donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Syed Murtaza Hussain Bilgrami
Writer
--: Biography of Syed Murtaza Hussain Bilgrami :--

Syed Murtaza Hussain Bilgrami         سید مرتضیٰ حسین بلگرامی  

 

  سید مرتضیٰ حسین بلگرامی 25 اگست 1925 کو کواتھ، ضلع شاہ آباد، بہار میں پیدا ہوئے۔ وہ ’’تاریخ بلگرام‘‘ کے مصنف، صفیر بلگرامی کے پڑپوتے ہیں، جو غالب اور مرزا دبیر کے شاگرد رہے۔ علی گڑھ سے فارغ التحصیل اُن کے والد، سید ابومحمد بلگرامی کی کواتھ میں زمینیں تھیں۔ ابتدائی بچپن وہیں گزرا۔ سات بھائی، تین بہنوں میں اُن کا نمبر چوتھا ہے۔ علمی و ادبی ماحول وراثت میں ملا، خاندانی طریق کے مطابق ابتدائی تعلیم گھر پر اتالیق کے زیر نگرانی حاصل کی۔ پھر سہسرام کا رخ کیا، جہاں چچا وکالت کرتے تھے۔ وہاں مدرسہ خانقاہ کبیریا میں زیر تعلیم رہے۔ اُن ہی دنوں علم دوستی نے دل میں قلمی اخبار نکالنے کی خواہش جگائی۔ کمر کس کر میدان عمل میں کود پڑے۔ مضامین جمع کرنے کا ذمہ اُن کے کاندھوں پر تھا، جنھیں ساتھی طالب علم تحریری شکل دے دیتا۔ وہ اخبار مدرسے کے پرنسپل کو بھی دیکھایا، جسے اُنھوں نے بہت پسند کیا۔پھر اُنھوں نے پٹنہ کا رخ کیا، اور مدرسۂ سلیمانیہ سے مولوی کا کورس کیا۔ پھر انگریزی تعلیم کی جانب آگئے۔ دہلی پہنچے، جہاں پھوپھا مقیم تھے۔ پنجاب بورڈ کے تحت اعلیٰ نمبروں سے ایک امتحان پاس کیا، جو اُس زمانے میں آٹھویں کے مساوی تھا۔ میٹرک کا مرحلہ طے کرنے کے بعد اُن کا پیشہ ورانہ سفر شروع ہوا، اور وہ راشنگ آفس، دہلی سے بہ طور انسپکٹر 45 روپے ماہ وار پر منسلک ہوگئے۔ خاندان خوش حال تھا، سو کم تن خواہ کے باوجود کسی مالی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ملازمت کے دوران تعلیمی سلسلہ ضرور منقطع رہا، لیکن علمی و ادبی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ چند برس کے وقفے کے بعد دوبارہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا حصہ بن گئے، جہاں سے اردو میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ خاندانی اقدار کے طفیل ابتدا ہی سے اہل علم سے وابستگی رہی۔ پروفیسر نجیب اشرف ندوی، پروفیسر رشید احمد صدیقی، پروفیسر عبدالعلیم صدیقی، ڈاکٹر ذاکر حسین خان اور پروفیسر سید عابد حسین سمیت کئی دانش وَروں سے رابطہ رہا۔1950ء میں وہ منسٹری آف انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ، نئی دہلی سے منسلک ہوگئے۔ پریس کے تمام معاملات کی دیکھ ریکھ اُن ہی کے کاندھوں پر تھی۔چند برس بعد وہ صدر شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی، خواجہ احمد فاروقی کی خواہش پر سیکریٹری، ڈیپارٹمنٹ آف اردو کی حیثیت سے اُس ادارے کا حصہ بن گئے۔ چند سال وہاں بیتے۔ جب پروفیسر عبدالعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوئے، اُن کے کہنے پر وہ 69ء میں اُس جامعہ سے منسلک ہوگئے۔ وہیں سے 90ء میں ریٹارئر ہوئے۔ 58ء میں اُنھوں نے پاک ہند کے نام وَر ادیبوں کے حالات زندگی، اُن کے دستِ قلم سے لکھوانے، اور اُنھیں محفوظ کرنے کا انوکھا سلسلہ شروع کیا۔ اِس ضمن میں ہندوستان میں مقیم ادیبوں سے ملاقات کیں۔ پاکستان کو اپنا مسکن بنانے والے قلم کاروں سے رابطہ کیا۔ اُن کے پاس ساڑھے تین  ہزارسے زاید ادیبوں کے، اُن کے تحریرکردہ تذکرے محفوظ ہیں، جن میں ابن انشائ، ابراہیم جلیس، ساحر لدھیانوی، ناظم سیتا پوری، مخدوم محی الدین، جمیل جالبی، سجاد ظہیر اور مشفق خواجہ سمیت کئی اہل قلم و دانش وَر شامل ہیں۔ اِس منصوبے کو کتابی صورت دینے کا قوی ارادہ تھا، لیکن تحقیقی معاملات میں ایسے الجھے کہ یہ مکمل نہیں ہوسکا۔ اُن کی ایک کتاب ’’انشائے بے خبر‘‘ کے عنوان سے شایع ہوئی، جسے ادبی حلقوں میں بہت سراہا گیا۔ کہتے ہیں، اردو ادب میں غالب کے خطوط کو ابتدا ہی سے خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے، تاہم تحقیق کے بعد وہ اِس نتیجے پر پہنچے کہ اِس معاملے میں عظمت اﷲ بے خبر کو اولیت حاصل ہے، جو غالب سے پہلے کے زمانے کے ہیں۔ اِسی خیال کے تحت یہ کتاب مرتب کی۔ایک کتاب ’’بال جبرئیل مع مقدمہ و فرہنگ‘‘ کے نام سے منظرعام پر آئی۔ علامہ اقبال کے مجموعے ’’بال جبرئیل‘‘ میں ایسی کئی تلمیحات ہیں، جو کسی طور آسان نہیں، اِسی لیے عوام کی ذہنی استعداد کو سمجھتے ہوئے اِس کتاب کی فرہنگ مرتب کی۔ غالب کا کلام، مطالعے و تحقیق دونوں ہی کا محور رہا۔ اپنی کتاب ’’مکالمۂ غالب‘‘ میں اُنھوں نے غالب کے خطوط کو مکالموں میں تبدیل کرکے ڈرامے کی شکل دینے کا انوکھا تجربہ کیا۔ ’’غالب نما‘‘ میں غالب کی جاذب نظر اور اہم تحریروں کو یک جا کیا۔ دونوں ہی کتابوں کو علمی و ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ہوئی۔وہ چار حج اور سات عمرے کرنے کی سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ پہلی بار حج سے لوٹنے کے بعد خیال آیا کہ دوران حج لوگ صحیح ارکان ادا نہیں کر پاتے، سو ’’اعمال عمرہ و حج‘‘ کے نام سے ایک کتابچہ مرتب کیا۔ عراق اور شام کا سفر کیا، تو ’’اعمال و زیارت عراق‘‘ اور ’’اعمال و زیارت شام‘‘ کے نام سے کتابیں مرتب کیں، جن میں اِن مقامات کی تاریخ بھی بیان کی۔ چُوں کہ خاندان زید سے ہیں، سو اپنے جد امجد کی بابت ’’حالات جناب زید شہیدؒ‘‘ نامی ایک کتاب لکھی۔ پاک و ہند کے مختلف جریدوں میں اُن کے کئی مضامین شایع ہو چکے ہیں، جن کا مجموعہ زیر طبع ہے۔
پھر اکابرِ بلگرام کی حیات و خدمات قلم بند کرنے کا خیال آیا۔ یہ منصوبہ دو حصوں پر مشتمل کتاب ’’اکابر بلگرام‘‘ کے عنوان سے منصۂ شہود پر آیا، جس میں مختلف شعبوں میں کار ہائے نمایاں انجام دینے والی 143 نادرِ روزگار شخصیات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
*******

 

 
You are Visitor Number : 1703