donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Aap Beeti
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ashraf Gil
Title :
   Mera Doosra Bharti Daura

میرا دُوسرا بھارتی دورہ


:  مارچ۔ ۲۹۔ ۲۰۰۴ ۔تا۔اپریل۔ ۱۹۔ ۲۰۰۴۔

(۲۲۔ دِن)


اشرف  گِل۔ فریزنو: کیلیفورنیا۔ 

email: ashgill88@aol.com


                    چونکہ میرا مستقل قیام امریکہ میں ہے۔ اور میرے ادب نگار ہونے کی بنا پریہاں میرے ہندوستان اور پاکستان میں تقریباً تمام علاقوں سے تعلق رکھنے والے ادب سے وابستہ خواتین و حضرات سے مراسم ہیں۔ نیز میں احوال بھی بھارت کے دورے کا لکھ رہا ہوں۔ اسلئے قارئین سے گذارش ہے کہ میری زبان میں مستعمل کچھ الفاظ ہندی ‘ پنجابی‘ انگریزی اور علاقائی وغیرہ زبانوں میں لا شعوری یا ضرورتاً استعمال ہوجائینگے تو در گذر فرمائیں۔ کوشش تو کرونگا کہ حتی ا لمقدور اُن الفاظ کا استعمال کرُوں جن سے آپ کو آ گاہی اور شناسائی ہو۔تا ہم زبان کی خوبصورتی بھی تبھی نکھرتی ہے جب وہ اسی انداز سے بیان کی جائے۔ شکریا۔


                    ویسے تو میَں جُون ۔ ۱۹۸۲ئ؁ میں پاکستان کے دُوسرے بڑے شہر لاہور سے امریکا کے مشہو ر کاروباری شہر نیویارک میں اپنی بیوی اور پانچ بچوں سمیت مستقل طور پر پاکستان کو خیر باد کہہ آ تھا۔' 'Brooklyn  کے علاقے میں رہائش اختیار کر لی تھی۔ اوربنک کی نوکری بھی   'Manhattan, downtown (Wall Street Area)' ’مین ہٹن۔ ڈاؤن ٹاؤن (وال سٹریٹ ایریا)‘ کے علاقے میں مِل گئی تھی۔اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے کاروبار زندگی معمول کے مطابق چلنا شروع ہو گیا تھا۔مگرمجھے شاید پھر ارض پاکستان  نے آواز دی‘ اور ۱۹۸۶ئ؁ میں مع اہل و عیال سر زمینِ لاہور کو جا سلام کِیا۔ اُس دوران مجھ میں میرا ادبی جِنّ ابھی میرے اندر گہری نیند سویا ہُوا تھا۔نیز اور بھی کوئی خاص دلچسپی کا کام نہیں تھا۔ بس ماں ‘ بہن ‘ بھائی ‘ رِشتے داروں ‘  اوردوستوں کو مِل کر ایک مہینہ پاکستان رہا۔ اور پھر واپس نیویارک آ کر نوکری کے شکنجے میں جکڑا گیا۔

                           ہجرت کرنا شاید میری فطرت میں شامل تھا۔ تبھی ۱۹۸۸؁ء میں پھر نیویارک کو بھی الوداع کہا‘ اور ریاست کیلیفورنیا کے شہر ’فریزنو‘ میں آن بسا۔ اور پھر وہی غمِ روزگار سے مُڈھ بھیِڑکا سلسلہ شروع ہو گیا۔یہاں آکر لوکل ریڈیو سے ایک دن سُنا کہ مشرقی پنجاب کے کچھ حضرات جو شِعر و سُخن سے شغف رکھتے ہیں‘ اُن سے رابطہ کِیا جا سکتا ہے۔لہٰذا ان سے مراسم بحال کئے اور ڈاکٹر گُرومیل سِدھُو (پروفیسر کیلیفورنیا سٹیٹ یونیورسٹی۔ فریزنو) ‘ ہرجندر کنگ (غزل گو) ‘ کے علاوہ کیپٹن گُردیال سنگھ گِل(مرحوم)۔لیکھک‘ کرم سنگھ مان (کہانی کار) ‘ گُڈی سِدھُو( سماجی کارکن) ‘ کُلونت سیکھُوں (گیت کار) اور کچھ حضرات کے ساتھ مل کر ایک ادبی انجمن ’کیلیفورنیا ساہت سبھا‘ کے نام سے شروع کی۔ اور ماہانہ میٹنگز کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ادبی احباب کے مل بیٹھنے سے خیالات کا تبادلہ ہونے سے ادب نے انگڑائی لی اور کافی کچھ لکھ ڈالا۔اورخصوصاً غزل میں ہی طبع آزمائی کی۔ اور نتیجتاََ  ۱۹۹۹؁ء  میں میری پہلی پنجابی غزلیات کی کتاب ’کُرلاندی تان‘ بیک وقت دو رسم الخطوط یعنی فارسی اور گُرمئکھی میں لاہور سے طبع ہُوئی۔ دوسری بار ایک لمبے عرصے کے بعد میں

 بذاتِ خود  ۲۰۰۰؁ء میں لاہور پہنچا جہاں پر الیاس گھمن(ایک مایہ ناز ادبی شخصیت) نے میری کِتاب ’کرلاندی تان‘ چھاپنے کا اہتمام کیا  ہواتھا۔ اور لاہور کے ’فلیٹیز ہوٹل‘ کے کُشادہ ہال میں نامور اُدباء و شُعراء کی موجودگی میں بڑے پیمانے پر رسمِ افتتاح کا انتظام بھی کِیا۔وہاں پر میری کتاب پر مشہور غزل گو شعراء نے اپنے اپنے خیالات کا اِظہار کِیا۔ جس سے مُجھے بہت حوصلہ افزائی عطا ہوئی۔ جب

 اُنہوں نے میرے کلام کو سراہا اور اُس کے مُختلف پہلووں کو اُجاگر کرکے تبصرہ کِیا۔ اور مُبارک بادیوں سے نوازا۔اُن میں سے کُچھ ادب نگار اور ادب شناس لوگوں کے نام ہیں:جناب محمد منشا یاد (مرحوم)،مشہور افسانہ نگار ‘ جناب غلام مُصطفے بِسمِل ‘(غزل گو اور ماہر علم عروض)‘جناب اخلاق عاطف ‘ (غزل گو) جناب سلیم کاشر (غزل گو)‘ جناب جمیل احمد پال (ساہت کار اور ایڈیٹر پنجابی ماہنامہ ’سویر انٹرنیشنل‘) جناب امین ملک (شاعر۔(لنڈن) ‘ محترمہ رانی ملک ( شاعرہ۔لنڈن) ‘ جناب ڈاکٹر محسن مگھیانوی (مزاح نگار)‘ جناب سُلطان کھاروی (نامور غزل گو)‘ بشیر باوا اور بہت سارے۔ علاوہ ازیں اخباروں اور رسالوں میں بھی میرے کلام کو خُوب تحسین و آفرین سے نوازا گیا۔

                       لاہور میں میری نگارشات کی اِتنی اچھی پذیرائی ہوتی دیکھ کر مُجھے محسوس ہُوا ‘ کہ بال بچوں کو پالنے‘ کے علاوہ بھی کُچھ کام ایسے ہوتے ہیں جو خُدا داد صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں جن کو کرنا ازحد ضروری ہوتا ہے اگر خُدا کرنے کی توفیق بھی دے تو۔ سو یہ کام مجھ سے اللہ تعالیٰ کروا بھی رہا ہے۔ الحمد للہ۔ جن خواتین و حضرات کو اخبارات اور رسائل میں پڑھا کرتا تھا اُن کو سامنے دیکھنے کا موقع نصیب ہُوا۔ اور لِکھنے میں جھجھک بھی دُور ہُوئی۔ بعد میں ۲۰۰۰ئ؁ میں میری دوسری اُردُو غزلیات پر مبنی کتاب ’وفا کیوں نہیں مِلتی؟‘ لاہور ہی سے شائع ہوئی۔موجودہ دورے کے دوران پانچ مہینے لاہور میں گُذارے اور کافی ادبی مصروفیات رہیں۔ امریکا واپسی کے آخری دنوں یعنی جولائی ۲۰۰۰ئ؁ میں بھارت جانے کا موقع بھی دستیاب ہُوا۔ جس کا انتظام جناب الیاس گھُمن نے ہی کیا۔ لہٰذا ایک دن الیاس گھمن مُجھے اپنی کار پر واہگہ بارڈر پر چھوڑ آئے۔ اور بھارت کی جانب اٹاری سے مجھے وہاں کے ادب دوست راجندر جولی ‘ اور سوہندر بِیر امرتسر لے گئے۔ اُسی ہی دن جناب سوہندر بِیرمجھے جالندھر پہنچا آئے‘ اور جناب ستنام مانک جو وہاں پنجابی گُرمُکھی روزنامہ ’اجِیت‘ کے ایڈیٹر ہیں کے ہاں اخبار کے دفتر میں چھوڑ آئے۔ ستنام مانک کو میں پہلی بار ہی ملا تھا۔ نہایت شرف ا لطبع انسان ہیں۔ اور ایک منجھے ہوئے پترکار بھی۔انہوں نے میری مُلاقات جناب برجندر سنگھ ہمدرد (مالک روزنامہ ’اجیت‘)‘ ڈاکٹر جگتار (مشہور غزل گو) ‘ ڈاکٹر گُربھجن گِل (غزل گو)۔لدھیانہ کے علاوہ اور کئی دوستوں سے کروائی۔جن کا ذکر آگے چل کر بیان کرتا جاؤنگا۔ مانک جی نے ہی دس دن کے دوران مُجھے اپنے گھر مہمان بھی رکھا۔اِس پہلے سفر کا ذکر اپنے اسی دوسرے دورہئِ بھارت کے درمیان میں بھی کرونگا۔ لہٰذاپہلے دورہء بھارت کے بعد لاہور آیااور پھر واپس امریکا اور وہی معاش کی دوڑ دھوپ۔
                    وقت گذرتا گیا اور پھر ۲۰۰۳ئ؁ میں میری دو عدد کتابیں ’چلو اِک ساتھ چلتے ہیں‘ (اُردو غزلیات) اور ’جیون رُت کنڈیالی‘ (پنجابی غزلیات) لاہور سے ہی چھپیں۔ جن کا اہتمام بھی الیاس گھمن نے ہی کیا تھا۔ لہذا اُن کو اپنے احباب میں تقسیم کرنے نیز اخباروں اور رسالوں کو مُہیا کرنے کیلئے بذاتِ خوددسمبر ۲۰۰۳ئ؁ کو پھر لاہور پہنچ گیا۔ اِس دفعہ میری بیگم نے بھی میرے ساتھ جانے کا فیصلہ کِیا تھا۔اور بیگم نے مجھے میرے ادبی کاموں میں کافی حد تک دراڑ ڈالے رکھی۔ مگر میں نے تو اپنے کام سرانجام دینے تھے۔ اسلئے بیگم کو   اسکی بہن کے ساتھ خریدو فروخت کے کاموں میں مصروف رکھا۔ اور میرے دورہء بھارت سے پہلے ہی اسے واپس امریکہ بھجوا دِیا تھا۔ اِس بار میں نے یہ بھی تہیہ کیا ہُوا تھا کِہ ایک کتاب مشرقی پنجاب سے بھی گُرمُکھی رسم الخط میں چھپواؤنگا۔ کیونکہ میری شاعری کا تعارف وہاں کے صاحبانِ عِلم و دانش کے ہاں تقریباً خال خال ہی تھا۔اِسلئے ایک پنجابی غزل کی کتاب ’تولویں بول‘ گرمکھی لپی میں برنالہ(مشرقی پنجاب) سے چھپوانے کا ارادہ کیا ہوا تھا ۔ اوریہ کام میرے امریکا میں مقیم ایک دوست جناب کرم سنگھ مان(کہانی کار) جو برنالہ سے متعلق ہیں کی رہنمائی میں ہونے والا تھا۔ اور تمام مواد پٹیالہ میں مقیم جناب اِندر سنگھ خاموش کی وساطت سے ہو رہا تھا۔ خاموش جی (ایک ساہتکار)نے اس کے چھپوانے کیلئے برنالہ میں ’وِشو بھارتی پرکاشن‘ ( پبلشنگ ہاؤس) کے مالک امِت مِتر کے ساتھ بات چیت شروع کی ہُوئی تھی۔ اور اُس کا مواد مُجھے امِت نے گُرمُکھی میں کمپوز کرکے ای۔ میل کے ذریعے لاہور بھی بھجوا دیا ہُوا تھا۔ اور میں نے چیک بھی کر لِیا ہُوا تھا۔( چونکہ میرے یہاں پر کافی سکھ حضرات ادب دوست ہیں اور میں نے دیکھا دیکھی محنت کرکے گرمکھی زبان بھی سیکھ لی ہے۔ اور پڑھ لکھ بھی سکتا ہوں)۔ بس برنالہ جانے ہی کی دیر تھی‘ تو کتاب چھپ جانی تھی۔ اِس کے علاوہ میرے ایک امریکا کے دوست کیپٹن گُردیال سنگھ گِل کی کتاب ’ریجھاں دی پٹاری‘ کو بھی گُرمُکھی سے فارسی میں مُنتقل کروانے اور لاہور سے چھپوانے میں کافی وقت صرف ہُوا۔ ساتھ ساتھ ریڈیو پاکستان میں میری ایک غزل کی ریکارڈنگ کے دوران مُجھے لاہور ریڈیو سٹیشن کے ایک میوزک ڈائرکٹر صفدر نیاز نے مزید اُلجھالِیا۔ کیونکہ وُہ میرے گیتوں اور غزلوں پر مبنی ایک میوزک البم بنانا چاہتا تھا۔ اور مُجھ سے میری اُدو غزلیات کی کتابیں بھی لے گیا۔ پہلے تو میں نے  اس میوزک ڈائریکٹر کی باتوں کو ایک مذاق ہی سمجھا ‘ مگر جب دوسرے دن اُس نے مُجھے ایک میوزک سٹوڈیو میں بُلا کر میری غزلیات کی کُچھ دھُنیں میرے سامنے گلوکار ریاض علی خاں او ر ایک لیڈی سنگر سے سُنوائیِں ‘ تو اِس عمل نے مجھے سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کر دِیا کہ یہ کام تو واقعی ایک حقیقت کا رُوپ دھار سکتا ہے۔لہذا دیگر کاموں کے دوران اِس کام کا بھی آغاز کر دِیا۔ مصروفیات اگرچہ کافی بڑھ گئیں ۔ پھر بھی اِنہیں حالات کے درمیان ‘ میں نے مارچ ۲۹۔ ۲۰۰۴ئ؁ کو بھارت جانے کا بھی پروگرام بنا ہی لِیا۔ ۲۰۰۰ئ؁ میں تو مَیں نے اِنڈیا کا ویزا سین فرانسسکو سے لگوایا تھا۔ مگر اِس دفعہ اِسلام آباد جا کر انڈین کونسلیٹ سے حاصل کر لِیا ۔

               مارچ ۲۰۰۴ئ؁ کا آخری ہفتہ چل رہا تھا۔ بھارت جانے سے پیشتر ‘ میں نے جناب اِندر سنگھ خاموش سے لاہور تار گھر جاکر فون پر بات کی اور برنالہ کے راستے کی پُوری طرح سے جانکاری حاصل کر لی( گویہ معلومات بعد میں کارآمد ثابت نہ ہوئی)۔ خاموش جی

 کے مُطابق ‘ مُجھے ’سمجھوتہ ایکسپریس‘ بذریعہ ٹرین جانا تھا۔( یہ ٹرین خیر سگالی کے روپ میں انڈیا؍ پاکستان کے درمیان چلائی گئی ہے) اور راستے میں لُدھیانہ اُترنا تھا۔ وہاں سے خاموش جی کے ایک دوست نے مُجھے برنالہ لیکر جانا تھا۔ ۲۰۰۰ئ؁ میں بذریعہ جی۔ ٹی۔ روڈ واہگہ سے اٹاری اور امرتسر سے ہو کر باقی جگہوں پر گیا تھا۔ مگر چونکہ میری طبیعت مُہماتی ہے اِسلئے اس بار بذریعہ ٹرین جانے کا پروگرام بنایا‘ نئے نئے راستوں سے نئے نئے تجربے حاصل کرنے کیلئے۔ میں نے یہ تو سوچا بھی نہیں تھا۔ کہ نئے علاقے میں سفر کرنے سے پیشتر کُچھ اپنے طور پر بھی معلومات حاصل کرنی چاہیئں۔ مگر میں نے خود اعتمادی پر زیادہ بھروسہ کر لیا تھا۔ اور آوارہ گردوں کی طرح انجانی منزل پر روانہ ہو گیا۔اور وہی ہُوا جو آگے چل کر بتاؤنگا۔ جو آپ کیلے تفنن طبع کے برابر اور میرے لئے مشکلات سے بھرپور۔ بھارت روانہ ہونے سے ایک دن پہلے لاہور ریلوے سٹیشن پہنچا۔ اور ’سمجھوتہ ایکسپریس‘ کے بارے معلومات حاصل کیِں۔ یہ ٹرین صُبح سویرے لاہور ریلوے سٹیشن سے واہگہ کی جانب روانہ ہوتی تھی۔ واپس گھر آیا اور سامان تیار کِیا جو میں دونوں ہاتھوں سے آسانی سے اُٹھا کر لے جا سکتا تھا۔ اگلی صُبح ہوئی رِکشا لِیا اور ریلوے سٹیشن کی طرف روانہ ہو گیا۔

                   مارچ۔ ۲۹۔۲۰۰۴ئ؁ (سوموار): لاہو ر شہر میں دِن کی شروعات ہو چُکی تھی۔ جب میں اپنی بہن کے گھر بلال گنج سے رِکشا لیکر ریلوے سٹیشن کی طرف روانہ ہُوا۔سٹیشن پہنچ کر رِکشے سے اُترا ‘ سامان قُلی کو تھمایا۔ اور ’سمجھوتہ ایکسپریس‘ کے پلیٹ فارم کی جانب روانہ ہُوا۔ قُلی نے مُجھے ایک تقریباََ خالی ڈبّے کی ایک من پسند سیٹ پر بِٹھا دِیا۔ ٹرین صاف سُتھری تھی مگر ایکسپریس والی کوئی چیز نظر نہ آئی۔ اُس میں نہ ہی کوئی اے۔ سی۔ کار اور نہ ہی کوئی سپیشل کلاس۔ اور جب سٹیشن سے روانہ ہُوئی ‘ نہ ہی تیز رفتاری والی کوئی بات۔ ٹرین روانہ ہونے سے پیشتر‘ مسافروں کی کیفیت ایسی تھی جیسے شہری لوگ گاؤں کا میلہ دیکھ کر اور سامان خریدنے کے بعد گٹھڑیوں میں بھر کر اپنے اپنے گھروں کو شہر واپس لَوٹ رہے ہوں۔ اِس ٹرین میں تقریباََ تمام ہی مسافر بھارتی دکھائی دیتے تھے۔ جو اپنے اپنے پاکستانی رشتہ داروں سے مِل کر واپس اِنڈیا جا رہے تھے۔ اور پاکستانی سامان بوریوں‘ گٹھڑیوں‘  سُوٹ کیسوں‘ بکسوں ‘ ڈبّوں‘ اور پلاسٹک کے لفافوں میں بھر کر لے جا رہے تھے۔ شاید ایسا سامان بھارت میں نہیں ہوگا۔ اِس مچھلی منڈی جیسی رونق میں وقت نہ جانے کیسے نِکل گیا۔ اور گاڑی لاہور سٹیشن

 سے روانہ ہو ہی گئی۔ پہلے تو گاڑی تیز رفتاری سے چلی مگر جب واہگہ سٹیشن کے قریب پہنچی تو رفتار مدھم ہو گئی۔ اور چیونٹی کی رفتار سے چلنے لگی۔ واہگہ سٹیشن آ یا۔ تو وہاں سب مُسافروں کو بھارت کی جانب جانے کیلئے ‘ کسٹم اور امیگریشن کے سسٹم سے گُذرنے کیلئے اُترنا پڑا۔

