donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Syed Mohammad Hasnain
Writer
--: Biography of Syed Mohammad Hasnain :--

 

 سید محمد حسنین 
 
 
سید محمد حسنین ولد سید محمد رشید ۲؍ اکتوبر کو پٹنہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے اسلاف کا وطن منیر شریف رہا ہے اور سلسلہ نصب حضرت امام تاج فقیہ سے ملتا ہے۔ بعض کتابوں میں تاریخ پیدائش ۱۹۲۵ء درج ہے جو غالباً تعلیمی سند کے اعتبار سے ہے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔۱۹۴۰ء میں رام موہن رائے سمنری سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد پٹنہ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ جہاں سے ۱۹۴۶ء میں ایم اے پاس کیا۔ بہار یونیورسٹی مظفر پور سے ’’ مرزا محمد علی فدوی عصر، حیات اور کلام کے موضوع پر ۱۹۵۶ء میں پی ایچ ڈی کی سند لے کر بہار میں اردو کے پہلے پی ایچ ڈی ہونے کا امتیاز حاصل کیا۔ حصول تعلیم کے بعد درس و تدریس سے وابستہ ہو گئے۔ لنکٹ سنگھ کالج مظفر پور میں ملازمت کی۔ پھر مگدھ یونیورسٹی بودھ گیا میں شعبہ اردو کے پہلے صدر کی حیثیت سے شعبہ کے قیام و استحکام میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ یہیں سے ۱۹۸۵ء میں پروفیسر اور صدر شعبہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے اور پٹنہ کے سبزی باغ ( بھنور پوکھر) محلے میں اپنے ذاتی مکان میں رہنے لگے۔ گرچہ زندگی کے آخری چند برسوں میں علمی و ادبی مجلسوں سے ان کی وابستگی بہت کم ہو گئی تھی اور ادبی حلقہ بندیوں سے دل برداشتہ تھے مگر اکثر اپنے بیٹے بیٹیوں سے ملنے کے لئے مختلف شہروں کا سفر کرتے رہے تھے۔ اپنی صاحبزادی سے ملنے کے لئے ایسا ہی ایک سفر انہوں نے اسلام آباد ( پاکستان ) کا کیا جہاں سے ۱۰ اکتوبر ۱۹۹۹ء بمطابق ۳؍ رجب ۱۴۲۰ھ سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ مرکزی قبرستان نزد زیر و پوائنٹ اسلام آباد آخری آرام گاہ ہے۔ طلحہ رضوی برق نے قطعات تاریخ لکھے جن میں سے ایک درج ذیل ہے۔
 
سوچا لکھوں وصال کی تاریخ
 بولا ہاتف کہ برق بسم اللہ
 جا کے خامش ہوا وطن سے دور
’’ طوطی نغمہ سنیج حسنین‘ آہ
۱۴۲۰ھ
 ان کے بیٹے پروفیسر سید احتشام حسنین ہندستان کی علمی دنیا میں ایک اہم مقام کے حامل ہیں اور انہیں حکومت ہند کی جانب سے کئی اعزازات مل چکے ہیں۔
 
پروفیسر سید محمد حسنین کی ادبی خدمات خاصی متنوع اور رنگا رنگ رہی ہیں۔ کچھ دنوں تک وہ ۔ ح۔ م۔ اسلم عظیم آبادی کے نام سے افسانے لکھتے رہے ۔ پھر تحقیقی  و تنقید کی دنیا کا رخ کیا۔ اپنا تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی دو جلدوں میں شائع کیا۔ بہار کی معروف اور اورغیر معروف شخصیتوں کے خاکے تحریر کئے ، ڈرامے اور انشائیے لکھے۔ لیکن ان کا بنیادی اور قابل قدر کام صنف انشائیہ کے حدود اور تاریخ پر لکھی گئی ان کی کتاب ’’ صنف انشائیہ اور چند انشائیے ’’ ہے جو مختلف یونیورسٹیوں میں داخل نصاب رہی ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن ۱۹۵۸ء میں چھپا دوسری اشاعت پر سید احتشام حسین اور پانچویں پر آل احمد سرور کے لکھے ہوئے مقدمے بھی اس ایڈیشن میں شریک اشاعت ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مصنف کی زندگی میں ہی اردو کی کسی کتاب کا چھٹا ایڈیشن ( کئی جعلی ایڈیشنوں کے علاوہ ) شائع ہونا اپنے آپ میں ایک امتیاز ہے اورانشائیہ نگاری کی تنقید یا روایت خواہ جس قدر آگے بڑھ جائے مگر تاریخی نوعیت کا یہ ایک کام بھی ادبی دنیا میں حسنین صاحب کا نام زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے۔
 
ان کا ایک منصوبہ اردو نثر نگاروں کی تاریخ تحریر کرنا تھا۔ ’’ سفینہ ارباب نثر‘‘کے نام سے وہ اس پروجیکٹ پر خاصا کام کر چکے تھے مگر یہ کام مکمل نہ ہو سکا۔ خود اپنے ہی بیان کے مطابق ان کی مطبوعہ کتابوں کی تعداد سولہ ہے۔مقالات بھی ہند و پاک کے اہم رسائل میں کثرت سے شائع ہوئے ہیں۔
 چند اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔
 
 ( ۱) بہار کے نو چراغ( خاکے) (۲) نشاطِ خاطر( انشائیے) (۳) صنف انشائیہ اور چند انشائیے (تاریخ و تنقید ) اس کتاب کا آخری ایڈیشن ایجو کیشنل بک ہائوس علی گڑھ سے ’’ انشائیہ اور انشائیے ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔(۴) برزخ کا مشاعرہ ( ڈرامہ) (۵)ثریا کا خواب ( افسانہ ) (۶) نیل مرام(کہانیاں) (۷) مرزا محمد علی فدوی ۔حیات اور کلام( تحقیق)(۸) نمود صبح
 
(بشکریہ: بہار کی بہار عظیم آباد بیسویں صدی میں ،تحریر :اعجاز علی ارشد،ناشر: خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ)
 
*****************************
 
You are Visitor Number : 3464