donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Aap Beeti
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Marzia Arif
Title :
   Mohtarma Khalida Bilgrami Saheba Ke Taluq Se Chand Yaden Chand Baten

محترمہ خالدہ بلگرامی صاحبہ کے تعلق سے چند یادیں، چند باتیں


ڈاکٹر مرضیہ عارف

(بھوپال)


 ٭ پھوپی صاحبہ محترمہ خالدہ بلگرامی رشتوں کو نبھانے والی خاتون تھیں، اُن سے آخری ملاقات تک مجھے ذرا بھی احساس نہیں ہوا کہ وہ ہم سے جلد رخصت ہونے والی ہیں۔ انتقال سے ایک ہفتہ پہلے عم محترم جناب انعام اللہ خاں لودھی کا فون آیا کہ خالدہ اسپتال میں داخل ہیں۔ ہمیں اُن کی عیادت کرنا چاہئے، والد صاحب کو میں نے اِس کی اطلاع دی تو وہ بھی بے چین ہوگئے اور ہم تینوں نے جاکر سلور لائن اسپتال میں اُن سے ملاقات کی، چہرے سے نقاہت کے آثار ضرور نظر آرہے تھے لیکن پورے ہوش وحواس میں تھیں، خون چڑھایا جارہا ہے، ہمیں دیکھ کر فوراً متوجہ ہوگئیں اور کوئی نصف گھنٹہ بات چیت کرتی رہیں۔ حسبِ معمول ایک ایک کا نام لیکر خیریت پوچھی خاص طور سے والدہ صاحبہ کی صحت کے بارے میں سوالات کرتی رہیں۔ پھر گفتگو کا موضوع کھانے پکانے کی طرف مڑگیا تو والدہ صاحبہ کے کھانوں کی تعریف کرتی رہیں، یہ بھی کہا کہ عارف میاں اپنی بہوؤں کے کھانے کی تعریف کرتے ہیں لیکن مجھے تو اپنی بہو یعنی میری والدہ صاحبہ کے کھانے پسند آتے ہیں اور بھی گھریلو دلچسپی کی باتیں جو اُن کا مزاج تھا کرتی رہیں، میں نے جب گھر واپسی پر والدہ صاحبہ کے سامنے یہ بات چیت نقل کی تو وہ بھی اسپتال جاکر ملاقات کے لئے مصر ہوگئیں، ہم سبھی اُن کی صحت کے بارے میں تشویش میں مبتلا تھے لیکن مرض کی نوعیت کا اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے وقتی طور پر مطمئن ہوگئے تھے، اِسی لئے جب اُن کے انتقال کی روح فرسا خبر ہمیں ملی تو وہ اعصاب شکن ثابت ہوئی ، بعد میں بیماری کی تفصیل اُن کی چھوٹی بہن پروفیسر سلمہ بلگرامی صاحبہ سے معلوم ہوئی تو اندازہ ہوا کہ پھوپھی بلگرامی صاحبہ کی صحت کے بارے میں ہم لوگ مغالطہ میں رہے، ورنہ ایک دو مرتبہ اُن کی اور عیادت کرلیتے۔

پھوپھی خالدہ بلگرامی صاحبہ کو میں نے پہلی مرتبہ ۱۹۸۰ء میں اُس وقت دیکھا جب میری عمر مشکل سے سات آٹھ سال رہی ہوگی، والد صاحب نے ’آفتابِ جدید‘ کے اپنے ساتھیوں کی رمضان میں دعوت کی تھی اور وہ بھی ہمارے گھر آئیں تھیں، اُنھوں نے گھر میں داخل ہوتے ہی پوچھا کہ گھر کی رونق کہاں ہے۔ والد صاحب نہیں سمجھ سکے کہ اِس سے اُن کی مراد کیا ہے، پھر اُنھوں نے میری والدہ کے بارے میں پوچھا۔ اُس وقت ہمارا گھر ایک کمرہ اور دالان پر مشتمل بہت چھوٹا تھا، اُنھوں نے کھانا بھی ندیم کے اسٹاف کے ساتھ نہیں کھایا بلکہ بعد میں والدہ صاحبہ سے اصرار کرکے اُن کے ساتھ کھانے میں شریک ہوئیں، یہ تو ان کی ہمارے گھر میں پہلی آمد تھی اور وہ سب کے بارے میں سوالات کرتی رہیں۔ والدہ صاحبہ نے بتایا کہ میرے ابو کو کوفتے بہت پسند ہیں اِس لئے یہی پکائے ہیں تو کہنے لگیں کہ مرد تو زبان کا ذائقہ تلاش کرتے ہیں اُنھیں تھوڑی معلوم ہم عورتوں کو ایسے کھانے تیار کرنے میں کتنی دردسری مول لینی پڑتی ہے۔ عورتوں کی ہمنوائی کرنا اور مردوں کا احتساب کرنا پھوپھی صاحبہ کا مزاج تھا، جو اُن سے ایک بار مل لیتا اُن کا گرویدہ ہوجاتا تھا۔

