donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Aap Beeti
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Gohar Azmi
Title :
   Baldia Karachi Ke Bhoot Karinde

بلدیہ کراچی کے بھوت کارندے

آپ بیتی

گہرا عظمی
    

میں

اپنی زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات اللہ کو حاضر ناظر جان کر پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ پہلے اپنا ہلکا سا تعارف اپنی ۱۹۶۰ء کی خودنوشت ڈائری سے کرا دوں جو اتفاق سے میرے پاس ابھی تک محفوظ ہے۔

من آنم کہ من دانم:

ذات کا آئینہ جب دیکھا تو حیرانی ہوئی
میں نہ تھا گویا کوئی مجھ سا تھا میرے روبرو

’’من آنم کہ من دانم ‘‘ایک فارسی ضرب المثل ہے جس کے معنی ہیں ’’میں جیسا ہوں خود ہی جانتا ہوں۔‘‘ میں کیسا ہوں‘ کیا ہوں‘ اس سلسلے میں اپنی ایک پرانی ڈائری سے اقتباس درج ہے۔

’’انصار عجیب آدمی ہے… سوچ رہا ہوں آج ان حضرت کے متعلق بھی کچھ خامہ فرسائی ہو جائے۔ حضرت خود کو احساس برتری کا شکار بتلاتے اور اپنے آپ کو عقلمند ترین اشخاص میں شمار کرتے ہیں۔ حالانکہ حکیم جالینوس یہ کہہ چکے ’’احمق کی پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ خود کودانا خیال کرتا ہے۔‘‘ میں تو ان کی کمزوریوں سے واقف ہوں۔ لیکن جب کسی کے مقابلے پر آئیں تو ایسا چت گرتے ہیں کہ کپڑے جھاڑنے میں کافی دیر لگتی ہے۔

’’ خود کو بہت معصوم ظاہر کرتے ہیں‘ لیکن ان کی نگاہیں اتنی بے باک ہیں کہ مجھے تنبیہہ کرنی پڑتی ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ واقعی عجیب آدمی ہیں۔ یہ میں ہوں یا انور (بھائی) جو اِن کی کمزوریوں سے واقف ہیں۔ ورنہ لوگ تو انہیں فرشتہ سیرت تصور کرتے ہیں۔ کہتے تو ہیں کہ بااصول ہوں‘ لیکن میرے اور انور کے خیال میں اتنا بے اصولآدمی شاید پیدا ہی نہیں ہوا۔ دوسروں کی برائی کرنے سے نہیں چوکتے پھر بھی اُمید یہی رکھتے ہیں کہ ان کی تعریف کی جائے۔ انہی جیسے لوگوں کی اصلاح کے لیے بہادر شاہ ظفر بہت پہلے کہہ چکے ؎

نہ تھی حال کی کچھ ہمیں اپنی خبر‘ رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
ظفرؔ آدمی اس کو نہ جانئے گا‘ ہو وہ کیسا ہی صاحبِ فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی‘ جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا

حضرت دوسروں کو تلقین کرنے کے لیے جعفر برمکیؓ کا قول منظوم کر چکے۔ اللہ تعالیٰ انھیں خود بھی اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے:

کسی نے پوچھا جعفر برمکیؓ سے
کہ عیب ہوتے ہیں کتنے آدمی میں
جواب اس کو دیا حضرت نے فوراً
کہ عیب ہوتے ہیں بے حد ہر کسی میں
مگر انساں کی خوبی ہے اک ایسی
اگر موجود ہو وہ آدمی میں
تو چھپ جاتے ہیں سارے عیب اس کے
نہیں ہوتا وہ رسوا زندگی میں
یہ پوچھا اس نے پھر‘ حضرت بتائیں
وہ خوبی کون سی ہے اور کیا ہے
جواب اس کو دیا تب آپ نے یہ
’’زباں پر قابو‘‘ کا رتبہ بڑا ہے

ویسے ایک اچھا انسان بننے کے بارے میں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

فرشتہ سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ
دردِ شقیقہ (Migraine)کی تشخیص

مجھے بنکاک پہنچے چند ہی روز ہوئے تھے کہ ایک روز سر میں شدید درد ہوا جو کئی گھنٹے رہا۔ پھر قے پر منتج ہو کے دھیرے دھیرے ختم ہوا۔ دماغی اور جسمانی طور پر مجھے کچھ کمزوری محسوس ہوئی چناںچہ ڈاکٹر کے پاس چلا گیا۔ اس نے میری ساری روداد سنی تو پھر سوال کیا کہ کیا کبھی ایسا درد پہلے بھی ہو چکا ہے؟ سوچنے پہ یاد آیا کہ چار سال قبل بھی اسی طرح کا سردرد ہوا تھا۔ آرام مجھے قے ہونے کے بعد ہی ملا تھا‘ حالانکہ اس روز میں خیالوں سے درد بھگانے کے لیے زبردستی رئیس احمدجعفری کا ضخیم ناول نازلی پڑھتا رہا‘ لیکن جوں جوں میں ناول کے صفحات الٹتا‘ درد بڑھتا رہا‘ درد سے نجات کے بعد میں نے آرام کیا اور اسے وقتی بے اعتدالی سمجھ کر کسی سے اس کا اظہار بھی نہیں کیا اور نہ کسی ڈاکٹر سے مشورہ کیا۔

جب ڈاکٹر کو ہاں میں جواب دیا تو اس نے کہا کہ تم دردِ شقیقہ (Migraine)کا شکار ہو چکے۔ یہ درد اب وقفے وقفے سے تمھیں آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ لیکن گھبرانے یا پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں۔ یہ وقتی اور ذہنی اور جسمانی طور پر بے ضرر ہے۔ جب کبھی سر میں تکلیف محسوس ہو‘ بلاتاخیر درد کی گولی کھا لو۔ پھر یہ درد رک سکتا ہے۔ تاخیر کی صورت میں اپنے پورے وقت کے بعد ہی ختم ہو گا۔ اس مرض کاابھی کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔

