donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Aap Beeti
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Razia Kazmi
Title :
   Taxi Driver


 

ٹیکسی ڈرائیور

(ایک واقعہ)


رضیہ کاظمی

  ٹیکسی ڈرائیوروں کو عام طور پر اچّھی رایوں سے نہیں نوازا جاتا . جاسوسی ناولوں اور اکثر فلموں میں تو انھیں مجرموں کے ساتھ جرائم میں برابر کا شریک نہیں تو کم از کم کچھ نہ کچھ ملوث تو ضرور دکھایا جاتا ہے. بعض اوقات ہمیں سنی سنائ باتوں پر اتنا یقین کامل ہوجاتاہے کہ ہم انھیں ہمیشہ مشکوک نظروں سےدیکھتے ہیں . میٹر میں گھٹابڑھی کرنے اور لمبااورگھماؤ دار راستہ اختیار کرنے کا مجرم تو ہم انھیں مان کر چلتے ہی ہیں. زیادہ محتاط مسافراکثر ٹیکسی نمبر بھی نوٹ کرلیتے ہیں اور کبھی کبھی ان سے نام وپتہ بھی باتوں باتوں میں کسی انہونی کے خوف سے پوچھ کے رکھتے ہیں .

    امریکن امبیسی سےواپس اپنےجاۓ قیام کھڑکی اکسٹنشن پہنچ کرہم دیرتک سوچتے رہے کہ کیا کیا جاۓ کیوں کہ اپنا پاس پورٹ واپس لینے کےانتظار میں چار دنوں تک دہلی میں بے کارپڑےرہنابھی کافی ٹیڑھی کھیر تھا. یکایک خیال آیاکہ کیوں نہ درمیان کے تین دن میرٹھ میں اپنے قریبی رشتہ داروں میں گزارلیۓ جائیں. تھوڑی دیر سستانے کے بعد گھرسے باہر نکلے تو بس اسٹینڈ تک جانے کے لیۓ قریبی ٹیکسی اسٹینڈ پرکوئی ٹیکسی نہ دکھائی دی . آگے بڑھکر مین روڈ پر ایک خالی ٹیکسی جیسے نظر آئ ہم جھٹ اس پر سوار ہوگۓ.ابھی ہم بس اڈے تک نہیں پہنچے تھے کہ روڈ پر ہی میرٹھ جانےوالی ایک چارٹرڈ بس نظر آئ. ہاتھ کا اشارہ پاتے ہی وہ فورا" رک بھی گئ. پھر کیا تھا پہلےمیرا ہونے والا داماد اورپھرمیں تقریبا" کود سے پڑے. لاکھ ٹریفک کی بد نظمی ہو لیکن بڑے شہروں میں اس طرح بیچ راستے میں کوئ سواری دیر تک روکے رہنا آسان نہیں ہوتا. ہمارے اترتے ہی ٹیکسی یہ جا وہ جا. اب دیکھتے ہیاٹیچی تو ہم دونوں میں سے کسی نے اتاری ہی نہیں. ادھر بس رکنے سےٹریفک جام ہونے لگا.کتنی صلواتیں سننے کے بعد بمشکل تمام بس کنڈکٹر سے پیچھاچھڑایا. جلد بازی میں ہم میں سے کسی نےگاڑی کا نمبر بھی نہیں نوٹ کیا تھا. لاچاری میں کچھ دیر کھڑےرہے. ہینڈ بیگ کی تلاشی لنےپر اس میں سےکچھ نقدی تو ضرور برآمدہوئ جس سے ہم صرف جاۓمقام تک پہنچ سکتے تھے. پاس کے پولیس اسٹیشن اپنی تسلّی کے لیۓگۓلیکن نمبر نہ ہونے کی وجہ سے رپورٹ نہیں لکھائ جاسکی. اسٹیشن انچارج نےیہ کہتے ہوۓ ہمارا پتہ ضرورنوٹ کرلیا کہ آپ کی اٹیچی اسی صورت میں بازیافت ہو سکتی ہےجب ڈرائیوراسےیہاں جمع کراجاۓلیکن ان پیشہ وروں سے اس ایمانداری کی امّید نا ممکن ہے.ناچارہم اپنے ٹھہرنے کی جگہ واپس گۓ مگراب صورت حال یہ تھی کہ روپیۓ پیسے سے لےکرکپڑےتک مسافرت کی ساری جمع پونجی اسی اٹیچی میں تھی.سب سے بڑی پریشانی جو تھی وہ یہ کہ میرےویزا سےمتعلّق سارےآصل کاغذات بھی اسی میں تھے.

