donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
M.Z.Kanwal
 
Share this Design Poetry to Aalmi Urdu Ghar
M.Z.KANWAL : A KNOWN URDU POETESS IN URDU WORLD
        
M.Z.Kanwal_316561362325007.jpg
اردو اور پنجابی کی ممتاز شاعرہ، ادیبہ ،سکالر، ماہرتعلیم، ایم زیڈکنول کا دوسرا شعری مجموعہ"کائنات مٹھی میں" باقر پبلیکنشنزلاہورکے زیرِ اہتمام شائع ہوکرمنظرِ عام پر آ گیا ہے۔ کتاب کا ٹائٹل معروف پرائیڈآف پرفارمنس آرٹسٹ ڈاکٹراعجازانورنے بنایا ہے اوردیباچہ معروف علمی وادبی شخصیت چیرمین شعبہ اردوگورنمنٹ اسلامیہ پوسٹ گریجویٹ کالج گوجرنوالہ پروفیسرڈاکٹرطارق جاوید نے تحریر کیا ہے۔ کتاب کا انتساب شاعرہ نے اپنے  سب سے چھوٹے راہی عدم کوکوچ کرجانے والے بھائی راؤقاسم علی شہزادکے نام کیا ہے۔ادبی حلقوں کی طرف سے کتاب کا بہت خیرمقدم کیا گیا ہے۔قبل ازیں اُن کا پہلا شعری مجموعہ"چہرے گلاب سے " 1998ء میں شائع ہوکرپذیرائی حاصل کرچکا ہے ۔ 
	ڈاکٹرطارق جاوید نے ایم زیڈکنول کے بارے میں رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ کنول کی شاعری میں عہدِ حاضرکی ایسی باشعورعورت کا پوراوجودگونجتا ہے ، جو پدرسری سماج اور اس کے مردوں کے ظالمانہ ، جابردانہ ، حریصانہ ، مریضانہ، معتصبانہ ، مجنونانہ رویوں اورجلی وخفی ہتھکنڈوں کے خلاف نبردآزماہے۔کنول کی شعری جمالیات اپنے وجود ومتعلقات سے تراشی گئی ہیں۔الفاظ، تراکیب، تشبیہات ، استعارات ،علامات، تجریدات، احساسات ، خیالات کنول کے تخلیقی گِرداب میں ڈوب ڈوب ، اُبھراُبھر، ٹکراٹکرا کرایک ہوکراس کی غزلوں کی بیرونی و اندرونی ساختوں کو متشکل کرتے ہیں۔ شایدیہی وجہ ہے کہ ان ساختوں میں معنی کئی روپ دھارکرتیرتے بھی ہیں اورجب قاری کے مختلف خیالات وجذبات سے تعامل ہوتا ہے تودو جمع دو کا حاصل جمع پانچ، سات اور نو کی صوارت میں  برآمد ہوتا ہے۔
	دراصل کنول کی غزل میں برفاب کے رنگ سے نکہتیں چراکے رنگِ اختراورآب کو کنول کا پیرہن سے کر موجِ ساگربنانے، اندھیری رات کے صُور سے اُجالے کی نمو، چاندنی کے فسوں کاپتھروں کے جگرکوپاراپارا کرنے، حبسِ دم کے بطن سے ابرِ باراں کا ظہور، صحراؤں کی خاک چھاننے سے من میں آنکھوں کی تخلیق، نفی نفی سے ثبات کا مٹھی میں مسکرااُٹھنا، دھوپ کی اوس میں خوابوں کا پلنا اوربند مٹھی میں مسکرااُٹھنا، دھوپ کی اوس میں خوابوں کا پلنا اوربند مٹھی سے جگنوؤں کا اُڑ کے طلمت کوپاراپارا کرجانا حقیقت ، خیال اورفن کے پچیدہ مراحل کا آئینہ دار ہے۔
چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
خاک ہونے لگا چاندنی کا فسوں
مجھ پہ ہنسنے لگا چاندنی کا فسوں

آئینہ خانوں سے آکرکیا کنول نے کہہ دیا
خوشبوئیں بولیں ہمیں تھوڑی سی مہلت چاہیئے 

میں توخود کوتھی ڈھونڈنے نکلی
آگئی کائنات مٹھی میں 
چشمِ مشکیزہ میں چُپا  لائی 
لے کے اذنِ فرات مٹھی میں

اپنی ہی راکھ سے میں نے تھے نکالے گوہر
پتھروں کے لگے انبار خدا خیرکرے

درد کی آنکھیں جھپکتی ہی نہ تھیں
زخم کی دیوانگی بھی دیکھ لی

خاک ہونے لگا چاندنی کا فسوں
مجھ پہ ہنسنے لگا چاندنی کا فسوں

جس کے رستے میں کہکشائیں ہیں
ظلمتوں کی ہو وہ گلی شاید


آئینہ خانے مجھ پہ آبرسے
خودکوپہچاننے میں نکلی تھی

	 علامتوں اورتجریدوں نے ان کے اشعار کی ساختوں کی تشکیل میں اہم کردارادا کیا ہے۔ کنول کے ذہن کی مخصوص حالتوں نے شعروں کو تراشاہی اس ڈھب پر ہے کہ چھاگل اورپانی کی بیک وقت تخلیق ہوگئی۔
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 572