مجھے بنکاک میں دوبارہ مرض نے پریشان نہیں کیا۔ لیکن جب واپس کراچی پہنچ گیا تو پہلے لمبے وقفے اور پھر دو تین مہینوں بعد اس درد نے حملہ شروع کر دیا۔ اس درد کی وجہ سے میں خود تو پریشان رہا ہی ساتھ بیوی اور بچوں کو بھی پریشانی میں مبتلا رکھا۔ درد زیادہ ہونے کی صورت کمرے میں پردے کھینچ کر تنہا لیٹ جاتا۔ کسی قسم کی آواز یا شور انتہائی ناگوارہوتا۔ سر دبانا یا چھونا گراں گزرتا۔ البتہ سر کے گرد چادر یا دوپٹہ لپیٹنے سے کسی قدر آرام محسوس کرتا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات سمجھ میں آئی کہ سر میں ذرا بھی بھاری پن محسوس ہو تو دو گولی پیناڈول کھا لو۔ ورنہ ذرا سی تاخیر پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ دردِ شقیقہ کے حملے کا وقفہ بھی بڑھتا گیا۔ شدت میں بھی کمی آتی گئی۔ اب اللہ کے فضل و کرم سے اس مرض سے میری جان چھوٹ چکی۔

بنکاک کی قیامت خیز شب

تھائی لینڈ کے شہر بنکاک میں موسم برسات کا اپنا عجیب لطف ہے۔ کبھی ہلکی ہلکی‘ وقفے وقفے سے بارش ہوتی ہے اور کبھی موسلادھار! لیکن کراچی کی طرح سڑکیں زیرِ آب آنے یا ٹریفک معطل ہونے کی صورت کبھی نظر نہیں آئی۔ ایک شب ہاسٹل میں سارے لڑکے سو چکے تھے۔ اچانک گرج‘ چمک اور لگاتار بجلی گرنے کی تیز آوازوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔ یوں محسوس ہوا کہ شاید صور پھونک دیا گیا ہے۔ ہر پاکستانی لڑکا مبہوت اپنے اپنے بستر پر بیٹھ گیا۔ اگر کوئی غسل خانے میں تھا تو اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ کمرے میں بستر پر جا کر لیٹ جائے۔ وہ خوفناک آوازوں اور بجلی و بادلوں کی تیز گَڑگَڑاہٹ سے ششدر ہو کر رہ گیا۔

میں تو یہی سمجھا کہ قیامت آ گئی۔ دل ہی دل میں دعائیں پڑھنے لگا۔ ہم دونوں ساتھیوں پر ایسا خوف طاری ہوا کہ ایک دوسرے سے بات کرنے کی بھی ہمت نہیں تھی۔خیر اللہ اللہ کر کے یہ سلسلہ پندرہ منٹ بعد ٹوٹا اور پھر دھیرے دھیرے اختتام پذیر ہوا۔ میرا خیال تھا کہ آج بنکاک میں یقینا تباہی آئی ہو گی‘ خوش قسمتی سے ہم دونوں بچ گئے۔

اب سب لڑکے ہمت کر کے باہر نکلے۔ ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ باہر معمول کا ہنگامہ جاری تھا۔ اگلے دن جب تھائی ساتھیوں سے رات والے واقعے کا ذکر کیا تو انھوں نے بتایا ’’ہمارے لیے یہ کوئی خاص بات نہیں۔ اس طرح کی گرج چمک اور تیز بارش کا سامنا تو ہم اکثر کرتے ہیں اور اس کے عادی ہو چکے۔‘‘ لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ ہمارے لیے وہ شب قیامت صغریٰ سے کم نہ تھی۔

پاک بھارت جنگ

جنگ ۱۹۷۱ء میں کراچی دشمن کے خاص نشانے پر تھا۔ وہاں پاک بحریہ کا ہیڈکوارٹر واقع تھا تیل کے ذخائر بھی تھے۔ دوران جنگ آئے بھارتی طیارے کراچی پر حملہ کرتے۔ بحریہ والے ’’اِک اِک گن‘‘ چلاتے تاکہ انھیں بھگا سکیں۔ اسی وقت سائرن بجتے اور شہر تاریکی میں ڈوب جاتا۔ کوئنس روڈ پر واقع ہمارا گھر کیماڑی کی بندرگاہ سے قریب تھا۔ اس لیے ہم لوگ حفظ ماتقدم کے طور پر خالہ کے پاس نارتھ ناظم آباد منتقل ہو گئے۔

تین چار روز جب سائرن نہیں بجا اور خاموشی رہی تو ایک روز ہم لوگوں نے سوچا کہ چل کر گھر کی خبر لیں اور بچوں کے اوراپنے کپڑے وغیرہ لے آئیں۔ ہمیں شام کو واپس آنا تھا۔ شام پڑی تو سوچا کہ چلو آج رات گھر پر ہی گزار لیتے ہیں۔ اسی رات ہماری شامت آ گئی۔ رات ایک بجے کے قریب خطرے کا سائرن بجنے لگا۔ ہم لوگوں نے الماری کے درمیانے راستہ میں حفاظت گاہ بنا رکھی تھی۔ اس میں تینوں بچوں کو لیے بیٹھ گئے۔

