donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Adabi Khabren
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Sattar
Title :
   Bihar Me Jashne Urdu Ki Dhoom



 بہار میں جشنِ اردو کی دھوم


عبد الستار ،مظفر پور

 

 حکومت بہار،محکمہ کابینہ سکریٹیٹ ، اردو ڈائرکٹوریٹ کے زیر اہتمام ،پٹنہ میں  ۲۵  ۱ور  ۲۶ مارچ کو ’  جشنِ  اردو ‘ کا انعقاد کیا گیا۔اس تقریب سعید میں نامور ہستیوں نے حصہ لیا اور اپنے نیک مشوروں سے کامیاب بنایا۔شاعروں نے خوب واہ واہ سمیٹے۔صوبے کے کونے کونے سے محبانِ اردو کی شرکت اس بات کی غماز ہے کہ ہم اردو سے کتنی محبت کرتے ہیں ۔   عزت مآب وزیر اعلیٰ بہار،نیتیش کمار نے اپنے خطبے میں بہت کچھ کرنے کا یقین بھی دلایا اور اردو کو جائز حق دلانے کا بھی بھر پور وعدہ کیا۔اردو داں طبقہ کو وزیر اعلیٰ کے عزم پر پورا بھروسہ ہے کہ وہ عنقریب ہی اپنے دفتر سے ضروری احکامات جلد ہی جاری کر دینگے۔لیکن کیا ہم آج سے ہی خوابِ خرگوش میں محو ہو جائینگے ؟ یا ہمیں بھی کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اردو زبان کو بہار میں  1980  میںدوسری سرکاری زبان بنائی گئی۔چند مترجمین اور اردو ٹائپسٹ کی بحالی عمل میں آئی اور ہم سو گئے۔اِس وقت  80 فی صد سے زائد اردو مترجمین اور ٹائپسٹ سبکدوش ہو چکے ہیں۔باقی جلد ہی سبکدوش ہوجائیں گے۔شکر ہے کہ پچھلے سال اردو  مترجمین کے عہدوں پر تقرری کا معاملہ شروع کیا جاچکا ہے جس میں ابھی تک صرف تحریری امتحان ہی ہوئے ہیں باقی کئی مراحل کو گذرتے ہوئے کہیں یہ سال ہی نہ ختم ہو جائے۔ان ۳۵ سالوں میں کبھی ہم نے یہ جاننے کی کوشش بھی نہیں کی کہ  ’’  کس  حال  میں  ہیں  یارانِ  وطن   ‘‘۔ یہ بھی معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی ان سے کیا کام لیا جا رہا ہے؟ یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ انہیں کون کون سی اور کس کس طرح کی اذیتیں دی جا رہی ہیں۔ یہاں تک کہ یہ بھی نہیں غور کیا گیا کہ دوسری سرکاری زبان اردو کو آئین کی رو سے کیا کیا حقوق حاصل ہیں۔در اصل ہم صرف اسی بات سے بیحد خوش ہو گئے کہ ہماری زبان اب سرکار کی دوسری زبان بن گئی ہے۔مگر یہ دیکھنے کے لئے کبھی نہیں تگ و دو کیا کہ ہم اور کیا حاصل کر سکتے ہیں۔دفتروں کے نام کی تختیوں،افسروں اور عہدہ داروں کے ناموں کی تختیوں کو ہی دیکھنے کہ کہاں کہاں سے یہ غائب ہو گئی ہیں،دوبارہ نصب کروانے میں ہی اپنی توانائی صرف کرتے رہ گئے۔میں اس کام کو کسی ایک سے منسوب کرنے کی  کوشش نہیں کر رہا ہوں بلکہ یہ کام  میرا تھا،انکا تھا اور ہم سب کا ہے۔اگر کوئی یہ سوچے کہ بڑی بڑی تنظیمیں ہیں یہ ان کا کام ہے تو ہو گیا مقصد کا حصول ؟ چاہئے یہ کہ ہر ایک شخص جسے جہاں کچھ دکھائی دے سوجھائی دے وہ فوراً اپنی سوچ اور سمجھ کو آگے بڑھائے تاکہ وہ پھر انہیں اور آگے بڑھائے۔اس طرح یہ بڑھتے بڑھتے اتنا آگے بڑھ جائے کہ اس کی تکمیل ہو جائے۔اخباروں میں اپنی تقریروں میں ہمارے دانشوران اور مفکران بیان کرتے ہیں اگر ا ن باتوں مشوروں کو آگے بڑھایا جائے تو یقیناً اس پر عمل ممکن ہو پائے گا۔ کچھ لوگوں نے کسی ایک شعبہ میں قدم بڑھا رکھا ہے اور انہیں قدم قدم پر کامیابیاں مل رہی ہیں۔ اسی طرح اگر اردو کے فروغ کے لئے بھی کچھ ہی لوگ سچ مچ نکل پڑیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ ہم اپنی زبان کو اس اونچائی پر پہنچا  لیں گے کہ دنیا عش عش کرے۔بیرونی ملک میں بھی اردو کے تعلق سے کام ہو رہا ہے لیکن وہ کام اسے جلا بخشنے تک ہی محدود ہے۔ضرورت ہے ہمیں نئے طالب علم پیدا کرنے کی۔آج سے شروع کرنے والا طالب علم ہمیں پچیس سالوں کے بعد ایک تناور درخت کے مثل بن کر کھڑا ملے گا۔لیکن اگر آج سے شروع نہیں کیا گیا تو اگلے پچیس سالوں میں جب منور رانا، وسیم بریلوی،ندا فاضلی، طاہر فراز ، انا دہلوی ، قاسم خورشید ، انور جلال پوری ، شبینہ ادیب ، خورشید اکبر، سلطان اختر ،شنکر کیموری وغیرہ جیسے نامور شعراء ہمارے درمیان نہ ہونگے تو ہم کسے بلائینگے اور کسے سنیں گے۔جن عبقری شخصیتوں کو ہم کھو چکے ہیں ان کے جیسا تو نہیں ان کی جھلک بھی تو کسی میں دکھائی دے۔کلیم عاجزؔ کی شاعری میں میرؔ کی جھلک ملتی ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم میر ؔ کے گذر جانے کے بعد ان سے خالی نہیں رہے۔اس لئے ہمارا مسئلہ صرف اس وقت کا نہیں ہے بلکہ مستقبل قریب اور مستقبل  ترین کا بھی ہے۔آج ہم اردو تعلیم کی کوئی اہمیت ہی نہیں سمجھ پا رہے ہیں کیونکہ نہ یہ ہمیں کسی نوکری حاصل کرنے میں ضروری ہے نہ کسی وجہ سے اس کی لا علمی سے کسی کو کوئی نقصان ہی ہوا ہے تو کیوں اس پر اتنی توجہ مرکوز کی جائے۔شاید وہ صحیح سوچتے ہوں۔لیکن میں ایک سوال ان جیسے ہزاروں بزرگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب وہ اپنی اس عمر کو پہنچ گئے ہیں جب وہ اپنے اونچے عہدوں سے رِٹائر ہوتے ہیں اور انہیں جب اپنی عاقبت کا خیال آتا ہے تو انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ کاش میں بھی اردو پڑھنا جانتا۔کچھ لوگ مجھے اس کاجواب یوں دے سکتے ہیں کہ اب تو نماز اور دوسرے دینی مسائل کی کتابیں ہندی میںبھی دستیاب ہیں۔درست ہے۔مگر نماز صحیح سے پڑھنے کی بھی تو ضرورت ہے۔


