donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Umeed Amethvi
Poet
--: Biography of Umeed Amethvi :--

 

 اُمید امیٹھوی 
 
خود نوشت
 
میرا نام محمد علی، کنیت ابو الکمال ، تخلص امید ہے۔ میں قصبہ گڑھ امیٹھی ضلع سلطان پور کا رہنے والا ہوں اور اسی قصبہ میں 3 فروری 1878 ء کو پیدا ہوا۔ میرے مورث اعلیٰ حضرت حافظ سید رسول اور سید سالار مسعود غازی کے والد بزرگوار ایک ساتھ ولایت غزنی سے معہ اہل و عیال ہندستان آئے اور والی ریاست پڑتاپ گڑھ کی ارادت مندیوں سے متاثر و مجبور ہو کر موضع خالصہ ضلع پرتاپ گڑھ میں سکونت پذیر ہو گئے۔ اس وقت سے یہ موضوع سادات خالصہ کے نام سے مشہور ہے۔
 
 میرے دادا میرخدا بخش صاحب خالصہ سے ترک سکونت کرکے قصبہ امیٹھی میں آباد ہو گئے اور میرے والد سید علی حسن مرحوم چند روز ریاست امیٹھی میں ملازمت کرنے کے بعد ملازمت سے دستکش ہو کر ایک مختصر سرمایہ سے عطر تیل کی تجارت شروع کرکے ایک معمولی مگر خوش حال زندگی بسر کرتے تھے۔ اور یہی تجارت ان کی آخری عمر تک ذریعہ معاش رہی۔میرے خاندان کے بقیہ افراد اب بھی خالصہ میں آباد ہیں اور کاشتکار انہ زمیندارانہ زندگی بسرکرتے ہیں۔ میں نسباً سید ہو ں اور میرا سلسلہ نسب جناب زین العابدین ابن امام حسین ابن حضر ت علی کرم اللہ وجہ تک پہنچتا ہے۔ میں مذہباً حنفی ہوں۔
 
میری ابتدائی تعلیم امیٹھی ہی میں مولوی برکت علی شاہ سے اور اسکولی تعلیم منشی عباس علی صاحب سے ہوئی ۔درسیات فارسی میں نے مولوی محمد رضا صاحب بریلوی سے پڑھیں۔
 
میں ۱۸۹۳ء میں لکھنو آیا یہاں آکر میں نے عربی کی ابتدائی کتابیں حاجی مولانا امیر علی صاحب مترجم فتاوی عالمگیری  کے اور ادب و فن عروض کی چند کتابیں مولوی حکیم سید عبد الحئی صاحب ناظم ندوۃ العلماء سے پڑھیں۔ فارسی کی تکمیل خاص طور پر ملا علی محمد شیرازی سے کیں جو مٹیا برج کلکتہ سے برداشتہ خاطر ہو کر لکھنو میں قیام پذیر تھے۔
 
 مجھے شعر و شاعری کا شوق ابتداء سے ہی تھا اور جس زمانہ میں لکھنو آیا ہو اسی زمانہ میں اردو فارسی اشعار بے تکلف موزوں کر لیا کرتا تھا اور جب خواجہ عزیزالدین مرحوم لکھنوی کو میں نے اپنے چند فارسی اشعار سنا کر فارسی کلام پر اصلاح کی خواہش ظاہر کی تو عزیز مرحوم نے فرمایا’’ میاں یہ تو بتائو تم نے فارسی کہاں اور کس سے پڑھی ہے۔
 
 میں نے ملا علی محمد شیرازی کا نام لیا۔ عزیز مرحوم ملا علی محمد صاحب سے نا واقف نہ تھے ۔ بے حد خوش ہوئے۔ ارشاد ہوا کہ میں حاضرہوں ۔ شوق سے اپنی غزلیں مجھے دکھائو سنائو لیکن بھائی عاشقانہ کلام کا مزہ جوانی میں ہوتا ہے سو یہاں اب کہاں۔
 
چوں پیر شدی حافظ از میکدہ بیروں شو
 
میں نے گستاخانہ مگر محجوبانہ طور پر عرض کیا حضرت! تو پھر کوئی جوان ہو کر کیا کرے، خواجہ مسکراکر خاموش ہو رہے ۔ غرض جب تک خواجہ زندہ رہے ہیں اکثر ان کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور اپنا فارسی کلام انہیں کو دکھلاتا رہا۔ میرے کلام کا زیادہ حصہ فارسی ہی میں ہے جس کا آج کوئی پرسان حال نہیں
 
