donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Aap Beeti
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Monazir Ashiq Harganvi
Title :
   Poona Yatra


 

پونا یاترا
 
(ڈاکٹرمناظر عاشق ہرگانوی ،کھوسر ،بھیکن پور ۔3، بھاگلپور (بہار
 
ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ برائے ادب اطفال 2012لینے کیلئے مجھے پونہ جانا تھا ۔مہاراشٹر کا یہ مشہور تاریخی شہر میرے لئے نیا تھا۔میں براہ راست پونہ نہیں گیا۔ساہتیہ اکیڈمی کی طرف سے 15سے 17نومبر 2012ء تک سہ روزہ انٹر نیشنل سیمینار سعادت حسن منٹو پر تھا جس میںمجھے بھی مضمون پڑھنا تھا اور 17کی شام سے 19تک سلویشن کی طرف سے ’’ادبی تھیوری اور شعریات‘‘ پر عالمی سمینار تھا جس میں مجھے مقالہ پیش کرنا تھا ۔اسی لئے میں 14سے ہی دہلی میں تھا۔19کو وہیں سے پونہ جانا تھا ۔سکریٹری کے سری نواس رائو کو میں نے لکھ دیا تھا کہ ہوائی جہاز سے اپنے ساتھ میرا بھی ریزرویشن کرا دیں او رڈاکٹر مشتاق صدف سے کہا تھا کہ پونہ سے پٹنہ میں بائی ایئر جائوں گا۔
 
دہلی میں دونوں سمینار شاندار اور یادگار تھا ۔اسی بیچ دو شام پروفیسر گوپی چند نارنگ کے لئے وقف کی گئی تھی ۔حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں ’’ستارہ امتیاز‘‘ ملنے کی خوشی میں ایک شام رنگا رنگ بنی ۔پاکستان کے ایمبسڈر نے شرکت کی ۔دوسری شام بھی بیحد اہم تھی کہ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کو گیان پیٹھ کی طرف سے ’’مورتی دیوی ایوارڈ ‘‘ سے نوازا گیا۔یہ ملک کا بڑا ادبی انعام ہے جس میں چار لاکھ روپئے او رمومنٹو اہمیت کے حامل ہیں ۔
 
19کو 11بجے میں گوپی چند نارنگ  انتظار حسین ، کشور ناہید ،اصغر ندیم سید، ستیہ پال آنند، اشفاق حسین ، ناصر عباس نیئر ، ریز کمگ ، نظام صدیقی ، سیفی سرونجی ،قدوس جاوید ،ہمایوں اشرف ،حقانی القاسمی ، کوثر مظہری ،شمیم طارق ، خاور نقیب ، بیگ احساس ، اجئے مالوی ،فاروق ارگلی ، فرحت احساس ، معین شاداب ، غضنفر ،اسیم کاویانی ، الیاس شوقی ،لئیق ، اسلم پرویز ، مشتاق احمد وانی ،شہزاد انجم ، عبدالرحمن ، راشد انور راشد، محمد نعمان خاں، پرویز شہر یار، انور پاشا ، نسیم احمد نسیم ، جمال اویسی ، مشتاق صدف، محمد مرتضیٰ ، محمد انظار عالم اور دوسروں سے رخصت لے رہا ہوں ،اخترالواسع ،شافع قدوائی ، خواجہ محمد اکرام الدین ، عتیق اللہ ، نارنگ ساقی ، نند کشور وکرم ، نصرت ظہیر ، ابوالکلام قاسمی ، اشفاق احمد عارفی ، فضل امام ملک ، شاداب رشید وغیرہ سے قبل ہی رخصت لے چکا ہوں ۔خالد محمود ، سہیل انور اور مہہ جبیں نجم سے بھی ملاقاتیں رہیں۔مشرف عالم ذوقی بہت اپنائیت سے ملے ۔زیادہ جوان نظر آئے۔ قریب بارہ بجے رائو صاحب نے ا طلاع بھجوائی کہ میں نیچے گاڑی میں آجائوں ۔ سامان لے کر نیچے آیا تو ساہتیہ اکیڈمی کے ایکٹنگ صدر وشوناتھ پرساد تیواری ، ڈپٹی سکریٹری مرگ نینی اور کے ایس رائو ایئر پورٹ چلنے کے لئے تیار تھے ۔پالم ہوائی اڈہ ہم وقت سے پہنچ گئے ۔INDIGOسے ہمیں جانا تھا۔ دو گھنٹے کی پرواز میں ہمیں لنچ بھی ملا کیونکہ بورڈنگ کارڈ پر’’ اسپیشل سروس ‘‘ لکھا ہوا تھا جبکہ انڈیگو میں قیمتاً سب کچھ ملتا ہے ۔ہماری سیٹ الگ الگ جگہ پر تھی ۔رائو صاحب پوچھنے آئے کہ ایئر ہوسٹس نے روپے تو نہیں لئے ۔
 
