donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Aap Beeti
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Matiur Rahman Aziz
Title :
   Haider Quraishi Sb.,Germany Se Meri Mulaqat

 

 حیدر قریشی صاحب (جرمنی ) سے میری ملاقات
 
مطیع الرحمن عزیز
 
زندگی میں کچھ لمحے ایسے آتے ہیں جو دل کے کسی گوشے میں اک مقام کر جاتے ہیں، ایسا ہی ایک موقعہ میرے لئے حیدر قریشی (جرمنی ) کلکتہ سفر کے اختتام پر دو روزہ دہلی قیام کے درمیان ان سے ملاقات پر ہوئی، ایک بزرگ ، شفیق اور میری نظروںمیں ماں باپ کاسا درجہ اور مقام رکھنے والے حیدر قریشی صاحب سے ملنے کے بعد مجھے لگا کہ میری زندگی میںیہ وقت خاص اہمیت کا حامل ہو گیا ہے، بذریعہ انٹر نیٹ دوستی ، صلاح ومشورہ اور ان کے مفید بزرگانہ شفقت نے مجھے ان کا گرویدہ بنا دیاتھا، ان سے ملنے جانے کے وقت کافی خوشی محسوس ہو رہی تھی، لیکن دل میں ایک تذبذب بھی تھا کہ میں ایک نو عمر ، دہلی میں چھوٹی سی نوکری کرنے والا ، کہیں چھوٹا منہ بڑی بات والی مثل تو نہیں۔ میں کچھ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا خیر راستہ طے ہوا اور غالب انسٹی ٹیوٹ میں حیدر قریشی صاحب کی قیام گاہ پر پہنچ گیا ، ملازم سے مہمان خانے کا راستہ دریافت کیا تو ملازم نے مکتبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہیں ان صاحب سے تو ملاقات نہیں کرنی جو وہاں پر موجود ہیں، میں وہاں گیا تو واقعی میں حیدر قریشی صاحب ہی تھے ۔انہوں نے بڑھ کر اور تپاک سے مجھے گلے لگایا ، کافی محبت بھرے انداز میں مجھ سے وہ معانقہ کر رہے تھے، بہت کم ایسا ہواہے جب میں نے کسی سے معانقہ کیا ہو، میرا دوست عبد العلیم جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے جب دہلی آیا تو اس سے معانقہ کیا تھا ،باقی عیدین پر ہی ایسا ہواجب میں نے معانقہ کیا ۔حیدر قریشی صاحب سے ملنا بھی تو میری عید ہی تھی۔
 