ای ٹی وی پر نشر ہونے والے ایک بہت ہی مقبول پروگرام کو ناظرین بہت بڑی تعداد میں دیکھتے ہیں جس کی اینکر ہیں رینو سنگھ۔اس پروگرام کا اب تک پانچ سو سے زیادہ ایپی سوڈ ٹیلی کاسٹ کیا جا چکا ہے۔گرچہ یہ پروگرام پرانی ، بلیک اور وھا ئٹ فلموں کے مقبول اور سدا بہار نغموں کو دکھانے اور سنانے کے لئے ہوتا ہے مگر اس پروگرام کا حسن اس پروگرام میں نغموں کے ساتھ ساتھ احمد فرازؔ ،پروینؔ شاکر،غالبؔ و میرؔ اور دیگر مشہور شعر ا ء کرام کے اشعار کے ساتھ ساتھ انداز ِ ادا خاص ہیں۔اگر انہیں اس پروگرام سے الگ کر دئے جائیں تو شاید اس کے پسند کرنے والوں کی تعداد صفر رہ جائے۔کیا انداز ہے اشعار پیش کرنے کا۔ ۹۹ فی صد اردو کے الفاظ با لکل صحیح طریقے سے ادا ہوتے ہیں۔جبکہ آج کے دور میں اردو داں بھی اتنی سلیس اور ششتہ اردو نہیں بول پاتے ہیں۔ اس کی واحد وجہ صرف اردو زبان کی شیرینی ہے جو پروگرام کا حصہ ہے۔جو ایک بار اس پروگرام کو دیکھ لیتا ہے وہ اسے دیکھنا کبھی فراموش نہیں کر پاتا ہے۔

