donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Aap Beeti
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Razia Kazmi
Title :
   Safar Nana Haj

 سفر نامۂ حج

 

رضیہ کاظمی

 


کسی کی نیت , ارادہ , عقیدہ اور عمل کے متعلّق کوئی قطعی راۓ تو قائم نہیں کی جاسکتی مگر ہمارے بر صغیر کےاکثر صاحب استطاعت مسلمان اپنےنام کےساتھ متوقّع حاجی کی سند لگانے کے لئے اور کچھ تو سونا اور غیر ملکی سامان کی خریداری کےلئے حج وعمرہ کےلئےعازم سفر ہوتے ہیں. حج کے اخراجات اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ اکثر وہ جو واقعی خلوص دل سےاس فریضہ کو ادا کرنا چاہتے ہیں تا زندگی اتنا پس اندازنہیں کرپاتے کہ ان کےمتحمّل ہوسکیں. دنیا میں کچھ قوموں کوچھوڑ کر باقی قوموں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی اور لازمی طور پر حاجیوں کی تعداد میں بھی ہر سال اضافہ ہوتا جارہا ہے. اس کی وجہ سے منتظمین کو بے پناہ دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا.


            مندرجۂ بالاخیال کےتحت میرا ارادہ تھاکہ چونکہ حج واجبات میں ہے اوراستطاعت ہوتے ہوئے اسےترک کرنا گناہ ہےتوایک بار اس فریضہ کوضرورانجام دونگی. چونکہ میں نوکری کررہی تھی ، خود کفیل اور دوبیٹیوں کے کفالت کی ذمّہ داری بھی میرے ہی اوپر عائد تھی اس لئےاس فرض کی ادائگی کوبشرط زندگی ریثائرمنٹ تک موقوف کرنا پڑا. اس میں یہ مصلحت تھی تب تک بیٹیوں کی تعلیم مکمّل ہوجاۓگی، فنڈ کےپیسےمل جائیں گےاوران کی شادیوں کے فرائض سےبھی سبکدوش ہو لونگی.


                  بفضل خداایک بیٹی کی شادی کو چھوڑ کرجو اب خودکفیل ہوچکی تھی میں اور دوسرے کاموں سے فارغ ہوکر انھیں بیٹیوں کے پاس نیو جرسی چلی آئ تھی. میں سال میں ایک بار اپنے وطن عزیز کا دورہ ضرور کرتی ہوں. ہرسال کی طرح دسمبر ۲۰۰۵ میں الہ آباد گئ ہوئ تھی . وسط دسمبرمیں گئی تھی اور عشرۂ محرّم کے فورا" بعد واپسی تھی . دسمبر کا آخری ہفتہ شروع ہونے والاتھا کہ  فون پر میری بیٹی انتخاب نے بتایا کہ دہلی کی کوئی صاحبہ جو اس کی ساس سعیدہ رضوی کی شناساہیں حج وعمرہ کے ٹورز لےجاتی ہیں اورکسی کے ویزاکے سلسلےمیں بمبئ میں بھاگ دوڑ کرر ہی ہیں.میں نےاپنی سمدھن کے ذریعہ ان سے رابطہ قائم کیااور اپنے حج کے ارادے سے ان کو آگاہ کیا . وہ کوشش کرنےکےلئےتیّار بھی ہوگئیں. اللّہ مسبّ الاسباب ہے .میں نے ۲۵دسمبر کواپنا پاس پورٹ اورمطلوبہ رقم کا چک انھیں بذریعہ کوریر بھجوایا اور۲۷ دسمبر گیارہ بجےشب میں ان کی کال آ ئی کہ ویزامنظور ہوگیاہے آپ ۳۱ دسمبرتک دلّی پہنچ جائیں. احرام کا انتظام وہ کردینگی . اس بے ساختہ خوشی نےجیسے مجھے مخبوط الحواس کردیا. آنکھوں میں رات کاٹی . دودن معمولی تیّاری میں گزرے.میں نے ایک چھوٹی اٹیچی میں صرف تین جوڑ کپڑےہی ساتھ لۓ تھے.


            صبح ۳۰ دسمبر کو ساڑھے نو بجے رات میں پریاگ راج سے روانگی ہوئی . گاڑی ٹھیک وقت مقرّرہ پرصبح اجمیری گیٹ پہنچی . بیٹی کی سہیلی اسمرتی سنگھ اور اسکاشوہر وکاس پلیٹ فارم پر موجود تھے. ان لوگوں نے مجھے اپنی کارکےذریعہ امامیہ مشن ہال تک پہنچایا. قافلہ کی انچارج مجھے گیٹ پر ہی عین انتظار میں ملیں. امامیہ بلڈنگ بہت بڑی اورکمرےبہت ہی کشادہ ہیں لیکن وہاں قیام کاانتظام معقول نہیں تھا .ہمارے سونےکے لئے زمین پر صرف دری اور اوڑھنے کے لئے صرف ایک ایک کمبل کا انتظام کیا گیا تھا. یہیں ہمیں اپنی ایک پرانی شناسا مل گئیں جو جونپورسے شامل قافلہ ہونےآئ تھیں  بعد میں باتوں باتوں میں معلوم ہواکہ یہی وہ محترمہ ہیں جن کے سبب قافلہ کی روانگی میں تاخیرہوئی تھی اورمدینۂ منوّرہ کی زیارات کاپروگرام پیچھے کھسکاناپڑا تھا. سارے اہل قافلہ حج کے بعدعراق اور شام وغیرہ کی زیارتوں کےلئے جانےوالےتھےلیکن ان کو واپس لوٹنا تھا.اسی کام کے سلسلہ میں ٹور انچارج بمبئ گئ ہوئ تھیں کہ انھیں میرا پروانہ ملا کہ میں بھی اسی کشتی کی سواری کرنا چاہتی ہوں.ایک دوسرے کی وجہ سےدونوں کی راہ ہموار ہوگئ .