پونہ ایئرپورٹ سے باہر آیا تو ’’اسباق ‘‘ کے مدیر ’ شاعر، ادیب نذیر فتح پوری ،عرفان خاں اور چند دیگر حضرات موجود تھے ۔کئی درجن کتابوں کے مصنف و مرتب اور تیس سال سے ’اسباق ‘ نکالنے والے صحافی نذیر فتح پوری سے یہ پہلی ملاقات تھی۔انہوںنے مجھ خاکسار پر اپنے رسالے کا خصوصی نمبر شائع کیا تھا ۔ ایک کتاب مرتب کی تھی او رایک کتاب لکھی ہے ۔میری بھی ان پر ایک کتاب ہے ۔دیرینہ کرم فرماہیں ۔تقریباً پینتیس سال کی رفاقت ہے ۔کئی مواقع آئے کہ ملتے ملتے رہ گئے ۔یہ پہلی ملاقات یادگار تھی ۔عرفان نے کئی زاویے سے تصویر یں لیں ۔تقریباً دس منٹ تک ملنے کی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کل بال گندھر و رنگ مندر ہال میں ملنے کا وعدہ لے کر میں اپنے ہم سفر کرم فرمائوں کے ساتھ کار میں بیٹھ گیا ۔تقریباً بارہ پندرہ کیلو میٹر کی دوری پر شہر کے قلب میں آپٹے روڈ پر سات ستارہ ہوٹل ’’رامی گرانڈ‘‘ میں ٹھہرنے کا انتظام تھا۔ہندوستان سے انگلینڈ تک پانچ ستارہ ہوٹل میں قیام کرچکاہوں لیکن سات ستارہ ہوٹل میں ٹھہرنے کا یہ پہلا اتفاق تھا۔چھٹی منزل پرکمرہ نمبر 616مجھے ملا۔ڈبل بیڈ کا روم تھا۔پتہ چلا کہ انگریزی میں ساہتیہ اکیڈمی انعام پانے والے رسکن بونڈ میرے روم پارٹنر ہوں گے۔لیکن اپنی علالت کی وجہ سے وہ نہیں آئے اور میں تنہا رہا ۔
 
ساہتیہ اکیڈمی ہر سال چوبیس منظور شدہ زبانوں کے ایک ایک قلمکار کو انعام دیتی ہے ۔انگریزی حروف
تہجی سے 2012میں انعام پانے والی زبان اور فنکار کے نام اس طرح ہیں : 
 