مگر جب کہیں یہ الفاظ آپ کی سماعت سے ٹکراتے ہیں  ’  مکدًر (مقدًر) ،  ’  جینت  (زینت)‘  ،رمجان  (رمضان)، گپھار (غفّار)  تو کتنی قباحت ہوتی ہوگی مگر انہیں کیا جو امتحان   کو ’  انتہان  ‘   بولتے ہیں یا ’  اِز  ‘  کو  ’  اِج  ‘   اور  ’  واز  ‘  کو  ’واج ‘ کہتے ہیں۔ ابھی  اور کچھ دنوں تک ان کا فرق بتانے والے موجود ہیں لیکن عنقریب ہی یہ فرق پوری طرح سے مٹ جانے والا ہے۔اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

یہ بولنے والوں کی غلطیوں کی طرف اشارہ نہیں کرتا ہے بلکہ یہ اردو نہ جاننے اور ہندی تحریر کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

ایک اور مزے دار بات کا ذکر کرنا یہاں ناگزیر معلوم ہورہا ہے ہوا یوں ایک ریڈیو پر نغمہ سنایا جا رہا تھا۔نغمہ کے الفاظ بیحد عمدہ تھے اور شاعر نے اچھے قافیہ اور ردیف کا استعمال کر کے اس نغمہ کو بہت خوبصورت بنا دیا تھا۔لیکن گلوکارہ کی علمی لیاقت و بصیرت کی  وجہ سے اس نے شاید اپنے اشعار ہندی میں تحریر کر دئے تھے جس کی وجہ سے  دُزدیدہ ، دُزدیدہ ۔ لغزیدہ ، لغزیدہ ۔  لرزیدہ  ، لرزیدہ  بن گئے تھے   دُجدیدہ ، دُجدیدہ ۔ لگجیدہ ، لگجیدہ ۔ لرجیدہ ، لرجیدہ ۔ لطف دوبالہ ہو گیا یا  لاحول پڑھنے لگے۔

