donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Syed Md Sadruddin
Poet/Writer
--: Biography of Syed Md Sadruddin :--

 

 سید محمد صدر الدین 
 
 
سید محمد صدر الدین نام اور فضا تخلص ہے۔مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ سے عالم کا امتحان پاس کرنے کے سبب خود کو شمسی لکھتے ہیں۔ ان کے سوانحی حالات مشہور محقق مالک رام ( کتاب : تذکرہ معاصرین جلد۔۴) اور پروفیسروہاب اشرفی ( تاریخ ادب اردو جلد دوم) نے خاصی تفصیل سے لکھے ہیں جن کا خلاصہ ہے کہ موصوف ۱۷ مئی ۱۹۱۷ء کو حضرت مخدوم شریف الدین یحیٰ منیری کے شہر بہار شریف ( موجود ضلع نالندہ) میں پیدا ہوئے۔ تین مہینے کے تھے جب والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ بڑے بھائی نجم الدین احمد نے پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری بخوبی ادا کی۔ مدرسہ عزیزیہ بہار شریف سے مولوی کی سند لینے کے بعد پہلے مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ سے عالم اور پھر انگریزی میڈیم سے ۱۹۳۹ء میں میٹرک پاس کیا۔۱۹۳۶ء میں پٹنہ یونیورسٹی سے عربی آنرز کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیور سیٹی سے ۱۹۳۸ء میں ایم اے عربی کی سند درجہ اول میں حاصل کی۔ کچھ دنوں سرکاری ملازمت کی مگر استعفیٰ دے کر دوبارہ تعلیم شروع کی۔ پٹنہ یونیورسٹی سے فارسی اور اردو میں ایم اے کیا۔ پہلے گیا اور مظفر پور کے تعلیمی اداروں میں کام کیا اور ۱۹۴۵ء سے پٹنہ کالج کے شعبہ اردو میں لکچرر ہو گئے۔ ترقی کرتے ہوئے ۱۹۷۳ء میں پروفیسر اور صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی کے عہدے تک پہنچے۔ ۷۴۔۱۹۷۳ء میں کچھ دنوں کے لئے پٹنہ کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ ۱۹۷۳ء میں بہار اردو اکادمی قائم ہوئی تو اس کے پہلے سکریٹری ہوئے اور تاحیات مجلس عاملہ کے ممبر رہے۔ ان کی وفات قدیم رفیق کار پروفیسر اختر اورینوی کے انتقال سے صرف ایک دن بعد ۳۱ مارچ ۱۹۷۷ء کی رات میں عجیب و غریب حالات میں ہوئی۔ ان حالات کی تفصیل مالک رام کی کتاب میں موجود ہے۔ دوسرے دن شاہ گنج قبرستان میں دفن ہوئے۔ عطا کاکوی نے قطعہ تاریخ کہا جو رسالہ’’ آج کل ‘‘ دہلی میں شائع ہوا۔
 
سید محمد صدر الدین نے دو شادیاں کیں۔ پہلی شادی ۱۹۳۹ء میں ہوئی تھی مگر کچھ ہی برسوں بعد علیحدگی ہو گئی۔ دوسری بیوی کا ان کی وفات کے تقریباً تیس سال بعد مئی ۲۰۰۸ء میں انتقال ہوا۔ ان کے دو بیٹے جاوید اور ظفر ڈاکٹر ہیں۔ بقیہ ملازمت یا تجارت کرتے ہیں۔
 