آسامی (شنتنو تمولی )،بنگالی (بلرام بساک )، بوڈو (ہری چرن بوڈو)، ڈوگری (بنسی لال شرما )، انگریزی (رکسن بونڈ)، گجراتی (یوسف میکوانی )، ہندی (بالا شوری ریڈی )، کنٹر (پلکل سیتا رام بھٹ)، کشمیری (ایوب صابر)، کوکنی (سدھا کرانگٹے )، میتھلی (مرلی دھرجھا)، ملیالم (کے شری کمار)، منی پوری (سگولسیم اندرکمار سنگھ )، مراٹھی (بابا بھانڈ)، نیپالی (شیشوپال شرما)، اڑیہ (رام پرساد موہنتی )، پنجابی (من موہن سنگھ ڈان)، راجستھانی (دین دیال شرما)، سنسکرت (اوم پرکاش ٹھاکر)، سنتھالی (پیتا مبرہنسدا)، سندھی (جگدیش لچمچانی )، تامل (کے ایم کوتھانڈم)، تیلگو (ریڈی راگھاویا)، اردو (مناظر عاشق ہرگانوی )۔
20نومبر کو چار بجے شام میں ہم سب کو بذریعہ کار رنگ مندر ہال لے جایاگیا ۔وہاں ساہتیہ اکیڈمی کی مطبوعات برائے فروخت کاکائونٹر تھا۔چائے ناشتے کا بھی انتظام تھا۔ہال سے باہر سبھی انعام یافتہ قلکاروں کی چار چار فٹ کی تصویریں آویزاں تھیں۔اسٹیج بہت خوبصورت سجایا گیا تھا ۔چوبیس کرسیاں لگی ہوئی تھیں ۔صدر او رچیف گسٹ کی کرسیاں الگ سے تھیں ۔پانچ بجے کے ایس رائو صاحب مائک پرآئے ۔سبھی قلم کاروں کا تعارف کراتے ہوئے اسٹیج پر آنے کی دعوت دی۔سبھی نام کی تختیاں لگی ہوئی تھیں ۔جب ہم بیٹھ گئے تو آج کے پروگرام کے صدر وشوناتھ پرساد تیواری صاحب کے نام کا اعلان ہوا۔پھر چیف گیسٹ انیل اوچٹ کو بلایا گیا۔یہ مراٹھی کے نامور قلمکار ہیں ۔کارروائی کو آگے بڑھانے کے لئے رائو صاحب نے ساہتیہ اکیڈمی کے صدر تیواری جی کو مائک دیدیا ۔نام پکارا جاتا تھا ۔ایک محترمہ طشت میں بڑی سی پھولوں کی مالا لیکر آتیں اوچٹ جی اور تیواری جی مل کر قلمکار کو ہار پہناتے ،مومنٹو دیتے اور پچاس ہزار روپئے کا چیک دے کر شکریہ ادا کرتے ، ہاتھ ملاتے دو گھنٹے پروگرام چلا۔نذیر فتح پوری ، قاضی مشتاق احمد ،اندرا شبنم اندو، رفیق جعفر ، اسلم چشتی ،منور پیر بھائی ، ممتاز پیربھائی او رکئی دیگر اردو دوست نے پہلے مبارک باد دی ۔پھر ہم تئیس زبانوں کے قلمکار نے ایک دوسرے کو مبارک باد دی ۔آئوٹوگراف لینے اور فوٹو کھنچوانے کی بھیڑ تھی ۔اسی دوران عثمان انجم نظر آئے ۔وہ وشاکھا پٹنم سے خاص اس پروگرام کو دیکھنے او رمبارک باد دینے کے لئے آئے تھے اور نذیر فتح پوری کے یہاں ٹھہرے تھے ۔فون پر بات ہوچکی تھی۔گلے مل کر ہم نے ملاقات کی تجدید کی ۔عرفان خاں، اسلم چشتی اور اندرا شبنم اندو نے کہاک کہ انہوںنے تصویریں کھینچی ہیں ۔وہ مجھے بھیجیں گے ۔منور پیر بھائی اور اسلم چشتی نے کہا کل شام میں ہم ساتھ کھانا کھائیں گے اور باتیں کریں گے ۔میں نے کہاابن صفی پر ابھی میری دوکتابیں چھپی ہیں ان کا اجر اء بھی کل ہوجائے ۔پروگرام طے پاجانے کے بعد اگلے دن صبح دس بجے یہیں ملنے کا وعدہ لے کر ہم رخصت ہوئے کہ کل صبح دس بجے سے ’ writers meet‘پروگرام اسی ہال میں ہونا ہے ۔سبھی انعام یافتہ قلمکار اپنے بارے میں دس بارہ منٹ کا پیپر پڑھیں گے اور تخلیقی سفر کی جانکاری دیں گے۔
 