                    واہگہ بارڈر پر ٹرین سے اُترنے کے بعد مُجھے یہ احساس ہُوا ‘ کہ میں اِس جھمیلے میں کیوں پڑا ؟؟ یعنی اِس بھیڑوں کے ریوڑ میں کیسے پھنس گیا؟؟ جہاں پر سینکڑوں لوگوں کے ساتھ کسٹمز اور پھر امیگریشن کے ملازمین اور پھر قوانین و قواعد سے نِپٹنا ہوگا۔ جب کہ واہگہ سے بذریعہ جی۔ ٹی روڈ سے پیدل جاتے ہُوئے صرف میں اکیلا ہی ہوتا اور دو گورنمنٹوں کی چیکنگ کے تقاضوں سے جلد از جلد نبردآزما ہو جاتا۔ اب تو سب لوگوں کے ساتھ مُجھے بھی کٹھن انتظار کرنا تھا۔ اور یہ لمحہ بہت ہی دُشوار گُذار اور دماغی تھکاوٹ کا باعث تھا۔ کوئی اور راستہ بھی تو نہیں تھا‘ جس سے آسانی سے نِپٹا جا سکے۔ اب تو جیسے آٹے کے ساتھ گھُن پِسنے والی بات تھی۔ شُکر ہے کہ میرے پاس سامان بھی اِتنا نہیں تھا‘ جو میرے لئے مُشکلات پیدا کرتا۔ اور اُسے اُٹھانے میں دقت پیش آتی۔بس کُچھ کتابیں تھیں اور کپڑے۔ بس ڈیڑھ ڈبّا  سامان۔۔۔۔اب : بمثل :   ؎خود کردہ را علاج نیست۔۔۔والی بات تھی۔ کسٹم والوں سے تو جلد ہی فارغ ہو گیا مگر امیگریشن کی دو لمبی لائنوں کو کیسے عبور کِیا جائے؟ جبکہ ایک لائن کی کھِڑکی پر پاکستانی پاسپورٹ والوں اور دوسری پر ہندوستانی پاسپورٹ  والوںکے بورڈ لگے ہُوئے تھے۔ مگر میرے پاس تو امریکن پاسپورٹ تھا۔ اور فارن پاسپورٹس والوں کے بارے کہیں بھی کوئی لَکھا ہُوا سائن نظر نہ آیا۔ کہ وہ کہاں جائیں؟؟ یہ صورت حال دیکھ کر اپنی بے بسی اور گورنمنٹ کی لا پرواہی پر رونا آیا۔ پر وہاں تو سب کو اپنی اپنی پڑی ہُوئی تھی۔ جیسے ماں کو اپنا بچّہ سنبھالنے کی بھی ہوش تک نہیں تھی۔ اِس موقعے پر اِس مسئلے کا خود ہی حل تلاش کرنا تھا۔ یعنی امیگریشن سے کیسے چھُٹکارا حاصل کِیا جائے؟؟ کِسی لائن کو عبور بھی کرنا مُشکل تھا‘ کیونکہ لائن دو لوہے کے پائپوں سے بنائی گئی تھی۔ جو اِتنی تنگ تھی ‘ کہ کوئی بھی آدمی ایک دوسرے کے آگے یا پیچھے نہیں جا سکتا تھا۔سماں ایسے تھا جیسے ذبح کرنے والے کسی زورآور جانور کو دو پائپوں کے درمیان لے جاتے ہیں۔جہاں وہ اپنی مرضی سے کہیں نہیں جا سکتا۔ میں نے اپنا سامان ایک شخص کی سپردداری میں دیکر پائپ کی باہر کی جانب سے اپنے آپ کو گھسیٹتا ہُوا اور لائن والے لوگوں سے کہتا ہُوا کہ بھیا ! میں نے کلرک سے بات کرنی ہے‘ کھڑکی تک پہنچ گیا۔ اورامیگریشن کلرک کو فوراََ اپنا پاسپورٹ دِکھایا۔ کلرک بابو نے جونہی میرے پاسپورٹ کا رنگ دیکھا۔ اپنے ہاتھ والا پاسپورٹ ڈیسک پر رکھّا‘ اور میرا پاسپورٹ اپنے ہاتھ میں لیکر کمپیوٹر میں ڈالا ۔ اور چیک کرکے فوراََ اُس پر EXIT کی مُہر لگا کر میرے حوالے کر دِیا۔ مَیں نے کلرک کا شُکریہ ادا کِیا ۔واپس آ کر اپنا سامان اُٹھایا۔ اور لوگوں کے بِکھرے ہُوئے سامان میں سے راستہ بناتا ہُوا‘ سٹیشن کی اُس جانب کا رُخ کِیا جہاں سے گاڑی ہندوستان کی سمت روانہ ہونی تھی۔

                       دوسری جانب جانے کا راستہ گو ۲۰۰ فُٹ سے زیادہ نہیں تھا۔ مگر راستہ سامان سے اِسقدر اٹا ہُوا تھاکہ کپڑوں سے بھری ہُوئی گانٹھیں دیکھکر لگتا تھا کہ ابھی کھُلیں گی اور لنڈا بازار شروع ہو جائے گا۔ اورکسٹم والے بھی تو سامان کی پڑتال اِس طرح کر رہے تھے جیسے گِدھیں مرے ہُوئے جانور کا گوشت نو چ رہی ہوں۔ مسافروں سے پہلے سامان کھلواتے تھے اور پھر انہیں دوبارہ بند کرنے میں کتنی دقت ۔ ان کو کیا مطلب۔ وہ تو اپنی ڈیوٹی پر تھے۔ مگر مَیں کسی کو ’بھائی صاحب! ذرا سامان اِدھر کرنا ‘ تھوڑا سا راستہ دیجے۔‘  اور کِسی کو: اری بھیناں ! مُجھے آگے نِکلنا ہے۔ ذرا اپنی گٹھڑی راستے سے ہٹانا۔‘ کہتے کہتے آخر دوسری جانب آ ہی گیا۔ تقریباََ سبھی لوگ  جیسے یُو۔ پی۔ ‘ بہار۔ ‘ حیدرآباد۔ ‘ و دیگر ایسے علاقوں سے مُتعلق تھے جہاں اُردُو زبان بولی جاتی ہے۔

(کیونکہ سبھی لوگوں کو میں نے اردو بولتے ہی سنا)

جب میں دوسرے پلیٹ فارم کی جانب آیا ۔ جہاں سے بھارت جانے والی ٹرین پر سوار ہونا تھا۔ وہاں موجود  STE نے ٹِکٹ کا پُوچھا۔ اُس کو ٹکٹ دکھایا اور اُس نے ٹکٹ کو پنچ کرکے میرے حوالے کر دیا۔ یعنی انڈیا جانے کی اجازت مِل گئی۔ سبھی لوگ کسٹم سے سامان پاس کروانے کے بعد ایک بڑے warehouse  میں جمع ہوتے جا رہے تھے۔مگر کسٹم والوں کو کسی طور تسلی ہی نہیں ہو رہی تھی۔ وُہ تو سی۔ آئی۔ ڈی۔ کا بھی شاید رول نِبھا رہے تھے۔ا ور لوگوں کے سامان کا مُسلسل  پوسٹ مارٹم کر نے کے ساتھ ساتھ اپنے سرکاری موبائلوں سے ایک دوسرے افسر کے ساتھ ایسے باتیں کر رہے تھے جیسے میدانِ جنگ میں افسران اگلے مورچے والوں کو اُن کی پوزیشن کو آگے پیچھے کرنے کی ہدایات دے رہے ہوں۔ کسٹم افسرا ن کی چیکنگ سے ایسے لگتا تھا جیسے کوئی اسلحہ سمگل کرکے لے جا رہا ہو۔ کیونکہ اُن کی تسلی ہی

 نہیں ہو رہی تھی۔ اِس میں بے چارے کسٹم والوں کا بھی بھلا کیا قصور‘ اُن کی دیوٹی ہی ایسی ہوتی ہے؟ کوئی غلط شے ان کی لا پرواہی سے دوسری جانب منتقل ہو جائے۔ تو خواہ مخواہ جواب دہی کا ڈر۔ اُس کے برعکس اپنے ہاں کے لوگ بھی کہاں اتنے شریف ہوتے ہیں۔ بھیڑوں میں بھیڑیے کا روپ دھارے ہوئے ہوتے ہیں۔ غیر قانونی اور نشیلی چیزیں کو اِدھر اُدھر کرنا ان کا مشغلہ ہوتا ہے۔ برائی کا کام کرنے میں  ماہر بھی اول درجے کے اور جائز اور ناجائز کی تمیز کرنے کے بھی بالکل نااہل ہوتے ہیں۔ پل میں آنکھوں میں دھوُل جھونک دیتے ہیں۔

                             سیکورٹی کا بندوبست کافی سخت تھا۔ ہونا بھی چاہئے تھا۔ یہ اِسلئے بھی ضروری تھا کہ اگر کوئی دہشت گردی جیساکام ہوجائے تو دونوں مُلکوں کے تعلقات جو ہمیشہ ہی کچّے دھاگے کے مانند رہتے ہیں‘ پلک جھپکنے میں بِگڑنے میں کُچھ دیر نہیں لگتی۔ خیر وئیرہاؤس میں آ یا۔ اپنی مرضی کا سانس لیا۔ باہر نظر دوڑائی تو کھانے پینے والی چیزوں کا سٹال دِکھائی دِیا۔ کُچھ خریدا اور پیٹ پُوجا کی۔ کیونکہ گھر سے نِکلتے وقت کُچھ کھایا پِیا نہیں تھا۔ اِسی سوچ میں کہ جلدی ہی امرتسر پہنچ جاؤنگا۔ جیسے ۲۰۰۰ئ؁ میرے پہلے دورہئِ بھارت کے دوران

جب میں لاہور سے ر وانہ ہُوا تھا تو بذریعہ جی۔ ٹی۔ روڈ امرتسر تک پہنچنے میںتقریباََ ایک گھنٹہ ہی لگا تھا۔ جب پیدل جاتے ہُوئے دو کسٹمز اور دو امیگریشن کو بھی بھُگتایا تھا۔ مگر  یہاں تو کام بالکُل ہی اُلٹ تھا۔ یہاں تو ایک میلہ تھا۔ اور ایک ایک آدمی کو کسٹمز اور امیگریشن سے ایک ایک کرکے گُذرنا پڑ رہا تھا‘ جو لازم و ملزوم تھا۔ اور غالباََ ۷۰۰ کی تعداد میں لوگوں سے نِمٹنے کیلئے عملہ بھی اِتنا نہیں تھا ۔ دیر لازمی تھی۔ بالآخر تین چار گھنٹوں کی چھان بین کے بعد صبر کے گھونٹ نِگلنے نصیب ہُوئے تب جا کے کہیں اعلان ہُوا کہ سبھی لوگ اٹاری جانے والی گاڑی پر سوار ہو سکتے ہیں۔ لوگ گاڑی کی طرف ایسے بھاگے جیسے کِسی طوفان زدہ علاقے میں بے بس اور بے سر و سامان لوگ اپنا بچا کھُچا سامان لیکر اچانک کسی ٹرک یا بس کے آ جانے پر لپکتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے ٹرین پھر سے مسافروں سے بھرگئی۔

                  خُدا خُدا کرکے ٹرین واہگہ سٹیشن سے روانہ ہُوئی اور پیدل جیسی رفتار سے چلنے لگی۔یہ سست رفتاری کا منظر بھی دیدنی تھا۔ منظر دلکش تھا۔ پاکستانی سرحد کی جانب ریلوے لائن کے دونوں طرف تھوڑے تھوڑے فاصلے پر رینجرز (پاکستان کی بارڈر پولیس) کے مُسلح سپاہی کھیتوں میں کھڑے پہرے پر مُقرر صاف دکھائی دے رہے تھے۔اور کُچھ رینجرز ٹرین کی ہر ایک بوگی کے دروازے پر مسافروں کی حفاظت کے لئے موجود تھے۔ جیسے پہلے بتایا ہے کہ تقریباََ تمام مسافر بھارتی ہی تھے اور نہ جانے کب سے پاکستان میں اپنے عزیزو اقارب سے مِلنے آئے ہُوئے تھے۔ اور ہندوستان کی سرحد دیکھنے کیلئے بے چین دکھائی دے رہے تھے۔ مسافروں کے سَر اور آدھے دھَڑ کھڑکیوں سے باہر صاف دکھائی دے رہے تھے۔ اور صرف آگے کی جانب جھکے نظر آ رہے تھے‘ جو اس بات کا ثبوت تھا جیسے وُہ سرزمین ہند کو حسرت بھری اور ترستی نظروں سے دیکھنے پر مجبور ہوں۔ جونہی سر زمین ہند و پاک پر بھارت کی سرحد کا لگا ہُوا بورڈ نظر آیا تو میری ہی بوگی میں ایک

 آدمی تقریباََ ۷۰ سالہ اُس سائن کو دیکھتے ہی جذبات کی رَو میں بہنے لگا۔ اور اُس کے ہاتھ دُعا کیلئے اُٹھ گئے۔ اور نہ جانے کیا دُعا مانگنے لگا۔ مُجھے ایسے محسوس ہُوا جیسے وُہ مکے میں فریضہئِ حج کیلئے پہنچنے پر دعا گو ہو۔اس سے میں نے اتنا جذباتی ہونے کا سبب پوچھ ہی لیا۔اور اس نے بتایا کہ وہ آدمی دو تین ماہ سے پاکستان میں مقیم تھا جو اپنی بیٹی سے مِلنے کراچی آیا ہوا تھا اور حیدرآباد (بھارت) کے کِسی قصبے سے تعلق رکھتا تھا۔ اور میں نے از خود یہ بھی محسوس کیا کہ وطن کی مِٹّی میں کتنی طاقت ہے۔ جو سیدھی جا کر دِل کی رگوں کو چھُوتی ہے۔ شاید وہ اُس وقت اپنا

 دوسرا جنم ہوتا بھی محسوس کر رہا تھا۔ کُچھ نہ کُچھ وہ اِس قسم کی دعائیں ضرور مانگ رہا تھا۔ جو اُس کی اپنی سرزمین سے متعلق تھیں۔ جونہی بھارت کیا علاقہ شروع ہوا۔ پاکستانی ’رینجرز‘ والے سُست رفتار ٹرین سے اُتر گئے۔ اور ’بی۔ ایس ۔ایف۔‘  (بھارتی سرحدی پولیس) کے ملازمین نے گاڑی کی حفاظت کیلئے پوزیشنز سنبھال لیں۔ اِن کا طریقہئِ کار ذرا مُختلف تھا۔ کُچھ تو بی۔ ایس۔ ایف۔ والے گاڑی میں سوار ہو گئے اور بوگیوں کی کھڑکیوں میں کھڑے ہو گئے۔مگر کُچھ ٹرین کے ساتھ پیدل اور کُچھ گھُڑسوار بھی گاڑی کے ہمراہ ہو لِئے۔ خیر گاڑی صحیح سلامت تقریباََ آدھے گھنٹے بعد واہگہ سے اٹاری پہنچ گئی۔ یہاں آکر پھر تمام مُسافر گاڑی سے اُتر گئے اور امیگریشن کے دفتر والوں کی طرف لپکنے لگے۔ اور وہاں سے فارغ ہو کر اپنے اپنے سامان سمیت کسٹمز والوں کی جانب بڑھنے لگے۔

                           میں نے بھی ٹرین سے اُتر کر امیگریشن کا فارم پُر کِیا۔ اور بُوتھ پر لے گیا۔بھارت داخل ہونے کا ٹھپا لگوایا اور بابُو سے پُوچھا کہ آیا یہ ٹرین لُدھیانہ بھی رُکے گی؟ تو اُس نے جواب دِیا کہ یہ گاڑی یہاں سے چل کرمُختلف سٹیشنوں پر رُکے گی ضرور مگر

 مُسافروں کو صرف دِلّی میں ہی اُتارے گی۔ میرے سارے پروگرام پر مٹی پڑ گئی۔ اور خاموش جی کا سارا سیٹ کِیا ہوا پروگرام دھرے کا دھرا رہ گیا۔ پروگرام کی سمت ہی بدل گئی۔ دِلّی تو بعد میں جانا تھا۔ مگر ابھی تو برنالہ جاکر اپنی کتاب کا کام کرنا تھا۔ لہذا دماغ کی ورزش بھر شروع ہو گئی‘ اور موجودہ نئی صورت حال سے نمٹنے کیلئے در پیش مسائل کے بارے سوچنا شروع کِیا۔ کسٹمز والوں سے فراغت کے بعد سٹیشن پر ہی ایک بنک کی برانچ سے کُچھ ڈالر ہندوستانی کرنسی میں مُنتقل کروائے۔ اور ایک کسٹم والے سے کہا۔ کہ بھائی صاحب! میں یہاں امرتسر ہی جانا پسند کرونگا۔ اُس افسر نے بڑی لاپرواہی سے جواب دِیا کہ تمام مُسافر صرف دِلّی ہی جائینگے۔ کہیں اِدھر اُدھر نہیں جا سکتے۔ مگر  میں نے جب اسے اپنا پاسپورٹ دکھایا تو اُس نے مُجھے پلیٹ فارم سے باہر جانے کا راستہ بتا دِیا۔ پلیٹ فارم کے آخری کونے پر چند سنتری ایک چھوٹی سی میز کے ساتھ کرسیوں پر بیٹھے گپّیں ہانک رہے تھے۔ اُنہوں نے میرے پاسپورٹ پر انڈیا داخل ہونے کی مُہر دیکھ کر اپنے رجسٹر پر میرا نام درج کِیا۔ اور مُجھے باہر جانے کی اِجازت دے دی۔

                         جب میں اٹاری سٹیشن(بھارت) سے باہر آ گیا۔تو مُجھے بالکل معلوم نہیں تھا کہ اب کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے؟ اور ساتھ ہی غیر مُلک۔ انجانے راستے ‘ اجنبی لوگ‘ مگر زبان چونکہ ایک ہی تھی جس کو بولنے سے کم از کم یہ فائدہ تو تھا کہ میں کہیِں نہ کہیِں بآسانی جا سکتا تھا۔ مزید برآں میں ایک ادب نگاربھی تھا۔ اور امرتسر میں بھی کُچھ ادبی احباب سے شناسائی بھی تھی۔سامان قُلی کے حوالے کِیا۔ اُس نے پُوچھا۔ بابو جی! کتھے جاؤگے؟؟ میں نے بتایا۔ امرتسر! قُلی نے مُجھے بھٹکا سا دِیا اور کہنے لگا۔ صاحب! ایتھوں امرتسر جان لئی اکو ای چنگا طریقا اے اوہ وی ریل گڈی ۔پر ایس ویلے کوئی گڈی نئیںجاندی ۔ ہاں!  پرمال گڈی تے جا سکدے او‘ جیکر ا گارڈ نال اٹا سٹا ہوجائے۔ میں نے قلی سے کہا: ہاں دس فِر ۔ میں کیہہ کراں؟؟ قلی مُجھے سٹیشن ماسٹر کے دفتر لے گیا۔ مگر اُن لوگوں سے مُجھے کوئی تسلی بخش جواب نہ مِلا ‘ لہذا میں نے قُلی سے کہا۔ بھراوا! مینوں ’بس سٹینڈ‘ تے لے چل۔ اُس نے بتایا۔ بس سٹینڈ ایتھوں دُور اے۔ آٹو رِکشے تے جانا پے گا۔ اور وُہ مُجھے ایک ٹیکسی ڈرایئور کے پاس لے گیا۔ ڈرایئور سے امرتسر جانے کو کہا‘ مگر بات نہ بنی۔ شاید امرتسر وہاں سے دُور تھا۔ مگر وہ بس سٹینڈ کی جانب لے کرچلدیا۔ ابھی ایک فرلانگ بھی نہیں گئے تھے کہ ٹیکسی نے آگے جانے سے انکار کر دِیا۔ خراب ہو گئی۔ بیچاریڈرائور نے کوشش تو بہت کی کہ ٹیکسی ٹھیک ہو جائے مگر ناکام ہی رہا۔ اب نیا منصوبہ ذہن میں دوڑنے لگا‘ کہ کیا کِیا جائے؟ البتہ ڈرائیور سے کہا۔ ’ بھراوا! چھڈ سارا سیاپا۔ مینوں ایس رپھڑ وچوں کڈھ تے کسے ٹیلیفُون بوتھ تے لے چل ۔ جتھے جا کے میں اپنے کسے یار سجن نوں فون کر سکاں۔ ۔۔تے اپنی رات گذارن دا پربندھ وی کراں۔۔‘  لہٰذا وہ مجھے ایک ٹیلیفون بُوتھ پرلے پہنچا ۔ میں نے فون بوتھ پر پہنچ کر حواس اکٹھے کئے۔ اپنی ٹیلیفو ن والی ڈائری نکالی اور امرتسر کے کُچھ دوستوں کو فون کرنے شروع کِئے۔ پہلے دو تین دوستوں کو فون مِلایا ‘ مگر نہیں مِلا۔ مگر ایک دوست ’بھوپِندر سنگھ سندھُو‘ سے بات ہو ہی گئی ۔ بھوپندر نے تلوندر سنگھ (ایک کہانی نویس) کا نمبر دیا۔ پھر مسٹر رمن دیپ (شاعر) کا ۔ ان سے بات ہوئی۔ انہوں نے مُجھے خوش آمدید کہتے ہوئے اسی بُوتھ پر رُکنے کو کہا۔تب کہیں جا کر میری جان میں جان آئی۔اب میرے انتظار میں بھی سرور تھا۔ تقریباََ ایک گھنٹے کے بعد تلوندر سنگھ اور رمن دیپ ٹیلیفون بُوتھ پر پہنچ گئے ۔ انہیں دیکھ کر میری باچھیں کھل گئیںاور ایسے لگا جیسے عید کا چاند نکل آیا ہو۔

                 تلوندر سنگھ اور رمن دیپ نے مُجھے کار میں بٹھایا۔اور تلوندر سنگھ کے گھر آ کر تسلی ہوئی ۔ کہ میں محفوظ مقام پر پہنچ گیا ہوں۔