                    پہلی جنوری کی شام ہم لوگ اندرا گاندھی ایر پورٹ کے حج ٹرمینل سےجدّہ کے لئے روانہ ہؤے . جہاز آدھی رات میں جائے مقصودپر پہنچا . قافلے میں تقریباً ۳۵ مرد و زن ہونگےجن میں جائز شرعی کاغذی کارروائیوں کے لئے ایک نو عمر مولانا اور کھانا بناکر کھلانے کےلئےایک غریب نو جوان بھی شامل تھے. ہمیں یہاں امیگریشن سے فارغ ہونےاورچارٹرڈبس کےانتظار میں چارگھنٹہ سے زیادہ وقت صرف ہوگیا . ابتک کا میرا ایمیگریشن کا یہ تجربہ تھا کہ پہلے لائن جتنی بھی بڑی ہولیکن چیکنگ کے مقام پر ہر مسافر کو اگر اسکے ساتھ کوئ خاص مسئلہ نہ ہو تواسکا پاس پورٹ اسی وقت لوٹا دیاجاتا ہے . بر خلاف اسکےیہاں معلّم یا کلرک ہمارے پاسپورٹ زمین پرڈھیر لگاتے جاتےتھےاور پھر اسے واپس کرنے کے لئے دوبارہ بلایا جاتا تھا. سب سے بڑامسئلہ یہ تھا کہ نہ انھیں ٹھیک سے اردو أتی تھی اور نہ انگریزی.


                  میرا پاسپورٹ جو ڈھیر میں دب گیا تھا کافی دیربعد ملا. جب میں اپنے ساتھیوں کوتلاش کرتی ہوئ مقرّرہ مقام پر أئ تو اکثر لوگ بنچوں پر بیٹھے بیٹھے اونگھ رہے تھے بس کا ابھی کہیں پتہ نہیں تھا . میں نے سوچا کیوں نہ کچھ کام ہی کرلیا جائے . پاس ہی ایکسچینج بینک تھا . وہاں سے کرنسی بدلواکرایک چھوٹی جانماز اورچھوٹی چٹائ خرید کر واپس آئ تو معلوم ہوا کہ ہنوز روز اوّل است . نا چاربس کا انتظار کرنا ہی پڑا . خدا خدا کرکے بس آ ئ اور ہم جانب منزل چل پڑے . نیا راستہ نۓ ہم سفر نیند کا غلبہ . بس ایک جھٹکے سے رکی . معلوم ہوا کہ یہاں اترنا ہے . یہ مسجد عائشہ اور جانب جدّہ سےآنے والوں کی میقات یعنی وہ مقام ہےجہاں مکۂ معظمہ میں داخل ہونے ہر حاجی کو احرام پہننا لازمی ہے . ہم اترے دو دو رکعت نمازیں پڑھیں احرام پہنے ، واپس آکر بس میں بیٹھے اور پھر وہ فورا چلدی . اب وہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں اورسرنگوں کےدرمیان گزرتی ہوئ ہماری جاۓقیام ہوٹل جبل نور کی جانب رواں تھی .


        ہمارا ہوٹل حرم سےکافی دور اور جبل نور سےبالکل قریب ہی واقع تھا . اسی کی رعایت یا شہرت دینے کی غرض اسکا نام جبل نور رکّھاگیاتھا . سامنے پہاڑ اور سیڑھیوں پر چڑھتےہوۓ زائرین صاف نظر آرہے تھے . حج کو جاننےوالے زائرین دوران حج مسجد الحرام سے قریب ترین ہوٹلوں کو ترجیح دیتے ہیں . ظاہرہے ان کا کرایہ بھی نسبتا زیادہ ہوگا یہی وجہ ہے کہ  آۓدن ہوٹلوں کی بڑھتی ہوئ فلک بوس عمارتیں الّلہ کے گھرکو اپنے حصارےتھی میں لیتی جا رہی ہیں . ہمارے ساتھیوں نے اس دوری کے لیے انچارج سے شکایت کی تو انھوں نے اپنے بچاؤ میں اس کا عذرقافلےکی تاخیر کے سبب اچّھےہوٹلوں کا پہلےہی بک ہو جانا دیا . خیر مرتا کیا نہ کرتا اب ہم اسیردام دشواری تو ہوہی چکے تھے . صرف اچّھی بات یہ تھی کہ سامنے ہی سےحرم کے لیۓکم کرایہ بر سواریاں ہر دم مل جاتی تھیں . قیام و طعام کے انتظام سے ہم اب تک بالکل ہی نا آشنا تھے.پہنچنےپر معلوم ہوا کی ایک ایک کمرے کئ کئ مسافروں کو قیدیوں کی طرح رکّھاگیا ہے. سونے کےلئے زمین پرفی کس ایک گدّہ اورایک کمبل . الّا الّا خیر صلّا. ہم تقریباتیس بتّیس نفوس کےدرمیان مردانے اورزنانے میں کل ملاکےچارچار واش روم رہے ہونگے. رہی طعام کی بات اس کےلۓ کوئ ایک نادارنوجوان بغیر اس کے اپنےذاتی خرچ کےحج کرانے کےبہانے پکڑ لائ تھیں . اسی کی اکیلی ذات پرسارے لوگوں کےکھانےاورناشتےکاانحصار تھا . بعد میں تو میں نے اسی عمارت میں سڑک کی طرف ایک بنگلہ دیسی کی دکان ڈھونڈ لی تھی اور جب کبھی کھانےکی وجہ سے حرم جانے میں دیرہوتی میں کچھ بریڈ وغیرہ کھاکر پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعہ وہاں پہنچ جاتی .


