donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Aap Beeti
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hena Anwar
Title :
   Khabar Banane Wali Kabhi Khud Bhi

خبر بنانے والی کبھی خود بھی


حنا انور


آج سے 23 سال پہلے صحافت میں قدم رکھا تھا۔ پرنٹ میڈیا میں اس لیے آئی کہ جب میں نے آغاز کیاتھا، تب الیکٹرانک میڈیا میں ایک ہی چینل تھا اور وہ تھا پی ٹی وی (PTV)۔ چونکہ وہ ایک ہی تھا، سو اس میں جانا بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ ظاہر ہے وہاں جانا ناممکن تھا۔ 18,19 سال میں نے خبریں میں کام کیا۔

میں نے Friday Timesمیں کام کیا۔روزنامہ صحافت اور جناح میں بھی کام کیا، میں نے شعبہ میگزین میں بھی کام کیا۔ اس دوران مجھے جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان میں سر فہرست ٹرانسپورٹ کا مسئلہ تھا۔ بعض اوقات کسی کا انٹرویو لینے کے لیے مجھے بہت دور جانا پڑتا تھا یا موٹر سائیکلوں پر سفر ہوتا۔ کبھی کبھار دفتر کی گاڑی مل جاتی تھی۔

ایک خاتون جرنلسٹ کا امیج یہ ہونا چاہیے کہ وہ Comprehensive Storyدے۔ اگر وہ کوئی عام تحریر دے رہی ہے تو وہ جس کے خلاف اسٹوری دے رہی ہے، اس کا بھی نقطہ نظر دے۔ اہم بات یہ ہے کہ متوازن حقائق کے ساتھ خبر پیش کرے۔ اس کے چھپنے سے یہ ہوتا ہے کہ جس کے خلاف آپ خبر دے رہے ہیں، وہ بھی آپ سے اظہار ناراضی نہیں کرتا۔

اس شعبے میں میری آئیڈیل شخصیت ضیا شاہد اور عباس اطہر ہیں۔ مجھے ایکInvestigative Reporterکے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ میں نے Investigative Reporting بہت زیادہ کی ہے۔ میں نے بہت اچھی اچھی خبریں بھی بریک کی ہیں۔

میں نے دو کام اچھے کیے۔ ایک تو جنرل رانی کا آخری انٹرویو کرنے کا اعزاز مجھے حاصل ہوا جب وہ بستر مرگ پر تھی۔ جنرل رانی، جنرل یحییٰ خان کے آخری بدنام ایام کے حوالے سے ملک کی تاریخ میں ایک اہم کردار تھی۔ اس کی زندگی کا آخری اور بڑا بھرپور انٹرویو میں نے کیا۔

دوسرا کام یہ تھا کہ ایٹمی پروگرام کے متعلق میں نے ایک اسٹوری چاغی کے حوالے سے لکھی تھی ۔ ایک این جی او (NGO)کے خلاف اس اسٹوری کے چھپنے کے بعد پاکستان آرمی کو بہت زیادہ اسپورٹ ملی۔

میرے کیرئیر کا نہ بھولنے والا واقعہ یہ ہے کہ عاصمہ جہانگیر نے اوکاڑہ میں ایک این جی او (NGO) کے ذریعے کچھ ایسا کام کیا جو ملکی مفاد میں نہیں تھا۔ میں نے جس وقت خبر دی تو میری خبر دینے کی وجہ سے انھوں نے مجھ پر کیس کر دیا۔

ایک عام عورت اور جرنلسٹ میں یہ فرق ہے کہ جرنلسٹ باشعور ہوتی ہے۔ وہ حقائق اور سچائی کو بڑی گہرائی سے دیکھتی ہے۔ اب کی جرنلسٹ کا مجھے نہیں پتا، لیکن آج سے 23 سال پہلے یا ان 23برس کے درمیانمجھے تو یہی محسوس ہوا کہ عام عورت کی کہانیاں چھاپتے چھاپتے اور دنیا کو بتاتے بتاتے ہم خود ایک کہانی بن جاتے ہیں۔

