donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Syed Hasan Sarmad
Writer
--: Biography of Syed Hasan Sarmad :--

 

 سید حسن سرمد 
 
 
 سید حسن ولد سید محمد یحییٰ کی تاریخ پیدائش میٹرک سرٹی فیکٹ کے مطابق یکم جنوری ۱۹۱۱ء اور دیگر شہادتوں کی بنیاد پر ۱۹۰۸ء ہے۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ آبائی وطن شیخ پورہ ضلع مونگیر ہے۔ دادیہالی اسلاف کا سلسلہ حضرت سید احمد جاجنیریؒ اور نانیہال کا سلسلہ نسب حضرت مخدوم شرف الدین یحییٰ منیری سے ملتا ہے۔ والد کلکتہ ہائی کورٹ میں کام کرتے تھے مگر ۱۹۱۸ء میں ان کے انتقال کے بعد خاندان کے معاشی حالات خراب ہو گئے۔ والدہ نے محنت سے سید حسن کو پالا اور حتی الامکان دینی و دنیاوی تعلیم دلوائی۔ ۱۹۲۷ء کا میٹرک امتحان انہوں نے نہ صرف فرسٹ ڈویزن سے پاس کیا بلکہ پورے صوبہ بہار میں اول آئے۔ اس کے بعد برابر حکومت کی طرف سے وظیفہ ملتا رہا جس کے سبب تعلیم جاری رکھنے میں آسانی ہو گئی۔ یہاں تک کہ پٹنہ کالج سے ۱۹۳۲ء  میں بی اے ( آنرس فارسی) اور پٹنہ یونیورسٹی سے ایم اے ( اردو ) نیز ایم اے ( فارسی) کے امتحانات بھی درجہ اول میں پہلی پوزیشن کے ساتھ پاس کرکے طلائی تمغے حاصل کئے۔ تقریباً بایک سال تک اکاوئنٹنٹ جرنل بہار ( رانچی آفس) میں آڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔ پھر اس ملازمت کو ترک کرکے ۱۹۳۷ء میں ڈپلوما ان ایجو کیشن کا امتحان پاس کیا۔ اسی سال جولائی میں بہار نیشنل کالج ( بی این۔ این کالج پٹنہ) میں لکچرر ہو گئے۔ ۱۹۴۴ء میں پٹنہ کالج میں فارسی کے لکچرر ہوئے اور ۱۹۵۶ء میں حکومت ہند کی جانب سے فارسی زبان و ادب کے مطالعہ کے لئے اسکالر شپ حاصل کرکے ایران چلے گئے جہاں تقریباً ایک سال تک تہران یونیورسٹی میں جدید فارسی زبان و ادب کا مطالعہ کرنے کے علاوہ ہندستان آئے تو حکومت بہار کے قائم کردہ ادارہ تحقیقات و مطالعات در زبان و ادبیات عربی و فارسی پٹنہ میں پروفیسر مقرر ہوئے۔ مئی ۱۹۶۱ء میں اس ادارے کے ڈائریکٹر بنے پھر جون ۱۹۶۴ء سے دسمبر۱۹۷۲ء تک پٹنہ یونیورسٹی میں پروفیسر صدر عبہ اس کے بعد بھی پانچ برسوں تک یونیورسٹی گرانسٹ کمیشن کی اسکیم کے تحت شعبہ سے وابستہ رہے۔ ۷۱۔۱۹۷۰ء میں انہیں صدر جمہوریہ ہند سے فاری زبان و ادب کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں سند حاصل ہوئی۔۱۹۸۱ء میں غالب ایوارڈ برائے تحقیق ملا۔ اس کے علاوہ اتر پردیش اور بہار اردو اکادمی سے کئی کتابوں پر انعامات حاصل ہوئے۔ریٹائر منٹ کے بعد محلہ کھجور بنا ، پٹنہ سیٹی میں واقع اپنے ذاتی مکان میں رہنے لگے  تھے۔ وہاں ۱۶ نومبر۔ ۱۹۹۸ء کو باتھ روم گر پڑے اور بیہوش ہو گئے۔ ۱۸ نومبر ۱۹۹۸ء کو دو نوں کی مختصر سی علالت کے بعد پٹنہ میڈیکل کالج اسپتال میں ان کا انتقال ہو گیا۔
پروفیسر سید حسن سرمد ایک سیماب صفت شخصیت کے مالک تھے۔ محفلوں میں بھی زیادہ دیر تک ایک جگہ جم کر بیٹھنا ان کے لئے محال تھا۔ مگر بقول سید محمد محسن عضوی اور نفسیاتی سیماب وشی کے باوجود سید صاحب کا عزم و استقلال بے مثال تھا۔ بچپن کی یتیمی کے باوجود اعلیٰ ترین پوزیشن کے ساتھ بہترین تعلیم حاصل کرنا اور جب دماغ یکسو ہو جائے تو سرگرم عمل ہو کر بے مثال منظم و مربوط ادبی تخلیقات پیش کرنا ان کا امتیاز ہے۔ ایک استاد کی حیثیت سے بھی وہ بے حد مقبول رہے اور انہوں نے فارسی زبان و ادب کا مطالعہ کرنے والے نوجوانوں کی ایک ایسی جماعت پیدا کی جو ہندستان خصوصاً بہار میں اس زبان کے فروغ میں بے حد معاون ہوئی۔ اس سے وابستہ بعض افراد آج اپنے آپ میں ایک ادارہ ہیں۔ اپنی بہترین علمی استعداد کے باوجود سادہ دلی اور خاکساری کا ایسا نمونہ تھے جو عہد حاضر میں کم دکھائی دیتا ہے۔
 