ہوٹل لوٹنے کے بعد میں اور ایوب صابر ادھر ادھر گھومتے رہے اور پونہ کے بارے میںمعلومات حاصل کرتے رہے ۔ایوب صابر پریشان تھے کہ سری نگر فون نہیں لگتا ہے ۔ایس ٹی ڈی بوتھ سے بھی ان کی بات نہیں ہوسکی ۔آج ہی یہاں قصاب کو پھانسی دی گئی تھی اسی لئے ممکن ہے کشمیر سے رابطہ منقطع ہو۔
پونہ ہوائی جہاز سے جڑا ہوا شہر ہے ۔کنگ فیشر کی چھ فلائٹ ، اسپاٹس جٹ کی چھ ، جٹ ایئرویز کی گیارہ ، انڈیگو ایئرلائنز کی دس ، ایئر انڈیا کی چھ ، گوائر کی پانچ اور لفتھا نسا کی ایک پروازیں روزانہ آتی جاتی ہیں ، یہ پروازیں دہلی ،بنگلور ، گوا، چنئی ، احمد آباد ، حیدر آباد، کلکتہ، ممبئی ، اندور ، اورنگ آباد ، ناگپور ، دبئی اور فرینکفرٹ سے اس شہر کو جوڑتی ہیں ۔ویسے برٹش ایئر ویز ،سنگاپور ایئر لائنز ،سوئس انٹر نیشنل ایئر لائنز ، جی ایس اے ایتھو دین ، جی ایس اے انٹر گلوب ، ایئر نیوزی لینڈ، ورجن ایٹلانٹک ، یونائٹیڈ ائر لائنز ، چائنا ایسٹرن ، ڈریگن ایئر وغیرہ بھی یہاں آتی ہیں۔اس طرح پونہ دنیا کی گود میں ہے ۔
 
پونہ کے قابل ذکر مقامات میں چند اہم ہیں :
 
شنیوارواڈا : یہ پیشوا جی کا مستقر تھا ۔سات منزلہ اس عمارت کو باجی رائو اول نے 1730ADمیں بنوانا شروع کیا 1732ADمیں تیار ہوا ۔اس وقت اس پر سولہ ہزار ایک سو بیس روپئے خرچ ہوئے تھے ۔یہاں کا لائٹ اینڈ سائونڈ شو مشہور ہے ۔
 
پروتی ہل اور مندر : یہ پونہ کی سب سے اونچائی پر واقع ہے ۔یہاں سے پونہ کا نظارہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔یہاں چار مشہور مندر ہیں ۔دیو یشور ، لارڈ کرتیکیا، وشنو اور ویرتھل ۔ان میں مراٹھا راجائوں کی کہانی چھپی ہوتی ہے ۔نانا صاحب پیشوا کی سمادھی یہیں پر ہے ۔یہاں میوزیم بھی ہے ۔
 
پربھات میوزیم : فلم اور ٹیلی ویزن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا جیسا مشہور ادارہ پربھات فلم کمپنی کے اندر ہے ۔ہندی اور مراٹھی فلم کی یہ بڑی پہچان ہے ۔پربھات اسٹوڈیو میں ہی فلم سے متعلق میوزیم ہے جو فروری 2008سے پبلک کے لئے عام کیاگیا ہے ۔
آغا خاں پیلیس :یہ تاریخی عمارت ہے جہاں سے آزادی کی تحریک میںابال آیا اور بھارت چھوڑو آندولن کی آواز میں گرمی آئی ۔اس پیلس میں گاندھی جی اپنی اہلیہ کستوربا کے ساتھ 9اگست 1942سے 6مئی 1944تک ٹھہرے تھے ۔
سارس باغ اور مندر : پکنک منانے کے لئے اور پرسکون فضا کا مزہ لینے کے لئے یہ باغ مناسب جگہ ہے ۔سارس مندر اسی کے اندر ہے جو 225سال پرانا ہے ۔مادھو رائو پیشوا نے اسے 1784میں بنوایا تھا۔اور بھی کئی قابل دید مقامات کا علم ہوا جن کی حیثیت تاریخی ہے ۔پتہ چلا کہ ریلوے اسٹیشن اور PMPMLبس اسٹینڈ سے ٹورسٹ بسیں چلتی ہیں ۔کرایہ 165/-روپے فی شخص ہے ۔
 
