donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Aap Beeti
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Raza Ali Abedi
Title :
   Zabaan Mein Shaistagi


زبان میں شائستگی 


رضا علی عابدی


 اب تودل کا حال یہ ہوا ہے کہ اس غریب سے اب اور دُکھ دیکھے نہیں جاتے۔ غضب یہ ہے کہ دکھ دیکھ بھی لیں اور ان پر آواز بلند بھی کریں مگر رنج یہ ہے کہ اس آواز کا کسی پر کوئی اثر نہیں۔ ایک زمانہ تھا، لوگ ایک کان سے سنتے تھے، دوسرے سے ا ±ڑا دیتے تھے۔ اب تو انہوں نے سننا ہی بند کردیا ہے۔ ایسے میں کوئی کیا کرے۔یہی کہ آنکھیں موند لے، سر ریت میں دبادے۔اب طوفان آئیں یاجھکڑ چلیں، ا ±س کی بلا سے۔تو صاحبو، وہ جو کہتے ہیں کہ موضوع بدلا جائے تو کیوں نہ یہ بھی کر کے دیکھا جائے اور ا ±ردو زبان اور ترجمے کے مسئلے پر بات کی جائے، کچھ نئی راہیں سجھائی جائیں اور کم سے کم زبان کے معاملے میں زندگی کو آسان، سہل اور سادہ بنایا جائے کہ اس پر ہمارا تھوڑا بہت بس چلتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک بچی نے مجھ سے پوچھا کہ اتنی بڑی زبان اردو میں کیا ٹارگٹ کِلر اور ٹارگٹڈ آپریشن کا اپنا کوئی لفظ نہیں؟جواب یہ ہے کہ ہے۔ مشکل یہ ہے کہ دُنیا میں جینے کے ڈھب بدل رہے ہیں۔ اسی مناسبت سے زبان میں نئے نئے لفظ داخل ہو رہے ہیں۔کچھ پرانے لفظ ہیں لیکن ان سے وابستہ تصور میں شدت آگئی ہے ، مثال کے طور پر ظالم، سفّاک، بے رحم، جلّاد صفت، جابر اور خوں خوار کہلائے جانے والے لوگ اتنے عام ہو گئے ہیں اور ہر گلی کوچے میں مارے مارے پھر رہے ہیں کہ ایسے لوگوں کے لئے موزوں اور مناسب الفاظ انگریزی یا دوسری زبانوں سے مستعار لینے پڑ رہے ہیں۔ اسی طرح چور، ڈاکو، لٹیرے اور اٹھائی گیرے جیسے لفظ ختم ہی سمجھئے کہ ان کو کوئی خاطر ہی میں نہیں لاتا۔ ان کے لئے اب نئے لفظوں کی ضرورت ہے۔


کچھ روز ہوئے لندن میں ممبئی کے نہرو سینٹر میں ایک ہندی کتاب کی رسم ِ اجرا تھی۔ اچانک حاضرین کو احساس ہوا کہ ہندی میں رسمِ اجرا کیلئے کوئی لفظ ان کے علم میں نہیں۔ عین ا ±سی وقت اسٹیج سے، جسے وہ منچ کہتے ہیں، اعلان ہو ا کہ ہندی میں رسم اجرا کو ’لوکارپن‘ کہتے ہیں۔ اس میں شدھ ہندی لہجہ ڈالنے کیلئے اس کے آگے جی چاہے تو ’ڑے‘ لگالیں۔


