donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Aap Beeti
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Akhter Abbas
Title :
   Aap Beeti

آپ بیتی
 
اختر عباس
 
 
اچھا کام کرو تو پھر اسے رُکنے نہ دو،بہتر کرتے جائو،بہترین وہ خود ہو جائے گا۔برسوں پہلے ایک بزرگ سے یہ بات سنی تھی، وہ دل میں کھُب گئی ۔مجھے یاد ہے ۲۰،۲۵ سال قبل جب ہم نے گلبرگ میں پمفلٹ تقسیم کئے کہ مالی، ڈرائیور اور کام کرنے والی مائیوں کے بچوں کو ہمارے پاس پڑھنے کے لیے بھیجیں۔
ہم فیس بھی خود دیں گے،یونیفارم بھی مگر حیرت کی بات ہے کہ کوئی ایک مالی چوکیدار بھی اپنے بچے کی اُنگلی پکڑے ہمارے پاس نہ آیا۔آج پنجاب اور سندھ میں اس طرح کے ۲۵۰ سکول ہیں۔چنیوٹ میں ہمارے آبائی گھر میں قائم سکول میں ۶۰۰ سے زائد بچے ہیں۔۶ ایکڑ پہ قائم گرلز سیکشن میں ۱۲۰۰ لڑکیاں اور ۲۵۰۰۰سے زائد بچے ہیں جو ہمارے دیگر اداروں میں پڑھ رہے ہیں، ہمارا فیملی ٹرسٹ ہے جو ڈاکٹر، انجینئر بننے والے ذہین طلبہ کو وظائف دیتا ہے۔
 
اپنے تعلیمی نظام میں کوشش کی ہے کہ بچوں کو پیسے کمانے والی مشین نہ بنا ئیں، ان کا اخلاق بھی بہتر ہو اور کردار بھی۔یوں چٹائی سکول بنانے سے جس سفر کا آغاز کیا تھا۔ آج وہ خواب پودے کی طرح پھل پھول رہا ہے۔
چنیوٹ میں پیدائش
یہ ۱۹۴۶ء کا کوئی مہینا تھا۔ ــچنیوٹ میں میری پیدائش ہوئی۔ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی،پھر کراچی منتقل ہوگئے جہاں ہمارا خاندان ٹینری (چمڑے) کے کاروبار سے منسلک تھا۔ کراچی جا کر میری خوش قسمتی دیکھیے کہ جس سکول میں داخلہ ملا وہ حضرت قائد اعظم کی درسگاہ تھی، سندھ مدرسۃ الاسلام، وہاں سے میٹرک کیا۔آدم جی سائنس کالج سے بی ایس سی کرنے کے بعد جب میں اپنے والد کے ساتھ کاروبار میں شامل ہوا تو ۱۹۶۵ء کا سال تھا۔
 
تب والدصاحب کو اپنی ٹینری لگائے نو دس سال ہو چکے تھے۔آنے والے برسوں میں خدا نے ہمارے کاروبار میں اس قدر برکت ڈالی کہ اس کے احسانوں کا شمار مشکل ہے۔اب ہم ۶۵ سے زائد ملکوں کو اپنی مصنوعات بھجواتے ہیں۔ہم کیمیکل تیار کرتے ہیں جو چمڑہ سازی میں استعمال ہوتا ہے۔یہ کیمیکل ہم دنیا کے کئی ممالک کو ایکسپورٹ کر رہے ہیں۔
 
میرے بیٹے نے برطانیہ سے کیمیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تو بھائی نے شو ٹیکنالوجی کی تعلیم پائی پھر ہم نے جرمنی اور اٹلی کے بڑے صنعت کاروں کے ساتھ مل کر مشتر کہ کاروبار بھی کیا۔عالمی منڈی میں ہم اپنے جوتے بھی سپلائی کر رہے ہیں۔ Pecer Caider ہمارا اپنا برانڈ ہے۔ باٹا سٹور پر دستیاب ہونے کے علاوہ فرانس اور اٹلی میں بے حد پسند کیا جاتا ہے۔Urban Sole, SLW,MSTنے دنیا میں الگ پہچان پائی ہے۔
 
ہمارے اصول ہی ہماری مضبوطی ہیں۔
(۱)کوالٹی پر کمپرومائز نہیں کرنا۔
(۲)قیمت مناسب رکھنی ہے۔
(۳)جو کہا ہے وہی اور ویسا ہی بنایا ہے۔
(۴) وقت کے اندر تیار کرنا ہے۔
 
ہم قریباً ۴۰ ملکوں میں ایکسپورٹ کرتے ہیں اور کوالٹی پر اعتماد کا عالم یہ ہے کہ ۲/۱ فیصد سے زائد کبھی کلیم(Claim) نہیں آتا۔
 
آج ہمارے خاندان کے دو گروپ معروف کاروباری باعزت نام ہیں،یہ سب اتنا آسان نہیںتھا ۔
اس سارے کام کی بنیاد اگر کسی چیز پہ ہے تو وہ ۱۲۰۰روپے تھے جو میرے دادا نے والد صاحب کو دے کر اندرون سندھ بھیجا ۔جہاں سے انہیں کھالوں کو خریدنا اور کراچی بھجوانا تھا۔کراچی میں ان کچی کھالوں کو نمک لگایا جاتا۔ اللہ نے ہاتھ پکڑا اور کام بڑھا تو والد صاحب نے ۱۹۵۶ء میں کراچی میں اپنی ٹینری لگائی۔ دو سال خوب کام کیا وہ محنتی بھی بڑے تھے۔
 