 تلوندر سے میری مُلاقات میرے پہلے بھارتی دورے کے دوران ۲۰۰۰ئ؁ میں ہو چُکی تھی۔ اور اُس وقت میری واپسی پر مُجھے واہگہ بارڈر بھی چھوڑنے آیا تھا۔ ایک بہت خوش اخلاق‘ ہنس مکھ انسان ہے اور ساہتکار بھی اچھا ہے۔ تلوندر سنگھ امرتسر کے ایک گنجان آباد علاقے میں اپنی بیوی ‘ ایک بیٹے اور بیٹی کے ساتھ اپنے ایک بہت خوبصورت دو منزلہ مکان میں زندگی گُذار رہا ہے۔ ایک سرکای مُلازم ہے۔آج اُسے میرے اچانک یہاں آنے کا کُچھ پتہ نہیں تھا۔ اور رمن دیپ کو میں نے پہلی دفعہ ہی دیکھا تھا۔ مگر اُن لوگوں نے میری اچانک آمد پر کوئی حیرانی نہیں دکھائی۔ بلکہ ایسے دیکھ بھال اور خاطر توضع کی جیسے میں ان کے اپنے ہی گھر کا کوئی فرد ہوں اور طے شدہ پروگرام کے تحت وہاں پہنچا ہوں۔ ان لوگوں کی مہمان نوازی کا اس سے بہتر بھلا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ رات کے کھانے کے بعد تمام دن کی ذہنی اور جسمانی تھکاوٹ تلوندر کے گھر پر سکون ماحول میںاتاری۔ تلوندر سنگھ کے گھر کی دوسری منزل پر ایک بہت کھلا کمرہ ہے جو اس نے سپیشل صرف مہمانوں کے لئے ہی وقف کر رکھا ہے۔ کیونکہ پاکستان سے ادبی احباب اکثر و بیشتر اُسی ہی کے ہاں سے گُذر کر اور قیام کر کے اِنڈیا کے دوسرے مقامات پر آتے جاتے رہتے ہیں۔

                          مارچ۔ ۳۰۔ ۲۰۰۴ئ؁  (منگلوار): ( بھارت میں دوسرا (۲ ) دن ):آج کی صُبح کا آغاز امرتسر میں تلوندر سنگھ کے گھر پر ہُوا۔ ناشتے کے بعد میرے طے شدہ پروگرام کے مطابق تلوندر نے مُجھے اپنے سکُوٹر پر بِٹھایا۔ اور ہم دونوں لاری اڈے کی جانب روانہ ہو گئے۔امرتسر کے نئے لاری اڈّے کی تعمیر کا کام جا ری تھا اِسلئے ایک بڑی لمبی سی پتھریلی ناہموار سڑک پر بسیں جا بجا کھڑی ہو تی جا رہی تھیں اور مُسافران اپنی اپنی منزلوں کی جانب اپنی مطلوبہ بسوں پر سوار ہوتے جارہے تھے اور بسیں روانہ ہو تی جا رہی تھیں۔ ہم لوگ بھی ایک ایسی جگہ پر کھڑے ہو گئے اور تھوڑی ہی دیر میں میری مطلوبہ بس آ گئی۔ تلوندر نے میرا سامان بس میں رکھنے میں میری مدد کی۔ میں نے تلوندر کا شکریہ ادا کیا۔ اور برنالہ جانے والی بس میں سوار ہو گیا۔ مُجھے ایک خالی سیٹ مِل گئی اور نئی منزل کی جانب روانہ ہو گیا۔ راستے میں بس جگہ جگہ کھڑی ہو کر سواریاں سوار کرتی اور اتارتی ہوئی آگے بڑھتی چلی گئی اور ایک اڈے پر جا کر (شہر کا نام یاد نہیں) تمام مسافروں کو اُتار

 دیا ۔جہاں سے برنالہ کیلئے نئی بس پر سوار ہونا پڑا۔ ابھی شام نہیں ہوئی تھی جب میری دوسری بس برنالہ شہر جا کر رُکی۔ اڈے سے رِکشا لِیا اوروُہ مُجھے سیدھا مسٹر راج مِتر کے گھر لے گیا۔ راج مِتر ہی میری کتاب چھاپنے والے تھے۔ مسٹر مِتر خود بھی ایک اچھے ادیب ہیں اور کئی ایک کتابوں کے مُصنِّف بھی ہیں۔ اُس دوران وُہ کینیڈا گئے ہوئے تھے۔ اور اُن کی عدم موجودگی میں اُن کے ہونہار بیٹے مِسٹر امِت مِتر میرے سارے کام کی ذمیداری سرانجام دے رہے تھے۔ امت نے از خود ‘ اُس کی ماتا جی اور پتنی نے میرا اچھا استقبال کِیا، اور خاطر مدارت کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔انہوں نے اپنے مکان کی دوسری چھت پر گیسٹ رُوم میرے لئے کھول دیا۔ اور جب تک میں برنالہ میں رہا۔ مُجھے کِسی بھی قسم کی کوئی تکلیف محسوس نہیں ہونے پائی ۔نہ ہی رہائش کا کوئی مسئلہ نہ ہی کھانے پینے میں کوئی مشکلات۔ خیر رات ہوئی اور جی بھر کر نیند آئی۔
                           مارچ۔ ۳۱۔۲۰۰۴ء (بُدھوار): ( بھارت میں تیسرا ( ۳ ) دن ): برنالہ شہر میں صُبح کی شروعات ہوئی۔ یہاںپر میری چیدہ پنجابی غزلیات کی کتاب ’تولویں بول‘ کی گرمُکھی زبان میں اشاعت ہونا تھی۔اس کا مسودہ مُجھے لاہور میں ہی مِل چُکا تھا۔ مگر اس کو آخری دفعہ چیک کرنا تھا۔ لہذا امِت نے ایک کمپوزر لڑکی کو میرے ساتھ میری کتاب کے مواد کو آخری چیک کروانے کیلئے لگا دیا۔ اور ہم دونوں اِس کام میں جُٹ گئے۔ کمپوزر ایک ذہین لڑکی تھی جو جلدی جلدی میرے ساتھ مل کر غلطیاں ٹھیک کرتی رہی۔ وقت گوکافی لگا مگر ختم کر دیا۔ اُسی ہی دِن مسٹر ترسیم جو ایک شاعر ہے اور ایک لوکل سکول میں ٹیچر بھی۔ایک نامہ نگار بھی۔ اس نے میرا اخبار کیلئے انٹرویو متواتر دو گھنٹے تک کِیا۔ جو بعد میں گُرمکھی روزنامہ اخبار ’ٹربیون‘ چنڈی گڑھ کے سپیشل ایڈیشن میں اور گرمکھی روزنامہ اخبار ’نواں زمانا‘ جالندھر میں بھی چھپا۔ ترسیم نے شام کے وقت مُجھے برنالہ شہر کی سیر بھی کروائی۔ برنالہ شہر تحصیل کی سطح کا چھوٹا سا شہر ہے۔ وہاں کا ’گیتا بھون‘ جو ایک مندر ہے وہاں لے کر گیا۔ اور بھجن سنوائے۔ بعد میں ایک لوکل ریسٹورینٹ میں سنیک اور کافی سے ہم دونوں نے لُطف اُٹھایا۔ آج رات ترسیم مُجھے اپنے ہی گھر لے گیا۔ وہاں پر اُس کے ماتا پتا ‘ پتنی اور دو بچوں سے ملاقات ہوئی ۔ رات کو اُس نے مجھے اپنی
 شاعری بھی سُنائی۔ اور خاطر مدارت بھی خوب کی۔ مسٹر خاموش کو جو تا حال پٹیالہ میں تھے میرے برنالہ پہنچنے کی خبر ہو چُکی تھی۔ کیونکہ وہ مستقل پٹیالا ہی میں رہتے ہیں ۔ میںنے خود بھی پٹیالا جانا تھا۔ کیوں؟؟ جس کا ذکر بعد میں کرونگا۔خیر رات دیر تک ترسیم سے باتیں ہوتی رہیں۔نیند آ گئی اور پھر صُبح ہو گئی۔

                   یکم اپریل۔ ۲۰۰۴ئ؁ (جمعرات): (بھارت میں چوتھا ( ۴ ) دن ):آج کی صُبح کا آغاز شہر برنالہ (بھارتی پنجاب) میں مِسٹر ترسیم کے گھر ہی ہُوا۔ ناشتہ وہیں کِیا۔ اور بعد میں میرے پروگرام کے مطابق وہی مُجھے قریبی ریلوے سٹیشن پر پٹیالہ جانے ولی گاڑی پر بِٹھا آیا۔ سٹیشن دور نہیں تھا اور زیادہ دیربھی نہیں لگی جب گاڑی پٹیالہ ریلوے سٹیشن پہنچ گئی۔ مِسٹر خاموش وہاں میرا انتظار کر رہے تھے اورمجھے سٹیشن سے اپنی گاڑی میں بِٹھا کر اپنے گھر لے گئے۔ دوپہر کا کھانا اُن کے گھر کھایا۔ خاموش جی جو ایک ادبی شخصیت ہیں۔ یہاں امریکا میں ہمارے پاس بھی آئے تھے۔ اور جِتنا اُن کوامریکا میں خاموش دیکھا تھا اُس کے برعکس وُہ مرنجان مرنج طبیعت کے انسان نکلے ۔ اپنی بیوی کے ہمراہ رہتے ہیں۔ دو بچیاں ہیں جن کی شادی ہو چُکی ہے۔ پتنی نہایت فرمانبردار اور سگھڑ عورت ہے۔ جیسے میں نے دیکھا کہ ان کی بیگم نے چائے بناتے وقت پانی‘ چائے ‘ دُودھ ‘ اور چینی کی مقدا رکے بارے بھی سب کچھ اُن سے ہی پُوچھا اور چائے تیار کی۔یہاں میں اپنے ایک کیلیفورنیا میں مقیم ایک دوست ریٹائرڈ کیپٹن گُردیال سنگھ گِل کے بارے بتانا ضروری سمجھتا ہوں(جو فوت ہو گئے۔ نومبر۔۲۰۰۸ئ؁ میں تقریباََ ۹۰ سال کی عُمر میں۔ وہ سیالکوٹ میں پیدا ہُوئے تھے۔ اور اُن کے مُطابق علامہ اقبال نے اُن کے کاندھے کو تھپتھپایا بھی تھا۔جب وہ اپنے ایک افسر کی ہمرہی میں علامہ کے گھر اُن سے ملنے گئے تھے۔ ان کے بارے ایک بات قابلِ ذکر یُوں بھی ہے۔ کہ میں نے اُن جیسا شاید کوئی ہی شخص آج تک دیکھا ہے۔ جو اِتنے دھیان اور توجہ سے ہر ایک کی شاعری یا نثرصرف سُنتا ہی نہیں تھا بلکہ اُس پر اپنے قیمتی اور پُر اثررائے بھی دیتا ہو۔ وہ خود بھی تین شاعری کی کتابوں کے مُصنف تھے۔ )۔ وہ چونکہ پٹیالہ سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لئے کیپٹن صاحب کی خواہش کے مطابق میں خاموش جی کو ان کے گھر لے گیا۔ جو اُنہوں نے اپنے باپ تارا سنگھ کے نام سے منسوب ’سٹار ہاؤس‘ کے نام سے بنوایا ہُوا تھا۔ سٹار ہاؤس ایک تین منزلہ مکان ہے۔ اور اِس کا ڈیزائن خود کیپٹن صاحب نے تیار کیا تھا۔اور اپنی ہی

 نگرانی میں بنوایا بھی۔ اُس مکان میں ایک چیز قابلِ ذِکر یہ دیکھی کہ دوسری منزل پر جاتی ہُوئی سیڑھیاں اپنی مُقررہ اونچائی کی سطح سے کم پیمائش پر واقع ہیں۔ جب میں نے واپس آکر کیپٹن صاحب سے اِس کی وجہ دریافت کی تو بتایا گیا۔ کہ یہ اقدام اُنہوں نے اپنی پتنی کی سہولت کیلئے کیا ہے تاکہ اُس کو اس کی عُمررسیدگی کے عالم میں سیڑھیاں چڑھتے وقت پاؤں کو زیادہ اُٹھانانہ پڑے۔ اُن کی اپنی بیوی سے ایسی محبت کے بارے سن کر اچھا لگا۔وہاں پر موجود اُن کے کرائے دار نے ہماری بہت خدمت کی۔ وہیں سے ایک ٹیلیفون کِیا۔ تو مسٹر بلدیو دھالیوال (پروفیسر پٹیالہ یونیورسٹی۔ جو یہاں بھی ہو کر گئے ہیں۔ ) فوراً آ گئے۔بعد ازیں وہیں سے ایک اور پروفیسر راجندر سنگھ گِل (پٹیالہ یونیورسٹی۔ میوزک ڈیپارٹمنٹ۔ وہ بھی ہمارے شہر فریزنو میں آئے تھے اور اپنا موسیقی کا فن پیش کرکے گئے تھے) کو بھی فون کِیا اور وُہ بھی پہنچ گئے۔میرا اس رات کے قیام کا پروگرام ’سٹار ہاؤس‘  میں ہی تھا‘ مگر پروفیسر گِل مجھے اور خاموش جی کو اپنے گھر ہی لے گئے۔پروفیسر دھالیوال بھی وہاں آ گئے۔ وہاں ایک ہلکی پھُلکی محفلِ موسیقی جمی۔ میں نے اپنا کُچھ کلام تحت اللفظ میں سُنایا اور کچھ اپنی بنائی ہوئی دھُنوں پر غزلیں اور گیت اُن کے ہارمونیم پر بھی گا کر سُنائے۔ گل جی نے بھی اپنی مخصوص آواز میں نغمہ سرائی کی۔ گِل صاحب کی بیگم نے رات کا پُر تکلف کھانا تیار کِیا ‘ اُن کی سُگھڑ بیٹی نے کھانا سلیقے سے میز پر چُنا۔ اور ہم نے نہایت پیٹ بھر کر بھوجن کیا۔ گل جی اور ان کے پریوارنے اپنے حُسنِ اخلاق کا بھرپُور مُظاہرہ کِیا۔رات کافی بِیت چُکی تھی۔ گل جی خاموش صاحب کو اُن کے گھر چھوڑنے چلے گئے۔ دھالیوال بھی اپنے گھر چلے گئے۔ اور میں نے گِل جی کی خُوبصُورت کوٹھی کی دوسری منزل کے ایک عُمدہ کمرے میں جہاں ائیرکنڈیشنڈ بھی تھا۔ رات کاٹی اور میرے سارے دن کی تھکاوٹ کا علاج ہوا۔

                       اپریل۔ ۲۔ ۲۰۰۴ئ؁ (جُمعتہ المبارک):(بھارت میں پانچواں (۵ ) دن): آج میری صُبح کا سُورج شہر پٹیالہ (پنجاب۔ بھارت) میں نُمودار ہُوا۔راجندر سنگھ گِل کے گھر میں۔ناشتہ کرنے کے بعد راجندر مُجھے لیکرخاموش جی کے گھر کو روانہ ہو گئے۔ جہاں سے مجھے پھر برنالہ جانا تھا۔ راستے میں راجندر جی ایک ڈی۔ آئی۔ جی۔ پولیس کے گھر میں بھی تھوڑی دیر کیلئے رُکے ان کی بیٹی کی شادی کے سلسلے میں کوئی میوزک کا پروگرم طے کرنے کے بارے ۔ بہرحال وہاں تھوڑی دیر رُک کر چائے پی اور چل پڑے۔ خاموش جی

 کے گھر پہنچے تو انہوں نے میرے پہنچنے سے قبل ہی برنالہ کے لئے ٹیکسی کرایہ پر لے رکھی تھی۔ وہ اِسلئے کہ اُن کی پتنی بیماری کے سبب ٹرین یا بس سے سفر نہیں کر سکتی تھیں۔ راجندر کا شکریہ ادا کیا۔ وہ اپنے گھر گئے چلے اور ہم تینوں ٹیکسی میں سوار ہوئے اور برنالے کی جانب ٹیکسی ڈرایئور نے رُخ کِیا۔ تقریباََ دو گھنٹے ٹیکسی چلتے چلتے راستے میں ایک چھوٹے سے قصبے میں رُکوائی اور کُچھ کھانے پینے سے سیر شِکم ہوئے۔ پھر ٹیکسی میں سوار ہو کر برنالہ پہنچ گئے۔ جہاں پر خاموش جی نے مُجھے امِت کے گھر چھوڑا اور خُود اپنے یہاں کے مکان میں چلے گئے۔ میں نے وہاں کمپوزر لڑکی کے ساتھ بیٹھ کر باقی کتاب والا کام مُکمل کِیا۔ امِت سے کتاب کے خرچے کا حساب کِیا۔ شام کو ترسیم مجھے جناب پریتم سنگھ راہی ۔ جو یہاں کے لوکل ادبی شخصیت تھے(میرے سفر نامہ لکھنے کے وقت تک فوت ہو چکے ہیں) کے پاس اُن کی حِکمت کی دکان پر لے گیا۔ میرے وہاں پہنچنے کی خبر سُن کر کُچھ اور ادبی شخصیات بھی وہاں آ جمع ہُوئیں۔ اور وہ محفل ایک چھوٹے سے مُشاعرے کی شکل

 اختیار کر گئی۔ راہی صاحب کے ساتھ گو مُختصر بیٹھک ہوئی مگر اُن کے کلام سے اُن کی غزل گوئی میں مہارت کا اندازہ ہوا۔ اُس رات خاموش
 جی کے گھر قیام کِیا۔ اور رات خُوب نیند آئی۔

                  اپریل۔ ۳۔ ۲۰۰۴ئ؁۔بروز ہفتہ۔ (بھارت میں چھٹا ( ۶ ) دن):  صُبح برنالہ شہر میں نمودار ہوئی۔ناشتہ خاموش جی کے گھر ہی کِیا۔ اور بعد میں امِت کے گھر جانا پڑا۔ بس اپنی کتاب ’تولویں بول‘ کو آخری شکل دینے کیلئے۔ سو وہاں پہنچا اور کام سرانجام دینے کے بعد امِت مُجھے چنڈی گڑھ جانے والی بس میں بِٹھا گیا۔ وہ بس صرف پٹیالہ تک ہی گئی اور وہاں سے دوسری بس میں سوار ہو کرچنڈی گڑھ آ گیا۔ شام کا وقت تھا۔ اور ترسیم اور خاموش جی کے بتائے ہوئے ٹیلیفونوںمیں سے سب سے پہلے ہی روزنامہ ’ٹربیون‘ کے دفترمیں آ داخل ہوا۔ سیکیورٹی والوں نے میری مسٹر شام سِنگھ( ایڈیٹر پنجابی روزنامہ ’ٹربیون‘ ) سے بات کروائی۔ خاموش جی نے شام سنگھ کو پہلے ہی میرے بارے اطلاع دے دی ہوئی تھی۔ان سے میری پہلے کبھی بات یا مُلاقات نہیں ہوئی تھی۔ مجھے اُنہوں نے اپنے دفتر میں ہی بُلا کر خوش آمدید کہا۔ شام سنگھ بہت خوش اخلاق‘ ہنس مُکھ‘ اور رُوح پرور انسان ہیں۔اور اپنی زندگی کو اچھے انداز میں گُزارنے کا ہُنربھی رکھتے ہیں۔میرا انٹرویو جو ترسیم نے برنالے میں کِیا تھا۔ اُن کی میز پر پڑا ہوا تھا۔ اسلئے مُجھے اُن سے اپنا تعارف کروانے میں تردد نہیں کرنا پڑا۔ نیز اُس دن مِسٹر سُرجیت پاتر اور مِسٹر ستندر نُور( دونوں مشہور پنجابی ساہت کار ) کے درمیان لُدھیانہ میں ایک ساہت اکیڈیمی کے الیکشن کا دن تھا۔ اور تقریباً تمام ساہتکار لوگ اُس میں محو اور سرگرم تھے۔ لہذا شام سنگھ ہی اُس سیاست سے بالاتر نظر آئے۔ جو مُجھے مِل پائے۔ شام سنگھ نے اپنا کام سمیٹا اور مُجھے ساتھ لیکر مِسٹر بلوندر سنگھ ( مالک اُتّم ریسٹورنٹ) کے پاس لے آئے۔ بلوندر سے بھی میں کبھی نہیں مِلا تھا۔ مگر اُس نوجون نے مُجھ جیسے ان دیکھے اور انجانے آدمی کی خدمت کرنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ اور ریسٹورنٹ کے مُختلف کھانوں سے میری پیٹ پوُجا کروائی۔ اُس کے بعد بلوندرمُجھے ایک موٹل جیسی جگہ ’کِسان بھون‘ لے گیا۔ جہاں پر رات بسر کی۔میں جیسے اکیلا ہی در بدر پھر رہا تھا۔ گداگروں کی طرح۔ دن میں تو لوگوں سے ملتا۔ باتیں ہوتیں ۔ وقت کا پتہ ہی نہ چلتا کہ کب اور کیسے بیت گیا؟ مگر راتوں کو تنہائی کا ساتھ ۔وہی جانے جو ایسے لمحات سے گذرے۔خیرتھکاوٹ کی وجہ سے رات کا پتہ ہی نہیں چلا۔ کہ کب گذری اور کب صُبح ہو گئی۔