                  ہوٹل پہنچ کر میں نے اپنےکمرے میں سب سے کنارے والا بستر لیاتاکہ ادھر کسی کےآنےجانے کا سلسلہ نہ رہے اور کچھ تو سکون میسّر آسکے. تھوڑاآرام کرنےاورکچھ کھا پی کرہمیں حرم لے جایا گیا. الّلہ جلّ جلا لہ . مکمّل شان و شوکت و جاہ وجلال کا مظہر . مجمع وہ کہ الّلہ کی پناہ. تل دھرنے کی جگہ نہیں محاورہ پیچھے چھوٹ چکا تھا. قافلے کی دوعورتیں اور ایک مرد پہلےہی دن کے طواف کےدوران ساتھیوں سے بچھڑ کر کہیں غائب ہوگئے تھےجنکا سراغ کھویا پایا کیمپ کےذریعہ بھی رات گئے ہوٹل واپسی تک نہیں ملا.
                  دوسرےدن چار جنوری کو ہم سب دوپہر کے کھانے کےبعد صرف بغرض عبادت پھرحرم گۓ

اورگیارہ بجے تک وہیں رہے. آج ہم لیڈیز کو وہاں کی لیڈی پولیس نےجن کو شاید شوری' کہتے ہیں بہت پریشان کیا. معلوم نہیں انھیں خاص طور سےہمارے ہی گروپ کی عورتوں سےکیاپریشانی تھی کہ ہم جہاں بھی اپنا مصلّے'بچھاتے وہ ہمیں وہاں سےہٹانے ضرورآموجود ہوتیں . سرسےلیکرپیر کے انگوٹھے تک کالے لباس میں ڈھکی ہوئ اور اس پردو سوراخوں سےدو گھورتی ہوئ آنکھیں واقعی کسی دوسری دنیا کی کوئ پر اسرارمخلوق معلوم ہورہی تھیں . ہوٹل پہنچے تو ساڑھے بارہ بجے رات میں وہاں سےبھی ہٹنااور اوپری منزل منتقل ہونا پڑا.


                  ۵/جنوری کوبھی ہم سب حرم گۓلیکن دیر سے. ایک توکھانےانتظار میں لازی طور پردیر ہوتی ہی تھی مگرآج کوئ ہوٹل کی عمارت منہدم ہوگئ تھی اور دور دراز کے اہل قافلہ کے رشتہ داروں کی فون کالوں کے سبب اور تا خیر ہوئ . ان بیچاروں کو شاید ہمارے صحیح جاۓ قیام کا علم نہیں تھا.


                  چھ جنوری: سویرے سے حکومت کے انہدام سےبچے ہوۓتاریخی مقامات اور کچھ نئ تعمیرات و زیارتگاہوں کو دیکھنےجانا تھامگرکسی وجہ سےجانا ملتوی ہوگیا . شام کو میں ایک ساتھی کو لیکرحرم میں ہی شب گزاری کےلۓچلی گئ . میں یہ سوچتی تھی کہ شاید دیر رات گۓمجمع میں تخفیف ہوجاتی ہولیکن یہ محض میری خام خیالی تھی . رات کےساتھ ہی مجمع پر بھی شباب آتا جا رہا تھا . رات میں تو مجھےاور بڑےبڑے گروہ طواف کرتے دکھائ دیے. ایک جیسی شکل و صورت والی چارچار پانچ پانچ سوانڈونیشیائ دوشیزاؤں کےگروہ کا ایک ساتھ طواف کرنے کاعجیب ہی سماں تھا . کسی نے مجھے یہ بتایا کہ وہاں کےرواج کےمطابق شادی سے پہلے لڑکیوں کے لۓ حج لازمی ہے . معلوم نہیں اس بات میں کہاں تک سچّائ ہے. ایرانی بھی بڑے بڑے جتّھوں میں ایک ساتھ ہی طواف کرتے دکھا ئ دے رہے تھے . ان کی خاص بات یہ تھی کہ توانا اور مضبوط حضرات کمزورں اور عورتوں کو حلقہ میں لےکر طواف کر رہےتھے اورسارے گروہ ہم آوازہوکر نعرہ ہاۓ درود بلند کرتے تھے. جب تک میں خود یہاں نہیں آئ تھی تصویروں میں دیکھ کر کبھی اس بات پردھیان نہیں دیا تھا کہ طواف کعبہ اینٹی کلاک وائز ہی کیا جاسکتا ہےاورپہلا چکّرکس مقام سےشروع اور آخری یعنی ساتواں کس جگہ اختتام کو پہنچتا ہے.
                     