دادا کی راہنمائی میں انہوں نے دن رات ایک کر دیا مگر دو سال کے بعد ہی حالات نے ایسا پلٹا کھایا کراچی میں ایک انہونی ہو گئی۔ ۱۹۵۸ء کا سیلاب بہت مشہور ہے۔لیاری ندی میں پانی کناروں سے باہر آگیا۔ ہماری ٹینری میں ۱۱،۱۱فٹ پانی کھڑا ہو گیا، یہ عیدقربان کا موقع تھا۔ ہمارے ہاں کھالوں کے سٹاک میںلاکھوں کی تعداد میں کھالیں پڑی تھیں۔ کچھ ہمارا مال تھا بہت سا سندھ کے بیوپاریوں کا تھا۔
 
پانی اترا تو یوں سمجھیں بزنس کی دنیا ہی اجڑ چکی تھی۔ کروڑوں روپے مالیت کی کھالیں ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ضائع ہو چکی تھیں۔ ہم نے کیا کیا کہ انھی کھالوں کو پراسس کیا اور چمڑہ بنا کر اپنے دادا کی دکان پر فروخت کے لیے پیش کر دیا۔ نقصان اس قدر تھا کہ فروخت سے ہونے والی آمدن سے بمشکل بیوپاریوں کی ادائی ممکن ہو سکی۔ ہمارے خاندان کو مالی تنگی نے گھیر لیا اور ہمیں کراچی چھوڑ کر چنیوٹ آنا پڑا۔
ہماری والدہ نے ان مشکل دنوں میں ہماری ہمت بندھائی۔ ہمیں پڑھائی لکھائی پر لگا دیا۔ انھوں نے تعلیم تھی کہ جس رب نے مشکل اور آزمائش دی ہے وہی آسانی کے دن دوبارہ لائے گا۔ وہی رب ہاتھ پکڑے گا اور محنت میں رنگ بھرے گا اور خدا کا کرنا بالکل ایسا ہی ہوا۔ اللہ پر ایمان اگر زندگی کے مشکل دنوں میں یقین نہیں بنتا اور ہمت نہیں دیتا تو ضرور اس میں کمی رہی ہوتی ہے۔
 
ہمارے دادا مرحوم میاں محمد شفیع بہت کمال آدمی تھے۔ ان کی زندگی کے سیدھے اصول تھے، جن پر انھوں نے عمربھر عمل کیا۔ وہ اپنے والدین کے بہت خدمت گزار اور تابعدار تھے۔ اللہ نے ان کو بھی خدمت گزار اولاد دی۔ دادا بہت کھلے دل کے مالک تھے، درد دل رکھنے والے، دوسروں کی مدد کرنے والے۔ وہ دوسروں کی مدد کے لیے کسی حد تک چلے جاتے تھے۔
 
نرمی دادا کی وجہ سے کراچی میں کاروبار کا نقصان اس قدر زیادہ ہوا کہ میرے والد ذہنی دبائو کا شکار ہو گئے، ان کے دوست حافظ منظور بہت مخلص آدمی تھے۔ حیدر آباد سندھ کے رہنے والے تھے۔ ان مشکل دنوں میں انھوں نے بہت ہاتھ بٹایا۔ والد کو انھوں نے دو لاکھ روپے قرض دیے۔ یوں اس روپے کی مدد سے ہم نے دوبارہ اپنے کاروبار کو کھڑا کیا۔ ۱۹۵۹ء میں دوبارہ کراچی چلے گئے، بعد میں کاروبار میں نقصان کا صدمہ ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا۔ میرے دادا بہت ہی Humble اور نرم مزاج تھے۔ میرا ان کے ساتھ بہت وقت گزرا، ان کا ایک اصول تھا جس سے پیسا لینا ہے، اس پر سختی نہ کرو۔
 