حالیہ جشن ِ اردو کی تقریبات کو اگر ہر سال منعقد کئے جائیں اور نیک مشوروں کا نفاذ کیا جائے تواردو کے حق میں بہتر کام کیا جا سکتا ہے۔ لیکن سنا ہے کہ دو کروڑ سے زیادہ خرچ کرنے کے بعد بھی شری کرشن میموریل ہال میں افرا تفری کا ماحول رہا۔ مہمانوں کے سامنے جو نام کی تختی لگائی گئی تھی وہ صرف ہندی میں تحریر تھی جبکہ اسے دو زبانوں میں بھی طبع کرائی جا سکتی تھی۔پروگرام کچھ ہے بینر کسی دوسرے پروگرام کا نصب کیا ہوا ہے۔یہ اجلاس کے دونوں دن پیش آیا۔عزت مآب وزیر اعلیٰ بہار نتیش کمار کی دس سالہ دور حکومت میں شاید پہلی بار اس میقات کے آخری چند ماہ میں یہ جشن اردو کا انعقاد ہوا ہے مگر وہ بھی بد نظمی کا شکار ہونے سے نہ بچ سکا۔پھر بھی میں ایسی تقریبات اور جشن کوبا لکل ہی کامیاب مانتا ہوں ۔

    میں قارئین کرام کو اپنے ایک ایسے مشاہدہ سے روشناس کرانا چاہتا ہوں جن سے ان کا بھی سامنا ہوا ہوگا لیکن وہ اپنے تائثرات کو دل میں ہی دبا کر بیٹھ گئے ہونگے۔ میرے ایک بہت ہی قریبی محترم دوست نے چند روز قبل ہی مجھ سے کہا تھا کہ جانتے ہیں جناب ’  آج کل کے نامور شعراء کرام جنکے اشعار اخباروں میں شائع اور ریڈیو پر نشر ہوتے رہتے ہیں وہ اپنی تحریر ہندی رسم الخط میں تحریر کرتے ہیں۔ ‘  مجھے انکے اس انکشاف پر تعجب ضرور ہوا تھا مگر غلط نہیں معلوم ہوا تھا۔راشٹریہ سہار امیں جشنِ اقبال کے متعلق ایک خبر شائع ہوئی تھی ۔

پچھلے سال نومبر میں ’جشن اقبال ‘  شاعر مشرق علامہ اقبال کی عظیم شخصیت پر ان کے پیغام سے نئی نسل کو واقف کرانے کے لئے کا انعقاد کیا گیا تھا۔ مہمان اعزازی کے طور پر سابق وائس چانسلر پدم شری شرف عالم،این آئی او ایس کے ریجنل ڈائریکٹر سنجے سنہا،بہار اردو اکاڈمی کے سکریٹری امتیاز احمد کریمی نے شرکت کی تھی۔یہ بات سب کو معلوم ہے کہ علامہ اقبال اردو کے ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں لیکن جشن اقبال کا انعقاد کرنے والی آرگنائزیشن نے تقریب کے دعوت نامے ہندی اور انگریزی میں شائع کرکے اقبال کی روح اور اپنی مادری زبان اردو سے انتہائی اور گھنائونا مذاق کیا ۔ مجھے یقین ہے کہ جب یہ کارڈ چھپوایا گیا ہوگا تو کئی مراحل سے گذرا ہوگا۔کیا اس جشن کے انعقاد تک کسی نے اس کا نوٹِس نہیں لیا۔بعدہْ جب یہ کارڈ ہمارے ان مایہ ناز ہستیوں کے ہاتھوں میں آئے ہوں گے تب بھی اس کارڈ کی اردو پرنٹ کی کمی کا خیال نہیں آیا۔

پچھلے دنوں میں ایک میلاد کی محفل میں شریک تھا وہاں جو دیکھا اس کا حال بھی کم ہوش ربا نہیں تھا۔مقررین حضرات میں کئی لوگ تھے اور چند چھوٹے چھوٹے بچے ، جو عام طور پر ایسی پُر نور محفلوں میں نعت شریف اور قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے لئے مدعو رہتے ہیں،جلوہ افروز تھے۔ قرائت کے بعد ان بچوں نے بہت ہی خوبصورت  اور عمدہ نعتوں کو پیش کر کے دل جیت لیا۔سامعین کرام بھی جھوم جھوم کر سبحان اللہ کی صدا بلند کر رہے تھے۔میں سامعین کی صفوں میں سب سے آگے بیٹھا تھا اسلئے ان مقررین و نعت خواں بچوں سے بے حد قریب تھااس لئے جن پرزوں پر یہ بچے نعت شریف لکھے ہوئے تھے ان کی تحریروں کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔میں یہ دیکھ کر نہ صرف ششدر و حیران ہو گیا کہ یہ سارے بچے نعت شریف ہندی میں تحریر کئے ہوئے تھے اسی وجہ کر ’ نظر‘ کو نجر اور ’میخانہ ‘  کو  میکھانا ،  گنبدِ خضریٰ   کو  گنبد ِ کھِجرا   پڑھے جارہے تھے جس کی جہ سے خوبصورت کلام بے کیف ہو کر رہ گیا تھا۔سامعین کی کون کہے پائے کے مقررین  و خطیب حضرات بھی سبحان اللہ ، سبحان اللہ کی صدا بلند کئے جا رہے تھے۔

اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ شاعروں کی طرح یہ بچے بھی اب اردو سے نا بلد ہو گئے ہیں۔جب کچھ دنوں میں پرانی نسل ابدی نیند سو جائیں گی اور یہ بچے کافی بڑے ہوں گے توآنے والی نسلیںاردو کی تلاش کرنے کے لئے عجائب خانوں اور کتب خانوں میں جایا کریں گی۔اگر آج ہی اس بات پر پوری توجہ نہیں دی گئی تو ہماری داستان بھی نہ ہوگی ’داستانوں میں ‘۔

چند اشخاص جو اردو کو زندہ کرنے و رکھنے کے لئے عمل پیہم کر رہے ہیں وہ تب ہی کامیاب ہو پائیں گے جب سارے کے سار ے مل کر اس کی کوشش کریں۔کئی روزناموں ، ہفتہ وار ، پندرہ روزہ ،  اور ماہناموں کو اپنی نظروں کے سامنے دم توڑتے دیکھا ہے جو قصہء پارینہ بن چکے ہیں۔اس وقت کئی سہ ماہی رسالے اردو داں طبقوں میں نہ صرف مقبول ہے بلکہ ذوق کے ساتھ پڑھا بھی جا رہا ہے لیکن یہ رسالے جیب خاص سے کب تک چھپتے رہیں گے کیونکہ اس کی قیمتیں بھی پچاس روپئے ہے۔دوسری طرف اس کے قاری بہت ہی مختصر ہیں۔اس لئے میرا یہ اندازہ کہ کہیں  ’  اردو  ‘ کچھ ہی دنوں میں پوری طرح ختم ہی نہ ہو جائے۔محبان اردو کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ با اثر لوگوں کی توجہ اردو کے جائز حقوق کی طرف ضرور با الضرور مبذول کراتے رہیں ورنہ میرے خدشات کو یقین کامل حاصل ہو جائے گا۔اردو کو زندہ رکھنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ درجہ او ًل سے ہی طلبا کو اردو اچھی طرح سکھائی جائے۔ان کی زبان کو سلیس اور مکمل طور پر سکھائی جائے۔وقتاً فوقتاً طلبا کی نگرانی کی جائے کہ وہ کس حد تک کامیابی کے ساتھ اردو زبان سیکھ رہے ہیں۔امتحانوں میں طلبا کے ذریعہ حاصل کردہ کم نمبروں پر استاد پر سختی برتی جائے تاکہ وہ پوری مستعدی کے ساتھ طلبا کو اس زبان پر عبور حاصل کروا دیں۔دوسری طرف حکومت اس سبجکٹ کو اختیاری نہیں بلکہ لازمی قرار کر دے اور اس پرچہ میں حاصل کردہ نمبروں پر انکے ریزلٹ کا انحصار ہو۔دوسری طرف نوکریوں میں بھی ایسے طلبا کے ساتھ تفریق نہ کی جائے جنہوں نے اپنا کوئی پرچہ اردو لیکر امتحان پاس کیا ہوتب ہی اردو کے جائز حقوق کی حصولیابی ممکن ہے۔     


 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 736