میری دو پھوپھیوں نے مدرسہ حیات العلوم نسواں میں اُن سے پڑھا تھا، وہ اِس کا اکثر ذکر کیا کرتی تھیں، ہماری والدہ صاحبہ سے بھی اُن کی بچپن میں ملاقات ہوچکی تھی، تعلقات میں لوگوں کو باندھ کر رکھنا اُن کا مزاج تھا۔ میرے مضامین کی پہلی کتاب ’بساطِ فکر‘مرتب ہوئی تو اُس پر مقدمہ کی صورت میں کسی سے رائے لکھوانا تھا، میں نے والد صاحب سے مشورتاً خالدہ بلگرامی کا نام لیا تو بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے وہ تمہیں اچھی طرح جانتی اور عزیز بھی رکھتی ہیں، اُن سے ہی جاکر گزارش کرو، میں نے ایک دن دفتر ’’ندیم‘‘ جاکر اِس بارے میں درخواست کی تو فوراً تیار ہوگئیں اور مضامین کا مسودہ لیکر دوچار دن میں لکھنے کا وعدہ کیا اور جو لکھا اُس کو پڑھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ اُنھوں نے میری پوری کتاب پہلے پڑھی اور بعد میں لکھا ہے، اہم مضامین کا ذکر بھی کیا۔ اِس مقدمہ کا ایک اقتباس یہاں نقل کرتی ہوں جس سے آپ اُن کے ذہنِ رسا اور فکر کی بالیدگی کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔

’’ ’بساطِ فکر‘ مرضیہ عارف کے دس سالہ قلمی سفر کا حاصل ہے اور میرے نزدیک مضامین کے اِس مجموعہ کی سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ مصنفہ نے خواتین کی شخصیت، فن اور اُن سے جڑے ہوئے مسائل کی بھرپور نمائندگی کی ہے، کتاب کے دوچار مضامین کے سوا باقی سب ہی مضمونوں میں عزیزہ مرضیہ نے اپنے طبقہ کی کیفیت وہیئت کو بیان کرنے اور اُن کے مسائل کو چھیڑنے پر توجہ دی ہے اور اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے ’خویش بعدہٗ درویش‘ کی صحیح اور آزمودہ کار راہ پر گامزن ہیں۔


مرضیہ عارف کی فکرونظر کے تنوع کا اندازہ لگانے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ اُنھوں نے شخصیت نگاری میں ایک دوسرے سے قطعی جدا اور منفرد شخصیتوں کے خدوخال کو الفاظ و جذبات کا جامہ پہنایا ہے۔ اِس سلسلے کا سب سے مؤثر مضمون ہماری محترمہ شفیقہ استاد محترم طیبہ بی صاحبہ دام ظلہا پر ہے ، جن کا مرضیہ عارف جیسی بے شمار لڑکیوں کی تربیت میں خاص دخل ہے۔ ایسی محب و محسن ہستی پر مرضیہ نے قلم اُٹھاتے ہوئے غلو کے بجائے واقعیت اور عقیدت کے بجائے حقیقت کا دامن نہیں چھوڑا جس سے اُن کے متوازن ذہن کا اندزہ لگایا جاسکتا ہے۔ طبقۂ نسواں سے متعلق دیگر مشاہیر خواتین کے مقام و مرتبہ کے تعین میں بھی اُن کی یہی دیانت دارانہ کوشش رہی ہے۔

مرضیہ عارف کے دوسرے تنقیدی مضامین میں بھی خواتین اور اُن کی فتوحات کو سامنے رکھا گیا ہے خاص طور پر اردو کی تین ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد شاعرات کے کلام کا اُنھوں نے ایک خاتون کی نظر سے جس سلیقہ کے ساتھ تجزیہ کیا اُس سے اُن کی فطری اور وہبی دونوں صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے، اس کے علاوہ مضامین ’وجودِ زن کلامِ اقبال میں‘، ’مثنوی سحرالبیان کا ایک نسوانی کردار‘، ’مراسلاتی تعلیم کی خواتین کے لئے اہمیت‘، ’جہیز ایک سماجی برائی‘، ’خواتینِ بھوپال کی تعلیمی خدمات‘ اُن کے اِسی رجحان کی غمازی کرتے ہیں۔ اِس سلسلہ کا سب سے اہم تحقیقی مضمون ’جنگِ آزادی میں خواتین کا حصّہ‘ ہے، جو کافی عرق ریزی کے ساتھ سپردِ قلم کیا گیا ہے اور تحقیق سے اپنی طبعی مناسبت کا ثبوت دیتے ہوئے اِس مضمون میں حوالے بھی شامل کئے گئے ہیں۔ مرضیہ عارف کے مضامین میں مجھے سب سے زیادہ جس مضمون نے متاثر کیا بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ مجھے وہ اپنی ترجمانی لگا، وہ ہے ’اشتہارات میں عورت کی تذلیل‘۔ یہ اگرچہ مختصر مضمون ہے مگر اِس میں اشتہارات کے ذریعہ نسوانی عزت وعصمت کو جس طرح نیلام کیا جارہا ہے اُس پر کافی تیکھے اور مؤثر انداز میں مرضیہ نے گرفت کی ہے۔ قرآنِ حکیم پر اُن کے تحقیقی موضوع سے