سختی سے مت مانگو، سچ کہوں تو میرے ہی نہیں ہمارے خاندان کے بزرگوں، بھائیوں اور بیٹوں میں جو عاجزی اور نرمی ہے یہ دادا کی وجہ سے ہے۔ دادا چنیوٹی کمیونٹی کے پہلے بیت المال کے بانی بھی تھے۔ اس بیت المال نے ضرورت مندوں کو بہت آسانی دی۔ میرے دادا ۱۹۷۳ء میں فوت ہوئے، ۱۹۴۰ء میں ان کے نام پہ بنے شفیع گروپ کا آج پاکستان کی صنعت اور کاروبار میں نمایاں مقام بھی ہے اورحیثیت بھی۔
ہمارے ہی خاندان کے دوسرے صدیق گروپ کی فلاحی اور کاروباری سرگرمیاں بھی نمایاں اور لائق تحسین ہیں۔ شفیع گروپ کا شفیع ٹرسٹ کراچی میں اور لاہور میں شفیع صدیق ٹرسٹ اپنی بساط پر فلاحی کاموں کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہے۔ میرے والد نے ۷۴ء میں بھائیوں کو ملتان بھیجا۔ کراچی سے ملتان آنا بھرے شہر سے صحرا میں آنا ہی تھا۔ بھائیوں کو اچھا نہیں لگا مگر اس فیصلے نے بھی کاروبار میں بہت وسعت دی۔ بھائیوں کے بیٹے الحمد اللہ پڑھ لکھ کر اپنے اپنے ادارے چلا رہے ہیں۔
بیوی کا شکر گزار
میرا اپنا بیٹا فہیم جو کیمیکل انجینئر ہے، وہ لاہور میں واقع کیمیکل فیکٹری کو لک آفٹر (Look after)کرتا ہے۔ بیٹا سکولوں کی بھی سرپرستی کرتا ہے۔ اللہ نے بہت اطمینان سے نوازا ہے۔اس نے ایچی سن کالج سے تعلیم پائی۔ میں کبھی کبھی اس پر چھاپا مارا کرتا تھا مگر گھر اور خاندان کی عزت اور ماں کی تعلیم و تربیت کا بچے کی اٹھانمیں بہت اہم کردار ہوتا ہے۔
 
میں اپنی بیوی کا شکر گزار ہوں ایک تو وہ مجھ سے بھی زیادہ کھلے ہاتھ کی ہے۔ مخیر اور دیندار، اس کے سامنے میں اپنے آپ کو بخیل سمجھتا ہوں۔ اس نے بچے میں بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پہ شفقت کو پروان چڑھایا۔ یہی خوبی میری بھابیوں اور خاندان کے دوسرے عزیزوںاور بزرگوں میں ہے۔
بیٹے کی تربیت
میںنے اپنے بیٹے کی تربیت شروع سے اپنے انداز سے کرنے کی کوشش کی اسے مسجد ساتھ لے کر جاتا، میٹنگز (Meeting)میں وہ ہمراہ ہوتا۔ چھوٹا تھا کبھی بیٹھا رہتا کبھی اٹھ کر گھومنے لگتا۔ میں نے مذہبی طور پر کبھی اس پر پریشر نہیں ڈالا۔ اس کے اپنے دو بچے ہیں۔ بچوں سے بھی اس کا دوستانہ رویہ ہے۔ اس کے بچے میرے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں۔
 
اپنے بیٹے سے میرا بہت دلی تعلق ہے۔ میں نے کبھی ذکر نہیں کیا مگر جب وہ ملک سے باہر پڑھنے کے لیے گیا ہوا تھا تو میں اکیلے میں روتا رہتا تھا۔ میری بیوی بہت مضبوط اعصاب اور دل کی مالک ہے۔ وہ تسلی دیتی تھی۔ وہاں موٹروے پہ جب وہ سفر کرتا اور بتاتا کہ تین چار سو کلومیٹر کے سفر پر ہوں تو میرا دل بہت پریشان ہوتا تھا۔
 
اپنے بیٹے کی وجہ سے مجھے اس کے دوست بھی بیٹوں کی طرح عزیز ہیں۔ میں انھیں کھلانے پلانے میں خوشی محسوس کرتا ہوں۔ وہ سارے ہی اچھی جگہوں پر سیٹ ہو گئے ہیں۔ مجھے نہیں یاد میں نے کبھی فہیم کو مارا ہو یا سختی کی ہو۔ وہ ۷۳ء میں پیدا ہوا، تب سے میری محبت کا مرکز ہے۔ اب اس نے اٹالین کمپنی کے ساتھ جوائنٹ ونچر کیا ہے۔ یہ اس کے لیے ایک نئی شناخت اور کامیابی ہے۔ ہمارے خاندان کی ایک منفرد خوبی یہ ہے کہ جب بچہ پڑھ رہا ہوتا ہے تو اس کے لیے سوچ لیا جاتا ہے جب وہ پڑھ کر آتا ہے تو اس کے لیے نیا بزنس تیار ہوتا ہے۔
 