اپریل۔ ۴۔ ۲۰۰۴ئ؁۔(اِتوار): (بھارت میں ساتواں (۷ ) دن ): ’کِسان بھون‘ چنڈی گڑھ۔پنجاب۔

 بھارت میں میری صُبح کا آغاز ہُوا۔ دراصل بلوندر نے ہی مجھے ’کِسان بھون‘ میں آ کرمیرے کمرے پر دستک دیکر مجھے بیدار کیا ۔ مجھے  اپنے ساتھ لیا اور سیدھا اپنے ریسٹورنٹ میں لے کر آ گیا۔ بلوندر کے ریسٹورنٹ پر ناشتہ کِیا۔ بعد میں بلوندر نے اپنی دُکان کا کاروبار اپنے مُلازموں کے سپرد کیا اور مُجھے ایک قریبی گاؤں میں اپنے کِسی دوست کی شادی پر لے گیا۔ واپسی پر ایک گُردوارے میں کِسی اور دوست کی مرگ پر افسوس کرنے کیلئے بھی لے گیا۔ بعد میں ہم دونوں ’پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ‘ میں ایک ادبی انجمن ’کوِتا کیندر چنڈی گڑھ‘ کے زیر اہتمام ہورہے ایک مُشاعرے میں پہنچ گئے۔ جہاں پر میری مُلاقات اس انجمن کے جنرل سیکریٹری جناب کرم سنگھ وکیل اورپردھان شری من موہن سنگھ گریوال سے ہوئی۔ اس کوی دربار میں مجھے خصوصی مہمان کی حیثیت سے سرفراز کیا گیا اور مجھے وہاں اپنا کلام سُنانے کا موقع بھی مِلا۔ بعد میں وکیل جی مُجھے گریوال صاحب کے گھر لیکر گئے۔ اور وہاں خوب گپ شپ رہی۔ گریوال صاحب کی اُردو میں کہی ہوئی غزلیں بھی سُنیں۔ گریوال جی ریٹائرڈ ایس۔ پی پولیس ہیں۔ اور اُن کا ایک بیٹا کیلیفورنیا میں بھی مقیم ہے۔ شام ہوئی تو ہم سب پھر ’اُتّم ریسٹورینٹ ‘ آ گئے۔بلوندر سنگھ اور شام سنگھ وہاں میرا انتظار کر رہے تھے۔ وہاں پر ایک اور صاحب راجونت رانا سے بھی ملاقات ہوئی۔رانا جی جو ایک نوجوان شاعر ہیں اورحال میں جرمنی میں مقیم ہیں۔رانا جی نے بتایا کہ اُنہوں نے جرمنی جا کرنہ صرف جرمن زبان سیکھی ہے۔ بلکہ جرمن زبان میں شاعری بھی کی ہے۔ اورپھر جرمنی سرکار سے اپنی جرمن زبان میں کہی شاعری پر وہاںکا بہت بڑا ایوارڈ بھی حاصل کِیا ہے۔ رانا جی کی جرمن شاعری تو نہ سُن سکا۔اگر سناتے بھی تو سمجھ نہیں آتی۔ مگران کی پنجابی شاعری سُن کر اُن کے مضبوط اور عُمدہ شاعر ہونے کا ثبوت مِلا۔یہ محفل کافی سرگرم رہی ۔ اوررات دیر تک ہم لوگ گپیں ہانکتے رہے۔ پھرسب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ اور مُجھے بلوندر ایک قریبی ہوٹل میں چھوڑ آیا۔ جہاں رات سکون سے کاٹی۔

 اپریل۔۵۔۲۰۰۴ئ؁ (سوموار): (بھارت میں آٹھواں (۸ ) دن):  چنڈی گڑھ۔پنجاب۔اِنڈیا۔ میں دن کا آغاز ہُوا۔ اپنا سامان ہوٹل سے سمیٹا اور بلوندر سنگھ کے سٹور پر پیدل ہی آ گیا۔ کیونکہ ہوٹل سے سٹور بالکل قریب تھا۔بلوندر سنگھ کا سٹور چونکہ کھانے پینے کی اشیاء پر مُشتمل ہے۔اسلئے صبح سویرے ہی کھُل جاتا ہے۔ وہاں آکر ناشتہ کِیا۔ اور بلوندر بھی گاہکوں کے ساتھ کافی مصروف رہا۔ لہذا گاہکی جب ذرا کم ہُوئی تو بلوندرنے مجھے اپنی کار میں بٹھایا۔دُکان اپنے ورکرز کے حوالے کی اورہم دونوں لاری اڈے کی جانب روانہ ہو گئے۔ لاری اڈّے پہنچ کر میں نے بلوندر سنگھ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور نیو دِلّی جانے والی بس کی جگہ پر پہنچ کر ٹکٹ خریدا۔ اور بس میں سوار ہو گیا۔ بس ائیرکنڈیشنڈ تھی۔ کرایہ تھوڑا زیادہ تھا مگر اتفاقاً سواریاں اسقدر ہی کم۔جیسے مجھے ایک سیٹ کی بجائے دو سیٹیں ہی مِل گئیں۔ جس سے ٹانگیں پھیلا کر بیٹھنے سے سفرکرنے میں سہولت رہی ۔ موسم خوشگوار تھا اسلئے ائیرکنڈیشن کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ راستے میں بس ایک جگہ پر رُکی جہاں سواریوں نے کُچھ کھانے پینے کا سامان لِیا۔میں نے بھی کُچھ پیٹ پُوجا کی۔ اور پھر بس روانہ ہو گئی اور دِلّی کے نواح کے علاقوں میں چھوٹے چھوٹے سٹاپ پر رُک رُک کر سواریاں اُتارتی ہوئی آخر دِلی کے مین بس سٹینڈ پر جا کر رُکی اور خالی ہو گئی۔

 یہ انٹرنیشل شہر نیو دہلی (بھارت کا دارا لخلافہ) میرا دیکھنے کا پہلا موقع تھا۔ اوریہاں پر پہلے دن کی پہلی شام تھی۔جب میں بس سے اُترا۔ٹیلیفون کی ڈائری کھولی اور مسٹر ترسیم؍خاموش جی کے بتائے ہوئے لوگوں کے فون نمبر دیکھنے شروع کئے ۔ سب سے پہلے مسٹر رویل سنگھ (ڈائرکٹر پنجابی ساہت اکیڈیمی) کو فون کِیا۔تو  انہوں نے بتایا ۔ کہ میں اُن کے دفتر پہنچ جاؤں۔ وہاں سے مِسٹر دھون جو کہ وہاں مینجر ہیں کی وساطت سے کسی جگہ ٹھہرنے کا انتظام ہو جائیگا۔ اس کے علاوہ میں نے اُردو ماہنامہ ’محفلِ صنم‘ کی ایڈیٹر شہلا نواب کو بھی فون کِیا۔ وہ شہر میں موجود نہیں تھیں مگر اُنہوں نے بتایا کہ جامع مسجد کے کسی ہوٹل میں جا کر رہا جا سکتا ہے۔ خیر دولوگوں سے بات کرنے کے بعد آٹو رکشا لیا اور پہلے ڈرائیور سے جامع مسجد جانے کو کہا۔ مگر وہ مجھے جامع مسجد کی بجائے کہیں اور کسی علاقے کے کِسی ہوٹل میں لے گیا۔ جب اُس سے پُوچھا گیا۔ تو رکشے والے نے غلط بیانی سے بتایا۔ کہ شرپسندوں کے زور کے تحت آجکل جامع مسجد کے علاقے کے ملازمین ہڑتال پر ہیں۔ لہذا وہ مجھے جس ہوٹل میں لیکر گیا۔ اُس ہوٹل کے مینجر سے میری بات ہوئی۔ مگر وہ مجھے اپنے ہاں ٹھہرانے کیلئے مطمئن نہ کر سکا۔ دراصل میں بھی کسی ایسی جگہ ٹھہرنا چاہتا تھا جہاں کسی کی واقفیت کا عمل دخل ہو۔  موجودہ ہوٹل مینجرنے بہت دلائل دئیے

 اپنی اعلیٰ سروس ‘ اور ہوٹل کے اچھے انتظامات وغیرہ کے بارے تقریر کرکے۔ اس نے اس قدر اصرار کیا کہ اس سے جان چھُڑانی مُشکل ہو گئی۔ بہرحال وہاں میری انگریزی زبان نے بہت کام دیا۔ جب چند کلمات ڈھنگ سے بولے تو مینجر نے مُجھے وہاں ٹھہرنے پر مجبورکرنے

 کی ضد چھوڑ دی۔ لہذا وہاں سے باہر نِکلا۔شاید آٹو رکشا کی اُس ہوٹل والے سے کوئی کمیشن وغیرہ کی بات ہوگی۔ اُس نے مُجھے ساہت اکیڈیمی کے دفتر لیکر جانے سے انکار کردیا اور بہانہ یہ بنایا کی تنگ جگہ پر رکشا جا نہیں سکتا ہے۔ خیر اس کو اس کا کرایہ ادا کیااور سائیکل رکشا لیکر اکیڈیمی کے دفتر جانا پڑا۔ جو کہ وہاں سے نزدیک ہی تھا۔    

                      سائیکل رکشے والا جس مصیبت سے رکشے کو کھینچ کر لے کر گیا وہ مجھے کچھ اچھا نہ لگا۔ اور آدمی کو آدمی کھینچتا دیکھ کر میرے جذبات کو دھکا بھی لگا ۔ مگر مجبوری کہ سامان کے ساتھ پیدل بھی تو چلا نہیں جا سکتا تھا نیز اس کے علاوہ اور کوئی ذریعہ اور چارہ بھی تو نہیں تھا۔ انڈین فلموں میں تو ایسے مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ مگر سامنے آدمی کو آدمی پر سوار دیکھکر ایسے لوگوں کی بے بسی ‘ بے کسی اور کسمپُرسی پر دل کے آنسو ضرور نکلے۔ شاید ایسا سسٹم پاکستان میں بھی اگر چل پڑے تو یہ معمول ہی کا کام لگے۔ مگر وہاں عجیب لگا۔ شام ہو چُکی تھی جب میں اکیڈیمی کے دفتر پہنچ گیا۔ دفتر کے لان میں ایک تو روشنی کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔ دوسرے دفتر بھی دوسری منزل پر تھا۔ لہذا اندھیرے میں سیڑھیاں چڑھیں اور دفتر پہنچ گیا۔ مسٹر دھون سے علیک سلیک ہوئی۔ مسٹر دھون نہایت نیک شریف الطبع انسان ہیں۔ مجھے اچھے طریقے سے خوش آمدید کہا اور مخاطب بھی ہوئے۔ کُچھ دیر اپنے پاس ہی بِٹھایا ۔اور مختلف موضوعات پر مختصر باتیں ہوئیں۔ رویل سنگھ جی نے پہلے ہی اُن کو میرے یہاں آنے کے بارے بتا دیا ہوا تھا۔ تبھی دھون جی میرے رہنے کا انتظام پہلے ہی کئے ہُوئے تھے۔اور تھوڑی ہی دیر میں ایک نوجون لڑکا آ گیا۔ اس نے میرا سامان اٹھایا اور مجھے ساتھ لیکر سامان کو اپنے موٹر سائیکل پرفِٹ کِیا اور مُجھے موٹر سائیکل کے پچھلی سیٹ پر بِٹھا کر ’ ہوٹل کوئین پیلس‘ میں لیکر آ گیا۔

؎                     نیو دہلی میں ’ ہوٹل کوئین پیلس‘ (علاقہ پہاڑ گنج) کے علاقے ایک گلی میں واقع ہے۔ ہوٹل کے کلرک سے آ ملاقات ہوئی۔ اور کمرے کی بُکنگ کیلئے کہا۔ اُس نے شناختی کارڈ کا پُوچھا۔ میں نے ویسے ہی اُسے سرسری طور پر کہہ دیا۔ اور ٹھیک بھی تھا۔ کہ میں

 پاکستان سے آیا ہوں۔ یہ سُنتے ہی کلرک نے مجھے کمرہ دینے سے صاف انکار کر دیا اور کہا وہ میرے لئے کمرہ بُک نہیں کر سکتا۔ میں نے فوراً محسوس کر لیا کہ پاکستان کے نام نے ہی اس کے حواس باختہ کئے ہیںجو اس نے بلا سوچے اور بلا جھجک بغیر کوئی وجہ بتائے انکار ہی کر دیا ۔ کلرک نے تکلیف ہی گوارہ نہیں کی۔ کہ وہ کم از کم پڑتال ہی کرلے کہ میں پاکستان سے آیا ہوں ٹھیک ہے مگر یہاں قانونی بھی ہوں یا ؟؟؟ میں نے تو بس غیر ارادی طور پر کہہ دیا تھا۔ خیر میں نے اس سے کوئی بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا اور فوراً اپنا امریکن پاسپورٹ اُس کے حوالے کر دیا ۔ وہ میرا پاسپورٹ لیکر سیدھا مینجر کے پاس گیا۔ اور اس کے بعد مجھے کمرے میں رسائی پہلے مل گئی اور کاغذات کو بعد میں پُر کیا گیا۔ کمرے میں پہنچنے کے بعد پہلے شاور لِیا۔ تب جاکے کہیں سارے دن کی جسمانی اور ذہنی تھکاوٹ دُور ہوئی۔ بعد میںکھانا بھی منگوا کر کھایا ۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک انجانے‘ ان دیکھے ‘  دوست راجندر سنگھ (مالک گُرمِت پرنٹنگ پریس) تشریف لے آئے۔ اپنی جان پہچان کروائی اور دہلی میں رہایش کے دوران اپنے پُورے تعاون کا یقین بھی دلوایا۔ اچھا لگا۔ یہ سب میرے سب دوستوں ہی کی وجہ سے تھا۔ جو

 میری عدم موجودگی میں بھی میرا خیال رکھے ہوئے تھے۔ اور مجھے ہر پل اپنے ساتھ ہونے کا احساس دلوا رہے تھے۔اور وہ لڑکا جو مجھے اکیڈیمی سے ہوٹل میں لیکر آیا تھا اس کا نام راکیش سنگھ تھا۔ راجندر سنگھ کا بیٹا تھا۔ سفر کی تھکان اتنی تھی کہ نیند اسقدر آئی اور تب ہی پتہ چلا جب

 اگلی صبح ہوٹل ملازم نے دروازے پر آکر گھنٹی دی۔ اور جگا کر پوچھا کی مجھے کچھ کھانے پینے کے لئے درکا رہے؟؟

                         اپریل۔ ۶۔ ۲۰۰۴ئ؁ (منگلوار): ( بھارت میں نواں (۹ ) دن ): آج سویر کی شروعات نیو دہلی میں ہوئی۔ ہوٹل میں ناشتہ کیا۔ ناشتے کے بعد ترسیم؍خاموش جی کے بتائے ہوئے مزید لوگوں کو ٹیلیفون کیا۔ سب سے پہلے ڈاکٹر موہن جیت ( ایک ادبی شخصیت ) سے بات ہوئی۔ گھر پر ہی مِل گئے۔ میں نے ان سے مِلنے کا اظہار کِیا۔ تو اجازت مِل گئی۔ پتہ پُوچھا اور آٹو رکشا لے کر اُن

 کی رہائش گاہ پر رسائی کی۔ ڈاکٹرجی ایک سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے گھر میں ہی لِکھنے پڑھنے کا کام کرتے ہیں۔ اُن سے ملاقات ہوئی۔ کُچھ اُن سے اُن کے بارے دریافت کیا اور کُچھ اپنے بارے بتایا۔ مگر پہلے مُلاقات نہ ہونے کی بِنا پر کوئی خاص بات چیت نہ ہو پائی۔ مگر اُن کا مخلصانہ اخلاق ‘ دھیما پن‘  اور اندازگفتگو اچھا لگا۔ کُچھ دیر اُن کے ساتھ گُذارنے کے بعد واپس اپنے ہوٹل کے کمرے میں آ کرپھر بند ہو گیا۔ مگر تھوڑی ہی دیر بعد راجندر سنگھ نے مُجھے اپنے دفتر میں جو ہوٹل کے بالکل قریب تھابُلا لِیا۔ اور وہاں میری ملاقات ایک پنجابی؍اُردو شاعر جناب شمشیر سنگھ شیرؔ سے ہوئی۔ شیر جی ڈنمارک میں رہتے ہیں اور اُس دوران وہ ہندوستان کے دورے پر تھے اور یہاں اپنے مکان میں رہ رہے تھے۔ اچھی طبیعت کے مخلص انسان ہیں۔ راجندر سنگھ نے اُن کی اُردو اور پنجابی غزلیات کی کئی کتابیں چھاپی ہوئی ہیں۔ شیر جی مُجھے دِلّی یونیورسٹی اُردو ڈیپارٹمنٹ لے کر گئے۔ اور چند لوگوں سے میرا تعارف بھی کروایا۔ وہ وہاں اُردو ڈیپارٹمنٹ کی ایڈوائزری کمیٹی کے ممبر بھی ہیں۔ میری کتابیں ڈیپارٹمنٹ کے صدر کے حوالے بھی کروائیں۔ یہ دِن بھی بہت مصروف گُذرا۔ اور واپس ہوٹل آکر رات سے زورآزمائی کی اور دن کے انتظار میں نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا۔

                اپریل۔ ۷۔ ۲۰۰۴ئ؁(بُدھوار):  (بھارت میں دسواں (۱۰ ) دن ): نئی دِلّی’ ہوٹل کوئین پیلس‘ میں صُبح نمودار ہوئی۔ ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد ’پنجابی اکیڈیمی‘ جس کا دفتریہاں سے با لکل نزدیک تھا۔ پیدل ہی چل کر پہنچ گیا۔ وہاں جاکر مِسٹر دھوَن

 سے پھر مُلاقات ہوئی اور ڈائریکٹر ڈاکٹر رویل جی سے بھی ملنے کا موقع مل ہی گیا۔ ڈاکٹر صاحب کِسی میٹنگ کیلئے تیار ہو رہے تھے‘ چائے وغیرہ تو پِلائی مگر کوئی خاص بات چیت نہ ہو پائی۔ اُن لوگوں کے لئے میں بالکل انجان تھا۔ اور میرے ادبی سفر کے بارے بھی اُنہیں کوئی واقفیت نہیں تھی۔ نہ ہی میں کسی سرکاری دورے پر تھا جو میری آؤ بھگت ہوپاتی۔ میں تو اپنے اخراجات اور اپنے طور پر اپنی من مرضی سے ہندوستان گھومنے پھرنے نیز اپنے ادبی کام کے سلسلے میں اور میوزک کے بارے خود ہی انجان لوگوں کو ا پنی  پہچان اور متعارف کروارہا تھا۔ چند ایک لوگوں نے میرا کلام پڑھا ہوا بھی تھا مگر اُن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔ اورپھر یہ دِلّی شہر نِرا جنگل کی مانند۔ اِنڈیا کا دارالخلافہ۔مصروف ترین۔وقت کی لوگوں کے پاس بالکل کمی۔ اور ایسے شہروں میں لوگوں سے تو کیا اپنے آپ کی بھی پہچان خود کو کروانی پڑتی ہے۔مگر میں نے دیکھا جو میرے تجربے سے بھی گذرا کہ جہاں بھی کہیں انجانی جگہ پر جائیں۔ کچھ نہ کچھ لوگ ایسے مل ہی جاتے ہیں جو اپنا کچھ نہ کچھ وقت بھی دوسرے کے ساتھ گذار سکتے ہیں اور رہنمائی بھی کرتے ہیں ۔ اور مجھے ایسے لوگوں کی ہمیشہ سرپرستی رہی ہے۔جو

 میرے ارادوں کو قوت بخشتی ہے۔ لہذا کُچھ دیر تک اکیڈیمی کے دفتر رُکنے کے بعد واپس ہوٹل آ گیا۔

                 میں یہاں فارغ بیٹھنے نہیں آیا تھا۔ مجھے تو کچھ نہ کچھ کرنا تھا۔ چاہے مکھیاں ہی کیوں نہ ماروں۔ مگر بیکار بیٹھنے سے مجھے ہمیشہ سے نفرت ہی رہی ہے۔ لہٰذا ہوٹل پہنچ کر راجندر جی سے بات ہوئی اور انہیں بتایا کہ کیوں نہ کُچھ ادبی شخصیات کو ہوٹل میں ہی بُلایا جائے اور اُن سے کُچھ سُنا اور کُچھ سُنایا جائے۔ راجندر نے حامی بھر لی کہ وہ یہ کام کرنے میں میری مدد کرینگے۔تاہم ہم دونوں نے کُچھ ادبی ہستیوں کو ٹیلیفون کئے اورہوٹل آنے کی درخواست کی ۔اس خیال کا نتیجہ اچھا نکلا اور یہ فیصلہ کامیاب رہا کہ جن جن لوگوں کو بھی بُلایا۔ اُنہوں نے اپنے قیمتی وقت سے وقت نکال کر ہوٹل میں آنے کی زحمت کی۔ اور بر وقت ہی آ گئے۔ میں نے اپنے ہی اخراجات پر مہمانوں کیلئے چائے پانی اور کھانے کا انتظام راجندر جی کے سپرد کر دِیا تھا جو اُنہوں نے نہایت بخوبی سرانجام دیا۔ آخر شام کو چند دانشوروں کا ایک چھوٹا سا مجمع  ایک مشاعرے کی شکل اختیار کر گیا ۔ موجود سبھی شعراء نے اپنے اپنے کلام کے بہترین نمونے پیش کِئے اور محفل کو زعفران بنایا۔ اس بزم میں جن سُخن وران نے حِصہ لِیا اُن کے نام ہیں:  ڈاکٹر موہن جیت ( پنجابی ادب نگار) ‘ ڈاکٹر برجندر چوہان (پنجابی غزل گو) ‘ شمشیر سنگھ شیر  
ؔ ( پنجا