سات جنوری ۲۰۰۶: آج شام کوہوٹل سے منی' کے لیۓ روانگی تھی. سارادن نہانے دھونےاور گہماگہمی میں اور پھر بس کے انتظارمیں بسر ہوا.


                      ۸/

جنوری : شب گزشتہ آنے والی آج صبح پونے دس بجے آئ اور ہم سب منی' کی عارضی قیام گاہ کے لیے روانہ ہوۓ. بس خام راستوں سے گزرتی ہوئ خیموں کے ایک جنگل میں پہنچی. ہمارےخیمہ کا نمبر۵۲تھا . ہمارے گروپ کو صرف دوخیمے الاٹ ہوئے تھے. مرد وعورت کی کوئ تشخیص نہیں تھی جس کو جہاں جگہ ملی اس نے وہیں ڈیرا ڈال لیا . جگہ اتنی تنگ کہ ایک پاؤں پھیلاۓ تو دوسرےکے سر کوٹکّر دے.نمازپڑھنے میں عورتیں نامحرم مردوں کے پیروں کو سجدہ دیں اور اسی طرح مرد حضرات نامحرم عورتوں کے. خاص شہر مکّہ میں دوران قیام جتنے بھی اعلی' ہوٹلوں کا مزہ لوٹ لیں مگر یہاں محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے نظر آئینگے .


                        ۹/

جنوری : بعد نماز فجرہم عرفات کے ليے روانہ ہویۓ. راستہ بھر بس ڈرائیور کے ساتھ ساتھ ہم سب کی تلبیہ ادائگی ایک عجیب روح افزا ماحول پیداکر رہی تھی . شدید بھیڑ کی وجہ سے ہم تقریبا" دس بجے عرفات پہنچے. یہاں خیموں اور جگہ کا کوئ تعیّن نہیں تھا . جہاں ملے وہاں جگہ بنا لو. یہاں ہم نےاوّل وقت سے غروب آفتاب تک وقوف کےلۓ حج تمتّع کی نیت کی . یہاں سےقریب دو بجے رات میں مزدلفہ پہنچے. یہاں بھی سویرے تک مشعرالحرام میں وقوف کی نیت کی گئ . یہاں دورکعت نماز پڑھی اور پھر بقدر اتنی کنکریاں چننے میں مشغول ہوۓ جن سے متواتر تین دنوں تک جمرات میں شیطانوں کومارا جاسکے.


                      ۱۰ /

جنوری : آج عید الاضحی' تھی .صبح آٹھ بجے تک ہم مزدلفہ سے منی' اپنے خیموں میں واپس آگۓ اوراب دس, گیارہ اوربارہ تاریخ تک حاجیوں کو یہیں قیام کرنا ہوتا ہے. اس دوران ادھراندرون خانۂ کعبہ کی صفائ شاہ وقت کی دیکھ ریکھ میں انجام پاتی ہے. باہری غلاف کعبہ کی تبدیلی بھی ای دوران عمل میں آتی ہے . ادھر منی'میں مقیم حاجیوں میں مرد حضرات جاۓ قربانی انجام دیتےاور اپنے سروں کےبال منڈواتےہیں . اب وہ جو احرام لپیٹتےہیں یہاں سےتین دنوں کے بعد خانۂ کعبہ کے طواف کےبعد ہی اتار سکتے ہیں . اس کے علاوہ تینوں دن شیطانوں کوکنکریاں مارنے کا عمل  انجام دیتے ہیں . عورتیں احرام پہننے, بال منڈوانے اور قربانی کے مقام پر جانےسے بری ہیں . وہ چونکہ زیادہ رقیق القلب ہوتی ہیں ے اس لۓ خدانے انھیں اس کام کے لۓ نہیں منتخب کیا . ان ایّام میں وہ یا تو تینوں دن پیدل چل کےایک طویل مسافت طے کرکےرمی جمرات کو جا ئیں ، عبادت کریں یا کافی بلندی پرچڑھ کے جمرات جانےوالی سڑک کے فٹ پاتھ سے وطن والوں کےلیے تبرّکات کے نام پر تحفے خریدیں .


                      میں نے دودن تو اپنی چنی ہوئ کنکریوں سے رمی جمرات کی نیابت کروادی تھی . سناکہ بذات خود اپنے ہاتھوں ایک دن رمی ضروری ہےاس ليے تیسرے دن یعنی ۱۲ تاریخ اس امر ضروری کو انجام دینےکی غرض سے میں تین مردوں اور دو عورتوں کے ساتھ صبح آٹھ بجے جاۓ مقام سے ہمّت کرکےجم غفیر میں چل پڑی . راستہ اچّھا خاصاطویل ہے. آگےجاکر جمرات سےپہلے راستہ دوحصّوں میں منقسم نظر آیا. داہنی طرف کا راستہ تھوڑانیچے اترتا ہوا اور بائیں جانب کا ذرا اوپر اٹھتا ہوا. یہاں آپ کی مر ضی پر منحصر ہے کہ آپ چاہے جو راستہ اختیارکریں وہ دیوار جو بڑےشیطان سے منسوب ہےآگے جاکر دونوں راستوں پر آپ کے کنکریوں کی زد پر ملے گی . داہنے راستے پربائیں جانب اوربائیں راستہ پر دائیں. لیجیۓ بڑھتی ہوئ اہل ایمان؟ کی تعداد کےساتھ  ہم خود ہی شیطان کو بھی قد آور کرتے جارہےہیں .