۶۵سال سے جڑا ہوا خاندان
آج ۶۵سال بعد بھی یہ خاندان جڑا ہوا ہے۔ مضبوطی سے سماجی اور کاروباری زندگی میں ہم آہنگ ہے تو یہ اتفاق نہیں ہے۔ اللہ سے محبت اور اس کی رضا کے لیے خیر کا کام ہماری رگوں میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاندان کے تمام بچے بڑے اسی سوچ اور عمل پر چل رہا ہے۔ میرے معاملے میں اگر یہ میری والدہ اور والد کی برکت ہے تو اس سے بڑھ کر دادا کو کریڈٹ جاتا ہے۔ انھوں نے ہمیں ذہنی طور پر غریب نہیں ہونے دیا۔ دینے والا ہاتھ بنانے میں اللہ کا ہم سب پر کرم ہے۔
ہمارے اداروں کی پہچان
ہمارے اداروںمیں کچھ باتیں بہت اہم ہیں مثلاً ہم عزتِ نفس پر بہت یقین رکھتے ہیں۔ ہمارا یقین ہے کہ ہمارے رزق میں ہمارے ورکرز کا حصہ ہے۔ اسی لیے ان کی تنخواہوں، ترقی اور سیکھنے کے عمل کو مسلسل زندہ رکھتے ہیں۔ان کے لیے سوچتے ہیں تو اللہ بھی خوش ہوتا ہے اور وہ بھی راضی رہتے ہیں۔ ہم R & D پر بڑا خرچ کرتے ہیں۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ سرمایہ دار اگر اپنے مزدور کی خیر خواہی نہیں کرے گا تو کون کرے گا؟ کل مزدور کے لڑکے رزق کی کمی کی وجہ سے باغی ہو کر ملک و قوم کو نقصان پہنچائیں گے۔ تو کون ذمہ دار ہو گا؟ ان کی ضرورتیں خوشی اورخوش دلی سے پوری کرنی چاہیے، ان کے لیے رزق حلال کمانے کے ذرائع بڑھانے چاہئیں۔
ہمارے ہاں کام ۸گھنٹے نہیں ہوتا
ہمارے تمام اداروں میں مزدور ۸گھنٹے کام نہیں کرتے۔ ہم ان سے آدھا گھنٹہ کام نہیں لیتے۔ تنخواہ پوری دیتے ہیں۔ ان کے لیے ہر فیکٹری میں استاد رکھے ہوئے ہیں۔ ۳۲،۳۲لوگوں کا گروپ ہوتا ہے۔ ۳ استاد ان کو قرآن پاک پڑھاتے ہیں۔ فیکٹری بھی ۸۰۰ مزدور ہیں تو سبھی اس عمل سے گزرتے ہیں۔ ہیڈ آفس کے لوگوں سے بھی کہا اللہ نے بے شک مجھے تمھارا حاکم بنایا ہے اور تمھیں میری رعایا، اس لیے میں اپنے وقت میں سے تمھیں وقت اور استاد دے رہا ہوں تا کہ ہماری صرف جسمانی اور مالی ضرورتیں ہی پوری نہ ہوسکیں بلکہ روحانی اور دینی ضرورتیں بھی پوری ہوں۔
ورکر کی تربیت مالکوں پر فرض ہے
اللہ اسی بات کی مجھ سے پوچھ کرے گا تو یقینا میں سرخرو ہوں گا کہ ہم نے اس معاملے میں کوتاہی نہیں کی۔ لیبر کا معاملہ ہوتا ہے کہ ساری عمر روٹی کے چکر میں رہنے سے وہ بیچارے قرآن، نماز سے رہ جاتے ہیں۔
 
ہمارے اداروں میں یہ نیکی بڑے بھائی تنویر مگوں کے مشورے اور تجویز سے شروع ہوئی۔ ہم سبھی کی یہ سوچ اور رائے ہے کہ ورکر کی تربیت مالکوں پر فرض ہے۔ ہمارا مزدور دنیا کا بہترین مزدور ہے۔ اس میں نہ کوئی شک ہے نہ دوسری رائے۔ میرا تجربہ بھی یہی کہتا ہے اور میری رائے بھی یہی ہے۔
ہم ان کی ضرورتوں کا احساس نہیں کرتے، ان کی تعلیم اور تربیت نہیں کرتے تو ان سے وہ بہترین نتائج نہیں لے پاتے جو باآسانی لیے جا سکتے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں دھوکا دینے والوں، غلط بیانی سے کام لے کر آگے نکلنے کی کوشش کرنے والوں یا یوں کہیے کہ انگریزی میں جن کو چیٹرز (Cheaters) کہتے ہیں۔ ان کو کامیاب ہوتے نہیں دیکھا۔ یہی بات سلیقے، طریقے سے اپنی لیبر کو سیکھا دی جائے۔ ان کا رزق حلال ہو جائے اور معاشی تنگی کا خوف نہ رہے تو وہ دل و جان سے آپ کے لیے کام کریں گے۔
 
ہمارے ورکر دنیا سے بہتر کیوں؟
جب جب بیرونی دنیا سے وفود آتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آپ کے ورکرز ہمارے مزدوروں سے بہت بہتر ہیں۔
جب ہماری فیکٹریوں میں مزدوروں کی پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوا تو ہم نے قرآن پاک ختم کرنے والوں کو انعام کے طور پر عمرے پر بھیجنا شروع کیا۔ ان کو باقاعدہ پگڑی پہنائی جاتی جسے دستاربندی کہتے ہیں۔ یہ عزت کی علامت ہوتی ہے۔ ایک ان پڑھ مزدور کو قرآن مل گیا، پڑھنا آ گیا۔ رزق کے ساتھ ساتھ آخرت سنورنے کا بندوبست ہو گیا وہ خوش کیوں نہیں ہو گا۔
 
مجھے یاد ہے ایک بوڑھے مزدور نے روتے ہوئے مجھ سے کہا: ’’میاں جی! آپ کا شکریہ کیسے ادا کروں آپ نے قرآن پڑھا دیا۔ نماز پڑھنے ڈال دیا۔ جتنی عمر رہ گئی ہے، ساری عمر دعائیں دوں گااور کام میں کبھی دھوکا نہیں دوں گا۔‘‘
 