نئی آنے والی لڑکیوں کو میں نصیحت کرنا چاہوں گی کہ وہ کسی مرد پر انحصار کرنے کے بجائے اپنے اوپر اعتماد کریں اور کامیابی کے لیے شارٹ کٹ نہ ڈھونڈیں۔ محنت کرتی رہیں، اللہ کامیابی

دیتا ہے۔

مجھے تو اور کوئی کام آتا ہی نہیں، اس لیے تادم مرگ اسے چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ مشکلات سے میں نہیں گھبراتی بلکہ ان سے میرے حوصلے مزید بلند ہوتے ہیں۔
بطور جرنلسٹ میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ Safe Islamاور Safe Pakistan اور Safe Pak Armyکیونکہ آرمی اس ملک کا Defenceہے اور اسے Defendکرنا ملک وقوم سے وفا کا تقاضا ہے۔

عنبرین فاطمہ (نوائے وقت سنڈے میگزین
انچارج: خواتین و تعلیم (ایڈیشن

میں نے 2005 ء میں اپنے کیرئیر کا آغاز کیا۔ میں نے LLM کر رکھا ہے۔ ماس کمیونیکشن میں مجھے داخلہ نہیں مل سکا۔ پنجاب لاء کالج میںمیرا نام آیا۔ میں نے اس میں ڈگری تو لے لی لیکن میری دلچسپی صحافت ہی میں رہی۔ پھر مجھے روزنامہ دن میں کام کرنے کا موقع ملا۔ میری پہلی جاب روزنامہ دن کے نیوز روم میں بطور سب ایڈیٹر ہوئی۔ روزنامہ وقت میں آئی تو وہاں بطور لیڈی رپورٹر کام کیا۔ پھر پچھلے پانچ سال سے میں نوائے وقت میں ہوں۔ میں Women Pageاور Educationکی انچارج ہوں۔ اس کے علاوہ فیشن کا صفحہ بھی دیکھتی ہوں۔ سنڈے میگزین میں بھی مختلف انٹرویو وغیرہ کرتی ہوں۔ اس کے علاوہ اگر کوئی Special Editionآ جائے تو وہ بھی میں کرتی ہوں۔

ابو کے ایک کزن ہیں، ان کو بچپن میں دیکھتی تھی کہ پی۔ٹی۔وی کی طرف سے ہر دوسرے تیسرے سال بہترین صحافی کا ایوارڈ ملا کرتا تھا۔ میرے دل میں بھی یہ خیال آتا تھا کہ مجھے بھی ایسا ایوارڈ لینا ہے۔

مجھے بھی ایسا جرنلسٹ بننا ہے۔ مجھے بھی کوئی ایسا کام کرنا ہے جس سے لوگ مجھے جانیں۔ میری Inspirationتو ان کا وہ ایوارڈ ہی رہی ہے۔ سوچا یہی تھا کہ صحافت کا مجھے جتنا شوق ہے، اس شوق کو آگے لے کر چلنا ہے جو میرے بعد بھی لوگوں کو یاد رہے۔

مجھے نوائے وقت میں کام کرتے پانچ سال ہو گئے ہیں۔ پہلے بھی دو اداروں میں کام کیا لیکن نوائے وقت میں کام کر کے مجھے جو اعتماد ملا، اس کی بات ہی کچھ اور ہے۔ میں اسے اپنے لیے ایک اعزاز تصور کرتی ہوں کہ اتنے زیادہ سینیئرز کی موجودگی میں بھی مجھے اتنا زیادہ موقع ملنا میرے لیے ایک ایوارڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔

جب میں نے روزنامہ دن میں کام کا آغاز کیا تو مجھے کام کا زیادہ علم نہیں تھا بلکہ میں نے جرنلزم بالکل نہیں پڑھی تھی۔ میری فیلڈ ہی الگ تھی لیکن جب آپ کو کسی چیز کا شوق ہو تو ایسے کام بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو Challengingہوں۔ رپورٹنگ میں میری کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن جب میں نے رپورٹرز کو دیکھا تو یہ شوق بھی پیدا ہو گیا۔