                      میں نےاوپر والا سیدھا راستہ ہی پکڑا. اچّھی خاصی لمبی چوڑی دیوار ہونے کے باوجود بے پناہ بھیڑ کےسبب نشانے چوک رہے تھےاور سات کی گنتی پوری کرنی مشکل ہورہی تھی . یہاں حاجیوں کا ولولہ قابل دید تھا . ایسا لگ رہا تھا جیسےوہ اپنےکسی جانی دشمن سے جی بھر کے پرانا بدلہ لے رہےہوں اورواقعی شیطان سے بڑھ کر انسان کادشمن ہو بھی کون سکتاہے .


                      بہرکیف اورں کی طرح آج میں نے بھی اپنے ہی ہاتھوں رمی جمرات کے فرائض انجام دیۓ . دوران واپسی ریسٹ روم جانے کی غرض سے ہم نے عام راستہ چھوڑ کر داہنی طرف کا وہ راستہ اپنایا جومسجد خیرکی طرف سے جاتا تھا اورجہاں ہم اپنی یہ حاجت دور کرسکتے تھے. اپنےعارضی جاۓرہائش پر آنےکے بعد ہمارےگھر والوں کی فون کال سے جو وہ گھبرا گھبراکرخیریت جاننےکے لۓکررہے تھےمعلوم ہوا کہ جمرات کےراستےپر جسے ہمنے چھوڑدیا تھا سیکڑوں مسافر بھگدڑ میں کچل کر مارے گۓ تھے . گوحق کی راہ میں مرنے والوں کے لیے شہادت کا درجہ ہے پھربھی انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنوں کوکھونے سے سداڈرتا رہتا ہے.


                    ہاں میں یہ بتانا بھول گئ تھی کہ جمرات کے راستےکے درمیانی حصّوں میں جگہ جگہ کچھ چھوٹے موٹے سامان فروخت کرتےہوۓ ایسے بے شمار افریقی کالے دکھائ ديۓ جن کے ہاتھوں کےپنجےندارد تھے. ان کےآس پاس ان کے بچّے اور انکی حجابی عورتیں ان کےکاموں میں ان کی مدد کررہی تھیں . ان کی اس حالت پر رنج تو ضرورہوا مگرچوری کے لیۓ اس اسلامی سزاکا یہ کھلا فائدہ نظرآیاکہ ہرنماز کے لئۓ اذان کی آواز پردکان دار اپنی دکانوں کوکھلا چھوڑکر نماز ادا کرنے چلےجاتے ہیں مگر کیا مجال کہ کوئ ایک تنکا بھی چھو سکے.


                        ۱۳ /

جنوری : آج ہم سب منی' سےہوٹل جبل نور واپس آگیۓ . ہم سب یہاں سےحج کے باقی ارکان یعنی طواف کعبہ اور سعی کی ادائگی کے لۓ رات بھر حرم میں قیام کےارادے سے شام کوروانہ ہوئے. سنا ہے کہ کعبہ کاطواف مقام ابراہیم کےباہر سے نہ ہو کر اندر کی طرف سےہونا چا ہیۓ لیکن مجھے ہمیشہ ایک جم غفیراوپر کی منزل پرمسلسل سرگرم طواف دکھادیا . خاص طورپرمعذورحجّاج ڈولیوں کے ذریعہ اوپر ہی طواف کر رہےتھے. شاید نیچےسواریوں کے ذریعہ طواف ممنوع تھا. حجر اسود کا بوسہ ہر حاجی کا خواب ہوتاہے مگرپولیس کی حد بندیوں نے اس خواب کو تعبیر سے پرے ڈھکیل دیاتھا . جب میں نےطواف شروع کیاتو ہرچکّرمیں یہ کوشش رہتی تھی کہ جب رکن یمانی سےآگے بڑھوں اور حاجیوں کاریلا بائیں جانب حجر اسود کے بوسہ کےلئے سمٹےتو میں اس وقت خود کو پرے ڈھکیلےجانے سے بچالوں تاکہ مقام ابراہیم کےبائیں طرف سےطواف کی شرط پوری ہو سکے.درمیان طواف ساری افراتفری کا امکا ن اسی مقام سے شروع ہوتا ہے. ساتوں طواف پورے کرنےکے بعد مقام ابراہیم پر دو رکعت نماز کی ادائیگی اللّھ کی پناہ . مرد وعورت ایک دوسرےکے ہاتھوں اورپیروں پر سجدہ کرنےپر مجبور تھے. مقام ابراہیم اور مروہ کےبیچ والی کھلی جگہ میں چاہ زمزم واقع ہے . اب اس میں سے پمپ کے ذریعہ پانی کھینچ کرنلوں کے ذریعہ سپلا ئ کیا جاتا ہے.