دیکھیں معاشی طور پر آسودگی کے لحاظ سے میں شاید ملک کے ۳فیصد لوگوں میں سے ہوں مگر یہ جو دعائیں ملتی ہیں۔ غریب کی دعا تو سیدھی عرش تک جاتی ہے۔ یہی میرا اثاثہ ہے۔ کسی مظلوم کی دعا کسی مستحق کی دعا، جس کو ہماری وجہ سے کوئی آسانی مل جاتی ہے۔
غرور کیوں نہیں آیا
میں ذاتی طور پر اللہ سے بہت ڈرنے والوں میں سے ہوں۔ رتی برابر غرور نہیں ہے۔ زبان میں سختی نہیں ہے۔ افسر سے ناراض ہو جائوں تو ہو جائوں، کسی مزدور سے ناراض نہیں ہوتا۔ میرا رب مجھ سے راضی رہے یہی آرزو ہے۔ اس کی رضا اورخوشنودی کا اگر کوئی اظہار دیکھوں تو یہ اس نے میرا دل تعلیمی اور سماجی سرگرمیوں کی طرف متوجہ رکھا ہوا ہے۔ میرے کاروبار اتنے سکون سے چل رہے ہیں کہ اللہ کے فضل سے آج تک یہ شکایت سامنے نہیں آئی کہ کسی نے غبن کیا ہے یاد ھوکا دیا ہے۔
 
کبھی کسی فیکٹری میں ہڑتال نہیں ہوئی۔ لوگ کام کرتے ہیں اور خوشی سے کرتے ہیں۔ محبت کرتے ہیں۔ کیا کروڑوں روپے خرچ کر کے کسی کا دل خریدا جا سکتا ہے۔ ہمارے بڑے خود مزدور تھے، مزدوروں کی طرح صبح ۵ بجے کام پہ جاتے میرے والداور چچا نے کراچی میں خود اپنے ہاتھوں سے چمڑے چھیلے۔ میں چھوٹا تھا۔
 
آٹھویں کلاس میں جب لیاری میں سیلاب آیا، ۶بہن بھائی تھے اور گھر میں خرچ کے لیے پیسے نہیں تھے۔ آج ہمارے عام ملازم کی تنخواہ ۱۵ سے ۲۰ہزار ہے۔ آپ دیکھ لیں والدہ نے کیسے سارے گھر کا خرچ چلایا۔ ہم بچے سو جاتے تو وہ پنکھا بند کر دیتیں کہ بجلی کا بل نہ آئے۔ اٹھ جاتے تو پھر چلا دیتیں۔اُس ۱۰
منٹ کی بچت بھولتی نہیں ہے۔
 
لیدر سے ہم فنش گڈز میں آئے پھر ٹیکسٹائل میں گئے پھر کیمیکل کے کارخانے لگائے۔ چاول، گلوکوز، فارما سوٹیکل میں گئے۔ اس سے پروٹین بنتا ہے۔ ملز کو جاتا ہے۔
 
جوڑنے والی اصل طاقت
میرے گھر اور کارخانے میں اصل طاقت اور جوڑنے والی چیز Values ہیں۔ گھر میں عورتوں کو عزت اور احترام دیا ہے۔ یہ طے کیا انھوں نے بزنس میں دخل نہیں دینا۔ بڑوں نے جو اصول بنا دیے۔ سب مردوں نے اس پر چلنا ہے۔ ایک نے اعلیٰ درجے کی گاڑی لے لی تو دوسرے کے اندر حسرت نہیں ہوتی کہ میں بھی ویسی لے لوں۔ منع نہیں ہے جب جی چاہے لے لے۔ میں اپنے پر خرچ کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔
میری بہو نے گھڑی مانگی ۳لاکھ کی تھی۔ اس کو لے کر دے دی۔ اپنے لیے نہیں لی۔ پھر بیوی کو بھی ۳لاکھ دے دیے کہ وہ بھی لے لے۔ اس نے گھڑی نہیںلی۔ اللہ کی راہ میں چیرٹی کر دیے۔ پیسے اور چیزوں کے لیے خاندان میں کوئی مقابلہ نہیں۔ اس بات پر جہاں مجھے خوشی اور فخر ہے وہاں حیرت بھی ہوتی ہے کہ ۶۰،۶۵سال سے یہ کیسے ممکن ہو رہا ہے؟ میرے چچا مجھ سے ۴سال بڑے ہیں۔ وہی خاندان کے سربراہ ہیں۔ سبھی دل و جان سے ان کی مانتے ہیں۔
۶ماہ دفتر نہ جائوں تو
اگر میں ۶ماہ دفتر نہ جائوں تو یقین مانیں بزنس کا سارا سلسلہ اتنی خوبی سے چلتا رہے گا۔ میرا بزنس بے شک میری پہلی ترجیح ہے۔ اسی کے لیے سوچتا اور سفر کرتا ہوں۔اپنے لوگوں کی تربیت کرتا، نظام کھڑا کرتا ہوں اور اس کو سنبھالتا اور بہتر بناتا ہوں۔ شفیع ٹینریز پاکستان ہی میں نہیں دنیا میں بھی معروف ہے۔
جان کوسٹا، پرتگال میں ہمارا ایجنٹ ہے ۴۰سال سے۔ میں اسے ملا، باتیں ایسے کرے جیسے خاندانی لوگ کرتے ہیں۔ میں نے اس کی بیوی کو بتایا کہ آج تک اس کو ایک بھی کلیم (Claim) نہیں دیا۔ ایکسپورٹ مارکیٹ میں ہمارا جو نام ہے اس کی وجہ سے ہے۔ انڈیا ٹینری میں ۲۰۰سال سے ہے۔ ہم تو صرف ۴۰سال سے ہیں۔ ۶۰،۶۵ ملکوں میں ہمارا مال جا رہا ہے۔ یہ سب کو پتا ہے کہ نہ مال میں فرق ہو گا نہ زبان اور معاہدے میں۔
 