متعلق مضامین کو پڑھ کر جہاں بعض نئے گوشوں پر روشنی پڑتی ہے وہیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مصنفہ نے کسی ذہنی مرعوبیت کا شکار ہوکر اپنی بنیادی تعلیم و تربیت سے انحراف کی کوشش نہیں کی اور وہ اپنے تعلیمی سفر کے پہلے پڑاؤ یعنی عالمہ اور عربی میں ایم۔اے کے درس کو ثانوی تعلیم یعنی بی۔اے اور ایم۔اے اردو پر ترجیح دیتی ہیں، مرضیہ عارف کی اِس خوبی وخصوصیت پر ممکن ہے کہ دوسروں کی نظر نہ جائے لیکن مجھے اُن کے اِس شعوری رویہ نے بہت متاثر کیا ہے‘‘۔

(’’بساطِ فکر‘‘ کے مقدمہ سے جنوری ۲۰۰۰)


محترمہ خالدہ بلگرامی صاحبہ کا ایک مضمون جو اُنھوں نے انتقال سے کچھ ماہ پہلے اور غالباً آخری مضمون لکھا تھا وہ میرے والدِ محترم عارف عزیز پر ہے، اِس مضمون کا عنوان ’مشک آنست کہ ‘‘ ہے، اِس میں انھوں نے والد صاحب کے بارے میں اپنے تاثرات بغیر کسی ذہنی تحفظ کے رقم کئے ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔

’’صحافت میری رائے میں ایک ہمہ وقتی پیشہ اور تلوار پر ننگے پیر چلنے کا کام ہے، اس میں ہر لمحہ ہوشیار رہنا پڑتا ہے ، اِس کے موضوعات و مسائل دیرپا نہیں ہوتے، نہ ہی اُن کی عمر لمبی ہوتی ہے ، اِس لئے ضروری ہے کہ صحافی ذہنی طور پر مستعد و بیدار رہے اور اپنے نوکِ قلم سے مسائل کو کریدتا بھی رہے ، تبھی وہ معاشرہ کی زلف برہم کو سلجھانے اور سیاست کے کمزوریوں پر گرفت کرنے کا فرض ادا کرسکتا ہے۔ عارف عزیز نے یہ اچھا کیا کہ شاعری کو چھوڑکر نثر کی سبھی اصناف پر طبع آزمائی کی اور اپنا سکہ منوایا، مجھے یاد آتا ہے کہ انہوں نے روزنامہ ’’آفتابِ جدید ‘‘ میں میرے داخلہ کے ایک ہفتہ بعد قدم رکھا تو فوراً رپورٹنگ کرنے اور مضامین لکھنے کا کام شروع کردیا، اُن کا پہلا مضمون جے پرکاش نرائن پر تھا جسے اخبار کے چیف اشتیاق عارف صاحب نے فوراً شائع کرنے کی منظوری دیدی، دوسرے دن ’’آفتابِ جدید میں عارف عزیز کی تصویر کے ساتھ یہ مضمون شائع ہوا تو ہر طرف ہلچل مچ گئی ، زیادہ لوگوں نے سراہا، بعض اخبار کے ساتھیوں نے اِسے نئے لکھاڑ کا مضمون سمجھ کر ناک بھنویں بھی چڑھائیں، چند ہی دن کے بعد اُن کا دوسرا مضمون اچاریہ رجنیش کی بے اعتدال زندگی پر شائع ہوا۔ یہ بھی اپنے موضوع کے اعتبار سے لیک سے ہٹ کر تھا اور اِس پر خوب تبصرہ ہوا، کم از کم عارف عزیز کو جاننے والے، یہ توقع نہیں کرتے تھے کہ وہ ایک ایسے موضوع پر قلم اُٹھائیں گے ، اِس کے بعد تو اُن کے مضامین مسلسل شائع ہونے لگے، وہ اکثر مضمون لکھتے تو کتابت سے پہلے میرے سامنے رکھ دیتے اور میں اُس پر نظر ڈال لیتی۔ نئے نئے موضوعات پر عارف عزیز کے مضامین پڑھنے سے ایسا لگتا تھا، بچپن سے جوانی تک اُنہوں نے جو پڑھا، لکھا اور سمجھا تھا، اُسے اپنے اندر جذب کرلیا اور اب موقع ملنے پر یہ سارا غبار قلم کے ذریعہ باہر آرہا تھا۔ پھر تو شاعر کے بقول کچھ یہی حال ہوا کہ  ؎