کچھ دیر میں تھوڑے تھوڑے وقفہ سے بم گرنے کی آوازیں آنے لگیں۔ یہ بم قریب ہی ڈیفنس‘ سلطان آباد‘ حبیب پبلک اسکول‘ حاجی کیمپ اور آئل ٹرمینل پر گرائے گئے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گھر بری طرح ہل رہا ہے۔ دروازے‘ کھڑکیاں جن کے شیشوں پر کالے کاغذ لگے تھے‘ خوفناک آواز میں بج رہے تھے۔ چند کھڑکیاں زمینی جھٹکوں سے کھل گئیں۔ ہم نے دیکھاکہ بھارتی جہاز بہت کم اونچائی پر اڑتے جا رہے ہیں۔ ایک جہاز نے فاسفورس بم پھینکا تو چاروں طرف روشنی پھیل گئی۔اس نے اطمینان سے آئل ٹرمینل پر بم گرایا اور واپس لوٹ گیا۔

بعد میں معلوم ہوا کہ یہ جہازہماری اِک اِک گنوں کی حد سے نیچی پرواز کر رہے تھے‘ اس لیے نشانے پر نہ آ سکے۔ جب تک بمباری جاری رہی ہم لوگ بچوں کو سینوں سے لگائے خوفزدہ بیٹھے رہے۔ ان کے کانوں میں ہم نے پہلے ہی روئی ٹھونس دی تھی۔ مجھے یہی خدشہ ستاتا رہا کہ ہمارا آخری وقت آ پہنچا۔ جس طرح سے یہ گھر ہل رہا ہے‘ ہم کسی بھی لمحے اس کے ملبے تلے دب کا جام شہادت نوش کر جائیں گے۔ آخر خطرہ ختم ہونے کا سائرن بجا۔ میں نے پناہ گاہ سے نکل کر بتی جلائی۔ یہ دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہر چیز صحیح سالم تھی۔ البتہ قریب سے چیخ پکار اور ایمبولینس و فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کی مستقل آوازیں آ رہی تھیں۔

سلطان آباد‘ حبیب پبلک اسکول کے علاوہ ہمارے گھر سے قریباً ایک فرلانگ دور بم گرا تھا۔ اس نے پھٹتے ہی زمین میں کنوئیں جیسا بڑا گڑھا بنا دیا۔ یہ ایک کچی آبادی پر گرا تھا اس لیے بہت لوگ شہید ہوئے۔ پھر خالہ کا فون آیا‘ وہ بہت ناراض تھیں۔بولیں‘ تم لوگوں کو وہاں رات رکنے کی کیاضرورت تھی؟ دن کا اُجالا پھیلتے ہی ہم نے فوراً گاڑی نکالی اور خالہ کے پاس چلے گئے۔ پھر جب تک جنگ کا خاتمہ نہیں ہو گیا‘ ہم نے کوئنس روڈ کا رخ نہیں کیا۔

مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کو شکست ہوئی۔ جنرل نیازی نے بھارتی جنرل اروڑا سنگھ کے سامنے پلٹن میدان میں اپنی بیلٹ اُتار کر میز پر رکھی‘ اپنا پستول اس کے ہاتھوں میں دیا پھر پچانوے ہزار قیدی بھارتی فوج کے حوالے کر دیے۔

یوں مشرقی پاکستان علیحدہ ملک بنگلہ دیش بن گیا۔ شکست میں ہمارے فوجی حکمرانوں کا بڑا ہاتھ تھا‘ کچھ سیاسی طالع آزمائوں نے ملک کے دو ٹکڑے ہونے میں اپنی کامیابی سمجھی اور اقتدار پا لیا۔ انہی دنوں بھارت کی وزیراعظم نے کہا’’آج دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا اور ہم نے اپنے پرکھوں کا ہزار سال پرانا بدلہ لے لیا۔‘‘ اس وقت تمام مغربی پاکستانی انتہائی صدمے سے دوچار تھے۔ خود مجھ سے اس دن کھانا نہیں کھایا گیا۔ کچھ دن طبیعت بہت بے چین اور پریشان رہی۔ پھر دھیرے دھیرے وقت نے دل پر صبر کا مرہم رکھ دیا۔

اس ڈرامے کے تین بڑے کرداروں کی جس طرح موت واقع ہوئی‘ وہ قدرت کا ایسا بھیانک انتقام ہے جس سے زندہ رہنے والوں کو سبق لینا چاہیے۔ بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی اور اس کے دو بیٹے اور ایک بیٹی غیرفطری موت سے ہمکنار ہوئے۔ مجیب الرحمن اپنے پورے خاندان سمیت اپنے ہی فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہوا‘ اس کی صرف دو بیٹیاں زندہ بچ سکیں جو ملک سے باہر تھیں۔اندرا گاندھی اپنے سکھ محافظوں کے ہاتھوں ماری گئی۔ جبکہ اس کے بھی دو بیٹے غیرفطری طبعی موت کا شکار ہوئے۔

یہ سب کچھ ہوا لیکن ہمارا اور ہمارے حکمرانوں کا حال اب پہلے سے بھی زیادہ بُرا ہے۔ ہم من حیث القوم ہر قدم پستی کی طرف بڑھا رہے ہیں۔ ہمیں ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے


خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
(مولانا ظفر علی خاں)

۱۹۷۳ء میں بلدیہ کراچی کے محکمہ انجینئرنگ میں گریڈ ۱۸ سے گریڈ ۱۹ میں ترقی کا معاملہ بورڈ میں پیش ہوا۔ بورڈ کی صدارت ایم اے مجید‘ ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ کر رہے تھے۔ پانچ آدمی انٹرویو کے لیے بلائے گئے۔ دو اپنی سینیارٹی کی وجہ سے چن لیے گئے۔ باقی تین میں مجھے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ایک صاحب سے سینئر ہونے کے باوجود سب سے آخر یعنی پانچویں نمبر پررکھا گیا۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ مجھے عملی کام (Construction)کا تجربہ نہیں۔