جو وقت دیا ہے اس پر کام ہو جائے گا۔ مارکیٹ میں عزت، کریڈٹ یا ورتھ اسی بات کی تو ہوتی ہے۔ ہم نے طے کیا تھا کہ کبھی انڈر ہینڈ کام نہیں کرنا اس کا فائدہ ہی ہوتا ہے۔
۱۰کروڑ کی ایل سی
سویڈن میں ایک فیملی تھی جس سے ہم کام کرتے تھے۔ مارکیٹ ایک دم ہائی چلی گئی ہمیں بہت نقصان ہوا۔ اس نے کہا میں قیمت بڑھا دیتا ہوں۔ والد صاحب نے کہا کہ جب قیمت کم ہو گی تو ہم تو کم نہیں کریں گے۔ اسی لیے جو طے تھا وہی ہو گا۔ یہ واقعہ ہمارا مضبوط حوالہ بنا۔
 
میں نے فرنیچر لیدر کا کام سیکھا اور اس میں بہت کمایا بزنس کی دنیا میں کام ہوتا ہی Reputation پر ہے۔ سویڈن والوں کے لیے پاکستان کی محمد شفیع ٹینری ہی معیار اور اعتبار کا نام بن گیا۔ ایک بار ۱۰ کروڑ کی ایل سی آئی تو بینک والے پریشان ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا چاہے کوئی مال کی جگہ گند ڈال کر بھیج دے۔ ہمارے ہاں بعض لوگوں نے ایسا کیا بھی اور ملک کو بدنام کیا۔ ناجائز مال بن جاتا ہے مگر ہضم نہیں ہوتا۔ کہیں نہ کہیں سے نکل جاتا ہے میں نے گزشتہ ۴۰ برسوں میں یہی ہوتے دیکھا ہے۔
خرابی کی وجہ اور حل
ملک میں خرابی کی بہت بڑی وجہ ہمارا تعلیمی نظام ہے۔ موجودہ نظام نہ تعلیم دے رہا ہے نہ اہلیت پیدا کر رہا ہے۔ اخلاقی تربیت کا تو نام مت لیں۔ کمانے والی مشینوں میں دین کا شعور تو دور کی بات دین سے تعلق بھی باقی نہیں رہتا۔ جہاں پیسا ہو گا وہ سورج مکھی کے پھول کی طرح اس کے ہو جائیں گے۔
 
ہم نے اپنے تعلیمی اداروں میں اچھی تعلیم اور تربیت کے ساتھ ساتھ ماس لٹریسی کا بھی اہتمام کیا ہے۔ اگر انڈسٹری کے لوگ ہم سے رابطہ کریں تو ہم ان کو سسٹم بنا کر دیں گے۔ جس میں وہ اپنے ورکرز کو تعلیم، تربیت اور اچھا روزگار دے سکیں گے جس سے آجر اور مزدور دونوں خوشحال ہوں گے۔
 
وکیشنل سنٹر
ڈیفنس ویلفیئر سوسائٹی کی بیسمنٹ میں ایک وکیشنل سنٹر قائم کیا ہے۔ جہاںمختلف فنی علوم کی تربیت دی جاتی ہے۔ پھر یہاں سیکھ کر بچیاں برسر روزگار ہو جاتی ہیں۔ ایک روز مجھے خیال آیا کہ اس کے لیے ایک انڈومنٹ فنڈ ہونا چاہیے۔ اب ماشاء اللہ ۵۰ لاکھ روپے جمع ہو چکے ہیںجس میں میرا اعلان کردہ کچھ حصہ بھی موجود ہے۔
 
میرے بھائی تنویر مگوںکو تعلیم کا بہت شوق ہے۔ ان کے صاحبزادے ابرار نے آفاق کو ایک باکمال ادارہ بنا دیا ہے۔ اس قدر عمدہ سلیبس تیار کیا ہے کہ بہت سے سکولوں نے آکسفورڈ بند کر کے ان کی کتابیں لے لی ہیںکیونکہ ان میں وژن ہے ان میں ویلیوز ہیں۔ چنیوٹ میں ہمارا جو سکول ہے، وہاں ایک ہزار بچہ ہے۔ ۴عمارتیں ہیں۔ لڑکیوں کا سیکشن علحٰدہ ہے اور لڑکوں کا علحٰدہ ہے۔ نرسری سے لے کر میٹرک تک۔ یہ اللہ کا احسان ہے، انعام ہے کہ ہمارا کوئی بچہ خاندانی روایات کے طے شدہ راستے سے ہٹا نہیں ہے۔
 
