ دنیاوی امور سے انہیں زیادہ سروکار نہ تھا۔ ان کا نہ کوئی سیاسی موقف تھا نہ مقصد۔ ان کے دوستوں کی تعداد بھی بے حد مختصر تھی۔ سہیل عظیم آبادی سے متعلق اپنے ایک مضمون میں وہ خود بھی لکھتے ہیں کہ انہوں نے باوجود حضرت جہانیان جہاں گشت سے نسبت اور ان کا نام لیوا ہونے کے ہمیشہ ہی تقریباً گوشہ نشینی کی زندگی گذاری ۔ البتہ مخطوطات کی تلاش کا شوق ان میں جنون کی حد تک پہنچ گیا تھا۔ اس سلسلے میں واقعات مشہور ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ قدیم مسودوں، عبارتوں یا کتبوں کے حصول میں وہ اپنی صحت تو کیا جان تک کی باڑی لگانے کو تیار رہتے تھے۔ ان کی کاوشوں کا فائدہ ملنے جلنے والوں اور نوجوان ریسرچ اسکالرز کو بھی پہنچتا تھا۔ شاہ آیت اللہ جوہری کی مثنوی ’’ گوہر جوہری ‘‘ کی حصولیابی اس کی ایک مثال ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ بڑی مشکل سے کوئی مخطوطہ یا قدیم کتاب حاصل کرتے اور گھر کے نوکر اسے چرا کر بیچ دیتے۔ مگر اس سے حسن عسکری صاحب کے انہماک میں کوئی فرق نہیں آتا تھا۔ اور وہ کسی دوسرے مخطوطے کی تلاش میں لگ جاتے تھے۔ بہر حال انہوں نے اپنی ساری زندگی تحقیق و تاریخ کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ ملفوظات و مکتوبات پر جس طرح Devotion کے ساتھ حسن عسکری صاحب لکھا ہے، آج تک کم از کم اردو میں کسی نے نہیں لکھا اور یہی ان کا نشان امتیاز بھی ہے۔
 حسن عسکری صاحب نے اردو انگریزی دنوں زبانوں میں طویل مقالے تحریر کئے۔ مغل تاریخ اور قرونِ وسطیٰ سے متعلق ان کے کم و بیش دو سو پچاس ریسرچ پیپر س مختلف رسائل وج رائد میں شائع ہو چکے ہیں جن میں سے بعض مستقل کتاب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ابتداء میں وہ زیادہ تر عہد مغلیہ کی سیاسی تاریخ سے متعلق تحقیقی مقالے لکھتے رہے مگر بعد میں انہوں نے تصوف اور مذہب کی تخلیق کو اپنا خاص میدان بنا لیا اور زیادہ تر تصوف کے فردوسی سلسلہ پہ کام کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس باب میں وہ ڈاکٹر بر۴وس لارنس (Dr.Brouce Lawrence ) سے متاثر رہے ہیں۔ مخطوطات پہ وہ کس قدر محنت اور دیدہ ریزی کے ساتھ کام کرتے تھے اس کی نمائندہ مثال خدا بخش لائبریری سے شائع شدہ نسخہ’’ سیرت فیروز شاہی مع مقدمہ‘‘ ہے۔ اس کے مقدمے میں عہد وسطیٰ کے مختلف تاریخی گوشوں کا جس طرح احاطہ کیا گیا ہے وہ موصوف کی وسعت علمی اور دیدہ وری کا نمونہ ہے۔ بہار کے صوفیائے کرام خاص طور پر مخدوم شرف الدین منیری اور ان کے خلفاء کے احوال و آثار سے متعلق ان کے مقالے رسالہ’’ ندیم، گیا خدا بخش لائبریری جرنل’ معاصر‘ اور دیگر اہم ادبی رسائل و جرائد میں چھپتے رہے ہیں۔ اردو میں ان کے مضامین کے دو مجموعے خدا بخش لائبریری پٹنہ سے ۱۹۹۵ء میں اور ایک مجموعہ ( سید محمد حسنین کا مرتب کردہ) بہار اردو اکادمی سے ۱۹۹۶ء میں چھپا۔ انگریزی میں بھی خدا بخش لائبریری پٹنہ کے زیر اہتمام پانچ مجموعہ مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود یہ احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے جس قدر پڑھا اور دریافت کیا اس سے بہت کم لکھا اور جو کچھ لکھا اور اس کا بہت کم حصہ مربوط شکل میں زیور طبع سے آراستہ ہو سکا۔ صحیح معنوں میں وہ ایک ایسے عالم اور مورخ تھے جو صدیوں میں پیدا ہوتا ہے اور تادیر اپنی اہمیت کا احساس کراتا رہتا ہے۔
 
سید حسن عسکری سے متعلق ایک بھر پور اور دیدہ زیب مونو گراف پروفیسر جابر حسین نے ملا شادمیان لائبریری، گولک پور ، پٹنہ کے زیر اہتمام شائع کیا۔ یہ مونو گراف معروف شاعر و ادیب سید نقی احمد ارشاد کا لکھا ہوا ہے جنہیں نیو پٹنہ کالج میں حسن عسکری مرحوم کا شاگرد ہونے کا فخر حاصل رہا ہے۔ اسی لائبریری کے زیر اہتمام ڈاکٹر امتیاز احمد ( موجودہ ڈائریکٹر خدا بخش لائبریری) کا لکھا ہوا ایک نسبتاً مختصر مگر جامع مونو گراف شائع ہوا ہے۔ اس کی اہمیت اس اعتبار سے ہے کہ امتیاز احمد ان چندر یسرچ اسکالرز میں ہیں جن کو عسکری صاحب کی باضابطہ نگرانی میں تحقیقی کام کرنے کا موقع ملا تھا۔
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
*********************************
 
 
You are Visitor Number : 1696