مجھے پونہ کی وجہہ تسمیہ اور تاریخ جاننے کا تجسس تھا ۔بڑی دقتوں سے رانی گرائونڈ ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں ایک صاحب سے درج ذیل جانکاری انگریزی میں ملی :
 
During the period of the Rashtrakut dynasty, Pune was referred to as Punaka Vishaya and Punya Vishaya where vishaya means region. From Punaka Wadi and Punaka Desha to Kasabe Pune, it finally came to be known as Pune, Pune as Punya -a holy place.
Pune is linked with the life of the Maratha hero, Chhatrapati Shivaji and the city acquired prominence when Shivaji came to stay with his mother in 1635-36.
 Pune became known to the Delhi Sultanate only after the rise of the great Maratha king Chattrapati Shivaji. He laid the foundation for the mighty Maratha kingdom. He began developing the city by first building the famous temple of Kasba Ganapati. After his death and the murder of his son. Sambhaji, the city came under the Mughal Emperor Aurangazeb. Pune became famous for its silk and cotton weaving and its copper vessel. The third Peshwa, Balaji Baji Rao, Created a sophisticated water distribution system bringing potable water all the way from katraj. It was carried in aqueducts to various parts of the city. He also built the first bridge across the Mutha river to the west to help in the city's growth and it is still known as the Lakdi pul; (wooden bridge).
Even after Indian independence, Pune remained an educational and research center with the foundation of the University of Pune, the National Defence Academy(NDA) , National Chemical Laboratory and other such leading institutes. Pune also acquired importance because of Osho Rajneesh, who set up his commune which is visited by thousands of foreigners every year.
 
میں نے یہ بھی پتہ کیا کہ پونہ میںچھ اہم لائبریری ہیں :
٭ برٹش لائبریری  ٭ پونے مراٹھی گرنتھالئے ٭نیلاین لائبریری ٭پٹ وردھن واچ نالئے ٭ سدھارتھ فری ریڈنگ روم اورلائبریاں ٭ اعظم کیمپس لائبریری 
دراصل اعظم ایجوکیشن ٹرسٹ منور پیر بھائی کا ہے جس کے تحت بہت سے تعلیمی ادارے فعال ہیں ۔اس ٹرسٹ کے زیراہتمام تقریباً دودرجن کتابیں اردو میں شائع ہوچکی ہیں۔
ایک اور ادارہ ’’گولڈن جوبلی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ ‘‘ کا علم ہوا ۔یہاں بھی ایک اچھی لائبریری ہے اور 24گھنٹے انٹر نیٹ کی سہولت ہے ۔
پونہ میں اردو کی جوبھی خدمت ہو رہی ہے اس میں چند گنے چنے لوگوں کا جذبہ رہا ہے ۔پورے شہر میںتقریباً بیس کیلو میٹر کے دائرے میں میرا گھومنا ہوا لیکن کہیں بھی ہندی یا اردو کا بورڈ نظر نہیں آیا۔جبکہ ہندی ہندوستان کی قومی زبان ہے ۔سیون اسٹار ہوٹل میں جہاں میں ٹھہرا تھا صرف انگریزی اور مراٹھی کے اخبار آتے تھے ۔ممبئی کا ’اردو ٹائمز ‘‘ رفیق جعفر نے مجھے دیا۔نذیر فتح پوری کے گھر پر بھی یہ اخبار میںنے دیکھا۔یہ بھی علم ہوا کہ قاضی  مشتاق احمد کے یہاں ممبئی کا اخبار ’’انقلاب ‘‘ آتا ہے ۔مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ گذشتہ تیس سال سے نذیرفتح پوری رسالہ ’’اسباق ‘‘ کیسے نکال رہے ہیں ۔اردو کا جنون ان میں ایسا ہے کہ گھر کا سرمایہ لگاتے رہتے ہیں جبکہ آمدنی کا کوئی خاص ذریعہ نہیں ہے ۔وہ سات بیٹوں اور سات بیٹیوں کے باپ ہیں ۔گھر کی اوپری منزل پر وہ مجھے لے گئے جہاں ہال نما کمرہ کتابوں اور رسالوں سے بھرا ہوا تھا جس کی کوئی ترتیب نہیں تھی ۔وہ کہنے لگے کہ بیٹے بضد ہیں کہ یہ کمرہ خالی کردو ں تاکہ چار ہزار روپئے ماہوار کرایہ آئے ۔لیکن جیتے جی وہ اسے خالی کرنے پر تیار نہیں ہیں ۔گھر کے چھوٹے سے برآمدے میں صوفہ پر بیٹھ کر لیٹ کر وہ لکھتے پڑھتے رہتے ہیں او ر ’’اسباق ‘‘ ایڈٹ کرتے ہیں ۔تحقیق ،تنقید ، شاعری او رافسانچہ نگاری ان کاخاص میدان ہے ۔پونہ کی دوسری اہم ادبی شخصیت قاضی مشتاق احمد کی ہے ۔وہ افسانہ نگار ہیں، ڈراما نگار ہیں ، تنقید نگار ہیں او رسماجی مبصر ہیں ۔سیاسی حالات پر ان کی گہری نگاہ رہتی ہے ۔بے تحاشہ لکھتے ہیں ۔میں انہیں چھوٹے بڑے رسائل میں پڑھتا رہتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ وہ وقت کیسے نکال لیتے ہیں ۔
 
