donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Aap Beeti
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Tahir
Title :
   Zafar Ali Khan

 

 ظفر علی خان
 
محمد طاہر
 
کبھی کرم آباداپنی الگ ایک شناخت رکھتا تھا مگر اب یہ ضلع گوجرانوالہ کے ایک شہر وزیر آباد میں مدغم سا ہوگیا ہے۔بات کرم آباد کی ہو یا وزیر آباد کی،وہا ں آباد ایک ہی شخص ہے اور وہ بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان ہے۔مولانا کے مقبرے کے سامنے ایک جلسہ گاہ میں ابھی تاریخ کے کتنے ہی صفحات سامنے آئے تھے ۔منچ پر   پرویز رشید ،ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی رانا مشہود ،مجیب الرحمان شامی،سی پی این ای کے صدر جمیل اطہر،رئوف طاہر اور کتنے ہی مہمان جلوہ افروز تھے ۔یہ سب ہی ظفر علی خان ٹرسٹ کے صدر خالد محمود کی دعوت پر تشریف لائے تھے ۔یہ خاکسار بھی جناب رئوف طاہر کے ہمراہ اس سعادت میں شریک تھا ۔واپسی پر وہ محترم 
مجیب شامی اور پرویز رشید کے ہو رہے اور میں مولانا کے اوراق ِ حیات کو حافظے کی لوح پر اُجاگر کرتا کرتا لاہور پہنچا۔یہ مولانا کی ۵۶ ویں برسی کا موقع تھا اوردو دسمبر کی تاریخ ۔
 
 میں نے اپنے وہ الفاظ یاد کئے جو ابھی منچ سے فی البدیہہ کہے تھے۔مولانا کی شخصیت اتنی جامعُ الکمالات ہے کہ اُن کے بارے میں پہلا فقرہ کبھی طے شدہ نہیں ہو سکتا۔اُن کے بارے میں جو فقرہ بھی  بولا جائے گا وہ ناتمام کی خلش اور اظہارِ مزید کی ترغیب کے ساتھ ہوگا۔مگر جس طرح آسمان پر پھیلے بے شمار ستاروں کو دیکھنے کی کوشش کی جائے تو آنکھیں کسی ایک ستارے پر ہی مرتکز ہو پاتی ہے ٹھیک اسی طرح مولانا کے بے شمار کمالاتی ستاروں کو ایک فقرے کی آنکھ سے دیکھا جائے توبلا شبہ مولانا کا وجود ملی جدوجہدکی ایک تاریخ ہے۔مولانا میں صف بہ صف جوجو صفات تھیں،اُن کی صفوت میں جوجو امتیازات تھے ،اُن کی ذات میںجوجو کمالات تھے وہ سب پوری فراوانی اور معجز بیانی سے ملی جدوجہد کے لیے نچھاور ہوئے۔
 
 دراصل ہر قوم کو حالتِ زوال میں ایک آدرش کی ضرورت ہوتی ہے۔ایسا آدرش جو جذبے اور ذہن کو ایک کر دے۔ظفر علی خان نے اپنی شاعری اور صحافت سے یہ ذمہ داری عمدہ طریقے سے پوری کر کے دکھائی۔یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں ۔درحقیقت ہر تہذیب کا ایک دماغ ہوتا ہے جو تصورات کو اصولوںمیں ڈھالتا ہے۔پھر ایک دل ہوتا ہے جو اُن اصولوں کے ساتھ وابستگی کے لیے درکار جذبات پیدا کرتا رہتا ہے۔یہ دونوں عمل کسی بھی تہذیب کی بقا کے لیے نہایت ضروری ہوتے ہیں۔ظفر علی خان نے تہذیب کے قلبی کردار کو جذبات آفرینی کی اِن ہی ذمہ داریوں کے ساتھ بخوبی نبھایا۔وہ ٹھیٹھ معنوں میں ایک انقلابی شخصیت تھے۔ایک انقلابی بننے کے لیے جس طرح کا آدرش (آئیدئیل ازم) چاہیے وہ اُنکے ہاں بہ تمام و کمال موجود تھا،جس طرح کی جرأتِ گفتار چاہیے،وہ اُسی حدت وشدت سے موجود تھی اور جس طرح کی وضاحتِ فکر چاہیے وہ اُسی صراحت و بداہت سے موجود تھی۔مولانا اُن میں سے ایک تھے جنہوں نے اپنے انقلابی بانکپن سے انگریز کا خوف ختم کر دیا۔ برطانوی اقتدار کی ہیبت کو قانون کی جابجا خلاف ورزیوں سے چیلنج کیا۔تب پنجاب بیرونی حملہ آوروں کے لیے سپاہیوں کی فراہمی کی ایک کھلی منڈی کے تاریخی بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔ظفر علی خان ایسی شورزمیں پر جہاں گئے ایک شورِ محشر بپا کیا۔اُن کا یہ کارنامہ تب اپنی قدروقیمت میں مزید اضافہ کرتا ہے جب وہ اس کی قیمت اپنی زندگی کے قیمتی ما ہ و سال سے چکاتے ہیں ۔اور مجموعی طور پر بارہ برس کی قید کاٹتے ہیں۔یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب کوئی شخصیت اپنے افکار کو اپنی زندگی سے زیادہ بیش قیمت سمجھنے کی وجدانی سچائیوں کو پا لیتی ہے ۔وہ تب ہی تو اسلامی جذبات کی نمائندہ اُن شخصیات کی صف میں رونق افروز ہوئے جو ابوالکلام آزاد ،علامہ اقبال ،مولانا محمد علی جوہراورعطاء اللہ شاہ بخاری سے آراستہ تھی۔ مولانا ظفر علی خان کے دور میں جمال الدین افغانی،  سرسید احمد خان ،ابوالکلام آزاد اور علامہ اقبال کے اثر سے کچھ نئے دینی اور تہذیبی مظاہر پیدا ہو گئے تھے جو دین و تہذیب کے روایتی نمونوں سے قدرے مختلف ہونے کے باوجود مقاصد میں الگ نہیںتھے۔ ظفر
 علی خان اپنے دائرہ کار میں اس نئی روایت کے ایک بڑے ترجمان تھے۔
 لاہور واپسی کے اس سفر میں، اپنے خیالات کی ان الٹی سیدھی لکیروں کو کھینچتے ہوئے اچانک آج کل کے وہ اخبارات لوحِ ذہن پر اُبھرے 
 