 قصیدہ و غزل خویش را بتاد امید
 کہ یکسر از صلہ و داد بے نیاز آمد
 
۱۸۹۸ء میں منشی سجاد حسین صاحب ایڈیٹر اودھ پنچ سے ملا اور ایک عرصہ تک اودھ پنچ کی نامہ نگاری کرتا رہا۔ منشی سجاد حسین مرحوم مجھ پر نہایت شفقت فرماتے تھے۔ میں ایک حد تک مرحوم کا احسان مند ہوں اردو زبان کے متعلق بہت کچھ میں نے ان سے سیکھا ہے۔ منشی جی پر پایان عمر میں فاج گرا جس کی وجہ سے وہ قریب قریب لکھنے پڑھنے سے معذور ہو گئے تھے۔ ہاتھ میں رعشہ تھا بات چیت بھی بہ تکلف کرتے تھے۔ میں اس زمانہ میں ان کا ہاتھ بٹایا کرتا تھا۔ ۱۹۰۴ء سے ۱۹۱۱ء تک تو برابر بحیثیت آنریری سب ایڈیٹر کام کرتا رہا اور جب کہ میں ۱۹۱۲ء میں لکھنو سے تبدیل ہو کر گونڈہ چلا گیا تو اودھ پنچ بند کر دیا گیا کتب خانہ پنجاب کے کسی شخص کے ہاتھ منشی جی کے ایماء سے فروخت کر ڈالا گیا اور چند دنوں بعد منشی جی بھی انتقال کر گئے۔
 
۱۸۹۸ء  سے ۱۹۱۱ء تک بہ سلسلہ ملازمت میں لکھنو ہی میں رہا۔ اس زمانہ قیام لکھنو میں چند لکھنوی احباب کے اصرار سے لکھنو کے مشاعروں میں بھی شریک ہونے لگا۔ اور بفجوائے خاک از تو دہ کلاں بردار ، اپنا اردو کلام حکیم ضامن علی جلال مرحوم کو دکھلانے لگا لیکن یہ استادی اور شاگردی کا سلسلہ باقاعدہ عرصہ تک قائم نہ رہ سکا ۔ کیوں کہ میں اپنی فارسی دانی اور افتاد طبیعت کی وجہ سے نئی نئی ترکیبیں استعمال کرنے کا خوگر اور ہمارے حضرت جلال وہی سیٹھی پھیکی سیدھی سادہ اردو غزل گوئی کے دلدادہ تھے نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دن اسم با مسمیٰ جلال نے فرمایا۔
 
’’ حضرت ! آپ وہی مرزا نوشہ کی طرح برابر جھاڑ جھنکار میں چلے جا رہے ہیں مجھے آپ کا یہ اسلوب بیان پسند نہیں؟ عرض کیا گیا اگر جناب میرے کلام میں کوئی فنی قباحت ملاحظہ فرمائیں تو اصلاح کریں اردو زبان کی اگر کچھ خامیاں نظر آئیں تو درست کردیں صرفی نحوی غلطیوں پر متنبہ کریں اور اگر یہ کچھ نہیں ہے تو میں اپنے خیالات کی اصلاح آپ سے نہیں چاہتا۔
 
 اس انداز بیان کو آپ سخت اور گستاخانہ کہہ سکتے ہیں، لیکن اس کے معقول ہونے میں تو شاید آپ کو بھی کلام نہ ہو بہر حال جلال مرحوم یہ سنکر خاموش رہے مگر دو ہی چار دن بعد نہایت شفقت سے فرمانے لگے کہ تم اب اپنا اردو کلام بھی فارسی کی طرح مولانا رعب ہی کو دکھلایا کرو۔
 
مولانا محمد حنیف علی صاحب انصاری رعب مرحوم شاہ آبادی سے مجھ سے کافی مراسم دوستانہ تھے۔ اور خواجہ عزیز کی پیرانہ سالی کی وجہ سے میں اپنا فارسی کلام انہیں کو دکھلایا اور سنایا کرتا تھا ۔ مولانا رعب بھی ۵۸ء میں جلال مرحوم کے شاگرد ہو چکے تھے اور مجھے نہ صرف استادانہ و شاگردانہ تعلقات تھے بلکہ وہ میرے مخلص دوست بھی تھے اور اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ ان سے میں نے اکثر اپنی علمی و ادبی خامیوں کو پختہ کیا اور فن طب کی چند فارسی کتابیں مولانا سے پڑھیں۔ مولانا رعب کے انتقال کے بعد شعر و شاعری سے میرا دل اُچاٹ ہو گیا تھا اور پھر میں نے کبھی شوق سے مشاعروں میں شرکت نہیں کی۔ 
 
***************************
 
You are Visitor Number : 1805