ی؍اُردُو غزل گو) ‘ کشمیری لال شاکر (اُردو سُخن طراز)‘ سہیل اُلفت (اُردو شاعر) امرجیت سنگھ ‘ اور راجندر سنگھ (گُرمِت پرنٹنگ)۔ اُس کے بعد کھانے سے تواضع کی گئی۔ اور یہ شاندار شام ایک خوبصورت یادیں دیکر رُخصت ہوئی۔ اور سب دوست رات دیر تک میرے ساتھ اپنا گراں قدر وقت گذارنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو سدھارے۔

                       اپریل۔ ۸۔ ۲۰۰۴ئ؁(جمعرات):  ( بھارت میں گیارھواں (۱۱ ) دن ): آج کا سورج نئی دِہلی میں ہی جلوہ افروز ہُوا۔اورایک اور خوبصورت صُبح اپنے نئے انداز سے نمودار ہُوئی۔آج کا پروگرام راجندر جی کے ساتھ اپنی ایک ریکارڈڈ سی۔ ڈی۔ کے بارے معلومات حاصل کرنے کیلئے مختص کیا تھا۔ کیونکہ وہ سی۔ڈی۔ میں نے ریلیز کرنی تھی۔ میں نے وہ میوزیکل البم لاہورسے تیار تو کروا لیا ہوا تھا۔ مگر بعد میں اُس کی مارکیٹنگ کیسے کرنی ہے۔ اس بارے میں بالکل انجان تھا۔ اِس بارے راجندر جی کو بھی کوئی خاص جانکاری نہیں تھی مگر وہ مجھے چند ایک میوزک ڈیلروں کے پاس لے کر گئے۔ اُن کو سی۔ڈی کے گیت سُنائے۔ میری اس البم میں غُلام علی ‘ حامد علی خاں ‘ ریاض علی خاں اور میں نے خود بھی اپنی لِکھی ہوئی غزلیں اور گیت گائے ہوئے تھے۔ کچھ معلومات حاصل کیں مگر کوئی سود مند نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ کچھ دیر بازاروں میں گھومے پھرے اور پھر راجندر سنگھ کے دفتر واپس آ گئے۔ آج کا دن کوئی خاص اہمیت کا حامل ثا بت نہ ہوا۔ بس راجندر سنگھ کے دفتر میں گپیں ہانکنے کے سوا اور کوئی قابلِ ذکر واقعہ رونُما نہ ہونے پایا۔ اور شام ہو گئی پھر رات اور ہوٹل واپس آ کر نیند کی آغوش نے سنبھال لیا۔
                اپریل۔ ۹۔ ۲۰۰۴ئ؁(جُمعتہ المبارک): ( بھارت میں بارھواں (۱۲ ) دن ) : نیو دِلّی کے بڑے شہر میں طلوعِ آفتاب ہُوا۔ آج کا پروگرام خود ہی ایسے بنایا‘ کہ نمازِ جُمعہ جامعہ مسجد دہلی میں ادا کی جائے۔ پروگرام بنانے کیلئے خود ہی سے مشورہ کرنا پڑتا تھا۔ کوئی ساتھی ‘ کوئی مددگار ‘ کوئی صلاح کار ساتھ میں نہیں تھا۔ لہذا ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہُوا اپنا مُختصر سا سامان بیگ میں رکھا اور ہوٹل سے باہر۔ رکشا ؒلِیا اور جامع مسجد کو چل پڑا۔ ایک خیال یہ بھی آیا کی راستے میں شہلا نواب ایڈیٹر اُردُو ماہنامہ ’محفلِ صنم‘ سے بھی مِل لِیا جائے۔ جن کا دفتر

 جامع مسجد کے پہلو میں ہی تھا۔خیر جامع مسجد آ کررکشا چھوڑاکیونکہ دفتر ایک تنگ گلی میں تھااور وہاں پہنچنے کیلئے پیدل چلنا پڑا۔ دفتر ایک چھوٹے سے کریانے کی دُکان کے پیچھے تھا۔ مل گیا۔ وہاں ایک نوجوان کمپیوٹر پر کام کرتا نظر آیا۔اُس کے پاس بیٹھ گیا اور کچھ ادھر ادھر کی باتیں کیں۔ کیونکہ شہلا جی اُس وقت شہر سے باہر تھیں۔ دفتر ’محفلِ صنم ‘ پہنچتے پہنچتے مُغلیہ فنِ تعمیر اور صناعی کا بھی لُطف اُٹھایا۔ لاہور کا باسی ہونے کا مُجھے ایک یہ فائدہ ہُوا کہ میں دِلی کی جامع مسجد کے علاقے اور لاہور کی شاہی مسجد کے علاقے کا تقابلی موازنہ کر سکتا ہوں۔ اور کرنا ضروری بھی سمجھوں گا۔جیسے یہاں پر تنگ گلیاں جو چھوٹی اینٹوں کے بنے ہوئے مکانوں کے درمیان واقع تھیں ‘ اور کندھے سے کندھا لگا کر چلنے والے لوگوں میں سے گُذرنے پر محسوس ہُوا کہ میں لاہور کے ہی کسی اندرونی علاقے میں کہیں چل رہا ہُوں۔ دفتر سے نکل کر جامع مسجد جا پہنچا ‘ تو حیرانی کی کوئی اِنتہا نہ رہی یہ دیکھکر کہ جامع مسجد دِلی‘ بالکل بادشاہی مسجد لاہور کی سگی جُڑواں چھوٹی بہن کی مانند۔ وہی نقشہ ‘ حُلیہ ‘ وضع قطع‘ مگر صرف سائز میں چھوٹی‘ تقریباََ تین چوتھائی کے برابر۔ یوں کہیے کہ لاہور کی بادشاہی مسجد بڑی بہن اور دہلی کی جامع مسجد اسکی چھوٹی اور سگی بہن۔ مغلیہ خاندان کی تعمیرات کے زندہ شاہکار۔ نمازِ جُمعہ میں ابھی دیر تھی لہذا میں مین گیٹ سے اندر آکے ایک چبوترے پر بیٹھ گیا۔ اور آتے جاتے لوگوں کا نظارہ کرنے لگا۔ایسا منظر میں نے لاہور کی بادشاہی مسجد میں بھی ایسی ہی جگہ پر بیٹھ کر کئی بار کیا تھا۔یہاں پر اس دن یورپ کے کسی مُلک کا ایک گروپ بھی وہاں سیر و تفریح کے لئے آیا ہوا تھا اور وہ گورے لوگ مرد اور عورتیں مسجد کے اندر کے مُختلف حصوں کے علاوہ گھومتے پھرتے لوگوں کی فوٹو بھی اُتار رہے تھے۔ اِنڈیا کے مُختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگ بھی اپنے خاندان

ں کے ساتھ اپنے اپنے علاقائی لباسوں کے ساتھ ایک میلے کا منظر پیش کر رہے تھے۔ خوب رونق افروز سماں تھا دلی میں خوشگوار موسم کے ساتھ۔
                     جُمعہ کی اذان ہوئی اورجا بجا بِکھرے ہوئے لوگ مسجد کے برآمدے میں چلے گئے۔ پاک؍بھارت تعلقات اگرچہ اکژو بیشتر نازک حالات سے گذرتے رہتے ہیں ‘ اسلئے امام صاحب کو پولیس کی حفاظت میں منبر پر لایا گیا۔ امام صاحب نے نماز سے پہلے صرف خُطبہ ہی پڑھا۔ دو فرض کی جماعت کروائی ۔ اور بعد میں صرف فلسطین ‘ افغانستان‘ عراق اور چیچنیا کے مُسمانوں کے مسائل دور ہونے کی ہی دُعا مانگی۔ بس۔ عام مساجد کے اماموں کی طرح کِسی بھی سیاسی ‘ معاشی‘ سماجی یا مذہبی مسائل کے بارے کوئی تقریر یا لیکچر نہیں جھاڑا۔مجھ اکیلے کو اور تو کوئی خاص کام تھا نہیں ‘ لہٰذا ہوٹل واپس آ نا پڑا۔ راجندر سنگھ بھی وہاں آ گیا۔ اور ہوٹل والوں سے حساب کرنے میں میری مدد کی۔ کیونکہ میں آج شام کو لکھنئو روانہ ہو رہا تھا۔ اور وہاں کیلئے ٹکٹ خرید لیا ہوا تھا۔ہوٹل سے نکلتے نکلتے ایک اور دوست مِسٹر امرجیت ( ایڈیٹر: پنجابی ماہنامہ ’ عکس ‘ جو اکثر امریکا اپنے رسالے کی ترویج کیلئے آتے رہتے ہیں)  سے فون پر بات چیت ہوئی۔ امر جیت نے ملنے کو کہا مگر میں اگلے سفر کی تیاری میں تھا۔ ہوٹل سے نکل کر رکشا لِیا اور ریلوے سٹیشن پر جلد ہی پہنچ گیا۔ جو کہ بالکل قریب ہی تھا۔ قُلی نے سامان اُٹھایا۔ اور مُجھے لکھنئو جانے والی ٹرین کے پلیٹ فارم پر چھوڑ گیا۔

                         یہاں میں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جیسے میرے اردو ادبا و شعرا یہ سوچتے ہونگے کہ میں پنجابی ادب نگاروں سے زیادہ قریب ہوں تو اردو نگر جانے کا کیسے اور کیوں سوچا۔یہ یوں ہے کہ میں دونوں زبانوں پنجابی اور اردو میں برابر غزل کہتا ہوں اور میری ہندوستان میں پنجابیوں سے شناسائی کے علاوہ اردو کے ادب نگاروں سے بھی اسی ہی قدر بات چیت اور خط و کتابت رہتی ہے جتنی پنجاب کے پنجابیوں سے۔ اور میرا کلام بھی کافی اردو رسالوں میں گاہے گاہے آپ کی نظروں سے شاید گُذرتا بھی ہوگا۔یہاںمیں ہندوستان کے ان اردولکھاریوں کے نام بتانا مناسب سمجھتا ہوں۔ جن سے میرا مسلسل رابطہ ہے۔ ان میں چند ایک کے نام ہیں:  ڈاکٹر امام اعظم  ایڈیٹر سہ ماہی ’ تمثیلِ نو‘  دربھنگہ۔ کرشن کمار طُور ایڈیٹر ماہنامہ ’سر سبز‘  دھرمشالہ۔ افتخار امام صدیقی ایڈیٹر ماہنامہ ’شاعر‘  ممبئی۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی آف ماہنامہ ’ کوہسار ‘ بھیکن پور۔ محمد امین الدین آف ماہنامہ ’قرطاس ‘ ناگپور۔ ف۔س۔ اعجاز ایڈیٹر ماہنامہ ’ اِنشائ‘ کولکتہ۔ رشید قریشی ایڈیٹر ماہنامہ ’لا ریب ‘ لکھنئو۔ اور بہت سارے۔ ان سب اصحاب سے میری مُلاقات اور بات چیت کروانے میں جناب سحر اکبرآبادی (مرحوم) لاس انجلیز۔ امریکا اور جناب رئیس الدین رئیس علی گڑھ (اِنڈیا) پیش پیش ہیں۔ لکھنئو جانے کیلئے مُجھے محمد رفیع سنگر( مرحوم) کا ایک گیت: ’یہ لکھنئو کی سرزمیں۔۔۔‘  بھی لکھنئو کی سرزمین دیکھنے کا سبب بنی۔

                     دِلّی کے ریلوے سٹیشن پر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور پلیٹ فارم پر لکھنئو جانے والی ٹرین آ کھڑی ہوئی۔ اپنے والے ڈبے میں سوار ہُوا اور اپنی ریزرو سیٹ پر جا بیٹھا۔ ریزرویشن سلپ پر دِلی سے لکھنئو کا سفر ۵۱۶ کلو میٹر اور وقت۸ گھنٹے کا چھپا ہوا تھا۔  دلی سٹیشن سے ٹرین روانہ ہوئی اور ابھی اس کو پلیٹ فارم چھوڑے ایک گھنٹہ ہی ہوا تھا جب ٹکٹ چیکر آ گیا۔ اُس کے ہاتھ میں پانچ چھے صفحوں کی لسٹ تھی۔ میرے پاس آکر ٹکٹ کا پوچھا تو میں اپنی ریزرویشن سلپ اُس کے حوالے کر دی۔ ا س نے اپنی لسٹ پر جب میری سلپ کا اندراج نہ دیکھا تومیری ریزرویشن کی مکمل تفصیل پڑھ کر کہنے لگا۔ بھائی صاحب! آپ غلط ٹرین پر سوا ہو گئے ہیں۔ میں نے پوچھا۔ کیسے؟؟ تو جواب مِلا کی میری ریزرویشن دِلّی سے لکھنئو تک ضرور ہے مگر میرے والی ٹرین کا نام ہے ’ گومتی ایکسپریس ‘ہے۔ (جو دوسرے پلیٹ فارم سے آدھ گھنٹہ بعد میں چلنی تھی) جبکہ اس موجودہ ٹرین کا نام ’شرم جیوی ایکسپریس‘ ہے۔یہ سُننا  ہی تھا کہ میرے پیروں تلے سے ’ٹرین‘ نکل گئی۔مُجھے اپنی کم علمیت کا افسوس تو ہو اہی مگر لا پرواہی پر زیادہ غُصّہ آیا۔ افسوس اس بات پر کہ غیر مُلک کا سفر کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اُس ملک کی زبان پڑھنی اور لکھنی آنی چاہئے۔ گوہندی زبان بولنے میں تو اُردو جیسی ہی لگتی ہے مگر لکھنے اور پڑھنے میں ایسی جیسے ایک ان پڑھ کے آگے کتاب رکھ دی جائے پڑھنے کیلئے اور پوچھا جائے کہ کیا لکھا ہے؟؟۔جیسے کسی بھی ملک کا سفر کریں تو دکانوں دفتروں پر

 سائن اس ملک کی زبان کے ہونا لازمی ہیں۔ ایسے ہی ہندوستان میں گاڑیوں پر بھی تمام سائن ہندی میں ہی تھے۔ البتہ کہیں کہیں اردو میں تھے مگر وہ بھی شکستہ اردو میں۔نہ ہونے کے برابر۔ سو یہی وجہ بنی میری پریشانی کی۔اُس وقت مجھے ۱۹۴۷ئ؁ یاد آیا۔ جب بھارت نے پاکستان کو جنم دیا۔ اس وقت صرف ایک ملک ہی نہیں کٹا۔ بلکہ زبانیں بھی کٹ گئیں اور ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے لوگوں میں فاصلے بڑھنے کے علاوہ انسانوں میں بھی دوریاں بڑہ گئیں۔

                           اور غُصہ مجھے اپنے آپ پر اسلئے آیا کہ قلی کو سامان تھماتے وقت لکھنئو جانے کا تو بتادیا مگر کونسی ٹرین ہے۔ نہ بتا پایا۔ مُجھے بھلا کیا معلوم کہ ایک ہی سٹیشن سے دو دو ٹرینیںایک ہی جگہ جانے کیلئے تھوڑے تھوڑے وقفے اور دو مختلف پلیٹ فارموں سے روانہ ہوتی ہیں۔ کم از کم قُلی کو ٹرین کا نام ہی بتا دیا ہوتا۔تا کہ صحیح پلیٹ فارم پر پہنچا دیتا۔ دوسرا اتفاق یہ بھی ہوا کہ موجودہ ٹرین میں میری ریزرویشن والی سیٹ بھی خالی تھی۔ اگر یہ سیٹ کسی کے نام بک ہوتی اور اس سیٹ کا مسافر وہاں براجمان ہوتا۔ تو جلدی ہی جان چھُوٹ جاتی۔ اور صحیح صورتِ حال کا پتہ چل جاتا۔ مگر   ؎   ناکردہ را علاج نیست ۔۔۔والی بات ہوگئی۔ مجھے اس وقت انگریزی زبان کا ایک محاورہ بھی یاد آگیا۔ جو یوں ہے: '' If anything will go wrong, it will ''اب اپنی ہی غلطیوں کا نتیجہ بھگتو۔۔اشرف میاں۔۔خود سے کہا۔ مجھ سے ایسے ہی غلطی سرزد ہوئی جیسے ایک دیہاتی سٹشن پر کھڑا ہو تو کوئی بھی ٹرین آنے پر بلا سوچے سمجھے اور کسی سے پوچھے بغیر اس میں سوار ہو جائے۔اب تو گورنمنٹ سے نبردآزمائی کرناتھی۔ میں نے ٹی۔ ٹی۔ کو اپنی مجبوریاں اور کوتاہیاں سنانی شروع کیں۔ اور اس نے ریلوے کے قوانین سمجھنانے اور لاگو کرنے پر زور دیا۔ بابو کو میں نے یہ بھی بتایا۔ کہ میں پاکستان سے آیا ہوں اور ہندی سائن پڑھنے سے بالکل کورا ہوں۔ علاوہ ازیں قلی مجھے غلط پلیٹ فارم پر چھوڑ کرگیا ہے۔ بغیر ٹکٹ تو میں ہوں نہیں۔ چلئے اس پر بھی اگر میں قصوروار ہوں تو مجھے نیا ٹکٹ جاری کر دیا جائے۔ اور موجودہ ٹکٹ کی رقم کو جیسے سمجھیںadjust  کرکے بقایا مجھ سے وصول کر لیا جائے۔مگر اس وقت مَیں انڈین ریلوے کے انگریزی قانون کی زد میں تھا۔ اور ٹی۔ٹی۔ غلط ٹرین پر بیٹھنے کے جرمانے پر مصر تھا۔ میرے ساتھ سفر کرتے چند مسافروں نے بھی ٹکٹ چیکر سے میری مدد میں بحث کی۔ مگر وہ ٹس سے مس نہ ہُوا۔ مزید وہ اپنے ایک اور ساتھی کو اپنی مدد کیلئے بھی لیکر آ گیا۔ اور دونوں نے ملکر نہ صرف مجھے ایک نیا ٹکٹ جاری کیا بلکہ غلط گاڑی پر بیٹھنے کا جرمانہ بھی چارج کیا۔ لکھنئو دیکھنے کا شوق پورا تو ہوا مگر مہنگے داموں۔ خیر مسئلہ حل ہوا۔ تسلی ہوئی۔ جب لکھنئو پہنچا تو وہاں سٹیشن پر ریزرویشن والوں سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ایک فارم بھر کر دے دیا جائے۔ ریفنڈ ایک مہینے تک مل سکتا ہے کچھ کٹوتی کر کے۔ میرے پاس تو اتنا وقت ہی نہیں تھا ایسے جھمیلوں سے نمٹنے کیلئے۔ لہٰذا یہ سارا معاملہ رشید قریشی کے حوالے کیا۔ اللہ اللہ خیر سلّا۔ بعد میں مجھے معلوم نہیں کیا ہوا۔ نہ ہی قریشی صاحب نے کوئی خبر دی اس بارے اور نہ ہی مجھے کوئی مطلب ہے اس جھمیلے سے۔