              اب سعی کی باری تھی . کوہ صفا و کوہ مروہ جن کا تذ کرہ بچپن سے سنتےآے تھے اور جن کا ذکر قرآن شریف میں بھی بار بارپڑھا تھا اب ان کا وجود ایک چھوٹے سے چھوٹے ٹیلےسے بھی مختصر پایا اور وہ بھی کھلےآسمان کےبجاۓ مسجد کی چھت کے نیچے . جزاک الّلہ . اتنی کتربیونت کے بعد وہ پہاڑتورہ  ہی نہیں گۓ سیمنٹ اورپالش کی وجہ سے ان کی قدرتی چٹّانوں والی ہیئت کا تصوّر بھی ناپید ہوگیا . ان دونوں نام نہاد پہاڑوں کی درمیانی جگہ کبھی جہاں جناب ہاجرہ نے نا ہموارزمین پر  زیر آسمان سعی کی ہوگی آج ہم بالکل ہی غیرفطری ماحول میں ریلوے پلیٹ فارم کی طرح پختہ ریلنگ والی جگہ پر جاگنگ کررہے تھے. ان سب کے علاوہ مجھے اس بات پربھی ہمیشہ تعجّب رہا ہے کہ ایک عورت کے کۓ ہو ۓ عمل سعی کو اسلام میں جزو دین بنایا گیا اوراسے ناقص العقلی کا فتوی' دینے والوں کا دین بھی اس کی پیروی کےبنا ناقص ہے. کافی لوگ وھیل چیرز سے سے سعی کرتے دکھائ دیۓ. سنا ہےکہ باشندگان مکّہ کو حکومت کی طرف سے حج کی اجازت نہیں ہوتی. ہو سکتا ہےان کا محدود کوٹہ ہو ورنہ کیا ان کے لۓ ایمان کا یہ رکن واجبات میں سےنہیں ہے . یہ بھی سنا ہےدوران حج سواریوں کےکرایہ میں اضافہ ہوجاتاہے. معلوم ہواکہ دوران سعی وھیل چیر چلانےوالے حاجیوں سےدو دو سو درم وصول کررہے تھے جبکہ عام دنوں میں عمرہ والوں کو اس سے بہت کم اجرت دینی ہوتی ہے . سعی صفا کی جانب سےشروع ہوتی ہے او ر ساتواں اور آخری چکّر مروہ پر ختم ہوتا ہے. مروہ کی جانب مسجد الحرام کے باہر ایک گلی نظر آرہی تھی . شاید وہ زیورات کابازار ہے . بغیر اندر گۓ ہی گلی کے باہرسے ہی سونےکےچمکتےہوۓ وزنی ہار لٹکےہوۓ دکھائ دے رہےتھے . سعی کے بعد ہم لوگوں نے رات کا باقی حصّہ وہیں گزارا اور بعد نماز صبح ہوٹل واپس لو ٹے.


                      ۱۴

جنوری : آج ہم لوگ یہاں کے چندتاریخی مقامات دیکھنے گۓ. عرفات اور مزدلفہ بس پ

ر بیٹھے بیٹھےدیکھے. مسجد خیر میں جاکر نماز عصراداکی. اس کے بعد جبل رحمت گۓ . یہ ایک دیوار نما سفید ستون ہےجوپہاڑی کی اونچائ پر واقع ہے . کافی زینہ چڑھ کر اوپر پہنچے . دو رکعت نماز پڑھی. اسکے بعد عام طورپر ستون پر لوگ اپنی مرادیں لکھتےہیں. کچھ اور تاریخی مقامات کے بارے میں معلوم کیا گیا تو معلوم ہواکہ یا تو حکومت کی طرف سےمنہدم کراۓ جاچکے ہیں یا ناقابل دید کسمپر سی کی حالت میں ہیں. ہوٹل جانے کے بجاۓ ہم حرم کی طرف گۓ . ٹھیک حرم کے سامنےپہاڑیوں سے نیچے وہ مکان جو حضور کی جاۓپیدائش تھی اب ایک چھوٹی لائبریری میں بدل چکی ہے. اسی کےبالکل قریب ایک شاندار کوٹھی بلند وبالا کوٹھی ہے جوشاہ عبدالعزیز کی بتائ گئ.

                        ۱۵ / جنوری مطابق ۱۵ ذی الحجّہ : آج مجھے اور میری ایک ساتھی کوحج کےسارے آخری ارکان پورے کرکے آدھی رات میں مدینہ منوّرہ کے لیۓ روانہ ہونا تھا. صبح سے ہوٹل والے نے بھی تماشہ شروع کردیا تھا.اسکے پانی کی سپلائ بند کرنے کی وجہ سے دوسرےہوٹل میں جانا پڑا. وہاں جانے کے بعر نہادھوکر پہلےمسجد جاکر احرام پہننا، وہاں سے مسجدالحرام جاکرطواف عمرۂ مفرّدہ، سعی، طواف النسا ، اورپھر طواف الوداع بجالانا میرے لۓ بہت مشکل تھا . حرم پہنچتے پہہنچتےنماز عصر کا وقت آگیا تھا  . نماز کے بعد میں نےمشینی انداز میں کام شروع کیا. پیر کی چھوٹی انگلی کچل کر لہو لہان ہوگئ لیکن آج کم سے کم میں نے اپنےہاتھوں سےرکن یمانی، مقام ابراہیم اور مقام اسم'عیل کو چھونےاور  آنکھوں سےقدم ابراہیم کو دیکھنے کا موقع پالیا . آخرش رات کے گیارہ بجے بیت الّلہ کو الوداع کہہ کے ہوٹل پہنچے تو سب سوچکےتھے. اس وقت بغیر کچھ کھاۓ بے دم ہوکر سو گئ.