اس بات کو ایڈمنسٹریٹر نے نوٹ کیا کہ یوں تو ہمیشہ ڈیزائن آفس میں کام کرنے کے باعث میرے ساتھ زیادتی ہوتی رہے گی۔ لہٰذا انھوں نے ازخود میرا تبادلہ ایگزیکٹو انجینئر ڈویژن نمبر۲ کی حیثیت سے کر دیا۔ تب اسی ڈویژن میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام ہوتے تھے۔ یہ ڈویژن جنوب میں لائنزایریا‘ شمال میں گلشن اقبال‘ مشرق میں محمود آباد اور مغرب میں لیاری ندی تک کے درمیان میں آنے والے تمام علاقوں پر مشتمل تھا۔

جب میں نے اپنے ڈویژن کی کارکردگی پر غور کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ چھوٹے چھوٹے کام میرے کہنے کے باوجود وقت پر نہیں ہوتے۔ مزید تحقیقات کی تو پتا چلا کہ عملہ ناکافی ہے۔ دوسرے مرمت کا سامان رقم خرچ ہونے کے باوجود اسٹور میں وقت پر موجود نہیں ہوتا۔ یہ جان کر میں چوکنا ہو گیا۔ سب سے پہلے میں نے کارکنوں (جمعدار‘ مالی وغیرہ) کی حاضری چیک کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک دن بغیر بتائے حاضری کے وقت آٹھ بجے اسٹور پہنچ گیا جہاں ان کی حاضری لگتی تھی۔

وہاں سب انجینئر جنھیں حاضری لینی تھی‘ خود موجود نہیں تھے۔ رجسٹر ان کی دراز میں بند تھا۔ وہ ساڑھے آٹھ بجے تشریف لائے۔ میرے اچانک آنے اور حاضری رجسٹر مانگنے پر سٹپٹائے۔ بہرحال رجسٹر دیا۔ جسے کھولتے ہی میرے چودہ طبق روشن ہو گئے۔ اُس روز مہینے کی دس تاریخ تھی‘ لیکن حاضری ایک دن کی بھی نہیں لگی تھی۔ پتا چلا کہ سب انجینئر مہینے کی آخری تاریخ پراپنی مرضی سے سب کی حاضری لگاتے اور اس کا ’’محنتانہ‘‘ وصول کرتے ہیں۔

میں نے پونے نو بجے اپنے سامنے حاضری لگوائی تو پتا چلا کہ ۹۵ ملازمین میں سے جن میں سپروائزری عملہ (۵ عدد) بھی شامل تھا‘ صرف چالیس کارکن موجود ہیں۔ بقایا پچاس کارکن غیرحاضرتھے۔ سب انجینئر نے مختلف توجیہات پیش کیں اور کہا کہ ان میں سے بیشترافسروں کے گھر کام کرتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ سب کو بلا لیں‘ میں اگلے ہفتہ پھر حاضری چیک کروں گا۔ تاریخ کا تعین یوں نہیں کیا کہ وہ جعلی کارکنوں سے تعداد پوری نہ کر دیں۔ میرا یہ اعلان موصوف نے فوراً ورکر یونین تک پہنچا دیا جو اِن دنوں خاصی فعال تھی۔

یونین کے لیڈر میرے پاس آئے اور مجھے سمجھانے لگے کہ میں ایگزیکٹو انجینئر ہوں‘ میرے ماتحت اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینئر‘ اسسٹنٹ انجینئر صاحبان آتے ہیں اور پھر ان کے ماتحت سب انجینئر صاحبان ہیں۔ یہ میرے فرائض منصبی کے خلاف ہے کہ اتنے بڑے عہدے پر ہوتے ہوئے میں سب سے کم گریڈ (کارکنوں کا گریڈ ایک تھا) والوں کی حاضری چیک کروں۔

میں نے ان سے کہا کہ مجھے کہاں روز روز اتنی فرصت ہے کہ صبح صبح کارکنوں کی حاضریاں چیک کرتا پھروں۔ لیکن مجھے اپنے علاقے میں فوری کام چاہیے۔ میرے پاس شکایت آئی کہ کارکن کم ہیں۔ میں مزید پچاس نئے کارکنان کی حکام بالا سے منظوری لے لوں تو میرے احکام کی فوری تعمیل ہو سکے گی۔ میرے علم میں ہے کہ ہمارے پاس چار ٹرک ہیں۔ ان پر اگر بیس مزدور فی ٹرک بھیجے جائیں تو ۸۰ مزدور کافی ہوں گے۔ جبکہ مجھے مزدورکہیں کام کرتے کسی سڑک پہ نظر آئے تو ان کی تعداد آٹھ‘ دس سے زیادہ نہیں تھی۔ اب میں مزید بغیر بتائے حاضری چیک کروں گا۔ سب انجینئر رجسٹر پر جتنے کارکن ہیں‘ ان کی تعداد پوری دکھائیں اور انھیں صحیح طرح کام پر لگا دیں تاکہ سڑکوں کے ٹوٹے حصے کم وقت میں درست ہو جائیں۔ تب مجھے حاضری لینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔

جب میں نے بغیر اطلاع کے دو دفعہ حاضری لی تو کارکنوں کی تعداد ۴۰ سے بڑھ کر ۶۵ ہو گئی۔ ان میں ۱۵ کارکن وہ بھی شامل تھے جو افسروں کے گھر کام کر رہے تھے۔ تیس کارکن سرے سے غائب پائے گئے۔ ان میں سے چند وفات پا چکے تھے۔ چند نوکری چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ بقایا جعلی کارکن؍بھوت کارندے (Ghost Workers)تھے۔ مزے کی بات یہ سبھی سالہاسال سے اوورٹائم بھی لے رہے تھے۔