                 اپریل۔ ۱۰۔ ۲۰۰۴ئ؁(ہفتہ):(بھارت میں تیرھواں (۱۳ ) دن  لکھنئومیں ) : نئے دن کی شروعات ٹرین میں ہی ہوئی۔نہ جانے کونسا علاقہ تھا جہاں رات کے بارہ بجے اور نیا دن شروع ہوا۔ مگر جب میں لکھنئو ریلوے سٹیشن پر پہنچا تو اس وقت دوپہر ڈھل چکی تھی۔ سٹیشن سے باہر نکلا۔ اور رشید قریشی ایڈیٹر ماہنامہ ’ لا ریب ‘ کو فون کیا۔ مگر فون نہیں ملا۔ دلی سے روانہ ہونے سے قبل بھی میں نے انہیں فون کرنے کی کوشش کی تھی مگر نمبر نہ ملنا نہ ہی ملا ۔( کیونکہ میں نے اپنی ڈائری پر قریشی صاحب کا نمبر ہی غلط نوٹ کیا ہوا تھا)۔ اتفاق سے قریشی صاحب کے دفتر کا پتہ بھی میرے پاس موجود تھا۔ سو رکشا لیا اور سیدھا محلہ امین آباد ان کے دفتر کا رخ کیا۔ رکشے میں سواری کے دوران ’ یہ لکھنئو کی سرزمیں ‘  والا تصور دھندلا گیا۔ جب رستے میں سڑکوں کی دونوں جانب جگہ جگہ پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر اور جا بجا سڑک پر ٹبے ‘ ٹوٹ پھوٹ ا ور فُٹ پاتھوں سے محروم سڑکیں اپنی کسمپرسی کی داستاں سناتی ہوئی دیکھیں۔ عام لوگوں کے چہروں اور لباس سے ان کی غریبی کی جھلک بھی نظر آئی۔ ابھی ایک بند دکان کے تھڑے پر بیٹھے دو لوگوں سے قریشی صاحب کا پتہ پوچھا ہی تھا کہ قریشی صاحب کو فوراََ پتہ بھی چل گیا اور میرے دفتر پہنچنے سے قبل ہی باہر سڑک پر تشریف لے آئے۔ ان سے میری پہلی بار ہی ذاتی طور پرملاقات ہورہی تھی۔ وہ مجھے ملے اور ملتے ہی اسی وقت نزدیکی ہوٹل ’گُل مارگ ‘ لے گئے اور مجھے وہاں کمرہ بُک کروانے میں میری مدد کی۔ کچھ دیر میرے ساتھ کمرے میں بیٹھے ‘ ہم دونوں نے چائے پی۔ نیز انہوں نے ویٹر کو میری خصوصی دیکھ بھال کی ہدایات بھی جاری کیں اور اگلے دن ہوٹل آنے کا وعدہ کرکے اپنے گھر چلے گئے۔میں نے کمرے پر قبضہ کرتے ہی منہہ ہاتھ دھویا۔ کھانا منگوایا۔ کھایا اور کھانے کے بعد تھکاوٹ کی وجہ سے بھرپور نیند آئی۔     
                 اپریل۔ ۱۱۔ ۲۰۰۴ئ؁(اتوار): (بھارت میں چودھواں (۱۴ ) دن ) : لکھنئو شہر کی سر زمین پر صبح کی آمد ’گل مارگ ‘ ہوٹل میں ہوئی۔ قریشی صاحب بھی ہوٹل میں آ گئے اور ناشتہ میرے ساتھ ہی کیا۔ قریشی صاحب بہت مخلص ‘ ہمدرد اور نیک طبع انسان ہیں۔ مالی طور پر تھوڑا کمزور ہیں مگر شاعری میں اتنے ہی مضبوط۔ وہ کافی دیر ممبئی میں بھی مقیم رہے ہیں اور اپنی بمبئی میں رہائش کے دوران نقش لائلپوری ( شاعر) اور فلمی گیت نگار اور موسیقار راوندر جین کے ساتھ بھی کام کیا ہوا ہے۔ میری اچانک لکھنئو آمد پر انہوں نے ہوٹل سے جاتے ہی  مقامی شعراء کو ٹیلیفون کردئے تھے لہٰذاآج انہوں نے ہنگامی طور پر اپنے دفتر میں کچھ شعرا کو بلایا اور ایک چھوٹے سے مشاعرے کا اہتمام بھی کر ڈالا۔اور جو شعراء اس محفل میں شامل ہوئے ان کے نام تھے: جناب نفیس غازی پوری ‘ جناب شاہ نواز قریشی ‘ مسٹر لکھنوی ( مزاحیہ شاعر)  جناب معراج ساحل ‘ جناب طیب عثمانی ‘ جناب آفتاب اثر ‘ اشعر علیگ اور ہارون رشید صاحب۔ قریشی صاحب نے مشاعرے کے بعد خصوصی طور پر مجھے نذرانہء عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا: ’’ اشرف صاحب! لکھنئو والے کسی کو داد نہیں دیتے ‘ مگر آپ داد سمیٹ کر لیکے جا رہے ہیں۔‘‘  ان کی اس بات کو مزید تقویت دیتے ہوئے جناب ڈاکٹر معراج ساحل لکھنوی سیکریٹری ’ بزمِ شمس ‘ چکمنڈی ۔ لکھنئو ‘ نے ایک اپنے قطعے کے ذریعے مُہر ثبت کی:             ؎  مظہرِ انکسار ‘ اشرف گِل۔۔۔۔ہیں ادب کی بہار ‘ اشرف گِل

                     آپ  امریکہ سے یہاں آئے۔۔۔۔لکھنئو ہے نثار ‘ اشرف گِل۔
                      اپنی اتنی عزت افزائی ہوتی دیکھکر مجھے دلی خوشی تو ہوئی ہی مگر زیادہ مسرت سب احباب کا بلند اخلاق اور لکھنوی روائتی کردار دیکھکر ہوئی۔ بعد ازیں قریشی صاحب نے مجھے لکھنئو کے چند مشہور علاقوں کا دورہ بھی کروایا۔ جن میں خاص طور پر ’حضرت گنج ‘ شامل ہیں ۔ دن بہت خوشگوار گذرا۔ شام ہوئی ۔ اور واپس ہوٹل آکر رات گذاری۔

                       اپریل۔ ۱۲۔ ۲۰۰۴ئ؁(سوموار): بھارت میں پندھرواں (۱۵) دن: لکھنئو میں آج کا دن اپنی آن بان کے ساتھ شروع ہوا۔ آج کی صبح قریشی جی نے میرے لئے ناشتے کا خاص اہتمام اپنے گھر کیا ہوا تھا۔ ان کے گھر جا کر ’ نہاری‘ کھائی۔ ان کی بیگم ‘  دو

 بیٹوں اور بیٹی نے میری خدمت میں کوئی کسر نہ اٹھارکھی۔ بہت اچھی فیملی ہے قریشی صاحب کی۔ بعد میں قریشی صاحب مجھے اس وقت ہو رہے ایک سیمینار میں لے گئے جو ’ آل انڈیا ہندی اردو ساہتیہ کمیٹی ‘ کی جانب سے ’ رائے اوما ناتھ بالی آڈیٹوریم ‘  قیصر باغ میں منعقد ہو رہا تھا۔ اس پروگرام کی صدارت پروفیسر وارث کریمی ( علی گڑھ ) کر رہے تھے۔ وہاں کچھ اور شاعروں سے بھی ملاقات ہوئی۔ جن میں شامل ہیں : ابراہیم اشک (فلم: کوئی مل گیا۔ کے علاوہ اور کئی فلموں کے گیت نگار) ‘ راحت اندوری (شاعر:  فلم:منا بھائی ایم۔ بی۔ بی۔ ایس۔ کے علاوہ اور کئی فلموں کے گیت نگار) ۔ وغیرہ۔ اس پروگرام کے بعد میں اورقریشی صاحب ہوٹل واپس آئے۔ ہوٹل کا حساب چکایا۔ اور اگلے سفر کے لئے رونہ ہو گیا۔ اتفاق سے راحت اندوری جو میرے والے ہوٹل میں ہی ٹھہرے ہوئے تھے اور اسی ہی دن اندور جا رہے تھے۔ نیز میرے والی ہی گاڑی کا ٹکٹ بھی ان کے پاس تھا۔ جس سے میں بھوپال جانے والا تھا۔ ہوٹل سے فارغ ہونے کے بعد میں اور راحت دونوں بعد دوپہر رکشا لے کر ریلوے سٹیشن کی جانب روانہ ہو گئے۔ شام ہو چکی تھی جب ٹرین لکھنئو سے بھوپال روانہ ہوئی۔ راحت اور میری سیٹ بھی ایک ہی ڈبے میں ساتھ ساتھ اتفاق سے نکل آئی ۔ جس سے سفر بہت ہی ساتھ اچھا رہا جب ہم نے دوستی پیدا کر لی اور اپنی اپنی کتابوں کا بھی ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ کیا۔ میں نے راحت کو اپنی کتاب ’چلو اک ساتھ چلتے ہیں ‘ پیش کی اور راحت نے مجھے اپنی کتاب ’ ناراض ‘ پیش کی۔ کچھ دیر باتیں ہوئیں۔ اور پھر کافی رات ہو گئی اور نیند آ گئی اور ساری رات بھی ٹرین میں ہی گذر گئی۔    

                 اپریل۔ ۱۳۔ ۲۰۰۴ئ؁(منگلوار): ( بھارت میں سولھواں (۱۶ ) دن ) :  بھوپال سٹیشن پر صبح دس بجے ٹرین سے اترا۔ راحت بھی بھوپال سٹیشن پر ہی اترے اور اندور کیلئے ٹیکسی کرائے پر لی۔انہوں نے اندور جاتے جاتے راستے میں مجھے جناب اقبال بخت ‘ چیف ایڈیٹر ماہنامہ ’ ہمارا ادب ‘ کے ہاں چھوڑ دیا۔ اقبال بخت یہاں کی ’ بزم اقبال ‘ کے جنرل سیکریٹری بھی ہیں۔ وہ میرا انتظار کر رہے تھے کیونکہ میں نے انہیں ایک دن پہلے فون پراپنے آنے کی اطلاع دے دی ہوئی تھی۔ بھوپال آنے کا مقصد بھی یہاں بتانا ضروری سمجھتا ہوں۔ وہ ایسے ہوا۔کہ یہاں لاس انجلیز (کیلیفورنیا ) میں کافی سال پہلے ایک مشاعرے میں جو مسٹر رحمان ساز( ایک نامور شاعر) نے کروایا تھا۔ وہاں پر ایک شاعر جناب عبدالغفار عزم صاحب جو بھارت میں پیدا ہوئے اور حال انگلینڈ رہتے ہیں۔ وہاں مدعو تھے۔ میری ملاقات عزم صاحب سے ہوئی تھی۔ اور پھر دوسری ملاقات حال ہی میں میرے دورہ لاہور میں جب وہ اپنے ایک دوست میجر خواجہ طارق محمود کے ہاں قیام پذیر تھے۔ ان سے پھر اتفاقیہ ہو گئی۔ اور میں نے خواجہ طارق کے ہاں ایک مشاعرہ محفل میں سرسری طور پر اپنے بھارت جانے کا ذکر کیاتھا۔ تو عزم صاحب نے مجھے بھوپال جانے کا بھی مشورہ دیا تھا۔ اور میں بھوپال پہنچ گیا۔ بھوپال کے اقبال بخت ایک سنجیدہ ادب شناس ‘ با اخلاق ‘ سماج سے منسلک ‘ اور مالی طور پر بھی ٹھیک ٹھاک شخصیت ہیں۔ انہوں نے میرے یہاں آنے کے بارے کافی ادبی ہستیوں کو پہلے ہی بتادیا ہوا تھا۔ان سے ملاقات ہوئی۔ مختلف موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ اور شام کو مجھے پر تکلف دعوت سے بھی نوازا گیا۔

                     اقبال جی کی اطلاع کے مطابق شام ہوتے ہی لوگ آنے شروع ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اُن کے بڑے مکان کے ایک صحن نما حال میں ہجوم لگ گیا۔ جہاں پر باقاعدہ وہاں سٹیج بھی تھی اور معلوم ہوتا تھا۔ کہ وہاں اکثر ایسی محفلیں جمتی رہتی ہیں۔ لگ بھگ

 ۷۰؍۸۰ خواتین و حضرات کا مجمع ہو گیا۔ اقبال جی چونکہ بجلی کے کنٹریکٹر ہیں اس لئے سائونڈ سسٹم کا بھی خاص انتظام تھا۔ ایک شاندار مشاعرے کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ صدارت پروفیسر سید اختر (ریٹائرڈ ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن) نے کی۔ سٹیج سیکریٹری کا کام دھیمی اور پر اثرآواز کے مالک نوجوان شاعر بدر واسطی نے سر انجام دیا۔ کچھ شاعروں کی سریلی آوازوں نے بھی محفل کو زعفران بنایا۔ آواز کی جادوگری شاید بھوپال کی آب و ہوا میں شامل ہے۔ جیسے ثریا بھوپالی کی سریلی آواز اس بات کا زندہ ثبوت ہے۔ بھوپال والوں کے زندہ دلی کے کچھ اور مظاہر بھی سامنے آئے۔ جیسے حاضرینِ محفل نے مجھے سپیشل درخواست کی کہ میں انہیں اپنی پنجابی کی غزل پیش کروں۔میں نے ا نہیں بتایا بھی کہ’ پنجابی ‘ ایک تو زبان مختلف ہے اور الفاظ بھی اردو زبان سے جدا اور ادائیگی بھی الگ۔۔ جیسے  ؎ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔۔والی بات ہے۔گویا میرا پنجابی کلام سب کے سروں کے اوپر سے نکل جائیگا۔ مگر سب نے اصرار کیا۔ مجھے اپنی پنجابی غزل سنانے پر۔ لہٰذا میں نے اپنی پنجابی غزل پیش کی اور بیشمار داد بھی وصول ہوئی۔  میں بھوپال کے ادب دوستوں کو سلام کرتا ہوں ان کے اعلیٰ ظرف

 پر اور مہمانوں کی قدردانی کی روائت کے اقدار جاننے اور نبھانے پر۔ علاوہ ازیںاقبال جی کے سارے گھر والوں نے میری بہت خدمت کی اورپر تکلف کھانوں سے مہمان نوازی کرکے پنجاب کی روائتی زندہ دلی یاد دلوادی۔ مشاعرے کے اختتام پر انڈیا  ٹی۔ وی۔ والوں نے بھی میرا مختصر انٹرویو کیا۔ اس یادگار محفل میں جن خواتین و حضرات نے شمولیت کی ان میں کچھ خواتین و حضرات کے نام ہیں: امتیاز انجم ‘ فاروق انجم ‘ انور ایچ محمود ‘ عارف علی عارف ‘ اقبال بیدار ‘ رفیق بیکس ‘ مسز ممتاز صدیقی ‘ عزیز روشن ‘ مس پروین صبا ‘ شاہد کمال ‘ رہبر جونپوری ‘ ( نے اپنی مشہور نظم ’شکوہ ‘ سنائی۔) ‘ ارمان اکبرآبادی ‘ سراج ایم۔ خان سراج ‘ اورمسز اوشا بھداریا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ محفل تمام ہوئی اور اگلے دن کے انتظارمیں اقبال جی کے گھر ہی رات گذاری ۔

                  اپریل۔ ۱۴۔ ۲۰۰۴ئ؁(بُدھوار): (بھارت میں سترھواں (۱۷ ) دن ) :  صبح کی شروعات اقبال بیدار کے گھر بھوپال

  میںہوئی۔ ناشتہ کیا اور اقبال جی مجھے ایک بازار میں لے گئے جہاں انہوں نے اپنے کچھ دوستوں سے میری ملاقات کروائی۔ نیز میرے لئے جالندھر جانے کیلئے ٹکٹ خریدنے میں میری مدد کی۔ پھر ہم لوگ گھر واپس آئے۔ سامان لیا اور اقبال جی میرے ساتھ ہی سٹیشن پر مجھے الوداع کرنے آئے اور بذات خود مجھے ٹرین میں بٹھا کر گئے۔ ان کے پر خلوص رویے کا تہہ دل سے شکریا ادا کرتا ہوں۔

                   بھوپال سٹیشن سے’دادر امرتسر ایکسپریس ‘ ساڑھے تین بجے بعد دوپہر جالندھر کیلئے روانہ ہوئی۔ اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا اور لوگوں کی آمدورفت کا نظارہ کرنے لگا۔ ٹرین میں یہ میری زندگی کا دوسرا لمبا سفر تھا۔ میری ریزرویشن سلپ بھوپال سے جالندھر ۱۱۲۹ کلو میٹر دکھا رہا تھی۔ اس سے تھوڑا ہی کم سفر جو میں نے ۱۹۷۶ء میں لاہور سے کراچی تک کیا تھا۔ جب میں اپنی ماں کو حج کیلئے بذریعہ بحری جہاز کراچی تک چھوڑنے گیا تھا۔ ٹرین میں بیٹھ کر گویا زبان پر تالا سا لگ گیا۔ کیونکہ ساتھ میں کوئی سنگی نہ ساتھی اور نہ ہی کوئی واقف کار جس سے کوئی بات چیت کی جا سکے ۔ رات گہری ہوتی چلی گئی اور لوگ سونا شروع ہو گئے۔ اور مجھے جب تک نیند نہیں آئی‘ تاریک رات میں آسمان کے تارے گننے کی کوشش کرتا رہا مگر وہ بھی گاڑی کی تیز رفتاری کی وجہ سے نہ گن پایا۔ چاروں طرف گھپ اندھیرا دور دور تک۔ کہیں کہیں کوئی بجلی کا بلب جھلملاتے تارے کی مانند نظر آ جاتا۔ اس کے بعد پھر سیاہی کے بادل ماحول کو اپنی گود میں لے لیتے۔ جب کوئی شہر آتا تو ماحول جھلمل جھلمل کرتا۔ مگر بعد میں وہی قبر جیسی تاریکی کا سماں۔ ٹی۔ ٹی۔ بھی تبھی ڈبے کا دورہ کرتا جب ٹرین کسی سٹیشن پر رکتی اور کچھ سواریاں اترتیں اور سوار ہوتیں۔ جب کچھ خاموشی ہوتی تو چوہے بھی ادھر ادھر پھرتے نظر آتے نیچے گری ہوئی خوراک سے اپنی بھوک مٹانے کیلئے۔ شاید چوہوں نے اپنے گھر ٹرین میں ہی بنا رکھے تھے۔ اور یہ سب منظردیکھتے دیکھتے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب نیند آئی کب رات گئی سورج کب طلوع ہوا۔ اور کس علاقے میںصبح ہوئی۔ مگر جب آنکھ کھلی تو ٹرین لدھیانہ (پنجاب) سٹیشن کے پاس راستے میں پلیٹ فارم سے پہلے ہی ایک جگہ پر کھڑی ہوئی تھی۔ اور شہر کے لوگ ریل پٹڑی پار کرنے کیلئے بوگیوں کے دروازوں میں سے گذر کر ادھر سے ادھر آ جا رہے تھے۔ گاڑی سٹیشن سے باہر تقریباََ ایک گھنٹہ کھڑی رہی اوراس وقت  لدھیانہ میں دوپہر کا وقت تھا۔ کچھ دیر ٹرین لدھیانہ سٹیشن پر آ کر کھڑی ہوئی اور پھر جالندھر کو روانہ ہو گئی۔

               اپریل۔ ۱۵۔ ۲۰۰۴ئ؁(جمعرات): ( بھارت میں اٹھاروں (۱۸ ) دن ) : ایک بہت لمبا سفر طے کرنے کے بعد خدا خدا کرکے آخر ٹرین جالندھر سٹیشن پر آن رکی۔ اس وقت ساڑھے تین بجے بعد دوپہر کے تھے۔ جالندھر میں یہ میرا دوسرا پھیرا تھا۔ پیشتر ازیں میں جولائی ۲۰۰۰ء میں بھی یہاں آیا تھا۔ اور ۸ دن یہاں رہا تھا اور صرف پنجاب کے چند شہروں کا ہی دورہ کیا تھا۔ اس وقت کے حالات چونکہ نہیں لکھ سکا تھا جو بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ اسلئے میں اگر نہ بتاؤں تو شاید یہ کچھ لوگوں سے بے انصافی ہو گی جو ان حالات سے متعلق ہیں اور حق رکھتے ہیں کہ ان کے اعلی اخلاق ‘ احسانات اور اقدار کو اجاگر کیا جائے۔ اور ان لوگوں کیلئے بھی بیان کرنا لازم ہیں جو اس قسم کے واقعات پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں۔

                      تو سنئیے میرے ۸ دنوں کے واقعات جو میں نے جولائی ۲۰۰۰ئ؁ کے آخری دنوں میں پنجاب۔ انڈیا میں گذارے: الیاس گھمن جو پنجابی زبان کے بہت بڑے افسانہ نگار ہونے کے علاوہ پنجابیت کے علمبردار اور پنجابی لٹریچر کی ترویج کیلئے دل و جان سے کوشاں اور سرگرم ہیں ‘ ان کے مشورے کے ساتھ میں بذریعہ واہگہ جی۔ ٹی۔ روڈ سے اٹاری آیا تھا۔ الیاس گھمن ہی مجھے واہگہ چھوڑ گئے اور دوسری جانب سوہندر بیر (ساہتکار) اور راجندر سنگھ جولی پروفیسر گرو نانک دیویونیورسٹی امرتسر‘ مجھے اٹاری سے اپنی کار پر امرتسر لے گئے اور وہاں سے سوہندر جی مجھے جالندھر لے جا کرمسٹر ستنام مانک ایڈیٹر رونامہ ’اجیت‘ کے ہاں چھوڑ گئے۔ پھر تمام آٹھ دن ان کے گھر ہی قیام کیا۔ اور ان کی مدد سے ہی پنجاب کے کافی علاقوں کا دورہ بھی کیا۔ وہ میری زندگی کا بہترین حصہ یوں بھی ہے کہ مجھے انڈیا کے لوگوں نے وہ عزت بخشی اور میرے کلام کو سراہنے کے نتیجے میں بہت سارے ایوارڈز سے نوازا۔ اگران لوگوں کی مہمان نوازی کو سنہری حروف میں بھی لکھا جائے تو کم ہے۔ اور جن جن خواتین و حضرات سے ملاقات ہوئی ان کا مقام میرے دل میں آجتک محفوظ ہے۔ ستنام مانک نے مُجھے ایک  ڈرایئور ملوک سنگھ کے ساتھ منسلک کر دیا۔ جو مجھے جگہ جگہ لے کر جاتا رہا اور لوگوں سے ملواتا رہا۔ ملوک سنگھ مجھے ایک دن لدھیانہ لیکر گیا اور وہاں میری ملاقات مسٹر گربھجن سنگھ گِل کے ساتھ ہوئی۔ گربھجن لدھیانہ شہر کے سرکردہ سماجی اوبی اور سیاسی شخصیت ہیں۔ انہوں نے نہ صرف