رفیق جعفر تنقیدی ذہن کے آدمی ہیں ۔کتابوں پر ان کے تبصرے جامع ہوتے ہیں ۔اسلم چشتی تازہ کار شاعر ہیں ۔زبان و بیان ، طرز ادا ، سراپا نگاری اور جذبات نگاری کی انفرادیت ان کی شاعری میں ملتی ہے ۔پیار کو قدرت کاانمول تحفہ قرار دیتے ہیں ۔
اندر شبنم اندو رہن سہن ، زبان و بیان اور لب و لہجے سے منفرد نظر آتی ہیں۔ ان کی شاعری اور افسانہ نگاری میں عورت کے جذبات کی کتھا الگ انداز سے بیان ہوتی ہے ۔
 
انیس چشتی بھی پونہ میں ہی رہتے ہیں ۔یہاں ملاقات نہیں ہوسکی ۔پہلی ملاقات ناگپور کے ایک مشاعرہ اور سمینارمیں ہوئی تھی ، کوئل من سے اظہار پر قدرت رکھتے ہیں۔
رات بہت دیر تک جاگتا رہا ۔کب نیند آئی اور کب صبح ہوئی اندازہ اس وقت ہوا جب مرگ نینی جی کا فون آیا کہ نو بجے  ریسپشن پر ملنا ہے ۔دس بجے سے writers meetپروگرام ہے ۔
 