یہ تو ہندی والوں کی اپنی دَھج ہے، ہر لفظ کا ہندی متبادل بنا لیتے ہیں اور اس سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کو رائج کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر ریل گاڑی میں اپنی نشست محفوظ کرانے کو وہ ریزرویشن نہیں، ’آرک چھن‘ کہتے ہیں۔ اب پڑھے لکھے یا کم پڑھے لکھے، سارے کے سارے آرک چھن بولتے ہیں۔ ہماری اُردو ثقافت میں ایک عجب کثافت ہے۔ نئی اصطلاح پر ہنستے ہیں اور اسے قبول نہیں کرتے۔ اب ٹارگٹ ہی کو لے لیجئے۔ نشانے کو ٹارگٹ کہتے ہیں۔ اس مناسبت سے ٹارگٹ کلر کو نشانہ وارقاتل اور ٹارگٹڈ آپریشن کو نشانہ وار کارروائی کہنے میں کیا قباحت ہے؟ بس ایک ذرا سے قومی جذبے کی ضرورت ہے، وہ کہاں سے لایا جائے؟ وہ ہوتا تو رونا کس بات کا تھا۔آگے چلئے۔ٹیلی ویژن نے رواج پایا اور جب پہلے سے ریکارڈ کرنے کے بجائے ہاتھ کے ہاتھ پروگرام نشر ہونے لگے تو ہم نے انہیں ’لائیو‘ live کہا۔ ایران والے ایسے پروگراموں کو ’زندہ‘ کہتے ہیں۔ پردے کے بالائی کونے پر لکھا ہوتا ہے: زندہ۔ میں اگر اپنے ہاں یہی تجویز پیش کروں تو لوگ ہنسی میں اُڑا دیں گے۔ایک اور انگریزی لفظ اردو میں یوں آیا ہے جیسے کھانا پینا یا اوڑھنا بچھونا۔ اور وہ لفظ ہے کرپشن۔اتنی کثرت سے استعمال ہوتا ہے کہ لگتا ہے پورا معاشرہ کرپٹ ہو گیا ہے۔ اس کی جگہ ایک بے حد مناسب اور موزوں لفظ موجود ہے جو سہل بھی ہے اور وہ ہے ’خیانت‘۔ کرپشن کی جگہ خیانت یوں بھی درست ہے کہ خیانت ہمیشہ امانت ہی میں کی جاتی ہے۔ کیوں میڈیا والے کرپشن کی جگہ خیانت کو رائج نہیں کرتے۔میرا خیال ہے کہ ابلاغ عامہ کے ہر ادارے میں کم سے کم ایک مترجم ایسا ضرور ہے جسے انگریزی الفاظ haven(پناہ گاہ) اور heaven(بہشت) کا فرق نہیں معلوم چنانچہ برسوں سے لکھا جارہا ہے کہ ہمارا ملک دہشت گردوں کی جنّت بن گیا ہے۔ اگرچہ بات غلط بھی نہیں لیکن ترجمہ غلط ہے۔ایک بار کسی نے پوچھا تھا کہ اردو زبان کا مستقبل کس کے ہاتھ میں ہے؟کسی نے کہا کہ اُردو والوںکے ہاتھ میں لیکن میں نے کہا کہ میڈیاکے ہاتھ میں کہ وہ جب چاہے اس کا حلیہ بگاڑ دے اور جب چاہے سنوار دے۔ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ زبان کوئی بھی ہو، تعظیم کے آداب چاہتی ہے۔ اسی لئے اردو میں لٹریچر کو ادب کہتے ہیں۔ اسی رویے کے نتیجے میں بعض بہت عمدہ لفظ رائج ہوئے۔ مثلاًfundamentalist کے لئے بنیاد پرست، militantsکے لئے شدّت پسند یا عسکریت پسنداور subsidyکے لئے زرِتلافی۔ لوگوں کو رہائی دِلانے کے لئے بڑی بڑی رقمیں دینے کا جو چلن ان دنوں عام ہے اسے زرِخلاصی کہا جا سکتا ہے۔ مگر محسوس ہوتا ہے کہ اس بکھیڑے میں کون پڑے۔


 اب تو انگریزی کے لفظوں کی اتنی بھرمار ہو گئی ہے اور ایسے گاڑھے انگریزی لفظ استعمال ہونے لگے ہیں کہ کبھی کبھی ڈکشنری دیکھنی پڑتی ہے۔


ایک اور غضب یہ ہو رہا ہے کہ دیوناگری کی ترکیبیں اردو میں بلا روک ٹوک چلی آرہی ہیں۔ مثال کے طور پر کسی معاملے پر بحث ہو رہی ہے تو کہنے لگے ہیں کہ اس معاملے کو لے کر بحث ہو رہی ہے۔یہی نہیں۔معاملے کو م ±دّا بھی کہنے لگے ہیں۔ سنائی یوں دیتا ہے جیسے کسی زندہ لفظ کو مُردہ کہا جا رہا ہو۔ایک اور تکلیف دِہ اور خاصا حیا سے عاری لفظ یوں بولا جانے لگا ہے ’ ابھی ج ±ڑے رہئے‘۔ مطلب یہ کہ پروگرام دیکھتے رہئے۔خدا کا شکر ہے کہ ’حوالے سے، حوالے سے‘ ذرا کم ہوا ہے۔ شاید اس کی جگہ ’لے کر،لے کر‘ نے لے لی ہے۔ یہ معاملے ایک ذرا سی توجہ چاہتے ہیں۔ زبان میں شائستگی ہو تو بھلی لگتی ہے۔ ہندی والے تو شائستگی کے خیال سے ’پھ‘ کو ’ ف‘ اور’ کھ‘ کو ’خ‘ کہنے لگے ہیں۔


ساحر کا مشہور گانا: پھیلی ہوئی ہیں سپنوں کی بانہیں، جب کبھی ہندی میں لکھا جاتا ہے عام طور پر لکھتے ہیں:فیلی ہوئی ہیں سپنوں کی بانہیں۔پھول کو فول کہتے ہیں اور لاکھ کو لاخ۔ اب رہ گیا معاملہ املا اور ہجّے کا۔ جب تک ٹیلی ویژن پر پٹّیاں نہیں چلتی تھیں، اس عیب پر پردہ پڑا رہتا تھا لیکن اب تو وہ جانِ حیا کھل گیا ہے اور بڑے بڑے جگ ہنسائی کے سامان فراہم کئے جارہے ہیں۔ اس کو آئندہ کسی موقع کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔میں یہ نہیں کہوں گا کہ ا ±س وقت تک ہم سے ج ±ڑے رہئے۔آخری بات یہ کہ چاہے وہ سندھی ہو، پنجابی، پشتو، بلوچی، کشمیری، سرائیکی، پوٹھو ہاری، گجراتی، تھری، براہوی یا اردو، یہ بات طے ہے کہ زبان کا تعلق ماں سے ہوتا ہے۔اس پر خیال آتا ہے کہ جس طرح اُس کا احترام لازم ہے، اُسی طرح اِس کا بھی۔اِس کے پاو ¿ں تلے ہو نہ ہو، زبان تلے جنت ضرور ہو گی۔ ٭

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 842