 مجھے بڑی بڑی ادبی شخصیات سے ملوایا بلکہ میری ادب کے میدان میں آمد کا تعارف کروا کے بہت سارے ایوارڈوں سے بھی نوازا۔ اور پھر نہ بھولنے والی کتنی یادوں کے ہار میرے گلے پہنائے۔ جو ابھی تک میری زندگی کا سرمایہ ہیں۔ اسی ہی دوران ایک رات اور ایک دن چنڈی گڑھ بھی رہا۔ جہاں پر پنجاب یونیورسٹی بھی گیا۔ اور دیکھ کر حیران ہوا کہ لاہور والی ہی پنجاب یونیورسٹی ہے۔جہاں سے میں نے بھی بی۔ اے۔ کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے۔ یاد آ گیا۔ یونیورسٹی میں پنجابی ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر او۔ بی۔ واشدتا اور ایک بہت بڑے پنجابی ادب کے ماہر اور استاد جناب کرنیل سنگھ تھند سے بھی ملا۔ تھند صاحب اس وقت اپنی ایک کلاس ( جوسکول کے اساتذہ پر مشتمل تھی ) کو لیکچر دے رہے تھے۔ انہوں نے مجھے اپنی کلاس سے متعارف کروایا۔ اور مجھے اپنے خیالات اور میرا کلام پیش کرنے کا موقع بھی فراہم کیا۔ پھر یونیورسٹی کے اردو ڈیپارٹمنٹ میں بھی جانا ہوا۔ اور وہاں کے چیئرمین جناب ڈاکٹر ایم۔ ایس۔ عباس رضوی (مدھوکر) سے ملاقات ہوئی۔ اور اپنے اردو کلام کے بھی کچھ نمونے موجودہ حاضرین کو پیش کئے۔ بعد میں مدھوکر جی نے ایک اور ہندی شاعر( نام اس وقت یاد

 نہیں) جو پوسٹ آفس کے بہت بڑے افسر تھے کے ہاں بھیجا۔ انہوں نے اپنے گھر میں مجھے بلا کر اپنا  ہندی کلام سنایا اور میرا سنا بھی۔

                      اسی ہی  دورے کے دوران میں سکھوں کے آخری گرو گوبند سنگھ جی کی پیدائشی جگہ آنند پور صاحب بھی دیکھا۔ اور

 پھر ایک شام میرے اعزاز میں جالندھر کے ’دیش بھگت ہال ‘ میں ’روبرو‘ پروگرام میں مجھے اپنے خیالات اور شاعری پیش کرنے کا موقع دیا گیا۔ وہاں پر جالندھر کے دوسرے بڑے پنجابی روزناما ’نواں زمانہ ‘ کے مالک جناب جگجیت سنگھ آنند اور ان کی بیگم ارملا جی سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ پہلی ملاقات ان کے دورہ امریکا کے دوران یہاں فریزنو میں ہوئی تھی۔ اس اخبار نے میرا انٹرویو اور میری شاعری کو کافی بار اپنے اخبار کی نظر کیا ہے۔ دیش بھگت ہال میں جن ادبی دوستوں سے ملاتھا وہ ہیں : ڈاکٹر جگتار (مرحوم) (مشہور غزل گو اور نقاد) ‘ وریام سندھو (افسانہ نگار) ‘  مسٹر ستیش۔ مالک پنجابی ماہناما (وریام) ‘ ڈاکٹر نرمل سنگھ جو نزدیکی ملحقہ علاقے ’لانبڑا‘ میں اپنی مدد آپ کے تحت ہائی سکول چلا رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے سکول جا کر ان کا تمام سسٹم دیکھا اور بچوں سے ملاقات کرکے ان سے باتیں بھی کیں۔ جالندھر کے ’خالصا کالج‘ بھی گیا اور وہاں کے پنجابی ڈیپارٹمنٹ کے بچوں سے سوال جواب کا سلسلہ بھی ہوا اور ان کے ساتھ کافی گپ شپ رہی۔

                      ۲۰۰۰ئ؁ کے ہی دوران ہنس راج ہنس(مشہور گلوکار۔فلمی گیت: عشق دی گلی وچوں کوئی کوئی لنگھدا۔۔۔اور بہت سارے گیتوں کے گائیک) سے دو بار جالندھر میں ملاقات ہوئی: ایک بار ان کے گھر ستنام مانک کے ساتھ گیا۔۔۔اور دوسری بار فاروقی صاحب ۔ ایس۔ ایس۔ پی۔جالندھر کے گھر‘ ان ایک سالہ کے بیٹے کی سالگرہ کے موقع پر۔ اور ان کے مشہور گیت سنے۔ ہنس راج سے ویسے بھی کیلیفورنیا میں کئی بار ملاقات ہو چکی ہے۔بہت اچھے گلوکار ہیں۔اور اسی ہی دوران میری لاہور واپسی پر مانک جی نے مجھے جناب برجندر سنگھ ہمدرد مالک پنجابی روزنامہ ’اجیت ‘ جالندھر سے بھی ملوایا۔ انہوں نے میرے ساتھ میرے دورے کے بارے ‘ میری ادبی مصروفیات کے متعلق ‘ و دیگر مصروفیات کی بابت باتیں کیں۔ برجندربہت خوش اخلاق اور ہنس مکھ نوجوان ہیں۔ اور مجھے خیر سگالی میں پنجیری کا ڈبا عنایت کیا۔ یہ تفصیل مجھے اسلئے لکھنی پڑ رہی ہے کیونکہ اس وقت میں اپنا یہ چھوٹا سا دورہ مگر یادوں سے بھرپور سفرنامہ نہ لکھ سکا۔ ان سب لوگوں کا شکریا ادا کرنا مجھ پر ادھار بھی تھا اور قرض بھی۔ اور اس سفر کا اہتمام لاہور میں جناب الیاس گھمن نے کیا تھا۔ اور اس سارے پروگرام کو مکمل کرنے میں جناب ستنام مانک نے بخیر و خوبی انجام تک  پہنچانے میں میرا ساتھ دیا۔ یہ شکریہ میں اب ادا کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں جو کر رہا ہوں۔  


                        اب موجودہ دورے کے دوران ۲۰۰۴ئ؁ میں جب جالندھر میں ہوں۔ مجھے خاموش جی کے ذریعے سے مزید احباب کو ملنے کے مواقع میسر آئے۔ لاہور واپس جا تے جاتے جب جالندھر پہنچا تو خاموش جی کو فون کیا۔ ان سے یہاں کے کچھ احباب کے فون نوٹ کئے۔ مگر یہاں جالندھر سٹیشن سے نکل کر سب سے پہلے ایک حجام کی دکان پر گیا۔ کافی دنوں سے در بدر پھرتے اپنے بکھرے ہوئے مٹھی بھر بالوں کو سنوارنے کیلئے۔جالندھر سٹیشن کی سامنے والی گلی میں آ کر ایک نوجوان حجام روی کمار کی دکان پر آ گیا۔ اس کے کچھ ہم عمر دوست اس وقت لاہور میں ہو رہے پاکستان؍بھارت کے مابین ہو رہے کرکٹ میچ پر تبصرہ کر رہے تھے۔ اپنے بال کٹوائے اور پہلا ہی فون کیا جو مسٹر سکھپال سنگھ تھند تھے اور وہی مجھے تھوڑی ہی دیر میں میری بتائی ہوئی جگہ سے اپنے سکوٹر پر بٹھا کر اپنے گھر ہی لے گئے۔ میں نے انہیں بولا بھی کہ میرا انتظام کسی ہوٹل میں کر دیا جائے ۔مگر خالص پنجاب کے پنجابیوں کی مہمان نوازی کے آگے بھلا کس کی چلتی ہے۔ وہ اپنی زندہ دلی کا مظاہرہ کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ نوجوان سکھپال ایک مخلص ‘ جی دار ‘ اور ملنسار انسان ہیں۔ وہ اپنی بیوی ایک بیٹے اور ایک بیٹی کے ساتھ ایک دو منزلہ مکان جو کھیلوں کے کالج کے میدان کے پاس ہے۔ رہتے ہیں۔ سکھپال خود کپورتھلہ کالج میں پروفیسر ہیں اور ان کی بیوی گورنمٹ آرٹس اینڈ سپورٹس کالج میں کام کرتی ہیں۔ سکھپال بذات خود ایک لکھاری بھی ہیں اور نثر لکھنے کے ساتھ ساتھ نقاد بھی ۔ مجھے ان کی گرمکھی میں لکھی کتاب سے کچھ فقرات پڑھنے سے محسوس ہوا کہ وہ الفاظ کو طریقے سے باندھنے اور مناسب ذریعے سے استعمال کرنے اور بیان کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ نثر نگاری میں ان کا ایک خاص مقام نظر آیا۔ مجھے ان کے مکان کی دوسری منزل پر گیسٹ ہائوس میں ٹھہرا دیا گیا۔ جو شاید ایک مہمان کی ہی انتظار میں تھا۔ سکھپال نے کمرے کا گرد و غبار صاف کیا اور جام ہوئی کھڑکیوں کو کھولنے پر خوب زور آزمائی کی۔ ایئر کولر بھی چالو کیا۔ میں نے کمرے پر قبضہ کرتے ہی شاور لیا۔ پھر کھانا کھایا۔ اور سکھپال کے ساتھ ادھر ادھر کی گپیں ہانکیں۔ اپنے دورے کے حالات مختصراََ بتائے۔ رات کافی ہو گئی اور پھر تھکاوٹ کو دور کرنے کیلئے نیند نے مجھ پر قبضہ کر لیا۔  
                      اپریل۔ ۱۶۔ ۲۰۰۴ئ؁(جُمعتہ المبارک): ( بھارت میں انیسواں (۱۹ ) دن ) : جالندھر شہر میں آج کے دن کی شروعات سکھپال تھند کے گھر میں ہوئی۔ یہ دن کام کاج کرنے والوں کیلئے مصروف مگر میرے جیسے آوارہ گردکیلئے بالکل فارغ۔۔یعنی ہر دن عید کے دن جیسا۔ مگر پھر بھی مجھے تو کچھ نہ کچھ کرنے کو چاہئے تھا۔ کسی نئے دوست کی تلاش یا پھر کوئی جگہ آوارہ گردی کیلئے۔ اور یہ کام میں اکیلے بھی تو نہیں کر سکتا تھا۔ کوئی ساتھی چاہئے تھا اس کام کوعملی جامہ پہنانے کیلئے ۔ خیر صبح کا ناشتہ مسز سکھپال نے ہمیں کروایا اور اپنے کام پر چلی گئیں۔ اور سکھپال نے کالج جانا تھا۔۔اب میں کیا کروں؟؟ سکھپال نے مجھے اپنے ساتھ لیکر جانے اور پھر واپس لے آنے کے بارے کہا مگر میں نے سوچا کہ ڈاکٹر جگتار (مشہور غزل گو اور نقاد) کے ہاں چلا جاؤں۔ ان سے میری ملاقات امریکا میں بھی ہو چکی تھی اور اچھی جان پہچان بن چکی تھی۔ لہذا سکھپال کو ڈاکٹر جگتار کے گھر چھوڑنے کو کہا۔ سکھپال نے ڈاکٹر صاحب کو فون کیا ۔نہ جانے کیا جواب ملا۔ مگر وہ مجھے ڈاکٹر صاحب کے گھر چھوڑ کر اپنے کام پر چلا گیا۔ ڈاکٹر جگتار کے گھر میرا ۲۰۰۰ئ؁ میں بھی آناہوا تھا۔ اس وقت ڈاکٹر جی نے اپنے اچھے اخلاق کا بہترین مظاہرہ کیا تھا۔ اسلئے آج بھی ایسی ہی توقع مجھے کھینچ کر وہاں لے گئی۔ مگر آج ان کا مُوڈ کچھ مختلف تھا۔ان کے اخلاقی ماحول پر گھٹائیں منڈلاتی دکھائی دیں۔ مجھے تو اچھا وقت گذارنے کا اشتیاق تھا۔۔ جب وہاں پہنچا تو موسم خوشگوار تھا مگر سکھپال کے جانے کے بعد ناسازگار ہو گیا۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ پھنس گیا تھا۔ مجبوراً سی چائے وغیرہ پیش کی گئی۔ میں نے محسوس تو کر لیا تھا کہ آج ڈاکٹر صاحب کے اصلی چہرے کے اندر سے نقلی صورت نظر ضرور آئیگی۔ پر سوچا کہ میں یہاں پکا قیام کرنے کیلئے تھوڑا آیا ہوں۔ چند گھنٹوں کی تو بات ہے جو ہوگا دیکھا جائیگا۔ ڈاکٹر صاحب کے متضاد رویے کا تذکرہ کہیں اورسے بھی سن رکھا تھا۔سو میں ہر قسم کے واقعے سے نمٹنے کیلئے پوری طرح لیس تھا۔گذشتہ پیش آمدہ چند واقعات جو دوران لکھنئو پیش آئے تھے ان سے تو کٹھن نہیں ہو سکتا تھا۔

                    ہاں تو اس روز ڈاکٹرجگتار ایک عروضی جھمیلے میں پڑے ہوئے تھے۔ کہنے لگے یار! یہ جو الفاظ ’ دوست ‘ ’گوشت ‘ ’ پوست ‘ ہیں نا ۔ ان میں حرف ’ ت ‘ ٹھیک سے بولتا نہیں۔ جیسے غالبؔ کی ایک غزل کا مصرع:   ؎ یہ کہاں کی دوستی ہے ‘ کہ بنے ہیں دوست ناصح۔۔۔ اس کو جب پڑھیں تو ’ دوس ناصح ‘ پڑھا جاتا ہے۔۔۔حرف ’ ت ‘  صحیح ادا ہو نہیں پاتا۔ میں اس پر لکھ رہا ہوں۔۔یعنی غالبؔ نے

 بھی ٹھیک سے استعمال نہیں کیا۔ میں یہ سن کر چپ نہیں رہ سکا اور شاید یہی تبصرہ ان کے غصے کا سبب بھی بنا۔ جس کے نتیجے میں مجھے ان کے غضب کا نشانہ بننا پڑا ۔ میں ڈاکٹر صاحب جتنا عالم اور علم عروض کا ماہر تو نہیں تھا۔ مگر میں نے جیسے پڑھا یا سنا ہوا تھا اس کی رُو سے کہا۔ غالبؔ کی یہی غزل محمد رفیع نے گائی ہوئی ہے۔ اس میں رفیع صاحب گاتے ہوئے  لفظ ’ دوست ‘ پر رکتے ہیں اور بعد میں ’ ناصح ‘ بولتے ہیں ۔ ڈاکٹر جی کو اس بارے بتایا مگر انہوں نے صاف کہدیا۔ کہ میں سنگیت سنتا ہی نہیں۔ اتفاقاََ ایک گیت اور بھی مجھے یاد آ گیا۔ جو مکیش کی آواز میں ہے۔ یعنی:  ؎ دوست دوست نہ رہا۔ پیار پیار نہ رہا۔۔۔اس میں بھی مکیش‘ لفظ ’دوست ‘ کی ادائیگی ٹھیک ٹھاک کرتے ہیں۔ یہ بھی بتایا۔ مگر ڈاکٹر صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے اور ’ میں نہ مانوں ‘ کے سہارے مجھ پر اندرہی اند ر کڑھنے لگے اور ان کے چہرے پر ناراضگی کے آثار نمودار ہونا شروع ہو گئے۔( اس بارے ڈاکٹر جمال الدین جمال (مرحوم) جن کی عروض پر ایک کتاب ’ تفہیم العروض ‘ کے نام سے چھپی ہے۔ اور اس کتاب میں انہوں میرے بھی چند اشعار حوالے کی شکل میں شامل کئے  ہوئے ہیں۔ مرحوم سے میری بات اکثر ہوتی رہتی تھی اور ایک بار اس موضوع پربھی ہوئی تھی۔  اور انہوں نے غالب کا  ’ دوست ‘ استعمال کرناصحیح قرار دیا تھا۔)  
                  لہٰذا ڈاکٹر جگتار ‘ گو اس وقت تو نہ مانے۔ گو ان کی سوچ سوچوں میں ضرور پڑ گئی۔جس کا سیدھا اثر مجھ پر ایسے پڑا۔ کہ میرے بغیر پوچھے ہی ٹیکسی منگوا لی گئی۔ اور حکم ہوا ۔جاؤ۔ کہیں سیر وغیرہ کر آؤ۔ بن بلائے مہمان سے پیچھا چھڑانے کا یہ معزز طریقہ پہلی بار دیکھنے میں آیا۔ اب ’ مرتا کیا نہ کرتا ‘ کے مصداق ‘ کوئی چارہ نہیں تھا اس کے سوائے کہ یہاں سے  باہرجایا جائے۔ ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔ ڈرائیور نے پوچھا : کہاں جائینگے؟؟ مجھے کیا پتہ جالندھر شہر میں کونسے مقامات ہیں سیرگاہ کیلئے۔۔ مشہور جگہیں یعنی ’تاج محل ‘ بھی آگرہ میں تھا۔ اور ’قطب مینار ‘ دِلّی میں۔ تو جالندھر میں تو سڑکوں کی دھول ہی تھی۔ اور یہی مقصد تھا ڈاکٹر صاحب کا مجھ سے دھول پھنکوانے کا۔ ڈرائیور سے کہا کہ منی ایکسچینج کے دفتر لے چلو۔ وہاں گئے کچھ ڈالر کیش کروائے۔ اور پھر ایک ریسٹورینٹ پر جا کر لنچ کیا۔ ملوک سنگھ (ڈرائیور۔ ۲۰۰۰ ئ؁ میں جو میرے ساتھ تھا ) کے گھر گیا۔ مگر وہ بھی اپنی بیٹی کو ملنے کینیڈا گیا ہوا تھا۔ صابر کوٹی ( مشہور گلوکار)  جو یہاں آ کر پروگرام کر چکا تھا‘ کی کھوج میں نکل پڑا۔ مگر ناکام ہی رہا۔ ہنس راج ہنس (مشہور گلوکار) بھی جالندھر نہیں تھے اس وقت۔ بہر حال یہ ٹیکسی سواری گدھے سواری ثابت ہوئی۔ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنی قسمت میں تھی سو بھگتی۔ ڈاکٹر صاحب سے ملنا بھی ایسے ہی رہا ‘ جیسے دلی سے لکھنئو جاتے ڈبل کرایا بھرنا پڑا تھا۔ یعنی مفت میں ٹیکسی کا کرایہ و دیگر اخراجات برداشت کرنا پڑے۔مگر میں ہر تکلیف سہنے کی صرف اہلیت  ہی نہیں رکھتا تھا۔ بلکہ تیار بھی تھا۔ سو میرے لئے تو یہ ایک چھوٹا سا ٹیسٹ تھا۔ ایک تند ہوا کی مانند تھا۔ طوفان بھی ہوتا تو کیا ہوتا۔ افسوس کہ واپسی پر بھی ڈاکٹر صاحب کے ہاں ہی آنا تھا۔ کیونکہ سکھپال نے مجھے وہیں سے لے کے اپنے گھر جانا تھا۔ سو میں تو وقت کے مطابق ڈاکٹر صاحب کے ہاں پہنچ گیا۔ سکھپال ابھی نہیں آئے تھے۔ پھر ڈاکٹر صاحب کا غصہ وہیں کا وہیں ماتھے پر اٹکا ہوا۔ وہ سکھپال کو نہایت غیر ذمیدار اور کئی کئی خطابات سے نوازتے رہے اور بیکار ادھر ادھر ٹہلتے رہے۔ میرا ایک ایک منٹ ایک ایک گھنٹے کے برابر ہوتا رہا۔ بلآخر سکھپال آئے اور مجھے کا سکھ کا سانس نصیب ہوا۔ ڈاکٹر صاحب نے سکھپال پر بن بادل برسات کی بوچھاڑ شروع کردی۔ اور اول فول کہنے لگے۔ مگر سکھپال میں بھی جوان خون تھا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ‘ گرماگرم اور تلخ و ترش باتوں سے ڈاکٹر صاحب کی تواضع کی اور ڈاکٹر صاحب ٹھنڈے ہو گئے۔ میں نے بھی اس گرم بحث کو کم کرنے کیلئے دونوں کی مدد کی۔ بہرحال ہم دونوں گاڑی میں بیٹھکر واپس سکھپال کے گھر میں آ گئے۔ اور آج کا یہ دن گو تارے دکھانے والا ثابت ہوا۔ مگر ایک اور روشنی نے جنم لیا۔ انسان کی ظاہری اور باطنی صورت دیکھنے کا۔