        رات ناقابل بیان الجھنوں میں جاگ کر گزری . فون کی ہر گھنٹی پر بار بار پولیس اسٹیشن کے فون کا گمان ہوتا پھر خود ہی اپنے اندازہ کی غلطی کا احساس ہوتاکہ اس پیشہ والوں سے ایسی توقع بھول جاؤ. صبح ہونے پرقریبی ٹیکسی اسٹینڈ کےمستقل پھیرےشروع ہوگۓ.قریب تین بجےہم ایک دوسرے کو پانے میں کامیاب ہوگۓ. اس نےبتایا کہ وہ بھی رات بھرسو نہیں سکاتھا. بقول اسکےدیر رات گۓ تک تو اس نے ہمیں وہیں تلاش کیا جہاں سے پک کیا تھا.ناکام ہونےپر اس نےاٹیچی کھولی کہ شاید اسمیں کہیں ایڈرس برآمد ہوجاۓ.کاغذات میں صرف الہ آباد کا پتہ ملا. ایمگریشن سے متعلّق کاغذات دیکھ کر اس نے ہمارے تلاش کی مہم اور تیز کردی تھی اورآج سویرےہماری گلی کی ٹیکسی اسٹینڈ کے چکّر بھی لگانے شروع کر دۓ تھے. اسنے یہ بھی بتایا کہ آج اگر ہم اسے نہ مل پاتے تووہ آج رات کی گاڑی سےالہ آبادجاکر میرے گھر  میری اٹیچی پہنچاتا.اس کی ان کوششوں کے لیۓ اس کے دوست اس کا مذاق اڑا رہے تھے.

                وہ اپنےساتھ میراسامان نہیں لےآیا تھا.وہ ہماری اٹیچی ان لوگوں کی موجودگی می سپرد کرنےاپنے گھر لے گیا جن کےسامنےاس نے اسے کھولا تھا. گھر کیا تھا بس ایک ٹوٹی پھوٹی کوٹھری تھی جس میں وہ ایک اور ساتھی کے سا تھ رہتا تھا. میرا سامان اسنے مالک مکان کے پاس رکھوایا تھا. اس نےمجھے ایک ایک سامان چک کروایا . پانچ ہزار کے نوٹ اسی طرح بٹوے میں رکھّے ملے. میرے پاس اس کے شکریۓ کے لیۓالفاظ نہیں تھے. اب میں نےاپنے محسن کی طرف غور سےدیکھا . کوئ انّیس بیس برس کا سن، بے ریا اور معصوم چہرہ. میں نے سو چا کہ واقعی ہمارے چہرےہمارےاعمال اور کردار کا آئینہ ہوتے ہیں.

      اس نے اپنا نام اسد بتایا.غازی آباد کا رہنے والا تھا.ابھی انٹر ہی میں تھا کہ والد کا انتقال ہوگیا تھا. دوچھوٹی بہنوں اور ماں کی ذمّہ داریاں نبھانے کے ليۓ اسے یہ کام اپنانا پڑا. میں نے کچھ رقم اسے بطور انعام دینی چاہی تو اسے لینے کے لیۓ اسے بہت مشکل سےتیار کرنا پڑا. چلتے چلتے میں نے اس سےیہ ضرور پوچھاکہ اسے پیسوں کی تنگی بھی رہتی ہوتی ہوگی وہ نقد لیکر باقی سامان تلف کردیتا. اس نے کہا بالکل یہی مشورہ دیا تھا لیکن میڈم خدا کو بھی تومونھ دکھانا ہے.میرے ماں باپ نےہم بھائ بہنوں کو ہمیشہ یہی سکھایا کہ بغیر محنت کی  کمائ حرام ہے.
      آج بھی جب کبھی میں اس واقعہ کو یاد کرتی ہوں اس ٹیکسی ڈرائیور کے والدین کی عظمت و بلندی کے آگے خیال ہی میں سہی سر جھک جاتا ہے.


    رضیہ کاظمی
   نیو جرسی

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 899