میں نے اس اسکینڈل کی جامع رپورٹ بنا کر حکام بالا کو بھجوا دی۔ سب انجینئر کو توفوراً معطل کروا دیا۔ حکام بالا نے معاملہ اینٹی کرپشن والوں کو دے دیا۔ یہ خبر عام بھی نہیں ہوئی تھی کہ سب سے پہلے ’’ڈان‘‘ اخبار نے تفصیلی خبر شائع کی۔ ’’بھوت کارندے‘‘ (Ghost Workers) کے عنوان سے ایڈیٹوریل لکھا اور دوسرے محکموں میں بھی جانچ پڑتال کا مطالبہ کیا۔

لیکن اس ساری محنت اور دوڑ دھوپ کا صلہ مجھے کیا ملا؟ یہ کیس اینٹی کرپشن کورٹ میں چلا گیا‘ جہاں مجھے ہر پیشی بھگتنا پڑتی۔ بلدیہ کے وکیل مجھے کورٹ میں بٹھا کر دوسرے مقدمات بھگتانے چلے جاتے۔ سب انجینئر نے کرمنل کیسز کرنے والے مشہور وکیل‘ مظفرحسین شاہ کو اپنا وکیل مقرر کر لیا جو بعد میں سندھ اسمبلی کے اسپیکر بھی بنے۔ وہ کورٹ میں پیش ہو کر لمبی تاریخ لے لیا کرتے۔ پھر اس نے اتنی لمبی تاریخ لی کہ کچھ پتا ہی نہیں چلا‘ کیس کا کیا بنا۔ حالانکہ میں کیس داخل ہونے کے بیس سال بعد ریٹائر ہوا۔ درمیان میں یہ ضرور معلوم ہوا کہ متعلقہ سب انجینئر کی حکومت سندھ کے ایک بڑے آفیسر سے رشتہ داری ہے۔ اس نے معاملہ دبایا اور موصوف کو پاکستان سے باہر بھجوا دیا۔ انھوں نے وہاں جا کر کیا گل کھلائے‘ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ یہاں تو وہ لاکھوں روپے ہڑپ کر گئے اور ان کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکا۔
بددماغ وزیر

۱۹۸۹ء میں پیار علی الانہ ایک سیاسی پارٹی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ احساس برتری کا شکار (اُن کی گردن ہمیشہ اکڑی رہتی)‘ بدماغ اور کانوں کے کچے آدمی تھے۔ سندھ اسمبلی میں اپنی جماعت کی طرف سے کراچی کی نمائندگی کرتے اور پڑھے لکھے آدمی تھے‘ اس لیے صوبائی وزیرتعلیم بنا دیے گئے۔ ان کے والد‘ غلام علی الانہ (جی الانہ) انتہائی شریف‘ بااخلاق‘ عظیم دانشور اور کراچی کے میئر رہ چکے تھے۔

ان دنوں بلدیاتی نظام قائم نہیں تھا اور شہر کا انتظام ایڈمنسٹریٹر کے ہاتھوں میں تھا۔ میری خوش قسمتی کہ بلدیہ عظمیٰ کے ایڈمنسٹریٹر‘ ایم اے مجید(محمد عبدالمجید) بنائے گئے۔ وہ انتہائی سمجھدار‘ مردم شناس اور خاص طور پر مجھ پر مہربان تھے۔ کچھ سال بعد وہ جب پچاس سال کے ہوں گے‘ اچانک دل کا شدیددورہ پڑنے پر انتقال کر گئے۔ اللہ تعالیٰ اُن کی قبر کو تاحدِ نگاہ روشن رکھے اور جنت الفردوس میں جگہ دے۔

میں وزیرتعلیم کے حلقہ انتخاب میں ایگزیکٹو انجینئر تھا۔ ویسے تو بلدیہ والوں کا وزرا سے واسطہ نہیں پڑتا۔ لیکن وزیر صاحبان ان دنوں اپنے علاقوں کے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے کونسلروں کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے۔ اس لیے ان کے نمائندے آئے دن افسروں کے پاس اپنا کام کرانے چلے آتے۔ خوامخواہ کادبائو ڈالتے اور غلط کام نہ ہونے کی صورت میں وزیروں سے جا کر افسروں کے خلاف الٹی سیدھی باتیں کیا کرتے۔

وزیر تعلیم کو مجھ سے بغض للہیٰ ہو گیا۔کچھ لوگوں نے یہ کہہ کر وزیر تعلیم کے کان بھرے کہ میں جماعت اسلامی کا آدمی ہونے کی وجہ سے ان کے کام کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتا ہوں۔ ایک دفعہ انھوں نے وزیر بلدیات‘ جام صادق علی سے کہا کہ مجھے گھربٹھا دیا جائے۔ لیکن وزیر بلدیات نے ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی سے بات کرنے کے بعد ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اب ان کی ناراضی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔

ایک دن انھوں نے ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کے پاس میٹنگ رکھوائی۔ وزیرتعلیم کے آدمیوں نے مجھے اطلاع دی کہ اب منسٹر صاحب تمھاری اچھی طرح خبر لیں گے۔ آج وہ اپنے علاقے سے تمہارا تبادلہ کرا کر چھوڑیں گے۔ میں نے جواب میں یہی کہا کہ اللہ مالک ہے۔ ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی کے دفتر میں میٹنگ شروع ہوئی۔

جب میرے ڈویژن؍علاقے کی بات آئی تو منسٹر صاحب نے تلخ لہجے میں کہا ’’یہ افسر میراکوئی کام نہیں کرتا۔‘‘ اس سے پہلے کہ وہ میری مزیدبے عزتی کرتے‘ میں فوراً اُٹھ کھڑا ہوا۔ میرے دائیں بائیں بیٹھے دوسرے افسران میری قمیص پکڑ کر کھینچنے لگے تاکہ میں بیٹھ جائوں۔ لیکن میں نے کھڑے ہوتے ہی کہا ’’آپ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔‘‘ پھر ان کے سامنے ان کاموں کی فہرست پیش کی جو میرا محکمہ مختص کردہ رقوم کے مطابق انجام دے چکا تھا۔ ہاں ان سڑکوں پر کام نہیں ہوا جن پر موصوف کے کارندے غیرقانونی طور پر کرانا چاہتے تھے۔ وزیر صاحب کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔

فرشتہ رحمت کی مدد

ستمبر ۱۹۷۴ء کی بات ہے۔ میری خالہ کی طبیعت بہت زیادہ خراب تھی۔ (چند دن بعد اُن کا انتقال ہو گیا) انھیں لیاقت نیشنل اسپتال داخل کرایا گیا۔ ہم لوگ چنددن کے لیے اپنے نارتھ ناظم آباد والے مکان میں رک گئے۔ میں روز صبح اسپتال چلا جاتا۔ خالہ کے پاس کچھ دیر رکنے کے بعد اپنے دفتر چلا جایا کرتا۔ ایک دن صبح جونہی بس کے قریب سے گزرا تو گیارہ بارہ سالہ لڑکی بھاگتی ہوئی اچانک سامنے آ گئی۔ میں نے فوراً بریک لگائی مگر وہ بونٹ سے ٹکرا ہی گئی۔

میں گھبرایا ہوا گاڑی سے نیچے اترا۔ لڑکی گاڑی کے پیچھے سڑک پر گری پڑی تھی۔ بس اسٹاپ پر آٹھ‘ دس آدمی کھڑے تھے۔ کوئی بھی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ سوچا‘ اب تو میں بڑی پریشانی میں پھنسنے والا ہوں۔ بہرحال پہلے لڑکی کو اسپتال لے جائوں‘ پھر پولیس کو اطلاع دوں گا۔ میں ابھی لڑکی کو اٹھانے بڑھا ہی تھا کہ اللہ تعالیٰ کو مجھ پر رحم آ گیا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ اس حادثے میں میری ذرا برابر غلطی نہیں تھی۔ لڑکی اچانک گاڑی کے سامنے آ گئی تھی۔

ہوا یہ کہ اللہ نے ایک رحمت کا فرشتہ بھیج دیا۔ وہ بھاگ کر آیا اور لڑکی کو اٹھایا تو اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی۔ وہ بس چوٹ لگنے کے صدمے سے رو رہی تھی۔ آدمی نے اسے سہارا دے کر چلایا‘ ہاتھوں کو اوپر نیچے کر کے دیکھا‘ وہ صحیح سالم تھے۔ البتہ چہرے پر بونٹ سے ٹکرانے کے باعث نیل پڑ گیا تھا۔ میری خوش قسمتی کہ وہ سنگین نوعیت کے حادثے سے بچ گئی۔ دراصل ٹکر لگنے کے بعد جب گری تو اس کا جسم گاڑی کے نیچے لمبائی میں پہیوںکے متوازی رہا۔ اس لیے گرنے کے بعد وہ ٹائروں کے نیچے نہیں آئی۔میں نے اس فرشتہ صفت آدمی سے کہا کہ اسے اسپتال لے چلتے ہیں۔

وہ بولا‘ پہلے اس کے گھر چلتے ہیں تاکہ وہاں سے کسی کو لے لیں۔ لڑکی کے ساتھ اس کا چھوٹا بھائی بھی تھا‘ جسے ہم نے نہیں دیکھا۔ وہ سڑک کی دوسری جانب کھڑا تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ بہن گاڑی کے نیچے آ گئی ہے‘ تو روتا اور بھاگتا ہوا گھر والوں کو اطلاع دینے پہنچا۔ وہ کریم آباد والے پل کے نیچے جھونپڑوں میں رہتے تھے۔ جب انھوں نے حادثے کی بابت سنا تو ڈنڈے لیے گاڑی والے کو مارنے نکلے۔ میں گاڑی چلا رہا تھا۔ وہ آدمی پیچھے لڑکی کے ساتھ بیٹھا۔ لڑکی ہمیں اپنے گھر کا پتا بتاتی رہی۔

جب ہم جھونپڑوں کے قریب پہنچنے والے تھے کہ دیکھا‘ دس پندرہ آدمی لٹھ لیے چلے آ رہے ہیں۔ لڑکی نے بتایا کہ وہ اس کے اعزہ ہیں۔ تب آدمی نے مجھ سے کہا‘ آپ گاڑی روک دیں‘ میں اِن سے بات کرتا ہوں۔ اتنے میں وہ سب گاڑی کے قریب پہنچ گئے۔ انھوں نے لڑکی کو گاڑی میں بیٹھے دیکھا‘ تو اسے گھیرے میں لے لیا۔ وہ سب مشتعل ہو کر شور مچا رہے تھے۔ اس آدمی نے انھیں کہا ’’پہلے میری بات سنو!لڑکی کو کوئی گاڑی والا ٹکر مار کر بھاگ گیا ہے۔ میں کھڑا یہ ماجرا دیکھ رہا تھا۔ یہ صاحب وہاں سے گزر رہے تھے‘ ان کی مہربانی کہ انھوں نے گاڑی روکی۔ ہم اسے گاڑی میں ڈال کر تمہارے پاس لائے ہیں تاکہ اسپتال لے جائیں۔‘‘

یہ سن کر وہ لوگ خاموش ہو گئے۔ انھوں نے لڑکی کو گاڑی سے اتارا‘ اسے چلا پھرا کر دیکھا‘ بات چیت کی کہ تمہیں تکلیف تو نہیں؟ لڑکی اسپتال جانے سے گھبرا رہی تھی۔ اس نے کہا کہ وہ بالکل ٹھیک ہے اور اسپتال نہیں جائے گی۔ پھر اس کے گھر والوں نے ہمارا شکریہ ادا کیا کہ اسے ان کے پاس پہنچا دیا۔ اب وہ رخصت چاہتے تھے۔ میرے ساتھی نے مجھے کہا ’’جہاں آپ نے اتنی ہمدردی کی ہے‘ ان غریب لوگوں کو کچھ رقم دے دیجیے تاکہ وہ بچی کو دودھ وغیرہ پلا سکیں۔‘‘ میں نے انھیں چند سو روپے دیے۔ یوں اس آدمی کی حاضردماغی سے میں ایک بڑی مصیبت میں گرفتار ہونے سے بچ گیا۔