                   اب ہم دونوں سکھپال کے گھر آ گئے۔ اور میرے کہنے پر سکھپال نے ستنام مانک کو ٹیلیفون کیا۔ کیونکہ میں اُن کو ملنے کے بغیر واپس لاہور جانا نہیں چاہتا تھا۔ جیسے انہوں نے ہی میرے ۲۰۰۰ئ؁ دورہء بھارت کا اہتمام کرکے میری نہایت عزت افزائی کے ساتھ اسے کامیاب ‘  دلفریب اور پر کشش بھی بنایا تھا۔ لہٰذا ستنام مانک کے گھر اگلی صبح ناشتہ کرنے کا پروگرام طے ہو گیا۔ رات کے کھانے کے بعد حسب معمول سکھپال اور اس کا بیٹا کالج گرائونڈ میں ٹہلنے کو جایا کرتے تھے ۔ آج میںبھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ سیر کرنے کے دوران سکھپال کے ایک دوست منندر سنگھ کنگ سے ملاقات ہو گئی۔ کنگ جی ہمارے ساتھ ہی سکھپال کے گھر آ گئے۔ وہ ایک کالج میں لیکچرار ہیں اور ادبی میدان میں ایک نقاد کی حیثیت سے ان کی شناخت ہے۔ انہوں نے میرا کلام بھی سنا اور میری ریکارڈ کی ہوئی سی۔ ڈی۔ بھی ۔ دیرتک ان کے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں چلتی رہیں اور رات کافی ہونے پر کنگ جی اپنے گھر چلے گئے۔ اور میں پھر نیند کی لپیٹ میں آ گیا، اور خوب جی بھر کر سویا۔

                            اپریل۔ ۱۷۔ ۲۰۰۴ئ؁(ہفتہ): ( بھارت میں بیسواں (۲۰) دن ): سکھپال تھند کے گھر جالندھر میں صبح کی شروعات ہوئی۔  ہم دونوں حسب وعدہ ستنام مانک کے گھر ناشتے کیلئے پہنچ گئے۔ دونوں پتی اور پتنی نے پہلے کی طرح میرا ہنستے مکھڑوں  کے ساتھ استقبال کیا۔ ناشتے کے بعد ستنام جی نے مجھے برجندر ہمدرد کی میوزک البم ’ جذبات ‘ کے گیت سنائے۔ جو انہوں نے اپنی آواز میں مختلف گیتوں کے ٹریکس پر ریکارڈ کروائے ہوئے تھے۔ میں نے بھی اپنی سی۔ ڈی۔ ان کے پلیئر پر لگائی جس میں میری لکھی ہوئی غزلیں غلام علی کے علاوہ ریاض علی خاں ‘ حامد علی خاں اور میری اپنی آواز میں بھی تھیں۔ برجندر جی کو بھی سئنوائیں۔ میری غزلیات سنتے ہی برجندر جی نے مجھے ملنے کا اظہار کیا۔ اور مانک جی نے مجھے دفتر آنے کی تاکید کی۔ مانک جی روزنامہ ’ اجیت ‘ کے چیف ایڈیٹر ہیں اور ایک سلجھے ہوئے انسان  ہونے کے علاوہ اچھے پترکار ‘ اور پنجابی ساہت کو بڑھاوا دینے میں پیش پیش۔ اکثر و بیشتر وہ پاکستان سے کسی نہ کسی پنجابی دانشور کو بلائے رکھتے ہیں ۔ اور پاکستانی ادیبوں شاعروں کا کلام انکے اپنے روزنامہ’ اجیت ‘کے علاوہ کئی رسالوں میں چھپوانے کا اہتمام بھی کرتے رہتے ہیں۔ اور خود بھی کئی بار پاکستان جا چکے ہیں۔ میں اور سکھپال ناشتے سے فارغ ہوکر ایک اور پنجابی کہانی کار جندر کے ہاں گئے۔جو ایک اچھے سلجھے ہوئے لکھاری ہیں اور ان کا ادب کے میدان میں اپنا ایک خاص مقام ہے۔انہوں نے ہماری چائے سے تواضع کی۔ کچھ باتیں ہوئیں او رپھر ہم اگلے سفر کیلئے روانہ ہو گئے۔

                    جندر کے گھر سے نکلے تو سکھپال مجھے پنجابی روزنامہ ’ اجیت ‘ کے دفتر ستنام مانک کے پاس چھوڑ کر اپنے کسی کام چلا گیا۔ ستنام مانک نے میرے آج امرتسر جانے کے پروگرام کا سن کر جلد ہی برجندر ہمدرد کو ملایا۔ ان کے دفتر پہنچا۔ ویٹنگ روم میں بیٹھا۔ اور اسی ہی دوران ’اجیت ‘  کے مسٹر ایچ۔ ایس۔ باوا (سٹاف رپورٹر ) نے اخبار کیلئے میرا انٹرویو بھی لے لیا۔ تھوڑی دیر بعد مسٹر برجندر      ( مالک روزناما اجیت) اپنے کمرے سے باہر آ  کے میرے ساتھ ویٹنگ روم میں ہی بیٹھ گئے۔ ( برجندر کو تمام سٹاف جو تقریباََ ۳۰۰ ورکرز پر مشتمل ہے۔’ بھا ء جی ‘ کے نام سے بلاتے ہیں )۔ میں برجندر جی کے بڑے پن اور ملنساری کی جس قدر بھی تعریف کروں۔ وہ آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوگی۔ وہ لکھاری بھی ہیں اور انہوں نے اپنی کتابوں کا سیٹ ‘ اپنی میوزک سی۔ ڈی۔ اور کیسٹ (جذبات ) جو انہوں نے اپنی آواز میں ریکارڈ کروائی ہے مجھے دیں۔ اور میں نے بھی انہیں اپنی اردو غزل کی کتاب ’ چلو اک ساتھ چلتے ہیں ‘  اور اپنی سی۔ ڈی۔پیش کی۔برجندر میں ایک حیران کن بات جو دیکھنے میں آئی وہ یہ کہ میری کتاب جو کہ فارسی رسم ا لخط میں ہے۔ انہوں نے اچانک اسے کھولا اور جو بھی صفحہ سامنے آیا وہاں پر بڑی روانی سے ایک غزل نہ صرف پڑھنی ہی شروع کر دی۔ بلکہ تلفظ کی نہایت عمدہ طریقے سے ادائیگی بھی کی۔ میں نے کافی بزرگوں کو جو مشرقی پنجاب سے متعلق ہیں دیکھا ہے اردو بولتے ہوئے اور پڑھتے ہوئے بھی۔ مگر جو روانی برجندر نے دکھائی وہ آج بھی میرے لئے ایک لمحہ فکر ہے۔ انہوں نے ضرور کسی اردو دان سے سیکھا ہے۔ اس بات کی شرط ہے۔ کیونکہ ان کے ذرائع بھی تو وسیع ہیں اور ان کی طبیعت میں کام سیکھنے کی لگن بھی اور مزاج میں کام کرنے کا حوصلہ بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔جو کسی کسی میں دیکھا گیا ہے۔ میں نے برجندر سے پوچھا۔ کہ میرے ۲۰۰۰ئ؁ کے پھیرے دوران میں نے آپ کو صرف پترکار اور مالک اخبار کی شکل میں ہی دیکھا تھا۔ مگر اب ساہتکار ‘  اردو زبان سے آشنا ‘ میوزک سے شناسا اور آواز میں جادوگری دیکھکرمیں یہ دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ ایسی ہمت اور ارادہ کے مالک اس جہان میں بہت کم لوگ ہی ہیں۔ اور وہی ہیں وہ لوگ جو نامور ہیں اور اپنا نام روشن کئے ہوئے ہیں۔ اور یہ پوچھا کہ یہ سب کیسے ہوا؟؟ برجندراپنے مخصوص انداز میں ہنس کر بولے  اور کہا: ’ کہ پہلے میں پترکار (نامہ نگار ) تھا۔ اور اب گلوکار۔ ‘ تھوڑی دیر اور گپ شپ ہوئی۔ تو اس کے بعد ستنام مانک جی مجھے دیش بھگت ہال میں لے گئے۔  

                   دیش بھگت ہال جالندھر جہاں ۲۰۰۰ ئ؁  میں میرا پروگرام ’ روبرو ‘ ہوا تھا۔( اس ہال کی خوبی یہ ہے کہ جو بھی وفود پاکستان سے آتے ہیں اور پنجاب کا دورہ کرتے ہیں۔ اس ہال کی مینجمنٹ ان کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کیلئے وہاں ضرور مدعو کرتی ہے۔ جیسے
 الیاس گھمن ‘ ٖفخر زماں ‘ اقبال قیصر ‘ مدیحہ گوہر اور بہت سے لوگ یہاں آ کر  اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں اور اپنے خصوصی انداز میں کچھ نہ کچھ پیغام دے چکے ہیں ) ۔ لہٰذا آج یہاں ایک صا حب کی کتاب کی رونمائی کا پروگرام چل رہا تھا۔ اور سوجھوان اپنی اپنی تقریروں کے
 جوہر دکھا رہے تھے۔ پروگرام تقریباََ ختم ہونے والا تھا جب میں وہاں پہنچا۔ اور میری آمد کے بارے بھی حاضرین کو بتا دیا گیا۔وہاں پر کچھ حاضرین مجھے جانتے بھی تھے۔ کسی سے یہاں اور کسی سے امریکا میں ملاقات ہو چکی تھی۔ خیر مجھے بھی باقی حاضرین کے ساتھ کچھ بات چیت کرنے کا موقع مل ہی گیا۔ اور اس کے بعد محفل جلد ہی برخاست ہوگئی۔ اور جاتے جاتے کچھ نئے حضرات اور کچھ پرانے جاننے والوں سے سرسری ملاقاتیں اور علیک سلیک بھی ہوئی۔البتہ میری حاضری دیش بھگت ہال میں بھی لگ گئی۔ شام ہو گئی تھی اور امرتسر بھی جانا تھا۔ جو اتنا دور بھی نہیں تھا۔ خیر سکھپال نے مجھے بس سٹینڈ پر جا کر چھوڑا۔ جو ہال سے نزدیک ہی تھا۔ میں بس میں سوار ہوا۔ زیادہ دیر نہیں لگی جب میں امرتسر پہنچ گیا۔ رکشا لیکر تلوندر سنگھ کے گھر پہنچا۔ اور وہاں رات کا کھانا کھایا۔ پھر کچھ دیر تک باتیں ہوئیں اور تلوندر کے مکان کی چھت پر جا کر سویا اور تھکاوٹ کی وجہ سے نیند خوب آئی۔


              اپریل۔ ۱۸۔ ۲۰۰۴ئ؁(اتوار): (بھارت میں اکیسواں (۲۱ ) دن ): امرتسر شہر میں تلوندر سنگھ کے گھر سویر ہوئی۔ تلوندر نے
 مجھے آج یہاںواپسی پر آنے کی تاکید کی ہوئی تھی۔ کیونکہ اس دن مجھے گورداسپور میں ایک کوی دربار (مشاعرے) میں شمولیت کیلئے ان کے ساتھ جانا تھا۔ آج وہاں پر ایک شاعر کی کتاب کی رونمائی بھی ہونا تھی۔ ناشتہ کیا۔ اور گرداسپور جانے سے پہلے اپنی کتاب ’تولویں بول ‘ کی بلٹی ٹرکنگ کمپنی سے چھڑوائی۔ جو برنالے والوں نے حسب وعدہ چھپوا کر امرتسر بذریعہ ٹرک بھیج دی ہوئی تھی۔ اپنی کچھ کتابیں ساتھ لیکر میں تلوندر سنگھ اور رمن دیپ گرداسپور کو روانہ ہوگئے۔ راستے میں عقیدت کے طور پر شِو کمار بٹالوی(مشہور پنجابی نغمہ نگار۔ جن کے گیت نصرت فتح علی۔غلام علی۔ جگجیت سنگھ نے گائے ہیں۔ جن میں مشہور ہے ’مائے نی مائے میرے گیتاں دے نیناں وچ برہا دی رڑک پوے‘ ) کے شہر بٹالہ میں خصوصاً رک کر ایک دکان سے چائے پی۔ گرداسپور میں ’ضلع ساہت کیندر ‘ کی جانب سے مسٹر سلکھّن سرحدی کی کتاب ’بستی بستی جنگل ‘ کی رونمائی ہو چکی تھی اور مضمون نگار اس کی تعریفوں کے پل باندھ رہے تھے اور نقاد اس کے نقائص پر زور دیتے ہوئے گرما گرم بحث رہے تھے۔ ہم وہاں پہنچے اور ہماری آمد کی سب محفل کو اطلاع بھی دے دی گئی۔ اور ساتھ ہی مجھے مہمان خصوسی کی جگہ بھی عنایت کی گئی۔ وہاں پر تلوندر سنگھ نے میری کتاب ’ تولویں بول ‘ کی رونمائی کرکے نہ صرف میری حوصلہ افزائی کی بلکہ میرا مختصراً مگر بھرپور تعارف بھی کروایا۔ اس محفل میں ۱۰۰سے زیادہ حاضرین موجودتھے جن میں سے کچھ ادبی لوگوں کے نام ہیں: بی بی پرکاش کور ہمدرد ‘ سلکھن سرحدی ‘ پروفیسر اوتار جوڑا ‘ پروفیسر سرجیت جج ‘ مکھن کہاڑ ‘ ہربھجن ہُندل ایڈیٹر پنجابی ماہنامہ ’ چراغ ‘ اور پٹھان کوٹ کے نریش شرما دینا نگری اور بہت سارے۔۔۔ دوپہر کا کھانا وہاں سب کے ساتھ مل کر کھایا۔ کچھ نئے دوستوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ دن بہت خوبصورت اور مصروف رہا۔ شام ہو گئی اور ہم واپس امرتسر آ گئے۔        

             آج کی رات میری بھارت میں آخری رات تھی۔ تلوندر سنگھ کو الودع کہا اور رمن دیپ مجھے اپنے گھر لے گیا۔ اس کی شاعری سنی ۔ اس کے ماتاپتا سے خوب باتیں ہوئیں اور ان کا پر خلوص رویا اچھا لگا۔ پاکستان کے بارے ان کو مطلوبہ معلومات دینے کی بھی کوشش کی۔ رمن دیپ ایک نہایت محنتی‘ شریف الطبع اور ملنسار نوجوان ہے۔ ایک سرکاری محکمے میں اعلے عہدے پر کام کرتا ہے۔ یہ چھ لوگوں کی فیملی یعنی ماتا ‘ پتا ‘ دو بہنیں اور اپنی پتنی سمیت اچھی زندگی گذار رہے ہیں۔ سب لوگوں نے میری خوب خاطر مدارت کی۔ اور مجھے نہ بھولنے
 والی یادوں کے تحفے دئیے۔

                        یہاں پر ایک اور دوست مسٹر دیو  درد (ایک  بہت اچھا شاعر) سے بھی ملاقات ہوئی۔ اس سے میں اپنے بھارت دورہ ۲۰۰۰ئ؁ میںامرتسر سے لاہور جاتے وقت ملا تھا۔ اور اب یہاںایسے ہی وقت۔ دیو درد کا خصوصی ذکر اسلئے ضروری ہے۔ کیونکہ اس کی مصروفیات کچھ اسطرح سے ہیں۔ ایک تو وہ خود سکول ٹیچر ہے۔ دوسرے پرائیویٹ سکول اپنی بیگم اور بیٹی کی مدد سے چلا رہا ہے۔تیسرے اس کی مصروفیت انوکھی اور دلچسپ ہے۔ یعنی اس کے پاس تقریباََ دو سَو (۲۰۰) قسم کے ’تھوہر ‘  'cactus'   کے بُوٹے ہیں۔ اور اپنے سکول کی چھت پر گملوں میں نہایت ترتیب اور سلیقے سے سجا کر رکھے ہوئے ہیں۔ اور دیکھ بھال بھی خوب کر رکھی ہے۔ چوتھے نمبر پر اس کا ایک اور عجیب و غریب شوق یہ ہے۔ اس نے سکول کی دوسری منزل کے ایک کمرے میں بڑی تعداد میں لوہے ‘ پیتل ‘ کانسی ‘ اور تانبے کے بہت پرانے (انٹیک) سکّے ‘ برتن اور کئی قسم کی اشیاء بڑی ترتیب اور خوبصورتی سے سجا کے رکھی ہوئی ہیں۔ نیز برآں ’دیو‘ نے    حتی ا لمقدور کوشش کرکے ان اشیاء پر دوسری زبانوں میں لکھی ہوئی تحریروں کو پنجابی میں ترجمہ کرکے دیکھنے والوں کیلئے سہولت اور کشش کا سامان پیدا کیا ہے۔ یہ کام جسقدر حیران کن ہے اس سے زیادہ تعریف کے قابل بھی۔ اس کے علاوہ ۲۰۰۰ئ؁ کے دوران میں یہاں امرتسر

 میں کچھ اور دوستوں کو بھی ملا تھا جن کے نام ہیں: جتندر سنگھ جولی۔ پروفیسر گردیو نانک یونیورسٹی (مرحوم) ‘ پروفیسر سوہندر بیر ‘  پرم جیت ایڈیٹر پنجابی ماہنامہ ’ اکھّر‘  وغیرہ۔۔۔ جولی مرحوم نے مجھے اس وقت خاص طور پر ہرمندر صاحب ’گولڈن ٹمپل ‘ کے ہر ایک حصے میں لے جا کر بہت معلومات فراہم کی تھیں ۔آج  امرتسر(بھارت )میں آخری شام ہو گئی اور کھانا رمن دیپ کے ہاں ہی کھایا۔ رات دیر تک رمن دیپ کے ماتا پِتا سے باتیں ہوئیں۔ پھر نیند آئی۔ اور اگلی صبح نمودار ہوئی۔

               اپریل۔ ۱۹۔ ۲۰۰۴ئ؁(سوموار): امرتسرشہر۔پنجاب۔ اِنڈیا: (میرابھارت میں دوسرے دورے کا آخری اور بائیسواں (۲۲ ) دِن):  رمن دیپ کے گھر سویر نے انگڑائی لی۔ مسٹر جوگندر کیروں ریٹائرڈ پروفیسر گردیونانک یونیورسٹی جو امریکا میں کئی دفعہ اپنے عزیزوں سے ملنے آتے رہتے ہیں۔ کے گھر ناشتے کا انتظام تھا ۔کیونکہ آخری ہی موقع پر ان سے بات ہوئی اور طے ہوا ناشتے کاپروگرام۔

 رمن دیپ اور میں ان کے گھر پہنچ گئے۔ اور ان کے ساتھ ناشتہ کیا۔ وہ ابھی تک یونیورسٹی کے کسی پروجیکٹ کیلئے کام کرتے ہیں۔ ناشتے کے بعد وہ ہمیںگر دیو نانک یونیورسٹی لے گئے ‘اپنے کچھ دوستوں سے ملاقات بھی کروائی۔ کینٹین جا کر چائے اور گپوں کا دور چلایا۔ وہاں سے رخصت ہوئے۔ کچھ تحفے تحائف خریدے۔ اور رمن دیپ اپنے ایک دوست کے ہمراہ دو بجے بعد دوپہر اپنی گاڑی میں مجھے لیکر اٹاری کی طرف روانہ ہو گئے۔ اٹاری پہنچ کر میں ان دونوں ساتھیوں سے بغل گیر ہوا۔ قلی نے سامان اٹھایا۔ دوستوں اور بھارت کو آخری سلام کہا اور انڈین کسٹم اور امیگریشن کے دفتروں کی جانب روانہ ہو گیا۔ وہاں سے فارغ ہوا اور دو ملکوں کی ایک سرحد کی لکیر کو پار کیا۔ ہندوستانی قلی نے سامان پاکستانی قلی کے سپرد کیا۔ اور پاکستانی کسٹم اور امیگریشن کو آ سلام کیا۔ وہاں سے فارغ ہوکے جی۔ ٹی۔ روڈ واہگہ پر آ کر بس پر سوار ہو کر لاری اڈے اور پھر رکشا لیکر بلال گنج اپنی بہن کے گھر جا سلام کیا۔ اور میرا یہ سفر جو مارچ۔ ۲۹۔ ۲۰۰۴ئ؁ کو جو شروع ہوا تھا۔۔آج اپریل ۱۹۔ ۲۰۰۴ئ؁ کو بڑی بھرپور یادوں کے بھنڈار لے کر اختتام پذیر ہوا۔

                 ( میں اپنے تیسرے بھارتی دورے کے حالات و واقعات بھی ضرور آپکے سامنے پیش کرونگا۔ جو میں نے یکم فروری ۲۰۰۸ئ؁ کو  امرتسر سے شروع کیا اور نواں شہر ، چندی گڑھ ، نیو دلًی سے بمبئی تک جا کر پھر واپس امرتسر ۱۵ مارچ۔ ۲۰۰۸ئ؁ کو ہی ختم ہوا تھا۔ اس دورے میں ممبئی کے علاوہ تاج محل آگرہ اور نئی دلی کے پرکشش و دلفریب واقعات بھی شامل ہیں ۔ جو نہ صرف آپ کی تفنن طبع کا سامان پیدا کریںگے بلکہ آپ کی ذہنی تھکاوٹ کو بہلانے میں ممد و مددگار ثابت ضرور ہونگے۔ انشاء اللہ۔

 


**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1396