حیدر قریشی صاحب کے بہترین عطر نے میرے دل ودماغ کو معطر کر دیا تھا، دل سے نکلا ما شا اللہ ، ۔مجھ سے رہا نہ گیا میں نے کہا اسی طرح کی خوشبو میرے ابو بھی پسند کرتے ہیں، حیدر قریشی صاحب نے مہمان خانے کے راستے کی رہنمائی کی اور ہم دو منزلہ عمارت پر واقع مہمان خانے میں آگئے، اب میری ہمت ٹھکانے آ چکی تھی، جو کم تری اور کم سے کم گویائی کا شکار میں ہو رہا تھا وہ سب جاتا رہا، اب میں ہمت محسوس کرنے لگا تھا ، اور آخر کار 11بج جانے کے باوجود میں نے پوچھا کہ ناشتے کا کیا انتظام کروں ، تو حیدر قریشی صاحب نے کہا نہیں میں ناشتہ بہتر طریقے سے کر چکا ہوں بس آپ ہی کا انتظار کر رہا تھا اس کے بعد مجھے اپنے دوستوں سے ملاقات کیلئے نکلنا ہے، اگر آپ چاہیں تو ساتھ ساتھ چلیں وگرنہ کوئی خا ص ضرورت ہوئی تو میں آپ کو تکلیف دوں گا ، حیدر قریشی صاحب کے ایک دوست کی گاڑی 11بجے آنی طے تھی، راستے میں ٹریفک کی وجہ سے تھوڑا گاڑی آنے میں تاخیر ہوئی لیکن اس کو کوئی تاخیر نہیں کہا جائے گا، اب مجھے معلوم تھا کہ قریشی صاحب کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔پتہ نہیں پھر موقعہ ملے نہ ملے۔، لہٰذا میں نے کہا سر ! ایک فوٹو لیتے ہیں لیکن کمرے میں کوئی تیسرا نہیں تھا موبائل سے کس طریقے سے پوز لوں کہ ہم دونوں کی تصویریں آ جائیں ، ناکامی ہوئی ، میں نے حیدر قریشی صاحب کا ایک پوز لے لیا لیکن پھر کچھ سوچا تو مسئلہ کا حل نکل آیا میں نے حیدر قریشی صاحب سے کہا آئیے ساتھ میں کھڑے ہوکر اور سامنے رکھے قد آدم شیشے میں پوز لیتا ہوں ، اس طرح میری کوشش کامیاب ہوئی اور میں نے خود سے خود کے دو پوز لئے جس میں میں اور حیدر قریشی صاحب تھے ، اب میری ملاقات محفوظ ہو رہی تھی۔ اپنے دوستوں کو دکھا سکتا تھا دیکھو جرمنی کے میرے بزرگ دوست ۔ مہمان خانے سے باہر آئے تو باہر کچھ ملازموں کی تعداد میں اضافہ ہو چکا تھا ، میں نے ان سے درخواست کی اور دو تصویریں اور لے لیں، یہاں سے حیدر قریشی صاحب اپنے دوست جوگندر پال سے ملاقات کے لئے نکل گئے اور میرے راستے کے نزدیکی بس اسٹاپ پر مجھے اس وعدے کے ساتھ چھوڑ گئے کہ شام کو ہم ساتھ میں کھانا کھائیں گے اور ایوان غالب میں شاہد ماہولی صاحب وغیرہ نے ایک پروگرام کا انعقاد کیا ہے جس میں آپ بھی شریک ہو ں ، لیکن مجھے نہیں لگتا تھا کہ ہماری ملاقات ہو پائے گی کیونکہ حیدر قریشی صاحب کے لکھنے پڑھنے کے ذوق نے اور ان کی قابلیت اور صلاحیت کے بدولت اتنے دوست ہیں جنہیں میں شمار بھی نہیں کر پاؤں گا، آفس سے لوٹتے وقت میں نے حیدر قریشی صاحب کو فون کیا تو معلوم ہوا کہ دوستوں کے درمیان گھرے ہوئے ہیں ، ملاقات ممکن نہیں آپ گھر جائیں انشااللہ کل اگلے پروگرام کی تفصیل بتا دوں گا، ضروری چیز تو میں بھول ہی گیا ، سب سے بڑی خوشی کی بات میرے لئے حیدر قریشی صاحب جرمنی سے خصوصی طور پر بہت سارے تحفے بھی لے کر آئے تھے جن سے میں بہت بہت خوش تھا۔ تحائف سے میرے دونوں ہاتھ بھرے ہوئے تھے ، گھر پہنچا تو خوشی کا ماحول تھا آس پڑوس کے لوگوں کو بطور فخر سب کچھ دکھا ڈالا ، کہ ہمارے دوست جرمنی سے یہ سب میرے لئے لائے ہیں ۔
 