جو اپنی اشاعت کے جھوٹے دعووں میں خبر کا کاروبار کرتے ہیں۔ کیا اُنہیں معلوم ہیں ، یہ زمیندار تھا جو تب کے ناخواندہ معاشرے میں کثیر الا شاعت تھا۔اخبار خریدنے  والے اخبار پڑھ نہیں سکتے تھے ۔چنانچہ اخبار سننے کا رجحان پیدا ہوا۔ یہ لکھے ہوئے لفظ کی سچائی کا اعتراف تھا۔ تب اخبار کے لیے ایسا مالک مدیر ہوتا تھا جو عالمانہ شان رکھتا ہو۔اب ایک ایسا مالک مدیر چاہیے جو سیٹھ ہو جس کے ملک ریاضوں اور یونس حبیبوں ایسے لوگوں سے مراسم ہوں،جوجھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ چھاپنے کی ڈھٹائی رکھتے ہوں۔اور جنہیں اپنے کالے دھن کی باز پرس کاخطرہ ہو۔نئے اخبار کے مالکان گاہے اس خاکسارسے پوچھتے ہیں کہ اخبار کو مقبول کیسے بنایا جائے تب میں اُن سے پوچھتا ہوں ،وہ اداریہ کہاں ہے جو زمیندار میں چھپتا تھا، وہ سیاسی شاعری کہاں ہے جوزمیندار میں شائع ہوتی تھی ،وہ جرأت کہاں ہے جو زمیندار میںجھلکتی تھی۔تب اخبار معاشرے کے لیے نکلتا تھا اب منڈی کے لیے نکلتا ہے ،تب اُس کے مخاطب تہذیب کے فرزند ہوتے تھے۔اب صارف ہوتے ہیں۔آج کے اخبارات ردی کی ٹوکری میں رہیں گے مگرمولانا ظفر علی خان کا زمیندار ایک تاریخ بن کر زندہ رہے گا اور شان ِ صحافت میں اضافہ کرتا رہے گا۔زمیندار کیسے ہفتہ وار سے ہفتے میں دوبار چھپنے لگا پھر روزنامہ ہو گیا  یہاں تک کہ دن میں دوبارصبح و شام چھپنے لگا۔مولانا الطاف حسین حالی نے انہیں ’’اے مالکِ دفتر زمیندار‘‘ کہہ کر مخاطب کیا اور’’ نازشِ قوم ‘‘قرار دیکر خراجِ عقیدت پیش کیا ۔ابو الا ثر حفیظ جالند ھری نے کہا’’تھا فتح و ظفر انجام ظفر‘‘۔اور شورش
 
بپا کرنے والے شورش کاشمیری نے تاسف سے پُکارا تھا :
 عصا بدستوں کے لائو لشکر میںروح ِ ایماں کو ڈھونڈتا ہوں
 بتانِ اسلام کے  جزیرے میں نورِ قرآں کو ڈھونڈتا ہوں
 قلم کے پُر جوش معرکوں میں ظفر علی خاں کو ڈھونڈتا ہوں
 ظفر علی خاں کو ڈھونڈتا ہوں
 
 اب وہ ظفر علی خان کہا ں ہیںجو زبان وبیان کے تجربے اخبارات میں کیا کرتے تھے۔اُن کے استعمال کیے ہوئے الفاظ ناخواندہ لوگوں کی زبانوں پر بھی جاری ہوجاتے تھے۔کاسہ لیسانِ سرمدی، ٹوڈیانِ کرام ،تملقِ پیشگان،رجعتِ قہقری ،اربابِ حل و عقداور ایسی بہت سی تراکیب تب مولانا نے عام لوگوں کے استعمال میں عام کر دی تھی اب صحافت کے بڑے بھی اسے استعمال کریں تو زیادہ پڑھے لکھے لگنے لگتے ہیں ۔سیاسی جلسوں میں انبوہ ِ کثیر کے لئے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی ترکیب سب سے پہلے مولانا ظفر علی خان کے ہاں استعمال ہوئی۔
 
رات گئے وزیر آباد سے لاہور اپنے گھر پہنچا تو یوں لگا کہ اب بھی میں معزز مہمانوں کے ساتھ اُسی منچ پر موجود ہوں جس کے بالکل سامنے مولانا ظفر علی خان اپنی آخری آرمگاہ میں سرخرو اُترے تھے۔ اس خاکسار نے اپنی تقریر کے آخری الفاظ اُن کی آرام گاہ کی طرف دیکھتے ہوئے یہ کہے تھے کہ مولانا ایسی شخصیتیں اپنے مرقد میں نہیں رہتیں ۔یہ تہذیب کے رچاؤ میں رچ بس جاتی ہیں ،یہ خوابوں میں رہتی ہیں ،یہ کتابوں میں اُترتی ہیں ،یہ افکار کی خوشبو میں پھیلتی ہیںاور ہواؤں کی طرح چہار سو بہتی رہتی ہیں۔
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 866