سوا دس بجے سے پروگرام شروع ہوا اور دو بجے تک چلا ۔زیادہ تر قلمکاروں نے اپنی اپنی زبان میں تفصیل بتائی ۔دو ایک نے انگریزی میں پیپر پڑھا ۔چار نے ہندی میں اپنے بارے میں بتایا ۔میری باتیں اردو میں تھیں ۔سامعین کی تعداد آج بھی اچھی خاصی تھی ۔لنچ کا انتظام یہیں تھا ۔فلم ڈائریکٹر یعقوب خاں اور شاعر یسین براری مجھ سے ملے ۔وہاں سے نذیر فتح پوری اور عثمان انجم ’گرامی گرانڈ ‘ ہوٹل کے میرے کمرے میں آگئے ۔دو گھنٹے تک ہم نے ڈھیروں باتیں کیں ۔’’اسباق‘‘ کے تازہ شمارہ پر باتیں ہوئیں ۔’’اصنام ‘‘ کے سوویں شمارہ کاکمپوز شدہ مواد عثمان انجم ساتھ لائے تھے ۔ایک نظر دیکھ کر ترتیب میں مدد کی ۔یعقوب خاں کا بھی ذکر آیا کہ وہ بہت ہی لہک کر اور ایک کر مجھ سے ملے تھے ۔تصویر یں بھی کھنچوائی تھیں۔کیمرہ ساتھ لے کر وہ آئے تھے ۔دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ فلم اور ویڈیو ایڈیٹر اور ڈائرکٹر ہیں ، ان کی 33فلمیں ریلیز ہوچکی ہیں ۔’’دو دل والے ‘‘ گرواور چیلا‘‘ دین اور ایمان ‘‘ بیٹی  ’’موت ‘‘ سیج پیاکا ‘‘ ’’وقت کا سکندر  وغیرہ اہم ہیں ۔دھرمیندر ،زینت امان ، شکتی کپور ،پریم چوپڑہ ، ونود مہرہ ، اکبر خاں ، نوتن ، امریش پوری ، رنجیت ،ریحانہ سلطان ،شیخ مختار وغیرہ ان کی فلموں میں کام کرچکے ہیں ۔سات فلموں میں وہ اداکار کی حیثیت سے بھی جلوہ دکھا چکے ہیں۔بھوجپوری ،مراٹھی ، راجستھانی ،پنجابی ،ہریانی اور گجراتی فلمیں بھی انہوںنے ڈائرکٹ کی ہیں ۔گذشتہ تیس سال سے وہ بولی ووڈ میں ہیں ۔اس سے قبل چھ سال تک ٹریفک انسپکٹر کی حیثیت سے پونہ ایئر پورٹ پرکام کر چکے ہیں ۔
 
شام آٹھ بجے Blue Nileہوٹل پہنچنا تھا۔اسلم چشتی نے مجھے کھانے پر وہیں بلایا تھا۔کتابوں کی رونمائی بھی وہیں ہوئی تھی ۔ بریانی کے لئے یہ ہوٹل پونہ میں مشہور ہے۔عرفان خان مجھے لینے کے  لئے آگئے ۔ ان کی گاڑی پر بلو نائل ، پہنچا تو پہلا شخص میں ہی تھا۔ فوراً ہی قاضی مشتاق احمد آگئے ۔عرفان مجھے ان کے حوالے کرکے ریلوے اسٹیشن چلے گئے کہ عثمان انجم صاحب کے لئے ریزرویشن کرانا تھا۔ آج ہی رات میں ان کی واپسی تھی ۔عثمان انجم ،نذیر فتح پوری ،رفیق جعفر ، اسلم چشتی ، منور پیر بھائی ، ممتاز پیربھائی چند منٹ کے وقفے سے آگئے ۔حیدر آبادی اور لکھنوی بریانی میں کھا چکا تھا ۔پونہ کی مشہور بریانی اور چکن روسٹ کھانے کے لئے ہم نے مخصوص بڑے ٹیبل کا انتخاب کیا۔چونکہ ممتاز صاحبہ ہمارے ساتھ تھیں اس لئے اوپری منزل کے فیملی حصے میںہم بیٹھے تھے ۔اسلم چشتی اور قاضی مشتاق احمد بتاتے رہے کہ یہ ایرانی ہوٹل ہے ۔یہاں کی دم بریانی ،مٹن مکس ، چکن کری ،چکن روسٹ اور چکن حیدر آبادی ڈشش مشہور ہیں ۔کھانے کے دوران بریانی کی ہی باتیں ہوتی رہیں ۔قاضی مشتاق احمد نے بتایا کہ بھارتی ودیاپیٹھ کے سامنے ایک ایسا ہوٹل ہے جہاں سو طرح کی بریانی ملتی ہے جس میں 50طرح کی ویج بریانی اور 50طرح کی نن ویج بریانی ہوتی ہے ۔ایم جی روڈ پر بھی ایک جیورج رسٹورنٹ ہے جہاں 1932سے بریانی ملتی ہے ۔پہلے وہیں کی بریانی مشہور تھی ۔ویسے بریانی کے لئے ہوٹل ’’پرائڈآف حیدر آباد ‘‘ بھی شہرت رکھتا ہے ۔اسلم چشتی کی طرف سے ذائقہ دار کھانا کھانے کے بعد میری دو کتابوں ’’ابن صفی کے جاسوسی ناولوں میں طنز و مزاح ’’ اور ’’ابن صفی کا جاسوسی سنسار ’’کا اجراء ہوا ۔منور پیر بھائی ،ممتاز پیربھائی ، نذیر فتح پوری ، قاضی مشتاق احمد ، عثمان انجم اور اسلم چشتی نے کتابوں کی رونمائی کی ۔ادارہ ’’اسباق ‘‘ پونہ اور ادارہ ’’اصنام ‘‘ وشاکھا پٹنم کی طرف سے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملنے پر میری شال پوشی اور گل پوشی کی گئی اس کے فوراً بعد قاضی مشتاق احمد کی بھی دو کتابوں ’’میڈم انار کلی اور بے نام رشتے ’’ اور ’’مضامین نو : جدید ادبی افکار ‘‘ کا اجرا ہوا ۔ہوٹل گاہکوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔وہ سب اور ہوٹل کے مالک اور اسٹاف ناظر بنے کہ یہاں پہلی بار کسی کتاب کی رونمائی کا پروگرام ہوا ۔سبھی نے ہمیں مبارک باد دی ۔
 