دوسرے دن صبح صبح حیدر قریشی صاحب کا فون آیا تو وہی ہوا جو دل کہہ رہا تھا ، قریشی صاحب نے کہا مطیع الرحمن عزیز آپ ایسا کریں کہ آج آپ اپنے کاموں میں مشغول رہیں ، اور کل صبح 11بجے سے قبل میرے پاس آجائیں ائر پورٹ کیلئے روانہ ہونا ہے، خیر میں اپنے کاموں میں لگ گیا اور دوسرے دن صبح یہ سوچ کر کہ وقت سے پہلے پہنچنا ہے نکل کھڑا ہوا، حیدر قریشی صاحب کے پاس پہنچ گیا وہاں ان کے پاس ساری تیاری مکمل تھی، میں نے دہلی سے شائع ہونے والے تمام اخبارات کو خرید لیا تھا کہ تمام اخبارات نے حیدر قریشی سے ملاقاتوں اور ’ایک ملاقات حیدر قریشی کے ساتھ‘ ایوان غالب کے پروگرام کو شہ سرخی میں شائع کیا ہوا تھا۔ ایوان غالب میں پہنچنے کے چند منٹ کے بعد ٹیکسی آگئی اور ملازم نے اکر اطلاع دی، ہم ٹیکسی میں بیٹھے ، حیدر قریشی صاحب سے ملاقاتوں کا سلسلہ ابھی بھی جاری تھا، بس فرق یہ تھا کہ اب لوگ الوداع کہنے بھی آ رہے تھے، ہم ٹیکسی میں بیٹھے اور ائر پورٹ کی جانب چل نکلے ، ٹیکسی ڈرائیور ایک پنجابی بزرگ تھے۔ حیدر قریشی صاحب نے مادری زبان میں بزرگ صاحب سے تعارف حاصل کیا اور میں دونوں کی باتوں سے محظوظ ہوتا رہا، پھر ہماری فائنل باتوں کا دور شروع ہوا۔انہوں نے مجھ سے دہلی میں اردو صحافت کے بارے میں چند باتیں پوچھیں۔پھر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ان کی باتوں سے بہت کچھ سمجھنے کا موقعہ ملا۔
 