 سید حسن صاحب کا اصل میدان کار فارسی زبان و ادب کی تحقیق و تنقید ہے۔ خاص طور پر تدوین متن کے حوالے سے ان کی خدمات بے حد اہم رہی ہیں۔ فارسی کے علاوہ اردو زبان و ادب سے بھی ان کی گہری وابستگی کا ثبوت ان کی وہ کتابیں ہیں جن میں سے بعض اپنے موضوع پر حرف اول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے ایک شاگرد و ڈاکٹر محمد شرف عالم نے جو خود بھی فارسی زبان و ادب کے ایک اہم دانشور ہیں ، ۲۰۰۵ء میں سید حسن نامہ کے نام ایک کتاب شائع کی ہے جس میں سید حسن صاحب سے متعلق مشاہیر فارسی کے کم و بیش ایک درجن مضامین شریک اشاعت ہیں۔ اس کتاب کے آخر میں خود سید صاحب کا مرتب کردہ ایک بایو ڈاٹا ( سال ۱۹۷۳ء ) بھی موجود ہے جس میں ان کے بعض اہم فارسی اور اردو مقالوں کے حوالے موجود ہیں۔ یہ مقالے ایران اور ہندستان کے مختلف فارسی ، اردو اور انگریزی جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ان کے علاوہ موصوف کی درج ذیل کتابیں خاصی مشہور رہی ہیں۔
 
۱۔ اشعار اکبر الہ آباد ی( احوال و آثار مع متن اور منتخب کلام) اردو میں ۱۹۴۶ء 
۲۔ مجموعہ اشعار مولانا برہان الدین مظفر شمس بلخی( مقدمہ بہ زبان انگریزی مع تدوین کلام) فارسی میں ۱۹۵۸ء 
۳۔ دیوان رکن صابر ہر وی ( ترتیب و تدوین کلام مع مقدمہ بہ زبان فارسی ) ۱۹۵۹ء 
۴۔ مثنوی والہ و سلطان از شمس الدین فقیر دہلوی ( تدوین) 
۵۔ سلک کلک ( مجموعہ مقالات تحقیقاتی بہ زبان فارسی ) مطبوعہ ۱۹۷۴ء ۔
۶۔ مقالات تحقیقی( بہ زبان اردو ) ۱۹۷۶ء 
۷۔ اردو ڈراما اور بہار کا اردواسٹیج (بہ زبان اردو ) ۱۹۷۸ء
۸ ۔ شیرازہ وجود( خود نوشت) سلک کلک کے علاوہ علیحدہ کتابی شکل میں بھی شائع ہوئی۔
 
یہ تمام کتابیں  اپنے آپ میں بے حد مقبول  اور اہم ہیں اس کے باوجود سید حسن صاحب کی ادبی شخصیت کا جو پہلو مجھے اکثر غم زدہ کرتا رہا وہ ان کی کثیر الجہتی اور عجلت پسندی تھی۔ انہوں نے قدیم و جدید فارسی ادب پر بہترین مضامین لکھے اور اردو ڈراموں کا قابل قدر مطالعہ کیا مگر اپنی تحریریں مقامی طور پر اشاعت کے لئے دے کر مطمئن ہو گئے۔ سرمد تخلص کے ساتھ فارسی میں بھی شعر کہتے رہے اور اردو میں بھی خصوصاً امیر خسرو کی زمین میں طویل غزلیں کہیں مگر ان کی اشاعت سے بے پروا رہے۔ کبھی چرخ تخلص کے ساتھ اپنا ظریفانہ کلام دوستوں کو سناتے یا اخباروں میں چھپواتے رہے اور کبھی اپنی خود نوشت قلم بند کرنے میں مشغول رہے مگر ترتیب و تسلسل سے کبھی واسطہ نہ رکھا۔ غرض یہ کہ وہ جس قدر وسیع علم کے مالک تھے اس قدر یکسوئی اور دلجمعی کے ساتھ کبھی کام نہیں کر سکے ۔ آج احساس ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی ایک شعبہ ادب تک خود کو محدود رکھتے تو فارسی زبان و ادب کے چند اہم ہندستانی ادیبوں میں شمار ہوتے۔ بہر حال ان کی فارسی ایک غزل کے چند اشعار بطور نمونہ ملاحظہ ہوں ۔
 حکایت از غم دل بود شب جائیکہ من بودم
 بیان کردن چہ مشکل بود شب جائیکہ بودم
 نیاز عشق و ناز حسن پیہم د رکشاکش ماند
 عجب انداز محفل بود شب جائیکہ من بودم
 ز انوار تجلی خیرہ می شد چشم نظارہ 
مقابل ماہ کامل بود شب جائیکہ من بودم
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
************************
 
You are Visitor Number : 1611