ابھی میںلڑکی کے گھر والوں کو رقم دے ہی رہا تھا کہ اس فرشتہ صفت انسان نے مجھے سلام کیا اور رخصت چاہی۔ میں نے بہت کہا کہ گاڑی میں بیٹھیے‘ میں آپ کو منزل تک پہنچا دوں‘ لیکن وہ ہاتھ ہلاتا پیدل ہی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

غلام ابن غلام ابن غلام
میں ان دنوں بلدیہ عظمیٰ کے ڈویژن نمبر ۲ میں منتظم انجینئر (Executive Engineer) تھا۔ میرے ماتحت ایک نائب قاصد‘ نبی یار خان مجھ سے عمر میں بڑے‘ نہایت ایماندار اور نستعلیق آدمی تھے۔ میرا ہر طرح سے خیال رکھتے۔ میں ان کی بڑی عزت کرتا تھا۔ ہمیشہ صاف ستھری وردی میں ملبوس رہتے اور گفتگو بہت ہی مہذب طریقے سے کرتے۔ پاکستان آنے سے قبل کسی راجواڑے کے کارندے رہ چکے تھے۔ اس معاشرے کا اثر ابھی زائل نہیں ہوا تھا۔ ایک دن مٹھائی کا ڈبا لے کر آئے۔ دعا سلام کے بعد میرے استفسار پر کہ مٹھائی کس خوشی میں لائے ہیں؟ فرمانے لگے ’’حضور! غلام کے غلام کے یہاں گزشتہ رات ایک اور غلام کا اضافہ ہوا ہے۔‘‘

یہ سن کر پہلے مجھے حیرت ہوئی‘ پھر سمجھ گیا کہ خاں صاحب کے ہاں پوتا ہوا ہے۔ میں نے انھیں مبارکباد دی‘ تو بہت خوش ہوئے۔ یہ چھوٹا غلام ۱۹۷۵ء میں آیا تھا۔ اب تو غلام ابن غلام ابن غلام کے ہاں بھی غلام آ گیا ہو گا۔

امام کعبہ کی پاکستان آمد

۷۶۔۱۹۷۵ء کی بات ہے۔ ایک دن حکومت سندھ کا یہ نادرشاہی حکم بہ توسط ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ ملا کہ آغا خان اسپتال کے قریب کھلے میدان میں امام کعبہ نماز پڑھائیں گے‘ چناںچہ وہاں نماز کا بندوبست ۲۴ گھنٹوں میں کر دیا جائے۔ سب سے مشکل کام میدان ہموار کرا کے اس پر صف بندی کے لیے چونے سے نشان لگوانا تھا۔پھر وضو کی جگہ کا بھی انتظام کرنا تھا۔ نیز امام صاحب کے لیے قدرے اونچا چھوٹا سا سایہ دار پلیٹ فارم (مصلّٰی) بنانا پڑا تاکہ وہ نمازیوں کو دور سے نظر آ سکیں۔

ساری رات جاگ کر عملے اور ٹھیکیدار کے آدمیوں نے کام کیا۔ اللہ کے فضل سے سارا کام بروقت مکمل ہو گیا۔ مقررہ دن نماز پڑھنے کے لیے خلقت اُمڈ آئی۔لوگ غالباً یہی سمجھ رہے تھے کہ امام کعبہ کے پیچھے نماز پڑھنے سے زیادہ ثواب ملے گا۔ نماز ختم ہوئی۔ جیسے ہی امام صاحب نے سلام پھیرا‘ مجمع ہڑبونگ کا شکار ہو گیا۔ ہر شخص امام صاحب کو قریب سے دیکھنے کا متمنی تھا۔ بڑی مشکل سے امام صاحب کو سیکیورٹی والوں نے اپنے حلقے میں لے کر گاڑی تک پہنچایا۔ لوگ پھر امام کعبہ کے مصلّٰی پر لگی جھنڈیوں اور آرائش کی دیگر اشیا کو تبرک سمجھ کرلوٹنے لگے۔ انھوں نے سوائے تخت کے کوئی چیز نہ چھوڑی۔

ہم لوگ سعودی عرب کے فرمانروا حضرات اور وہاں کا آئمہ کرام کا کس قدر احترام کرتے ہیں‘ یہ ایک اور واقعے سے بھی عیاں ہے۔ ۱۹۵۵ء میں سعودی عرب کے شاہ سعود پاکستان تشریف لائے۔ اعلان ہوا کہ وہ نماز جمعہ پولو گرائونڈ(موجودہ باغ قائداعظم) میں پڑھائیں گے۔ اس کا انتظام بلدیہ عظمیٰ کراچی نے کیا تھا۔ شاہ سعود کو دیکھنے کے اشتیاق میں ہم لوگوں نے بھی باغ قائداعظم میں نماز پڑھنے کا ارادہ کیا۔ اتفاق سے اسی روز ہمارے دھوبی جو کافی بزرگ تھے‘ اپنی گدھا گاڑی پر کپڑے لیے آ گئے۔ وہ یہ پروگرام بنا کر آئے تھے کہ شاہ سعود کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے۔ ہم انھیں ساتھ ہی نماز پڑھنے لے گئے۔