فضا شمسی کی شعر گوئی کا آغاز مدرسہ عزیزیہ کی طالب علمی کے زمانے میں ہی ہوا تھا۔ کچھ دنوں تک ہلال تخلص اختیار کیا اور حافظ شفیع فردوسی سے اصلاح لی۔ پھر اپنے دوست محمد یحییٰ کے تخلص سے مشابہت کے سبب فضا تخلص اختیار کر لیا۔چند غزلوں پر نوح ناروی ، عظیم الدین احمد ، عبد المنان بیدل وغیرہ سے اصلاح لی ۔ مگر مستقل طور پر کسی کے شاگرد نہیں رہے۔ ابتداء میں زیادہ تر نظمیں کہیں جن کا مجموعہ ’’ شگفتہ کانٹے ‘‘ مرتب کیا۔ مگر وہ شائع نہیں ہو سکا۔۱۹۷۴ء میں نکہت و خلش‘‘ کے نام سے غزلوں کا ایک مجموعہ منظر عام پر آیا جس میں کچھ نعتیہ کلام بھی شریک اشاعت تھا۔ فضا کا بیشتر ابتدائی کلام خود ان ہی کے بیان کے مطابق ضائع ہو گیا۔ جو غزلیں باقی بچی ہیںاور اس مجموعے میں شامل ہیں ان کی تعداد تقریباً دو درجن ہے۔ ان کا سلسلہ تخلیق بھی ۱۹۳۶ء سے ۱۹۷۴ء تک پھیلا ہوا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے توفضا ایک کم گو شاعر ہیں۔ مگر جو غزلیں ہمارے سامنے ہیں وہ زبان و بیان کے اعتبار سے بے حد چست درست نیز فکر و خیال کے لحاظ سے متانت اور اعتدال پسند کا نمونہ ہیں۔
 میں سمجھتا ہوں کہ لغت پاک کا صرف ایک شعر ان کے انفرادی رنگ سخن اور ندرت فکر کی نشاندہی کے لئے کافی ہے۔ وہ مصرعوں میں ایک طویل تاریخ کا بھی بیان ہے اور نبی آخر الزماں کی عظمت کا بھی۔
 وہ حرا کی سمت بھی دیکھ لیں جو فسانہ کہتے ہیں طور کا 
کہ بدل دیا ہے تجلیوں نے مقام اپنے ظہور کا
غزل کا یہ شعر بھی قابل توجہ ہے۔
 ازل سے دشت تمنا کی گرد ہے انساں
 مگر یہ گرد کدھر جائے گی خدا معلوم
 
 سید محمد صدر الدین نثر نگار بھی ہیں۔ انہوں نے درسی ضروریات کے تحت چند کتابوں کی ترتیب کا فرض انجام دیا ہے اور آزادانہ طور پر بھی خاصی تعداد میں مضامین لکھے ہیں۔ بنیان اللسان انتخاب کلام درد، چند مقالات شبلی، بیالیس نظمیں، ایک روایت ایک بغاوت اور ۲۵ نظمیں ایک نظریہ ایک تجربہ وغیرہ ان کی ایسی کتاب ہیں جو ایک عرصے تک نصاب میں داخل رہی ہیں۔ لیکن صدر الدین صاحب نے دو اہم ادبی کام ایسے کئے ہیں جو انہیں تادیر زندہ رکھیں گے۔ ایک توڈی لٹ کے لئے لکھا گیا ان کا تحقیقی مقالہ ’’ شاہ آیت اللہ جوہری۔ ان کی حیات اور شاعری ہے۔ جسے پٹنہ یونیورسٹی نے دسمبر ۱۹۶۴ء میں شائع کیا ہے۔ اس میں مثنوی گوہر جوہری سے متعلق فضا کا تجزیاتی مطالعہ ان کی تنقیدی بصیرت کا احساس دلاتا ہے۔ دوسرا کام ’’ علم العروض‘‘سے متعلق ہے۔ عروض کے سخت مرحلوں کو جس سہل انداز میں انہوں نے مثالیں دے کر سمجھایا ہے وہ قابل قدر ہے۔ اس کے باوجود صدر الدین فضا ایک طالب علم ہونے کے ناطے مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے کلا سیکی فارسی اردو اور عربی ادب کا جس گہرائی سے مطالعہ کیا تھا اس کا ان کے مضامین میں پوری طرح اظہار نہیں ہو سکا اور وہ زیادہ تر دفتری یا نصابی معاملات میں الجھ کر رہ گئے۔
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
*****************
 
You are Visitor Number : 1504