ایک شفیق بزرگ دوست سے تھوڑی سی ملاقات اور پھر جدائی، کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا، لیکن قریشی صاحب کی باتوں میں کچھ اتنا چاشنی تھی ہر لفظ سے اطمینان ملتا تھا، ہم ائر پورٹ سے قریب پہنچے تو قریشی صاحب نے خدشہ ظاہر کیا کہ امید ہے میرے سامان کا وزن کچھ زیادہ ہو جائے کیونکہ میں نے کتابوں سے دونوں بیگ بھر لئے ہیں، تو آپ میرے اشارے کا انتظار کریں ، جب میں اس طرح اشارہ کروں گا تو آپ سمجھنا سب درست ہے اور اس طرح اشارہ کروں گا تو سمجھنا ابھی رکنا ہے،خیر میں انتظا ر کرتا رہا یہاں تک کہ حیدر قریشی صاحب ائر پورٹ کے چیک ان کے مرحلوں سے گزر چکے ، بعد میں حیدر قریشی صاحب گیٹ کی طرف آتے ہوئے دکھائی دئے ، اور خوش نصیبی اور میرے اوپر ان کی عنایت کہ ”ایک دفعہ پھر دیدار کرا دیا اپنا“۔ اللہ حافظ کہنے آئے تھے اور پھر جرمنی کی فلائٹ کی طرف بڑھ گئے۔ 
اس وقت بھی قریشی صاحب کے کچھ تحائف میرے ہاتھوں میں تھے ، جن میں اہم چیز کچھ کتابیں اور سب سے اہم ان کا وہ عطر جس کی میں نے تعریف کی تھی، جو آج بھی دو مہینے گزر جانے کے باجود میں استعمال کر رہا ہوں، جمعہ کو نماز کیلئے جاتے وقت وہ عطر میں لگا کے جاتا ہوں، کافی برکت دی ہے اللہ نے اس عطر میں جو ابھی بھی میں اسے استعمال کر رہا ہوں اور کرتا رہوں گا، بعد میں اس عطر کی شیشی میرے لئے زینت کا کام کریگی جو کہ دبئی کی ایک خاص اور مشہور عمارت کی شکل ہے۔ 
دل کافی اچھا برا محسو کر رہا تھا ، کیا کہوں اچھا ، یا برا ، لیکن جو بھی تھا تکلیف ویسے ہی تھی جیسے کوئی جذباتی فلم دیکھنے کے بعد کا منظر ہوتا ہے جیسے ٹائٹینک فلم کو مان لیں۔ لیکن پھر میں نے دوست کو فون کیا اور کہا یار میں کافی اداسی محسوس کر رہا ہوں حیدر قریشی صاحب دو دن میں کافی جذباتی کر گئے، دوست نے تسلی بھرے الفاظ دہرائے ، اور پھر میرے من میں حیدر قریشی صاحب کا جملہ گھوم گیا، سب کچھ ہمارے ہاتھوں میں نہیں ہوا کرتا، بہت کچھ تقدیر اور وقت پر چھوڑ دینا چاہئے، کوئی ضروری نہیں جو ہمیں اچھا لگے وہی ہو ۔لیکن جو ہمارے لیے ہوتا ہے وہی ہمارے اچھا ہوتا ہے۔میں واپس میٹرو کے راستے گھر لوٹ رہا تھا ، ابو کا فون آیا اور کہنے لگے حیدر قریشی صاحب کو میرا الوداعی سلام عرض کر دو اور ہو سکے تو میری بات کرادو، میں نے بھرے ہوئے دل کے ساتھ کہا: وہ چلے گئے، تو شاید ابو نے محسوس کیااور تسلی دینے لگے۔ تمہاری خوش قسمتی ہے کہ سات سمندر دور کے دوست سے ملاقات کر چکے ہو، ہم آج بھی ہیں کہ بچپن کے دوستوں سے نہیں مل سکے۔ میں نے حیدر قریشی صاحب کی محبت بھری ملاقات اور دہلی کے تمام دوستوں یہاں تک کہ اس سفر کے تمام دوستوں میں جو درجہ میں نے خود کیلئے محسوس کیا اور جو وقت انہوں نے مجھے دیا شاید وہ میرے لیے ہی خاص تھا۔ 
گھر پہنچ کے میں نے حیدر قریشی صاحب کو ابو کا سلام بذریعہ ای میل پہنچایا اور تاکید کے ساتھ کہا کہ پہنچنے کی اطلاع بذریعہ ای میل دے دیں، دوسرے دن آپ کا ای میل موصول ہوا ، اور تسلی ہوئی ،قریشی صاحب بخیریت اپنے گھر پہنچ گئے تھے۔
 
گھر پہنچنے کے بعد قریشی صاحب نے اپنی ”کھٹی میٹھی یادیں“کے ایک باب کے طور پر ہندوستان کے سفر کی رودادلکھی،اسےپڑھا تو میرا بھی ذکر تھا اس میں ، بلکہ میں اس میں اپنے کو ہیرو محسوس کر رہا تھا ، کافی تفصیل سے لکھا تھا انہوں نے ۔ اول تا آخر روداد پڑھنے کے بعدمجھے ایسا لگا جیسے میں قدم قدم پر حیدر قریشی صاحب کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل کر چکا ہوں، انہوں نے میری شان میں جو کچھ تحریر کیا وہ ابھی بھی میں سوچ کر مسکرا جاتا ہوں، اور وہ لفظ ہے ” نو عمر اور نوجوان صحافی“ اور یہ خاص بات میرے بارے میںانہوں نے تحریر کی:
” مطیع الرحمن عزیز ۔نوجوان اور تازہ دم ہیں اس لیے بہت کچھ کر گزرنے کو بے تاب رہتے ہیں۔ان کی یہی خوبی مجھے ہمیشہ اچھی لگی۔“ 
اب میری کوشش ہے کہ صحافت کی دنیا میں کچھ ایسا کام کر لوں کہ صحافی ہونے کا کچھ بھرم رہ جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 867