                ۱۶ /

جنوری : صبح دس بجےتین اور مسافروں کے ساتھ بس سے مدینہ کے لئے روانہ ہو ئ . ابھی بس میں صرف ۱۵ مسافر تھے. پرائویٹ بس تھی سیٹیں بھرنے کے انتظارمیں ادھر ادھرگھومتی رہی. ہم چند دیسیوں کےعلاوہ اب اس میں آئرلینڈ ، کینڈا ، انڈونیشیا اور جانے کہاں کہاں کے مسافر سوارہوۓ . راہ میں بس دو بارظہر وعصر کی نماز اور ناشتہ پانی کے ليۓ رکی . با لآخرہم چھ بجے شام کوہم مدینہ پہنچے . یہاں ہمارےکاغذات کسی دوسے معلّم کے سپرد کۓ گۓ تھےاور قافلہ انچارج کی غیرموجودگی میں کوئ دوسرے صاحب ان کے فرائض انجام دےرہے تھے اس ٹرانسفر آف پاور کی گڑبڑی میں کاغذی کاروائ میں گھنٹوں لگ گۓ. آخر کسی نہ کسی طرح میں اور مسز رضوی دونوں اپنے انچارج کی معیت میں حرم کے قریب ہی ایک بنگلہ دیسی ہوٹل میں ٹھہرنے کےلۓ پہنچے . رابطے کے لیۓ اپنا فون نمبر دےکر وہ صاحب واپس ہوگۓ. ہوٹل بالکل خالی تھا. ہم لوگوں نے ایک تین بڈ روم والا کمرہ ساتھ شیر کیا. یہ کمرہ  کافی کشادہ تھااور بڈ بھی صاف ستھرے تھے. ہوٹل سے باہر داہنی طرف گلیوں میں کافی رسٹورنٹ تھے. سامنے داہنی جانب قریب ہی خرما تھوک بازار تھا . حرم سامنے ہی بمشکل دو فرلانگ دور ہوگا.


                  ۱۷ / جنوری : کل رات چونکہ ہم بہت دیر میں سو پاۓ تھے اس لیۓ سویرے نو بجے اٹھ پاۓ . ضروریات سے فارغ ہوکر قریب دس بجےحرم شریف پہنچے. زیارت روضۂ رسول خواہش دیرینہ پوری ہورہی تھی. اب جو تصویروں میں دیکھتے یا دوسروں کی زبانی سنتے آۓ تھے وہ سب بنفس نفیس خود دیکھنے کا موقع نصیب ہو رہا تھا .        بچپن سے سن رکّھا تھا کہ اہلبیت اور ازدواج رسول کے حجرے مسجد رسول کے احاطہ میں واقع ہیں . حجرۂ جناب سیّدہ کا دروازہ حرم میں ہی کھلتا ہے ان کے استعمال میں آنے والےسامان بطور تبرّکات براۓ زیارت رکّھےہوۓ ہیں . ہوٹل سے حرم کا راستہ چہل قدمی کے ذریعہ طے کیا . حرم کے چاروں طرف کا احاطہ پختہ اور بہت ہی وسیع و عریض ہے. احاطے میں قدم رکھنے سے پہلے اسی سڑک پر تھوڑے بائیں جانب مسجدعلی  ہےجس کے گیٹ پر ایک زبردست قفل پڑا ہوا تھا جسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ شائد مدّتوں سے کھولا نہیں گیا . جدھر سے ہم مسجد کے احاطہ داخل ہورہے تھے وہ اس کے سائڈ کا حصّہ ہے . سامنے پختہ پلیٹ فارم پرپہنچ کرہم پہلے داہنی سمت چلے .پھر بائیں طرف مڑ کر سامنے چل پڑے تو داہنی طرف جنّت البقیع کے قبرستان کا مین گیٹ اور بائیں سمت مسجد رسول کی عمارت ہے مگر ادھر داخلے کے لیۓ کوئ دروازہ نہیں ہے . آگےتھوڑا احاطہ  اور کشادہ ہوگیا ہے . اس کشادہ صحن سےگنبد خضرااوردونوں صحابیوں کے گنبدصاف نظر آرہے تھے بائیں طرف باب جبریل ہے جس کے سامنے ایک دیوارکھڑی کرکے اسے مکمّل بند کردیا گیا تھا . سامنےباب النساء دکھائ دےرہا تھاجو اب تک حرم میں عورتوں کے داخلے کے لیۓ مخصوص تھا مگراب وہ مردوں کے داخلےکےلیۓ مخصوص ہو گیاتھا .  ہم جب وہاں پہنچے تو ہمیں وہاں سے بھیڑ بکریوں کی طرح بالکل پیچھےباب ابو طالب اور باب علی کی طرف ہنکادیا گیا .ہم باب ابوطالب سے داخل ہوۓ. پہلے لیڈی پولیس نے ہمارے پرس کی تللا شی لی. اندر موبائل لے جانے کی اجازت نہیں ہے. جوتوں کی ریکس پر جوتے رکّھے . بیحد خوبصورت اور شاندار ستون و چھت دیکھ کر دل عش عش کر اٹھا . دل کے کسی گوشہ میں اس احساس نے ضرور سر اٹھایا کہ کہاں ہیں وہ تسبیح و تہلیل کی آوازیں اور کہاں ہے وہ روحانی ماحول جس کی تلاش میں ہم یہاں تک آۓ تھے. اس وسیع  وعریض جگہ میں جہاں چاہو بیٹھ کر تلاوت کرلو . بھیڑ کا مسئلہ نماز پنجگانہ کے وقت ہوتا ہے. ممبراور روضۂ کے زیارت کی اجازت ہروقت ممکن نہیں . فرش کے ستون پر رکّھی ہوئ قرآن شریف اٹھا کر نمازظہر تک کےلئے تلاوت میں مصروف ہوگۓ .  یہاں قرآن کی عبارت میں زیر زبر کچھ نہیں ہوتا . ہم بر صغیر کے مسلما ن کتاب ال'ہی کا جس طرح احترام کرتے ہیں مجھے یہاں ویسا نہیں نظر آیا  . ہم یہاں اسےجہاں رکھنا ہوا سب سے اسے بلند مقام دیتے ہیں .