عرفان مجھے لونا والا اور کھنڈالی گھمانا چاہتے تھے ۔انہوںنے بتایاکہ پونہ ستر کیلومیٹر کی دوری پرہے لیکن میرے پاس وقت نہیں تھا ۔چند گھنٹے نذیر فتح پوری کے ساتھ گذارنا مجھے زیادہ پسند تھا اوریہ لمحے میں نے ان کے گھر پر گذارے ۔محبوب راہی کے فون کئی بار آئے ۔علالت کی وجہ سے وہ پونہ نہیں آسکے ورنہ ملاقات کی خواہش پوری ہوتی۔ایک بار کھنڈوہ میں ان سے ملاقات ہوچکی ہے ۔قاضی حسن رضا کے گھر پر میرے اعزاز میں شعری نشست رکھی گئی تھی اور سفیان قاضی اندور سے خاص طور پر مجھے کھنڈوہ لے گئے تھے ۔شان بھارتی کے بھی فون آئے وہ بھی پونہ آنا چاہتے تھے ۔لیکن ...انہوںنے آنکھ کاآپریشن کرایا تھا اس لئے پروگرام بناکر نہیں آئے ۔وہ آتے تو ’’رنگ ‘‘ کے تازہ شمارہ کا اجراء طئے تھا ۔
اسلم چشتی نے مجھے وہ علاقہ دکھایاجہاں تقریباً چار سو بہاری فیملی بیکری کا کاروبار کرتی ہے ۔پورے مہاراشٹر میں ان کے بیک کی مانگ ہے ۔
کل یعنی 21نومبر کا دن پونہ کے لئے سنسنی خیز تھا کہ یہاں اجمل قصاب کو چار سال کے انتظار کے بعد پھانسی دیدی گئی ۔اس عرصے میںاس پر اکتالیس کروڑ اکیاسی لاکھ روپئے خرچ ہوئے ۔اس کی گرفتاری مارچ 2009میں ممبئی میں ہوئی تھی ۔
 
کم وقت میں ساہتیہ اکیڈمی انعام لینے کی مصروفیت کے باوجود میں نے پونہ کو کسی حد تک جاننے پہچاننے کی کوشش کی ہے ۔اس یاترا کی خود کلامی میں کئی سفاک سچائیاں ہیں ۔بہت بڑے شہر کی چکا چوند میںاردو کو میری آنکھیں تلاش کر رہی ہیں ۔سوچ رہا ہوں، ہم کتنے محدود ہیں ۔میرے ہاتھ میں بڑے سے ڈبہ میں ساہتیہ اکیڈمی کا مومنٹو ہے ،روپے کا لفاف ہے ،سبھی 24انعام یافتہ قلمکاروں کی تعارفی کتاب ہے ۔چار فٹ کاپورٹریٹ ہے او رکئی شال ہیں ۔میںیہ س اپنے ساتھ لے جارہا ہوں لیکن ڈبہ خالی کرکے یہیں چھوڑ جائوں گا۔
****************
Comments


Login

You are Visitor Number : 1123