جب وقت میں گئی تو وہاں طاہر ملک صاحب نے مجھے اسپورٹ کیا کہ مجھے رپورٹنگ میں آنا چاہیے۔ انھوں نے مجھے Ideasدئیے۔ میں نے ان Ideasپر کام کیا پھر یوں سمجھیے کہ مجھے رپورٹنگ کی دُھن لگ گئی۔ ابھی بھی میں کام تو میگزین میں کر رہی ہوں لیکن میرا کام رپورٹنگ ہی ہے۔

مجھے کبھی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہاں سینیئر، جونیئر کی وجہ سے ذرا Clashہو جاتا ہے۔ جب میں وہاں کام کر رہی تھی تو مجھ سے سینیئر لوگ میرے اوپر حاوی رہتے تھے، اس زعم میں کہ یہ جونیئر ہے اور ہم سینیئر ہیں۔ اس چیز کا تو تینوں اداروں میں سامنا کرنا پڑا۔

اچھی فی میل جرنلسٹ کا امیج میرے حساب سے ایسا ہونا چاہیے کہ جب آپ کسی کا نام لیں جیسے جنگ میں فاخرہ تحریم ہیں، پروین خان ہے توآپ کے ذہن میں پہلی چیز یہ آنی چاہیے کہ اس جرنلسٹ کو قومی وبین الاقوامی تمام ایشوز کا پتا ہے۔ ان کو پتا ہوتا ہے کہ کہاں کیا ہو رہا ہے؟ صرف لیڈی رپورٹر بن جانا کوئی بڑا کام نہیںبلکہ میرے خیال میں جرنلسٹ صرف جرنلسٹ ہوتا ہے۔

جب آپ فیلڈ میں کام کرنے نکلے ہیں تو میرے خیال میں آپ کا Exposureزیادہ اور آپ کو ایشوز کا پتا ہونا چاہیے۔ صرف اس لیے ڈر جانا کہ آپ خاتون ہیں، یہ تو آپ کی کمزوری ہے۔ آپ جتنا ڈریں، گھبرائیں گے، اتنا ہی لوگ اس چیز سے فائدہ اٹھائیں گے۔

سلمیٰ رضا (ایگزیکٹو ایڈیٹر اخبار جہاں

میں نے اب سے تیس پینتیس سال پہلے اخبار جہاں سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔
1970 ء میں میں نے ایم اے اُردو کیا۔ پہلے تو لیکچرار بننے کا ارادہ تھا لیکن اتفاق سے میری نوکری اخبارِ جہاں میں ہو گئی۔ میرا طالب علمی کا زمانہ تھا، سراج الدین ظفر مرحوم کی ایک کتاب ’’غزل و غزال‘‘ کے نام سے چھپی تھی۔ 20,25 روپے اس کی قیمت تھی۔ میرے لیے قدرے مہنگی تھی لیکن میں نے خریدی، اسے پڑھا۔ اسی دوران طالب علموں کے مابین ایک مقابلہ کرایا جا رہا تھا۔ میں نے جیسے تیسے جوڑ توڑ کر کے کچھ لکھ بھیجا۔ چند دنوں میں ایڈیٹر کی جانب سے جوابی خط موصول ہوا اور تین سو روپے بطور انعام مجھے ملے کہ تحریر اچھی تھی۔

میں نے جب صحافت کو بطور پیشہ اپنایا تو میں بالکل نوجوان تھی۔ اس زمانے میں یونیورسٹی کا ماحول بھی اتنا ایڈوانس نہیں تھا کہ کسی ادارے میں آنے سے پہلے ہی اعتماد موجود ہوتا۔ لیکن اللہ کے شکر سے مجھے یہاں کسی قسم کی کوئی دشواری محسوس نہیں ہوئی۔ لوگ بھی مکمل تعاون کرتے تھے۔ اس طرح مجھے کبھی عدم تحفظ کا احساس نہیں ہوا۔ ہر طرح سے عزت و احترام ہی ملا۔ نہ صرف اخبار جہاں میں بلکہ آج چینل میں بھی جتنا عرصہ رہی ہوں،لوگوں نے بہت عزت دی اور اس کے ل

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 757