سکولوں کا خیال
پہلے ایک مکتب سکول تھا جس میں استاد کبھی آتا اور کبھی نہیں آتا تھا۔ اس سکول میں ایک صاحب مسعودالرحمان تھے جو مسجد میں جھاڑ و لگاتے تھے، ہم نے انھیں کہا کہ یہ سکول بند کر دیں لیکن انھوں نے کہا کہ نہیں، جو اچھی چیز شروع ہو چکی ہے اسے بند نہیں کرنا چاہیے بلکہ اسے بہتر بنانا ہے۔ پھر ہم نے کہا کہ اس مسجد کی بیسمنٹ میں سکول بنائیں گے۔ یہ سکول اب بھی موجود ہے۔ میں نے پھر فیصلہ کر لیا کہ جو پیسا آئے گا اسے تعلیم پر لگائیں گے۔ اس طرح اقرا سکول کا سلسلہ شروع ہوا۔
اقراء سکول کا سلسلہ
اسے شروع ہوئے ۲۰ سال ہو چکے ہیں۔ یہ ایک ماس لٹریسی پروگرام تھا جس کا تصور بنگلہ دیش سے لیا گیا۔ اس کے تحت ۲۰۰ سے زائد سکول قائم ہو چکے ہیں انھیں مسجد سکول بھی کہا جاتا ہے۔ ان سکولوں میں ۳سال میں تعلیمی سیشن مکمل ہوتا ہے۔ ایک کمرا، ایک استاد اور ۳۵طلبہ۔ کتابیں مفت اور فیس کوئی نہیں۔ لاہور کلسٹر میں ۷۰ سکول ہیں، بہاول نگر میں ۱۸ سکول اور چنیوٹ میں ۱۰ سکول ہیں۔ٹیلی فون، کمپیوٹر اور لائبریری ہر جگہ ہے۔
 
ایک اقراء سکول پر ماہانہ ۶ہزار سے زائد خرچ آتے ہیں جوصدیق شفیع ٹرسٹ ادا کرتا ہے۔ مخیر دوست بھی اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔اس سے پہلے بنگلہ دیش میں سکولوں کا ایک سلسلہ تھا، جہاں پڑھاتے بھی تھے اور وہاں رقص بھی سکھاتے تھے۔ ہم نے کہا کہ ہمارا سکول اسلامی طرز کا ہو گا۔ ہم اپنے بچوں کو اسلامی پڑھائی کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر لٹریسی کا مضمون بھی پڑھاتے ہیں۔
 
مزید برآں ایک گائوں میں ایک ہسپتال بھی قائم کیا گیا ہے، جہاں آنکھوں کے آپریشن کا اہتمام ہے، زچہ بچہ سنٹر ہے، اوپی ڈی ہے۔ ہمارے ایک دوست نے چارسدہ میں ڈھائی تین سو گھر بنا کر دیے۔ میں نے ان کے رابطے بیرونی مسلمان انجمنوں کے ساتھ کرائے۔ وہاں سے بھی انھیں عطیات آتے ہیں۔
مسجد شانِ اسلام میں لٹکا ہوا ڈبا
یہ سچ ہے کہ مسجد شانِ اسلام میں ایک ڈبا پڑا ہوتا تھا۔جس میں لوگ اپنی اپنی مشکلات کی درخواستیں ڈال دیتے اور میرا پی اے (PA) انھیں نکال لیتا تھا اور مکمل تفتیش کر کے پھر ان کی پوری عزت نفس کے ساتھ ان کی امداد کی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ کچھ عرصہ چلتا رہا لیکن اب یہ سلسلہ جاری نہیں۔ یہ سلسلہ میرے دادا نے شروع کیا تھا۔یہ سلسلہ ان ضرورت مندوں کے لیے تھا جو کھلم کھلا اظہار نہیں کر سکتے تھے لیکن یہ ضروری تھا کہ ان کے پاس کچھ نہ کچھ پہنچایا جائے۔ میراخیال ہے کہ کراچی میں اس طرح کا کوئی بندوبست موجود ہے۔
دنیا بھر کے لیدر فیئر
اب تو برسوں سے یہ ہو گیا کہ دنیا میں جو Fare ہوتے ہیں، ان میں باقاعدہ ہمارے اسٹینڈ ہوتے ہیں۔ یہ Fare ، اٹلی، پیرس، ہانگ کانگ، شنگھائی میں ہوتے ہیں۔ پہلے میں جاتا تھا، اب میرے بھائی جاتے ہیں یا میرے دو بھتیجے ہیں وہ جاتے ہیں۔ہماری کمپنی کی پراڈکٹس بے حد پسند کی جاتی ہیں۔
چھٹیاں گزارنے کے لیے پسندیدہ جگہ
درحقیقت پاکستان دنیا کا بہترین ملک ہے۔میں ۱۹۹۸ء کے بعد سے سیر کے لیے باہر نہیں جا رہا۔ اب تو صرف چھٹیاں گزارنے دبئی وغیرہ جاتا ہوں۔ باہر کے ممالک میں سے مجھے سب سے زیادہ پسند ملائیشیا ہے۔ اس کی وجہ اس کا اسلامی کلچر ہے۔ وہاں نماز کا بہت معیارہے۔ میں نے غیر ممالک کا بہت سفر کیا ہے۔ ماسکو، پوراچین، دیوار چین بھی دیکھی۔
 