                            بوقت اذان ظہربے پناہ مجمع سےجگہ بھر گئ.مسحور کن صداۓ اذان نے ایک ناقابل بیان سماں باندھ دیا تھا. نماز جماعت عورت ، مرد، شیعہ ، سنّی ، بوہرہ، خوجہ ،حنفی. حنبلی، شافعی اور مالکی سب نےایک ہی جیسے ادا کی . نماز کے بعد میں اور مسز رضوی حرم سے باہرآگئے .سامنے جنّت البقیع کا قبرستان نظر آرہا تھا اس کےقریب سے ہی ہوٹل واپس ہونا تھا لیکن سن رکّھا تھا کہ وہاں عورتوں کو جانے کی اجازت نہیں ہے . چہار دیواری سے گھرا ہوا وہ قبرستان جہاں جگرگوشۂ رسول حضرت فاطمہ زہرا اور دیگر خاندان  رسول کے مزارات تھےاور اب جو منہدم کۓ جا چکے ہیں مقفّل رہتا ہے. کسی خاص وقت یا کسی جنازہ کی تدفین کے لۓ ہی کھلتا ہے .میری ساتھی نےبتایا کہ ایرانیوں کا قافلہ گیارہ بجے رات میں خاندان رسول کے نشانات قبور کی زیارت کے لۓ آتا ہے تو یہاں کا گیٹ کھول دیا جاتا ہے .


                      دوسرے دن ۱۷ جنوری کو آج مسجد رسول میں یہ عہد کرکےگئ تھی کہ  مجھےروضۂ رسول کی زیارت آور ریاض الجنّہ میں روضۂ رسول کے کے قریب ایک مخصوص ستون کے سامنے نمازضرورپڑھنی ہے. کسی نے بتایا کہ نماز عصر کے بعدکچھ دیر کے لئۓ ہمیں یہ موقع دیا جاۓ گا . نماز کے بعد انتظار ہی میں تھی کہ دیکھا کہ آگے داہنی طرف ایک قنات سے گھرے ہوۓ راستے کی طرف عورتیں بھاگ رہی ہیں . میں مصلّے سے اٹھ کر اسی سمت دوڑ پڑی .بھیڑ میں آٹو میٹک طریقہ سے دھکّے کھاتے کھاتے اچانک بائیں جانب روضۂ رسول کی جالیاں نظرنواز ہوئیں . روضہ کی جالیوں تک ہاتھوں کا پہنچ پانا تو رکاوٹ کی وجہ سے ناممکن تھالیکن مطلوبہ ستون کے پاس نماز پڑھنے سےنہ پیچھے کا ریلا اور نہ لیڈی پولیس کی دست درازی روک سکی . حالانکہ اللّہ ہی بہتر جانتا ہےکہ کتنے ارکان اور الفاظ صحیح ادا ہوۓ ہونگے.


                      ۱۸ / جنوری : آج بھی ہمارا قیام مدینہ ہی میں رہا. دوپہر میں وہ صاحب جنکو ہماری یہاں کی ذمّہ داری سونپی گئ تھی ایک گائڈ کے ساتھ ہم دونوں کو مسمارہونے سے بچے ہوۓ تاریخی مقامات کی زیارت کے لۓ لے  جا ۓگۓ جن میں سے خاص مسجدقبی'، مسجد قبلطین اور احد کی پہاڑی تھی.منہدم شدہ کھنڈرات میں مسجد جمعہ، ماریہ قبطیہ کا گھر، مسجد بی بی فاطمہ وغیرہ دیکھے. اس کے علاوہ حضرت سلمان فارسی کا وہ باغیچہ بھی دیکھا جہاں اب اسکول بن گیا ہے ہمارے گائڈ نے بتایا کہ پرانی یادگار عمارتیں اب زیا دہ تر مسمار کرکے ہوٹلوں میں تبدیل کی جا رہی ہیں . ،


                  ۱۹ / جنوری : آج دوپہر ہی میں مدینۂ رسول کو الوداع کہہ کے بذریعۂ بس روانہ ہوۓ  . ہمارا جہاز وہاں سےآدھی رات کے بعد روانہ ہونا تھا . اپنے ہاتھ میں ٹکٹ اورپاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے میں بہت پریشان تھی . ہمارےقافلہ کی انچارج جن کو ہمیں جہاز پر سوار کرانا وہ گیٹ پر آئیں بھی لیکن ایسی غائب ہو ئیں کہ اس وقت واپس لوٹیں جب میرےنام کا اعلان ہونے لگا تھا. صفا ومروہ کی سعی کےبعد گیٹ سے جہاز تک کی یہ سعی آج بھی ذہن میں تازہ ہے.


رضیہ کاظمی
۱۳/اکتوبر ۲۰۱۳
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 1186