میں کہاں رکتا ہوں ، عرش کی فرش کی آواز سے
مجھے جانا ہے بہت دور حدِّ پرواز سے

 ایک سیل رواں تھا جو اُن کے قلم سے جاری ہوگیا ، سیاسی مضامین یا مذہبی موضوعات پر اتوار اور جمعہ کو اُن کے مضامین آتے، آفتاب جدید کی دوسری سالگرہ آئی تو عارف عزیز نے اخبار کے مکمل دو صفحات پر آٹھ کالم میں ادارتی عملہ کے ساتھیوں پر تعارفی خاکے لکھے اور کاتبوں کا ذکرِ خیر بھی کیا۔ ایک ساتھ بارہ پندرہ ساتھیوں پر لکھنا اور سب کی خوبیوں و خصوصیتوں کو بیان کرنا ، دوسرے الفاظ میں انصاف کرنا معمولی کام نہ تھا، جس دن اخبار کا یہ ضمیمہ شائع ہوا ، اُس دن عملہ کا یہ سب سے جونیئر ممبر سب کی توجہ کا مرکزِ نگاہ بنا ہوا تھا۔ عارف عزیز یہیں نہیں رُکے کچھ عرصہ بعد انہوں نے یومیہ کالم لکھنا شروع کردیا، جو اِتنا مقبول ہوا کہ لوگ اخبار کے اداریہ سے پہلے اُسے پڑھتے، کالم کے عنوانات پر ہی ایک نظر ڈال لینے سے اِن کے تنوع کا اور وہ کتنے دلچسپ ہونگے اِس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اولمپک میں ہندوستانی کاکردگی کا آئینہ، ملک میں جرائم کا مانسون، ۲۱ویں صدی کے لئے غربت کا تحفہ، مسرفانہ طرزِ زندگی کی برکات، جرمِ ضعیفی کی سزا، اترپردیش اردو کا پانی پت، پارلیمانی انتخابات کے موضوعات، تیل اور اُس کا مشرق وسطیٰ میں کھیل، ہندوپاک گفتگو کے نشیب و فراز، اہنسا کی سالگرہ، زکوٰۃ کا سماجی پہلو، اردو تعلیم کی زبوں حالی، اعداد و شمار کیا جھوٹ کی قسم ہیں، عرب قیادت کی بے حسی، رکتی نہیں کسی منظر پہ نگاہ، حج کمال بندگی کا مظاہرہ، ٹرافک ہفتہ محض رسم کی ادائیگی وغیرہ۔ اُن کے کئی کالم روزمرہ کی ضرورت و تقاضے پورے نہ ہونے پر لکھے گئے ہیں۔ ایک طرح سے عام لوگ اور خود عارف عزیز کی زندگی سے اِن کالموں کا گہرا رشتہ ہے‘‘۔


کوئی سال ڈیڑھ سال پہلے پروفیسر سلمیٰ بلگرامی صاحبہ ، جن کا اُوپر ذکر گزرچکا ہے، برکت اللہ یونیورسٹی کے شعبۂ ڈسٹینس ایجوکیشن میں ہماری ہیڈ بن کر جبل پور یونیورسٹی سے یہاں آئیں، مجھے جب پھوپھی صاحبہ سے اُن کے رشتہ کا علم ہواتو، میں نے والد صاحب کے تعلق سے اپنا تعارف کراتے ہوئے اُن کی ہمشیرہ محترمہ سے اپنے تعلق پر روشنی ڈالی، میری باتوں پر اُنہیں کتنا یقین آیا، کہہ نہیں سکتی، دوسرے دن میں نے اپنی کتاب ’بساطِ فکر‘ اُنہیں پیش کی اور اُس پر اپنی آپا جان (خالدہ بلگرامی صاحبہ) کا مقدمہ دیکھ کر اُنہیں پھوپھی صاحبہ سے ہمارے رشتے کا اندازہ ہوگیا۔

محترمہ خالدہ صاحبہ کے کافی مضامین ہیں جو روزنامہ ’’آفتابِ جدید‘‘ اور روزنامہ ’’ندیم‘‘ کے صفحات میں تلاش کئے جاسکتے ہیں اور اِن کا ایک انتخاب بھی شائع ہوسکتا ہے، اِسی طرح ہم اُردو کی پہلی کل وقتی خاتون صحافی کی یاد اور کام کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کرسکتے ہیں، ورنہ بھوپال کے کتنے ہی ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کی طرح وہ بھی فراموش کردی جائیں گی۔

(یو این این)

***********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 865