donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Aap Beeti
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Najib Ahmad Najib
Title :
   Car Ki Kaya Palat


 

کار کی کایا پلٹ


نجیب احمد نجیب

 
ایک دن رابسن روڈ کے تراہے کے پاس رسالہ افکار کے دفتر کے قریب کار کا بریک ڈاؤن ہوا۔ اُسی وقت اس میں گدھا گاڑی جوت کر لارنس روڈ لے گئے۔ اس دفعہ مستری کو بھی رحم آ گیا۔ کہنے لگا " آپ شریف آدمی ہیں۔ کب تک برباد ہوتے رہیں گے۔ اوچھی پونجی بیوپاری کو اور منحوس سواری، مالک کو کھا جاتی ہے۔ کار تلے آ کر آدمی مرتے تو ہم نے بھی سنے تھے۔لیکن یہ ڈائن تو اندر    بیٹھے آدمی کو کھا گئی! میرا کہنا مانیں۔ اس کی باڈی کٹوا کر ٹرک کی باڈی فٹ کروا لیں۔ لکڑی لانے لے جانے کے کام آئے گی۔ میرے سالے نے باڈی بنانے کا کارخانہ نیا نیا کھولا ہے۔ آدھے داموں میں آپ کا کام ہو جائے گا۔ دو سو روپے میں انجن کی reboring میں کر دوں گا۔ اوروں سے میں پونے سات سو لیتا ہوں۔ کایا پلٹ کے بعد  آپ پہچان نہیں سکیں گے۔
 
    اور یہ اُس نے کچھ غلط نہیں کہا تھا۔ نئی باڈی فٹ ہونے کے بعد  کوئی پہچان نہیں سکتا تھا کہ یہ ہے کیا۔ ملزموں کو حوالات میں لے جانے والی حوالاتی ویگن؟ کتّے پکڑنے والی گاڑی؟ مذبح خانے سے تھلتھلاتی رانیں لانے والا خونی ٹرک؟ اس شکل کی یا اس سے دور پرے کی مشابہت رکھتی ہوئی کوئی شے اُنھون نے آج تک نہیں دیکھی تھی۔ مستری نے یقین دلایا کہ آپ اسے دو تین مہینے صبح و شام مسلسل دیکھتے رہیں گے تو انی بری معلوم نہیں ہو گی۔ اس پر مرزا بولے کہ تم بھی کمال کرتے ہو۔ یہ کوئی بیوی تھوڑی ہے ! سابق کار یعنی موجودہ ترل کی پشت پر تازہ پینٹ کی ہوئی ہدایت "چل رے چھکڑے تینوں رب دی آس" پر اُنھوں نے اسی وقت پچارا پھروا دیا۔ دوسرے فقرے پر بھی اُنھیں اعتراض تھا۔ اُس میں جگت یار یعنی "بیوپار" کو ہدایت کی گئی تھی کہ تنگ نہ کرے۔ چودھری کرم دین پینٹر نے سمجھوتے کے لہجے میں کہا کہ جنابِ عالی، اگر آپ کو یہ نام پسند نہیں تو بیشک اپنی طرف کا کوئی دل پسند نام لکھوا لیجیے۔ اسی طرح اُنھوں نے اس رسوائے زمانہ شعر پر بھی سفیدہ پھروا دیا:

 
    مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
    وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

 
    اس حذف و اصلاح کے بعد  بھی جو کچھ باقی رہ گیا وہ وہ خدا کو منظور ہو تو ہو، اُنھیں قطعاً منظور نہیں تھا۔


    لیکن بے ہنگم باڈی سے قطع نظر، ری بورنگ کے بعد  جب وہ چلی گئی تو ساری کوفت دور ہو گئی۔ اب وہ سٹارٹ ہونے اور چلنے میں ایسی غیر ضروری اور بے محل پھرتی اور نمائشی چستی دکھانے لگی جیسے ریٹائرڈ لوگ ملازمت میں توسیع سے پہلے یا بعض بڈّھے دوسری شادی کے بعد  دکھاتے ہیں۔ باتھ روم میں جاگنگ کرتے ہوئے جاتے ہیں۔ زینے پر دو دو سیڑھیاں پھلانگتے ہیں۔ پہلے دن صبح نو بجے سے شام کے چھ بجے تک اس ٹرک نُما کار یا کار نُما ٹرک سے لکڑی کی ڈلیوری ہوتی رہی۔ کار کی دن بھر کی آمدن یعنی ٤٥ روپے جو آج کے ٤٥٠ روپے برابر تھے  کو پہلے اُنھوں نے ٣٠ دن اور بعد  میں ٣٦٥ سے ضرب دیا تو حاصل ضرب ١٦٤٢٥ روپے نکلا۔ دل نے کہا "جب کہ کار کی کل قیمت ٣٤٨٣ رُپلّی ہے ! پگلے ! اسے حاصلِ ضرب نہ کہو، حاصلِ زندگی کہو" وہ بڑی دیر تک پچھتایا کیے کہ کیسی حماقت کی، اس سے بہت پہلے کار کو ٹرک میں کیوں نہ تبدیل کروا لیا۔ مگر ہر حماقت کا ایک وقت معیّن ہے۔ معاً "وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے " اُن کے ذہن میں آیا اور وہ بے ساختہ مسکرا دیے۔

*******************

Comments


Login

You are Visitor Number : 902