ایک دفعہ ہم نے کھانا کھانا تھا لیکن ہوٹل بند ہو چکا تھا۔ لیکن ہماری آمد پر ہمارے ساتھ موجود چینی ترجمان کے کہنے پر ہوٹل کھلوایا اور ہمارے لیے خاص طور پر کھانا تیار کرایا۔ ہر جگہ جو عزت و احترام ملتا ہے، اسے دیکھ کر فخر کا احساس ہوتا ہے مگر عاجزی کا اظہار کرتے ہیں۔
سب سے بڑی چیز
اس عمر میں اب تو روپے پیسے کی ضرورت نہیں، اللہ سے دعا مانگتے ہیں کہ وہ ہمیں بخش دے۔ یہ سب سے بڑی چیز ہے۔ ایک دور تھا جب ہم پر بہت مشکلات پڑیں لیکن اس وقت بھی ہمارا خاندان اکٹھا اور متحد رہا۔ اگر خوشحالی ہو تب بھی اکٹھے ہیں اور اگر کچھ مسائل آ جائیں تب بھی ہم اکٹھے ہوتے ہیں۔ ہم خوش حال ہیں مگر مصیبت میں صبر کرتے ہیں۔
 
ہمارے چچا کہتے تھے کہ جب آپ اللہ کی راہ میں دیں تو آپ کو محسوس ہو کہ آپ نے بس دے دیا ہے۔ اس کو نہ گننا ہے نہ محسوس کرنا ہے۔ ہمارے ہاں سے یتیموں اور بیوائوں کے لیے باقاعدہ وظائف جاتے ہیں۔ اس وقت بہت خوشی ہوتی ہے کہ میں ایسے لوگوں کے کام آ رہا ہوں جو واقعی ضرورت مند ہیں۔ اس ضمن میں ہمارے ہاں ایک باقاعدہ نظام موجود ہے کہ ہم انکوائری کراتے ہیں۔ بعض اوقات تو پتا چل جاتا ہے کہ لوگ ضرورت مند نہیں۔ ہماری کوشش یہی ہوتی ہے کہ صحیح مستحق افراد کی مدد کی جائے۔
 
۱۹۵۸ء میں جب سیلاب آیا، بارہ گیارہ فٹ پانی چڑھ آیا تو دادا نے متاثرین کے لیے کیمپ بنائے۔ پھر ہم تو چنیوٹ آ گئے۔ والد صاحب کہتے تھے کہ میں ریل گاڑی پر بیٹھ کر آئوں گا۔ تب ہم کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتے تھے کہ ہمیںایسے گھر نصیب ہوں گے۔ ہمارا تو ایک کمرا ہوتا تھا جس میں ۶بھائی اور ایک بہن رہتے تھے۔ اس وقت پاکستان کے جو ٹاپ ٹن صنعتی گروپ ہیں، ان میں ہمارا نام ہے۔یہ کتنے بڑے شکر کا مقام ہے۔
ایک مسلم بزنس مین میں خوبیاں
سب سے اہم بات یہ ہے جو مال خریدار کو دکھایں، وہی ان کو دیں۔ وقت کی پابندی کریں، حالات کچھ بھی ہو جائیں، معاہدہ پر عمل کریں۔ یہ سارے اصول مسلمانوں کے تھے لیکن اب غیر مسلموں نے یہ اصول اپنا لیے ہیں جس کی وجہ سے یورپ والے کاروباری دنیا میں کامیاب ہیں۔ جن مسلمان کاروباری افراد نے ان اصولوں کو ابھی تک اپنا رکھا ہے، وہ آگے بڑھ رہے ہیں کیونکہ یہ اصول کامیابی کے گرو ہیں۔
آنحضورؐ کی سیرت میں جو سب سے اہم چیز محسوس ہوتی ہے وہ اللہ کی محبت اور رضا ہے۔ پھر لوگوں کے کام آنے کا جذبہ ہے۔ آپؐ جیسا انسان نہ کبھی پیدا ہوا اور نہ پیدا ہو گا۔آپ معاہدوں کے بڑے پکے تھے زبان کے بڑے سچے تھے۔
میرے معمول
میرے دوست زیادہ تر خاندان کے ہیں۔ خالہ زاد، چچا زاد وغیرہ۔ یہی زیادہ آتے ہیں۔ ۱۱بجے تک سو جاتا ہوں۔ اس سے پہلے ٹی وی کے اچھے پروگرام، ٹاک شوز وغیرہ دیکھتا ہوں۔ اینکر کامران خان کا پروگرام دیکھتا ہوں۔ بحریہ ٹائون والے واقعہ کے بعد ٹاک شوز کا تاثر اور اعتبار بہت خراب ہوا ہے۔ طلعت (اینکر) کا پروگرام مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ اس پر اعتبار بھی ہے۔ صبح اٹھ کر پہلا معمول یہ ہوتا ہے کہ موقع مل جائے تو نماز پڑھ لی۔ بھائیوں کے پاس گئے، واپسی پر ناشتہ کیا۔ ۱۰بجے فیکٹری جانے کی تیاری کی۔ کبھی مغرب کی نماز وہیں پڑھ لی یا گھر آ کر پڑھی۔
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 2670