لیکن شاہ سعود کے اصرار پر مولانا احتشام الحق تھانوی نے نماز جمعہ کی امامت کرائی۔ مولانا کوشاہ سعود نے پہلے ہی ایک خلعت عطا کر دی تھی جسے پہن کر وہ آئے۔ عربی لباس میں عرب ہی معلوم ہوتے تھے۔ ماشااللہ ان کی قرأت بہت عمدہ تھی۔ نماز احسن طریقے سے پوری ہوئی۔ لوگوں نے نماز کے تقدس کوبرقرار رکھا۔ ہم لوگ واپس آ رہے تھے تو بزرگ دھوبی فرمانے لگے ’’ بابو! نماز پڑھنے کا مزا آ گیا۔ مکہ کے بادشاہ کی قرأت کتنی اچھی تھی۔‘‘

ہم لوگوں نے ان کی سرشاری دیکھ کر مناسب نہیں سمجھا کہ انھیں بتائیں بابا‘ نماز مولانا احتشام الحق تھانوی نے پڑھائی ہے۔ مکہ کے بادشاہ نے نہیں۔ شاہ سعود کی آمد کے موقع پر ہی کراچی میں سعود آباد کی مشہور آبادی وجود میں آئی۔
کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا قیام

علاقہ لیاری میں ۱۹۷۶ء میں ایک چھے منزلہ عمارت (بسم اللہ بلڈنگ) اچانک سحری کے وقت زمیں بوس ہو گئی۔ اس حادثے میں ڈیڑھ سو کے قریب لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ تب بلدیہ کے محکمہ بلڈنگ کنٹرول کے سربراہ اتنے خوفزدہ ہوئے کہ چھٹی لے کر گھر بیٹھ گئے اور پھر مستعفی ہوئے۔ ایڈمنسٹریٹر بلدیہ عظمیٰ نے بلڈنگ کنٹرول ڈپارٹمنٹ کا اضافی چارج مجھے دے دیا۔ میں اس وقت ڈائریکٹر انجینئرنگ ڈیزائن کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ میں فروری ۱۹۷۹ء تک اس محکمے کا سربراہ رہا۔

اس زمانے میں کے ڈی اے (کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی) الگ ادارہ تھا۔ اب دونوں کو ملا کر نیا ادارہ بنایا گیا۔ جسے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (K.B.C.A) کا نام ملا۔ اس کا سربراہ چیف کنٹرولر بلڈنگز کو بنایا گیا۔ یہ ڈپارٹمنٹ بنانے کی ابتدائی وجہ انتہائی مضحکہ خیز تھی۔ ہوا یہ کہ بلدیہ عظمیٰ کے بلڈنگ کنٹرول ڈپارٹمنٹ کا ایک انسپکٹر گورنر صاحب کی بہن کے گھر پہنچا جو زیرتعمیر تھا۔ وہاں اس نے کچھ غلط کام ہوتے دیکھے جنھیں نظر انداز کرنے کی خاطر اس نے رشوت طلب کر لی۔

اس امر کی شکایت بہن نے بھائی سے کر دی۔ گورنر کے حکم پر بڑوں نے سر جوڑا اور حل یہ نکالا کہ ایک نیا ادارہ بنایا جائے۔ اس میں اختیار کے مجاز ۱۸ گریڈ کے افسر ہوں۔ ان کا سربراہ ۱۹ گریڈ کا افسر بنے اور نچلے عملے کے اختیارات کم سے کم کر کے انھیں غیرفعال بنا دیا جائے۔ یوں کرپشن میں کمی ہو جائے گی۔ جب بڑوں کا یہ فیصلہ آخری مرحلے میں تھا تو مجھے بھی طلب کر لیا گیا۔ گورنر صاحب کی زیرصدارت آخری فیصلے سے قبل طے ہو گیا تھا کہ میں نئے ادارے کا چارج سنبھال لوں گا۔

مجھ سے پوچھا گیا کہ نئے ادارے کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ بے شک آپ یہ ادارہ قائم کر لیں‘ لیکن اگر افسروں کی تنخواہ نہیں بڑھی تو کرپشن چھوٹی سے بڑی سطح پر چلی جائے گی۔ میری بات سے گورنر صاحب کے مشیروں نے اتفاق نہیں کیا۔ چناںچہ میری رائے کے برخلاف نیا ادارہ قائم کر دیا گیا۔ تب میں خاموشی سے لمبی رخصت پر چلا گیا۔ تقریباً دو سال بعد میئر عبدالستار افغانی کے اصرار پہ بلدیہ عظمیٰ اس وقت واپس آیا جب میری تقرری بحیثیت سپرنٹنڈنگ انجینئر کی گئی۔

کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں بے شمار افسر بھر لیے گئے۔ پہلے بلدیہ میں کل دو افسر (آرکیٹکٹ کنٹرول اور اسسٹنٹ کنٹرولر) اور کے ڈی اے میں بھی دو ہی افسر پورے کراچی کو کنٹرول کرتے تھے۔ اب چند دن بعد ہی اتھارٹی کے افسر اپنے ہاتھ دکھانے لگے جس کا مجھے پہلے ہی خدشہ تھا۔ یہ ڈپارٹمنٹ رشوت کھانے کے معاملے میں کے ڈی اے کے دوسرے محکموں سے بازی لے گیا۔ خاص طور پر بلڈرز نے غلط کام کروانے کے لیے اوچھے حربے استعمال کیے۔ یہ محکمہ بلڈنگ بائی لاز کی خلاف ورزی روکنے میں بری طرح سے ناکام رہا۔ بلکہ کہتے ہیں کہ بائی لاز کی خلاف ورزی ان کی ناک کے نیچے خود انہی کے مشورے سے ہوتی رہی۔ دن بدن اس محکمے کے حالات خراب تر ہوتے گئے اور کوئی اسے پوچھنے والا نہیں‘ جو ایک بلڈنگ انسپکٹر کے چند روپے رشوت طلب کرنے کی وجہ سے وجود میں آیا۔


****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 768